Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 29
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ١۫ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) لَا تَاْكُلُوْٓا : نہ کھاؤ اَمْوَالَكُمْ : اپنے مال بَيْنَكُمْ : آپس میں بِالْبَاطِلِ : ناحق اِلَّآ : مگر اَنْ تَكُوْنَ : یہ کہ ہو تِجَارَةً : کوئی تجارت عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی خوشی سے مِّنْكُمْ : تم سے َلَا تَقْتُلُوْٓا : اور نہ قتل کرو اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفس (ایکدوسرے) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : بہت مہربان
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ ۔ لین دین ہونا چاہئے آپس کی رضا مندی سے اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو ‘ یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے ۔
آیات کا یہ سلسلہ اسلامی معاشرے کی تربیت کے ساتھ بھی متعلق ہے اور اسلامی نظام کے شعبہ قانون سے بھی اس کا تعلق ہے ۔ اسلامی نظام زندگی میں تربیت ‘ اصلاح اور قانون ساتھ ساتھ کام کرتے ہیں ‘ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تکمیلی حیثیت رکھتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ۔ ایک کے سوا دوسرا مکمل نہیں ہو سکتا قانون سازی سے غرض یہ ہوتی ہے کہ اسلامی معاشرے کی تربیت اور اصلاح کی جائے اور لوگوں کی زندگی کے معاملات کو ایک ضابطے کے تحت لایا جائے ۔ قانون سازی کے اندر ایسی ہدایات بھی دی جاتی ہیں جن میں انسانی ضمیر کی تربیت مطلوب ہوتی ہے ۔ پھر اس قانون سازی میں اس بات کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ قانون کا نفاذ بھی اچھی طرح ہو سکے اور خود اسلامی معاشرے کا شعور قانون کے نفاذ کے لئے تیار ہو اور معاشرہ یہ سمجھتا ہو کہ اس قانون کے توڑنے میں نہیں بلکہ اس کے نفاذ میں ہماری مصلحت ہے۔ اسی لئے اسلامی نظام حیات میں قانون سازی اور اصلاح وہدایت ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ دلوں کو اللہ سے جوڑا جاتا ہے ۔ اور ان میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ یہ ضابطہ اور یہ قانون اسی رب ذوالجلال کی طرف سے ہے جو ہمیں ہدایت دے رہا ہے ۔ یہ صرف اسلامی نظام زندگی کا خاصہ ہے کہ اس میں اجتماعی نظام کی اطاعت از خود کی جاتی ہے ۔ اور اسلامی نظام کی یہ جامعیت انسان کی واقعی اور عملی زندگی کے لئے نہایت ہی مفید ہے ۔ اس سے انسانی ضمیر کی اصلاح بھی ہوتی رہتی ہے اور قانون پر عمل بھی ۔ آیات کے اس حصے میں ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طور پر نہ کھائیں اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ دوسروں کا مال باہم رضا مندی سے تجارتی لین دین کے ذریعے ہی لیا جاسکتا ہے اور دوسروں کے مال کو ناجائز طور پر کھانے کے فعل کو انسان کے قتل سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ فعل ہلاکت اور تباہی ہے ۔ اس کے ساتھ لوگوں کو عذاب آخرت سے بھی ڈرایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ جو شخص ظالمانہ طور پر دوسروں کا مال کھائے گا وہ آگ کو ضرور چھوئے گا ۔ اس وعید کے ساتھ ہی امید کی کرن بھی چمکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نرمی اور عفو و درگزر کا وعدہ بھی فرماتے ہیں اور انسان کی کمزوری اور اس کی تقصیرات کو معاف کرنے کی راہ میں بھی بتلاتے ہیں ۔ نیز دنیا میں احساس محرومی کو کم کرنے کے لئے خودی کا سبق دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر معاشرے میں کچھ لوگ خوش حال ہیں تو ان کی طرف للچائی ہوئی نظروں کے ساتھ نہ دیکھو ۔ ذات باری کو ہدف نظر بناؤ اس لئے کہ وہی تو ہے جو ان کو دینے والا ہے ۔ اس لئے تمہیں بھی جو کچھ مانگنا ہے اسی سے مانگو ۔ یہاں یہ بات بھی صاف کی جاتی ہے کہ اللہ سے مرد و عورت دونوں مانگ سکتے ہیں ۔ مردوں نے جو کچھ کمایا تو وہ انہی کا ہوگا اور عورتوں نے جو کچھ کمایا وہ انہی کا ہوگا ۔ اور مردوں اور عورتوں دونوں کی کمائی کے بارے میں اللہ کو خوب علم ہے ۔ اسی طرح اگر لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ” ولایت ارث “ کے معاہدے کر رکھے ہیں تو ان معاہدوں پر اچھی طرح عمل کیا جائے اس لئے کہ دوسرے گواہوں کے ساتھ ان پر اللہ بذات خود بھی گواہ ہے ۔ یہ ہیں موثر وجدانی اشارے اور جھلکیاں جن کے اندر قانون سازی بھی موجود ہے یہ ہیں وہ ہدایات جو انسان کی تربیت کے لئے اللہ علیم وخبیر نے بھیجی ہیں جو انسان کی جسمانی تخلیق سے بھی باخبر ہے ۔ اور اس کے نفسیاتی میلانات سے بھی اچھی طرح واقف ہے ۔ جو انسان کی ذہنی راہوں اور نشیب و فراز سے بھی اچھی طرح واقف ہے ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما (29) ومن یفعل ذالک عدوانا وظلما فسوف نصلیہ نارا وکان ذلک علی اللہ یسیرا (30) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ ‘ اپنے آپ کو قتل نہ کرو ‘ یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے ۔ جو شخص ظلم و زیادتی کے ساتھ ایسا کرے گا اس کو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ یہ پکار اہل ایمان کے لئے ہے ‘ انہی کو منع کیا گیا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائیں ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل “۔ ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ ‘ (4 : 29) اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی معاشرے کو جاہلیت کی باقی ماندہ گراوٹوں سے پاک وصاف کیا جارہا ہے ۔ اور ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو “ کے الفاظ میں خطاب کر کے اہل اسلام کے ضمیر کو جگایا جاتا ہے اور انہیں جوش دلایا جاتا ہے کہ وہ جاہلیت کے تمام کاموں کو چھوڑ دیں ، یوں ایمانی تقاضوں کو بیدار کیا جاتا ہے ‘ ان تقاضوں کو جو ان کے لقب ” اہل ایمان “ کے تقاضے ہیں تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے اموال ناجائز طریقوں سے نہ کھائیں ۔ باطل طور پر ایک دوسرے کے اموال کھانے میں وہ تمام طریقے شامل ہیں جن کے ذریعے دولت ایک دوسرے کی طرف منتقل ہوتی ہے اور جن کے استعمال کی اجازت اللہ کی جانب سے نہ ہو یا یہ کہ اللہ نے بصراحت اس سے منع کیا ہو مثلا دوسرے کا مال دبانا ‘ رشوت لینا ‘ قمار بازی کے ذریعے مال کھانا ‘ ضروریات زندگی کا ذخیرہ کرنا تاکہ مہنگے داموں پر انہیں بیچا جائے اور خرید وفروخت کے وہ تمام طریقے استعمال کرنا جو ممنوع ہیں اور ربا ان سب میں سر فہرست ہے ۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ آیت تحریم ربا سے پہلے نازل ہوئی ہے یا بعد میں ۔ اگر یہ پہلے نازل ہوئی تو یہ تحریم ربا کے لئے بطور تمہید ہوگی ‘ اس لئے کہ سود خواری باطل طریقوں میں سرفہرست ہے ۔ اور اگر یہ آیت تحریم ربا کے بعد نازل ہوئی ہے تو اس میں ربا بھی شامل ہے اور ربا کے علاوہ دوسرے وہ تمام طریقے بھی شامل ہیں جن سے دوسروں کی دولت ناجائز طور پر حاصل کرلی جاتی ہے ۔ ہاں یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھا گیا کہ باہم رضا مندی سے جو تجارتی لین دین ہوتا ہے ‘ اس میں اگر دوسرے کی دولت بطور منافع آجائے تو وہ جائز ہے ۔ (آیت) ” الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم “۔ (4 : 29) ” الا یہ کہ باہم رضا مندی سے تجارتی لین دین ہو۔ “ یہ استثناء منقطع ہے ۔ مفہوم یہ ہے کہ اگر معاملہ رضا مندی پر مبنی لین دین کا ہو تو وہ صورت سابق آیت میں داخل نہیں ہے ۔ یہاں تجارت کو استثنائی شکل میں اس لئے لایا گیا ہے کہ تجارت کے لین دین اور باقی باطل طریقوں کے لین دین میں بظاہر مماثلت پائی جاتی ہے ۔ جو طریقے شریعت کے قانون میں ممنوع ہیں ان کے ذریعہ جو مال لیا جاتا ہے وہ باطل طریقے سے کھایا جاتا ہے ۔ یہ مشاکلت اس وقت ظاہر ہوجاتی ہے جب سورة بقرہ میں آیت الرباء کا مطالعہ کیا جاتا ہے جہاں سود خواروں کا یہ اعتراض نقل کیا گیا ہے ۔ (آیت) ” انما البیع مثل الربوا “۔ (2 : 275) ” بیشک بیع اور ربا ایک ہی جیسے ہیں “۔ اور انکے اس اشکال کو یوں رد کیا گیا تھا ۔ (آیت) ” واحل اللہ البیع وحرم الربوا “۔ (2 : 257) ” اللہ نے بیع کو حلال قرار دیا ہے اور ربا کو حرام قرار دیا ہے ۔ “ سود خوار یہ مغالطہ ڈالتے تھے ‘ اور اپنے زیر رواج سودی کاروبار کا دفاع یوں کرتے تھے کہ بیع بھی تجارت ہے اور اس میں انسان کی دولت میں بذریعہ منافع اضافہ ہوتا ہے جبکہ ربا میں مال میں بذریعہ منافع اضافہ ہوتا ہے ‘ اس لئے اس کا کوئی خاص سبب سامنے نہیں آتا کہ تجارت کو جائز کیا جائے اور سود کو حرام قرار دیا جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تجارتی لین دین اور سودی کاروبار میں بہت بڑا فرق ہے ۔ وہ بدترین نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں جو سودی کاروبار کی وجہ سے تجارت وصنعت اور عوام کو درپیش ہوتے ہیں اور وہ خوشگوار اثرات بھی جو صاف ستھری تجارت اور صنعت کی وجہ سے عوام الناس پر مرتب ہوتے ہیں ۔ تجارت میں ایک تاجر ایک ضرور تمند اور خریدار اور ایک صنعت کار کے درمیان ایک ایسا واسطہ ہوتا ہے جو دونوں کے لئے مفید ہوتا ہے ۔ تاجر اشیائے صرف کے لئے مارکیٹ تلاش کرتا ہے اور مصنوعات کو رواج دیتا ہے ۔ وہ ان کو خوبصورتی کے ساتھ اہل ضرورت کے لئے مہیا کرتا ہے اور ان کے لئے سہولت فراہم کرتا ہے ۔ یوں گویا وہ دونوں فریقوں کے لئے مفید ہوتا ہے اور اپنی خدمات کا صلہ لیتا ہے ۔ اور اس کا صلہ اپنی جدوجہد اور اس کی مہارت کا بھی عوض ہوتا ہے ۔ پھر تاجر ہر وقت نفع اور نقصان دونوں کے لئے تیار رہتا ہے جبکہ سود خواری کا نظام اس صورت حال سے بالکل مختلف اور متضاد نظام ہے اس لئے کہ اس نظام میں مصنوعات پر اصل اخراجات کے علاوہ سودی واجبات کا اضافہ کیا جتا ہے اور یہ اضافہ پھر تاجر اور خریدار ‘ ضرورتمند سے وصول کیا جاتا ہے ۔ یوں پورے معاشی نظام پر بوجھ پڑجاتا ہے ۔ اور جس طرح مغربی صنعتی ممالک میں عملا یہ نتائج نکلے ‘ یہ منحوس نظام آخر کار نہ تو بذات خود صنعت کے لئے مفید ہوتا ہے اور نہ خریداروں (Customers) کے لئے مفید ہوتا ہے اور نہ وہ ان دونوں کے مفادات کو پیش نظر رکھتا ہے بلکہ اس کا ہدف صرف یہ ہوتا ہے کہ صنعتی قرضوں پر زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کیا جائے اور سرمایہ کار کو فائدہ دیا جائے ۔ جمہور عوام کو ضروریات زندگی دستیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن سامان تعیش کی فراوانی ہو ان چیزوں کی پیداوار میں اضافہ کردیا جائے جو انسانی جذبات کو مشتعل کرنے والی ہوں ‘ خواہ یہ انسانی جسم اور صحت کے لئے مضر ہوں ۔ نیز یہ کہ سرمایہ کے لئے دائما منافع متعین کردینا اور سرمایہ دار کے لئے کسی صورت میں بھی خسارہ میں شریک نہ ہونا ‘ جیسا کہ تجارت میں ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں انسانی جدوجد پر اعتماد نہ کرنا ‘ جو تجارتی نظام کی جان ہوتی ہے ۔ یہ اور اس طرح کے دوسری وہ وجوہات جو اس سودی نظام کے کھاتے میں آتی ہیں اس بات کے لئے کافی ہیں کہ اس نظام کو ختم ہونا چاہئے جس طرح اسلام نے اسے ختم کیا ہے ۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے فی ضلال القرآن ج سوئم صفحات ۔۔۔۔۔۔ نیز تفصیلات کے لئے دیکھئے مولانا ابو الاعلی مودودی (رح) امیر جماعت اسلامی پاکستان کی کتاب ” الربا “ (سیدقطب) نظام ربا اور نظام تجارت میں بعض پہلوؤں سے چونکہ یک رنگی نظر آتی تھی اس لئے قرآن کریم کو بطور استدراک یہ نوٹ دینا پڑا (آیت) ” الا تکون تجارۃ عن تراض منکم “۔ (4 : 29) ” الا یہ کہ تمہارے درمیان باہم رضا مندی سے تجارتی لین دین ہو۔ “ لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھانے کی ممانعت کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو ‘ اگرچہ نحویوں کی رائے کے مطابق یہ استثنائے منقطع ہے ۔ (آیت) ” ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما “۔ (4 : 29) ” اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے ۔ “ یہ فقرہ ایک دوسرے کے اموال ناجائز طور پر کھانے کی ممانعت کے بعد آتا ہے جس میں یہ اشارہ ہے کہ اگر تم ایک دوسرے کے اموال باطل طریقوں سے کھاتے ہو تو گویا تم ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہو ‘ اور سودی نظام کے آثار تباہ کن ہوں گے ۔ اور اللہ تعالیٰ اس سودی نظام کی ممانعت کر کے تم پر ظلم نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ نہایت ہی رحیمانہ حکم ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے انسانیت پر بہت بڑا رحم ہے ۔ جس سوسائٹی میں بھی ان امور کا رواج ہوجائے ‘ مثلا سود خواری ‘ چور بازاری ‘ قمار بازی ‘ ذخیرہ اندوزی ‘ دھوکہ بازی ‘ چوری ‘ چھینا چھپٹی ‘ سرقہ ‘ رشوت ‘ ناقابل فروخت اشیاء کی فروخت ‘ مثلا عزت وناموس ‘ ضمیر واخلاق ‘ ذمہ داری اور فرض منصبی ‘ اور مذہب اور دین وغیرہ جیسا کہ یہ چیزیں قدیم جاہلی سوسائٹی میں بھی جاری تھیں اور آج کے جدید جاہلیت میں بھی یہ کام جاری ہیں۔ غرض یہ امور جس سوسائٹی میں بھی پائے جائیں گے ‘ وہ خود اس کی جانب سے خود کشی کے مترادف ہوں گے اور وہ سوسائٹی اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں جانتے بوجھتے گرا رہی ہوگی ۔ اور اللہ کا منشاء یہ ہے کہ وہ اس تباہ کن خود کشی سے اہل ایمان کو بچائے اور ان پر رحم کرے ۔ یہ بھی دراصل اللہ کی جانب سے انسانیت پر ایک تخفیف ہے اور اس کے لئے ایک رعایت ہے انسان کی ضعیفی کا ایک علاج ہے اس لئے کہ انسان اپنی اس کمزوری کی وجہ سے اللہ کی ہدایات سے نکل کر ان لوگوں کی راہنمائی میں آجاتا ہے جو اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں ۔ عذاب آخرت کی دھمکی کے بعد ‘ اب ان لوگوں کو دھمکی دی جارہی ہے جو لوگوں کے مال ناجائز طریقے سے کھاتے ہیں۔ جو حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور دوسروں کے حقوق مارتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو عذاب آخرت کی دھمکی ہے ۔ یعنی نہ صرف یہ کہ دنیا میں دوسروں کا مال کھانے سے ایک سو سائٹی تباہ وبرباد ہوگی بلکہ آخرت میں بھی ایسے ظالموں کو عذاب سے دوچار ہونا ہوگا ۔ دنیا میں جو تباہی ہے ‘ وہ تمام لوگوں پر آئے گی ‘ جو ظالم ہے اس پر تو اس لئے کہ اس نے ظلم کیا اور مظلوم پر اس لئے کہ اس نے ظلم کے خلاف کام نہ کیا اس لئے کہ دنیا میں انسان برائی کے نتائج کے لئے اجتماعی طور پر ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس لئے جس سوسائٹی میں دوسرے کے حقوق مارے جاتے ہیں وہ سوسائٹی دنیا وآخرت دونوں میں برے نتائج بھگتے گی ۔ یہی سنت الہی ہے اور یہی اللہ کا فیصلہ ہے ۔
Top