Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 28
یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ١ۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا
يُرِيْدُ
: چاہتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
اَنْ
: کہ
يُّخَفِّفَ
: ہلکا کردے
عَنْكُمْ
: تم سے
وَخُلِقَ
: اور پیدا کیا گیا
الْاِنْسَانُ
: انسان
ضَعِيْفًا
: کمزور
اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے
(آیت) ” یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا “۔ (4 : 28) ” اللہ تم پر عائد شدہ پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔ “ گزشتہ آیات میں خاندانی نظام کے بارے میں جو احکام دیئے گئے ہیں اور قانون سازی کی گئی ہے اور جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں تو تخفیف بالکل واضح نظر آتی ہے ۔ مثلا انسان کے فطری میلانات اور جنسی خواہش کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ صرف اس جذبے کو منظم کر کے اس اک رخ تعمیری خطوط کیطرف موڑ دیا گیا ہے جس کے استعمال کے لئے پاک وصاف دائرہ کار مقرر کردیا گیا ہے ۔ اس کے لئے پاک وصاف اور بہترین ماحول بنایا گیا ہے ‘ اور یہ حکم نہیں دیا گیا کہ انسان اپنی اس فطری خواہش کو دبائے یا اس کا قلع قمع کر دے یا اسے اس طرح آزاد چھوڑ دے کہ وہ حیوانی سطح تک گر جائے اور اس کے لئے کوئی حد اور قید نہ ہو ۔ خاندانی زندگی کے علاوہ اسلامی نظام زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی قانون سازی کے سلسلے میں تخفیف اور آسانی ہر جگہ صاف نظر آتی ہے ۔ انسانی فطرت کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔ انسان کی طاقت اور وسعت کو پیش نظر رکھا گیا ہے انسانی حاجات اور ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور انسان کی تمام تعمیری قوتوں کو آزاد چھوڑا گیا ہے ۔ تاہم ان کے استعمال کے لئے ایسے حدود وقیود رکھے ہیں جن کی وجہ سے ان کے غلط استعمال کی نوبت ہی نہیں آتی ۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مردوزن کے جنسی تعلقات پر اسلام نے جو قیود عائد کی ہیں ان کی پابندی بہت ہی دشوار ہے اور جو لوگ آزاد شہوت رانی کے اصول پر چلتے ہیں ان کے ساتھ چلنا آسان اور فرحت بخش ہے ۔ یہ ایک عظیم غلط فہمی ہے اس لئے کہ جنسی تعلق کو بالکل آزاد چھوڑنا ‘ مرد وزن کے تعلق میں صرف لذت اندوزی کو اختیار کرنا ‘ اور عالم انسانیت میں جنسی ملاپ کو اس سطح تک لے آنا جس طرح حیوانوں میں جنسی ملاپ ہوتا ہے ‘ اور اس طرح ان تمام فرائض اور واجبات اور اجتماعی ذمہ داریوں کو ختم کردینا اور مرد وزن کے اس تعلق کو ہر قسم کے قید وبند سے آزاد کردیتا خواہ وہ اخلاقی قید ہو یا اجتماعی ‘ یہ تمام باتیں بظاہر تو بہت آسان ‘ پرکیف اور خوش کن تصور کی جائیں گی لیکن اپنے حقیقی نتائج کی روشنی میں وہ بہت ہی بھاری جان توڑ اور تباہ کن ہیں اور ایک فرد اور ایک معاشرے پر اس کے جو برے اثرات پڑتے ہیں ان کے نتائج سخت اذیت ناک مہلک اور تباہ کن ہوتے ہیں ۔ وہ معاشرے ‘ جنہوں نے جنسی آزادی کی اس بےراہ روی کو اپنایا ہے اور دینی اخلاق اور شرم وحیا کے قیود سے آزادہو گئے ہیں ‘ ان کے حالات پر ایک سرسری نظرڈالنے سے دل کانپ اٹھتا ہے بشرطیکہ دل میں زندگی کی رمق باقی ہو ۔ دنیا میں جو جو قدیم تہذیبیں نیست ونابود ہوئیں ‘ ان کی بربادی کا عامل اساسی ان کی جنسی بےراہ روی ہی تھی ۔ خواہ یہ تہذیب یونانی تہذیب ہو ‘ رومی تہذیب ہو یا قدیم ایرانی تہذیب ہو ‘ ان سب کے زوال کا اساسی سبب انکی جنسی بےراہ روی ہی تھی ۔ آج ہمارے دور میں مغربی تہذیب میں جو شکست وریخت ہورہی ہے وہ بھی اسی جنسی انارکی کی وجہ سے ہے ۔ خصوصا آج کے فرانسیسی معاشرے کی تباہی کے آثار تو بالکل ظاہر ہیں ‘ جس نے اس جنسی انار کی کو سب سے پہلے اپنایا ۔ تہذیب جدید کے دیگر ممالک ‘ امریکہ ‘ سویڈن ‘ برطانیہ ‘ اور دوسری نام نہاد ترقی یافتہ مغربی سوسائیٹوں میں اس شکست وریخت کے آثار نمودار ہوگئے ہیں فرانس میں اس جنسی انار کی کے آثار بہت پہلے نمودار ہوئے تھے ۔ 1870 کے بعد فرانس نے جس قدر جنگوں میں بھی حصہ لیا ‘ ان میں اسے دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔ تمام آثار و شواہد اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں فرنچ سوسائٹی مکمل طور پر تباہی کے کنارے کھڑی ہے اور پہلی عالمی جنگ کے بعد یہ آثار اچھی طرح کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔ مولانا مودودی (رح) لکھتے ہیں : ” شہوانیت کے اس تسلط کا اولین نتیجہ یہ ہے کہ فرانسیسیوں کی جسمانی قوت رفتہ رفتہ جواب دیتی چالی جارہی ہے ، دائمی جنسی ہیجانات نے ان کے اعصاب کمزور کردیئے ہیں ۔ خواہشات کی بندگی نے ان میں ضبط اور برداشت کی طاقت کم ہی باقی چھوڑی ہے ۔ امراض خبیثہ کی کثرت نے ان کی صحت پر نہایت مہلک اثر ڈالا ہے ۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یہ کیفیت ہے کہ فرانس کے فوجی حکام کو مجبورا ہرچند سال کے بعد نئے رنگروٹوں کے لئے جسمانی اہلیت کے معیار کو گھٹا دینا پڑتا ہے کیونکہ اہلیت کا جو معیار پہلے تھا اب اس معیار کے نوجوان قوم کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ ایک معتبر پیمانہ ہے جو تھرمامیڑ کی طرح قریب قریب یقینی صحت کے ساتھ بتاتا ہے کہ فرنچ قوم کی جسمانی قوتیں کتنی تیزی کے ساتھ بتدریج گھٹ رہی ہیں ۔ امراض خبیثہ اس تنزل کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہیں جنگ عظیم اول کے ابتدائی دو سالوں میں جن سپاہیوں کو محض آتشک کی وجہ سے رخصت دے کر ہسپتالوں میں میں بھیجنا پڑا ان کی تعداد 75000 تھی ۔ صرف ایک متوسط درجے کی فوجی چھاونی میں بیک وقت دو سوبیالیس سپاہی اس مرض میں مبتلا ہوئے ، ایک طرف اس وقت کی نزاکت کو دیکھئے کہ فرانسیسی قوم کی موت وحیات کا فیصلہ درپیش تھا اور اس کے وجود وبقا کے لئے ایک ایک سپاہی کی جانفشانی درکار تھی ۔ ایک ایک فرانک بیش قیمت تھا ‘ اور وقت ‘ قوت ‘ وسائل ‘ ہر چیز کی زیادہ سے زیادہ مقدار دفاع میں خرچ ہونے کی ضرورت تھی ‘ دوسری طرف اس قوم کے جوانوں کو دیکھئے کہ کتنے ہزار افراد عیاشی کی بدولت نہ صرف خود کئی کئی مہینوں کے لئے بیکار ہوئے بلکہ انہوں نے اپنی قوم کی دولت اور وسائل کو بھی اس آڑے وقت میں اپنے علاج پر ضائع کرایا ۔ ایک فرانسیسی ماہر فن لیریڈ کا بیان ہے کہ فرانس میں ہر سال آتشک اور اس کی پیدا کردہ امراض کی وجہ سے تیس ہزار جانیں ضائع ہوتی ہیں اور دق کے بعد یہ مرض سب سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث ہوتا ہے ۔ یہ صرف ایک مرض خبیث کا حال ہے ۔ اور امراض خبیثہ کی فہرست صرف اسی ایک مرض پر مشتمل نہیں ہے ۔ “ ” فرانس میں سالانہ صرف سات آٹھ فی ہزار کا اوسط ان مردوں اور عورتوں کا ہے جو ازدواج کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں ۔ یہ اوسط خود اتنا کم ہے کہ اسے دیکھ کر آسانی کے ساتھ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آبادی کا کتنا کثیر حصہ غیر شادی شدہ ہے ۔ پھر اتنی قلیل تعداد جو نکاح کرتی ہے ‘ ان میں بھی بہت کم لوگ ایسے ہیں جو باعصمت رہتے ہیں اور پاک اخلاقی زندگی بسر کرنے کی نیت سے نکاح کرتے ہیں ۔ اس ایک مقصد کے سوا ہر دوسرا ممکن مقصد ان کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ حتی کہ عامۃ الورود مقاصد میں ایک یہ بھی ہے کہ نکاح سے پہلے ایک عورت نے جو بچہ ناجائز طور پر جنا ہے نکاح کر کے اس مولود کو جائز بنا دیا جائے ۔ چناچہ پول بیورو لکھتا ہے کہ فرانس کے کام پیشہ لوگوں (Working ClAss) کا یہ عام دستور ہے کہ نکاح سے پہلے عورت اپنے ہونے والے شوہر سے اس بات کا وعدہ لے لیتی ہے کہ وہ اس کے بچہ کو اپنا بچہ تسلیم کرے گا ۔ 1917 میں سین (Seine) کی عدالت دیوانی کے سامنے ایک عورت نے بیان دیا کہ میں نے شادی کے وقت ہی اپنے شوہر کو اس بات سے آگاہ کردیا تھا کہ اس شادی سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے قبل از نکاح آزادانہ تعلقات سے جو بچے پیدا ہوئے ہیں ان کو ” حلالی “ بنا دیا جائے ۔ باقی رہی یہ بات کہ میں اس کے ساتھ بیوی بن کر زندگی گزاروں تو یہ بات نہ اس وقت میرے ذہن میں تھی نہ اب ہے ۔ اس بناء پر جس روز شادی ہوئی اسی روز ساڑھے پانچ بجے میں اپنے شوہر سے الگ ہوگئی اور آج تک میں اس سے نہیں ملی کیونکہ میں فرائض زوجیت ادا کرنے کی کوئی نیت نہ رکھتی تھی ۔ “ ” پیرس کے ایک مشہور کالج کے پر نسپل نے پول بیورو سے بیان کیا کہ عموما نوجوان نکاح میں صرف یہ مقصد پیش نظر رکھتے ہیں کہ گھر رکھتے ہیں کہ گھر پر بھی ایک داشتہ کی خدمات حاصل کرلیں ، دس بارہ سال تک وہ ہر طرف آزادانہ مزے چکھتے پھرتے ہیں پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس قسم کی بےضابطہ آوارہ زندگی سے تھک کر وہ ایک عورت سے شادی کرلیتے ہیں تاکہ گھر کی آسائش بھی کسی حد تک بہم پہنچے اور آزادنہ ذواقی کا لطف بھی حاصل کیا جاتا رہے ۔ “ (دیکھئے الحجاب مولانا سید ابو الاعلی مودودی (رح) امیر جماعت اسلامی پاکستان ص 113۔ 114 (سید قطب (رح)) ‘ دیکھے پردہ طبع اسلامک پبلیکیشنز لاہور ۔ طبع 27 ص 91 تا 95 لاہور جون 1985) یوں فرانس تباہ ہوا اور اس کے نتیجے میں فرانس نے ہر اس جنگ میں ہزیمت اٹھائی جس میں وہ شریک ہوا ۔ اور اب اس کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ تہذیب و تمدن کے اسٹیج سے آہستہ آہستہ غائب ہو رہا ہے اور کسی بھی وقت اپنے وجود ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور یہ سنت الہیہ کا ظہور نہایت ہی دھیمی رفتار سے ہوتا ہے ۔ اور انسان اگرچہ ہر معاملے میں جلد بازی سے کام لیتا ہے لیکن سنت الہیہ کی اپنی رفتار ہوتی ہے ۔ رہے وہ ممالک جو ابھی تک پرشوکت نظر آتے ہیں یا ان میں تباہی اور ہلاکت کے آثار ابھی تک ظاہر ہو کر سامنے نہیں ہیں تو ان کے نمونے یہ ہیں : اس صحافی جنہوں نے حال ہی میں سوئٹزرلینڈ کا دورہ کیا ہے ۔ وہ اس ملک کے اشتراکی معاشرے ‘ اس کی اجتماعی سہولتوں اور اس کی مادی ترقیات اور خوشحالیوں سے بحث کرتے ہوئے اس میں آزادی محبت کا اظہار یوں کرتے ہیں ۔ ” اگر ہمارے خواب یہی ہوں کہ ہم اپنی قوم کے لئے وہی ممتاز اقتصادی مقام چاہتے ہیں جو ان مغربی ممالک میں ہے ‘ اور ان کامیاب اشتراکی رجحانات کے مطابق معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان امتیازات کو ختم کردیں اور ہم اپنے اس ملک مصر کے ہر شہری کی راہ سے وہ تمام مشکلات حیات ختم کردیں جن کے ختم کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ‘ اگر ہم اپنے اس خوش کن خواب تک پہنچ جائیں جس کے حقیقت بنانے میں ہم اپنی پوری قوت اور پوری امکانیت کو ختم کر رہے ہیں ‘ تو پھر یہ اہم سوال پیدا ہوگا کہ ہم اس مادی ترقی کے تمام دوسرے نتائج کو بھی اپنے ہاں قبول کرلیں گے کی اہم اس مثالی معاشرے کے تاریک پہلو کو بھی قبول کرنیکے لئے تیار ہوں گے ۔ کی اہم آزادانہ تعلق مرد وزن کو قبول کرلیں گے اور خاندانی نظام پر پڑنے والے اس کے برے اثرات کو بھی قبول کرلیں گے ۔ “ ” آئیے ذرا اعداد و شمار کی زبان میں بات کریں ۔ زندگی کے اندر قرار و سکون پیدا کرنے کی موجودہ حوصلہ افزائیوں اور تشکیل خاندان کی حالیہ مساعی کے باوجود ‘ سویڈن کی آبادی گراف مسلسل گر رہا ہے ۔ باوجود اس کے کہ موجودہ حکومت عورت کو شادی کرنے کے لئے بہت امداد د ہے رہی ہے ۔ پھر عورت کے بچے کی مفت کفالت کی جاتی ہے ۔ ‘ یہاں تک کہ وہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوجائے ۔ ان سہولیات کے باوجود سویڈن کا ہر خاندان بچے پیدا کرنے سے مکمل احتراز کر رہا ہے ۔ ” اس کے برعکس صورت حال یہ ہے کہ شادی کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے اور ناجائز بچوں کی پیدائش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بیس فیصدی بالغ لڑکے اور لڑکیاں سرے سے شادی ہی نہیں کرتے ۔ سویڈن میں صنعتی دور ۔ 1870 میں شروع ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ اشتراکی دور بھی 1870 ء میں شروع ہوتا ہے ۔ 1870 ء میں غیر شادی شدہ ماؤں کی تعداد سات فیصدی تھی ‘ جبکہ 1920 میں یہ تعداد سولہ فیصدی ہوگئی ۔ اس کے بعد کے اعداد و شمار مجھے نہیں مل سکے ‘ البتہ ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ علمی اداروں نے جو اعداد و شمار شائع گئے ہیں ‘ اس کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ مرد اٹھارہ سال کی عمر میں جنسی تعلقات قائم کرلیتے ہیں اور عورت پندرہ سال کی عمر میں جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہے ۔ اور اکیس سال کی عمر میں پچانوے فیصد نوجوانوں کے جنسی تعلقات قائم ہوچکے ہوتے ہیں ۔ مزید تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ 7 فیصدی تعلقات ان لڑکیوں سے ہوتے ہیں جن کی منگنی ہوچکی ہوتی ہے ‘ پینتیس فیصدی دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور اٹھاون فیصدی ایسی عورتوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو وقتی طور پر شناسا ہوتی ہیں ۔ اب ذرا عورتوں کے تعلقات جنسی کے اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں ۔ صرف تین فیصدی عورتوں کے تعلقات اپنے خاوند سے ہوتے ہیں ‘ اٹھائیس فیصدی عورتوں کے تعلقات اپنے منگیتر سے ہوتے ہیں اور چونسٹھ فیصد عورتوں کے تعلقات صرف چالو دوستوں سے ہوتے ہیں مزید بتایا جاتا ہے کہ اسی فیصد عورتیں شادی سے قبل جنسی تعلقات قائم کرلیتی ہیں اور بیس فیصدی ایسی ہیں جو شادی کا تکلف ہی نہیں کرتیں ۔ “ ” ان حالات کا نتیجہ یہ ہے کہ اس جنسی آزادی کی وجہ سے بالعموم شادی بہت ہی لیٹ کی جاتی ہے ‘ اور منگنی ہوجائے تو اس میں شادی کی معیاد بہت ہی طویل ہوتی ہے اور اس کے ساتھ غیر قانونی بچوں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے “۔ ان سب حالات کے نتیجے میں خاندانی نظام کے بندھن ٹوٹ گئے ۔ سویڈن کے باشندے محبت کی آزادی کے حق میں درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں : یہ کہ سویڈن کا معاشرہ شادی کے بعد تمام دوسرے متمدن معاشروں کی نسبت خیانت کو بہت ہی بری نظروں سے دیکھتا ہے اور یہ بات درست ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کرتے لیکن وہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکتے اور اس جنسی بےراہ روی کی وجہ سے نسلی تنزل اور طلاق کے اعداد و شمار میں بےحد اضافے کا کوئی تشفی بخش سبب نہیں بتا سکتے ۔ اس وقت سویڈن میں طلاق کی شرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ چھ سات شادیوں میں سے ایک طلاق پر منتج ہوتی ہے ۔ اور یہ اعداد و شمار سویڈن کی اجتماعی امور کی وزارت کے شائع کردہ ریکارڈ سے لئے گئے ہیں ۔ یہ نسبت ابتداء میں کم تھی مگر آہستہ آہستہ بڑھ گئی اور 1996 میں صورت حال یہ تھی کہ ایک ہزار شادیوں میں سے چھبیس طلاق پر منتج ہوئی تھیں ۔ 1952 میں یہ تعداد ایک سو چار ہوگئی ۔ 1954 میں ایک سو چودہ ہوگئی ۔ ان واقعات کا سبب یہ ہے کہ 30 فیصدی شادیاں محض ضرورت کے تحت مجبور کے حالات میں ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسی شادیاں اصلی شادیوں کی طرح طویل المیعاد نہیں ہوتیں اور مجبوری یہ ہوتی ہے کہ ایک نوجوان عورت حاملہ ہوجاتی ہے ۔ عموما ایسی شادیوں میں بعد میں طلاق ہوجاتی ہے ‘ اس لئے کہ سویڈن کے قانون میں طلاق کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ جب بھی زوجین درخواست کریں کہ وہ طلاق پر راضی ہیں تو قانون طلاق کی اجازت دے دیتا ہے اور اگر زوجین میں سے کوئی ایک فریق ہی طلاق کی درخواست کرے تو ایک معمولی بہانے پر طلاق ہوجاتی ہے ۔ “ ” سویڈن میں ایک تو جنسی بےراہ روی کی پوری پوری آزادی ہے ‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ایک دوسری آزادی بھی حاصل ہے ۔ وہ یہ کہ ہر شخص کو دہری ہونے کی آزادی ہے ۔ سویڈن کے باشندوں کی اکثریت منکر خدا ہے ۔ سویڈن میں ایک وسیع تحریک چل رہی ہے اور لوگ کنیسہ سے پوری پوری آزادی حاصل کر رہے ہیں ۔ ناروے اور ڈنمارک میں بھی انکار خدا عام ہے ۔ مدارس اور یونیورسٹیوں میں انکار خدا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ اور نوجوانوں میں انکار خدا کے عقائد ایک منصوبے سے پھیلائے جاتے ہیں ۔ “ ” سویڈن اور سکنڈے نیویا کے دوسرے ممالک کے لوگ پوری طرح اخلاق باختہ ہوچکے ہیں ‘ یہ لوگ اپنے عقیدہ انکار خدا اور خدا کا خوف نہ رکھنے کی وجہ سے ہر قسم کی اخلاقی قید وبند سے آزاد ہوگئے ہیں اور آخر کار یہاں کے نوجوان شراب نوشی اور دوسری تباہ کن منشیات کے عادی ہوگئے ہیں ۔ ایسے بچوں کی تعداد 175 ہزار ہے جن کے والدین منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور یہ تعداد خاندانی بچوں کا دس فیصد بنتی ہے ۔ مراھق بچوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے جو خود نشہ کرتے ہیں ۔ جن نوجوانوں کو شدید نشہ کی حالت میں گرفتار کیا جاتا ہے ان کی تعداد گزشتہ پندرہ سالوں میں تین گنا زیادہ ہوگئی ہے اور پندرہ سے سترہ سال کی عمر کے نوجوانوں کے اندر شراب نوشی کی عادت بد سے بدتر ہی جارہی ہے اور اس کے بہت برے نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ “ ” سویڈن میں بالغ ہونے والوں میں ہر دسواں بچہ دماغی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتا ہے ۔ سویڈن کے ڈاکٹروں کا یہ کہنا ہے کہ ان نفسیاتی بیماروں کا پچاس فیصد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی دماغی بیماری ‘ ان کی جسمانی بیماری کا نتیجہ ہوتی ہے ظاہر ہے کہ انکار خدا کی آزادی اور اخلاقی قیود سے آزادی کا یہی نتیجہ ہو سکتا ہے کہ آبادی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو اور خاندان نظام کی چولیں ڈھیلی پڑجائیں اور اس کے نتیجے میں گھٹیا درجے کی نسل وجود میں آئے ۔ “ یہ تو حال تھا سویڈن کا لیکن امریکہ کا بھی یہی حال ہے ۔ اور برائی کے آثار خطرناک طور پر ظاہر ہو رہے ہیں ‘ لیکن امریکی قوم کو اس طرف التفات ہی نہیں ہے ۔ امریکی قوم کے وجود میں تباہی کے آثار در آئے ہیں ‘ اگرچہ بظاہر وہ تروتازہ ہے۔ ظاہری قوت اور توانائی کے مظاہر کے باوجود یہ قوم بھی جسمانی اور اخلاقی انحطاط کی طرف جارہی ہے اور اس کے آثار نمودار ہو رہے ہیں ۔ امریکہ میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے ملک کے حساس فوجی راز اپنے دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں ‘ اس لئے نہیں کہ انہیں روپے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ محض اس لئے کہ وہ جنسی بےراہ روی میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کی یہ بےراہ روی اس عام جنسی آزادی اور بےراہ روی کا نتیجہ ہوتی ہے جو ان کے ملک میں رائج ہے ۔ امریکہ میں بعض ریاستوں میں ازروئے قانون طلاق کے لئے یہ شرط ہے کہ خاوند یا بیوی میں سے کوئی زنا کی حالت میں پکڑا جائے ۔ اس غرض کے لئے بعض وکلاء اور ڈاکٹروں نے ایک تنظیم بنائی تھی کہ جو ایسے مقدمات می مرد یا عورت کو زنا کاری میں پھانسے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حال ہی میں امریکی پویس نے ایک ایسی تنظیم کا پتہ چلایا جس کے شعبے کئی شہروں میں تھے ۔ حالانکہ وکلاء اور ڈاکٹر مہذب ترین لوگ ہوتے ہیں کئی جوڑے جو طلاق چاہتے تھے ‘ پہلے ایسے ادارون کی خدمات حاصل کرکے اپنے شریک حیات کو زنا کاری میں پھانستے اور پھر مقدمہ دائر کردیتے ۔ امریکہ میں ایسے دفتر عام ہیں جو بھاگی ہوئی عورتوں اور بھاگے ہوئے خاوندوں کی تلاش میں تعاون فراہم کرتے ہیں اس لئے کہ کسی خاوند کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ جب وہ شام کو گھر آئے گا تو اس کی بیوی موجود ہوگی اور اپنے کسی محبوب کے ساتھ چلی نہ گئی ہوگی نیز بیوی کو بھی یہ یقین نہیں ہوتا کہ اس کا خاوند شام کو واپس آئے گا یا اس سے زیادہ جاذبیت رکھنے والی کسی دوشیزہ نے اسے سنبھال لیا ہوگا ۔ ایسے معاشرے میں جن میں خاندانوں کی حالت یہ ہو ‘ ان میں کسی کے اعصاب کیسے مضبوط اور درست رہ سکتے ہیں ۔ اور ایسے حالات میں امریکہ کے ایک صدر اعلان کرتے ہیں کہ ہر سات نوجوانوں میں سے چھ فوجی خدمات کے لئے نااہل ہوچکے ہیں اس لئے کہ یہ سب جنسی بےراہ روی میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ مولانا مودودی (رح) لکھتے ہیں ۔ ” ایک امریکی رسالے میں ان اسباب کو جن کی وجہ سے وہاں بداخلاقی کی غیر معمولی اشاعت ہو رہی ہے ‘ اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ تین شیطانی قوتیں ہیں جن کی تثلیث آج ہماری دنیا پر چھا گئی ہے اور یہ تینوں ایک جہنم تیار کرنے میں مشغول ہیں ۔ فحش لٹریچر جو جنگ عظیم کے بعد حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اپنی بےشرمی اور کثرت اشاعت میں بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ متحرک تصویریں جو شہوانی محبت کے جذبات کو نہ صرف بھڑکا رہی ہیں بلکہ عملی سبق بھی دیتی ہیں ۔ عورتوں کا گرا ہوا اخلاقی معیار جو ان کے لباس اور بسا اوقات ان کی برہنگی اور سگریٹ کے روز افزوں استعمال اور مردوں کے ساتھ ان کے ہر قید وبند سے ناآشنا اختلاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ تین چیزیں ہمارے ہاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور ان کا نتیجہ مسیحی تہذیب ومعاشرے کا زوال اور آخر کار تباہی ہے ۔ اگر ان کو نہ روکا گیا تو ہماری تاریخ بھی روم اور ان دوسری قوموں کے مماثل ہوگی جن کو یہی نفس پرستی اور شہوانیت ان کی شراب اور عورتوں اور ناچ رنگ سمیت فنا کے گھاٹ اتار چکی ہے ۔ “ (الحجاب سید ابو الاعلی مودودی (رح) ‘ ص 129۔ 13۔۔۔۔۔ اردو ایڈیشن صفحات 105۔ 106 طبع 27 جون 1985 اسلامی بپلیکیشنز لاہور) لیکن واقعات کی دنیا میں جو کچھ ہوا ‘ وہ یہ ہے کہ امریکہ اس مثلث کے سیلاب سے نہ بچ سکا بلکہ اس نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ۔ وہ اسی راہ پر چل نکلا ہے جس پر روم چلا ، ایک دوسرے صحافی امریکہ ‘ برطانیہ اور فرانس کے نوجوانوں میں جنسی بےراہ روی کے سیلاب کے بارے میں لکھتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کی بےراہ روی ان ممالک کی طرح شدید نہیں ہے ۔ ” امریکہ کے نوخیز لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بےراہ روی کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے ۔ نیویارک کے گورنر نے اعلام کیا کہ اس بےراہ روی کا علاج ‘ اس ریاست میں ‘ عنقریب قومی اصلاح کے مسائل میں سرفہرست آجائے گا ۔ گورنر نے مشورہ دیا ہے کہ اصلاحی نرسریاں اور تہذیب اخلاق کی مجالس اور جسمانی تربیت کے اداروں کا قیام از بس ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ اس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء اور طالبات کے درمیان منشیات یعنی چرس اور کو کین کے رواج کو ختم کرنا ان کے پروگرام میں شامل نہیں ہے اور یہ معاملہ ہم محکمہ صحت عامہ کے حوالے کر رہے ہیں۔ “ ” آخری دو سالوں کی رپورٹ کے مطابق انگلستان میں عورتوں اور نوجوان ، چھوٹی نابالغ خواتین پر دست درازی کے واقعات میں بےحد اضافہ ہوا ہے خصوصا دیہاتی راستوں میں اکثر واقعات میں دست درازی کرنے والے مراھق یا نوجوان تھے اور ان واقعات میں سے بعض واقعات میں بچی یالڑ کی کا گلاگھونٹ کا اسے قتل بھی کردیا گیا تھا اور اسے ٹھنڈی اور منجمد لاش کی شکل میں چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ بدکرداری کا راز فاش نہ ہو یا یہ کہ شناخت پریڈ کے وقت شناخت نہ ہو سکے “۔ ” دو ماہ کا عرصہ ہوا ہے کہ ایک بوڑھا شخص اپنے گاؤں جارہا تھا ۔ اس نے راہ گزر پر ایک درخت کے نیچے ایک نوجوان کو ایک لڑکی کے ساتھ مباشرت کرتے ہوئے دیکھا ۔ یہ بوڑھا ان کے قریب گیا ۔ اس نے لڑکے کو اپنے عصا سے مارا ۔ اور زجر وتوبیخ کی اور اسے کہا کہ جس فعل کا وہ ارتکاب کررہا ہے وہ سرعام جائز نہیں ہے ۔ لڑکا اٹھا اور اس نے بوڑھے کے پیٹ میں ایک لات رسید کی ۔ بوڑھا گرا ۔ اس کے بعد وہ اپنے بوٹوں کے ساتھ اسے سر پر مارتا رہا یہاں تک کہ اس کا سر پھوڑ دیا ۔ اس لڑکے کی عمر صرف پندرہ سال تھی ۔ اور لڑکی کی عمر صرف تیرہ سال تھی ۔ “ امریکہ کی ” انجمن چہاردہ “ جو ملک کی اخلاقی صورت حال کی نگراں ہے ‘ نے بتایا ہے کہ امریکہ کی نوے فیصد آبادی مہلک خفیہ جنسی امراض کا شکار ہے اور یہ صورت حال اس وقت تھی جبکہ جدید جراثیم کش ادویہ بنسلین اور سٹریپٹو مائیسین ایجاد نہیں ہوئی تھیں ۔ ڈنفر کے ایک جج لکھتے ہیں کہ ہر دو نکاحوں میں سے ایک طلاق پر منتج ہوتا ہے اور مشہور عالمی ڈاکٹر الکسیس کاریل اپنی مشہور کتاب ” انسان نامعلوم “ میں لکھتے ہیں : ۔ ” ہم بچوں کے اسہال ‘ سل ‘ دق اور ٹائی فائیڈ جیسی بیماریوں کی بیخ کنی کے تو بالکل قریب جاپہنچے ہیں لیکن ان بیماریوں کی جگہ اخلاقی بےراہ روی اور اخلاقی بگاڑ کی بیماریوں نے لے لی ہے جس کے نتیجے میں اعصابی اور دماغی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں امریکہ کی بعض ریاستوں میں عام مریضوں کے مقابلے میں دماغی مریضوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے ۔ جنون کے علاوہ اعصابی اور جسمانی ناتوانی کی بیماریوں میں بھی بےحد اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان کے نتیجے میں ہر فرد مصیبت زدہ ہوگیا ہے ۔ اور خاندانی نظام قریب الاختتام ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ متعدی بیماریوں کے مقابلے میں امریکی تہذیب کے لئے عقلی انحطاط زیادہ مضر ثابت ہو رہا ہے ۔ جبکہ ماہرین طب نے اپنی سرگرمیاں ان متعدی بیماریوں کے انسداد تک محدود کر رکھی ہیں ۔ یہ ان مصائب اور تکلیفات کی معمولی سی جھلک ہے جو اس گمراہ انسانیت نے اپنے اوپر اس لئے لاولئے ہیں کہ اس نے ان لوگوں کی پیروی شروع کردی جو صرف شہوت کے پیروکار بن گئے تھے انہوں نے خدا کے بنائے ہوئے طریقہ زندگی کی پیروی ترک کر کے جدید جاہلیت کو اپنا لیا تھا ۔ حالانکہ اسلامی نظام زندگی وہ منہاج تھا جس میں انسان کے ضعف اور کمزوری کو ملحوظ رکھ کر قانون سازی کی گئی تھی ‘ اور اس نظام میں اسے اپنی خواہشات نفس اور شہوانی میلانات کی بندگی سے بچا کر ایک ایسے راستے کی طرف ہدایت دی گئی تھی جو پرامن بھی تھا اور اس پر چل کر انسان کے گناہوں سے رجوع آسان ہوجاتا تھا اور وہ راہ طہارت اختیار کرسکتا تھا ۔ (آیت) ” واللہ یرید ان یتوب علیکم ویرید الذین یتبعون الشھوت ان تمیلوا میلا عظیما (27) یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا (28) “ ہاں ‘ اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر دور نکل جاؤ ،۔ اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے اس کا سبق کا دوسرا حصہ اسلامی معاشرے کے مابین بعض مالی معاملات پر بحث کرتا ہے تاکہ باہم معاملات کے طریقے طے کردیئے جائیں اور اسلامی معاشرے کے ممبران کے درمیان باہمی معاملات پاک وصاف رہیں ۔ نیز اس میں مالی حقوق عورتوں کو بھی ویسے ہی دیئے جائیں جس طرح مردون کو دیئے گئے ہیں ۔ ہر شخص کو اس کا مقرر کردہ حصہ ملے ۔ نیز وہ مالی حقوق جو ولایت پر مبنی تھے اور جو دور جاہلیت میں عام طور پر مروج رہے ‘ اور اسلام کے آنے کے بعد بھی ابتدائی دنوں میں وہ مروج تھے ‘ ان کو ختم کردیا جائے تاکہ اس سابقہ نظام کا تصفیہ کردیا جائے اور اسلامی نظام میراث کے لئے راہ ہموار ہوجائے جس میں میراث صرف قریبی رشتہ داروں کا حق بنتی ہے اور آئندہ کے لئے قدیم موروثی ولایت کے نظام کو ختم کردیا جائے ۔
Top