Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کردیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے ۔
(آیت) ” ان تجتنبوا کبآئر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم وندخلکم مدخلا کریما “۔ (4 : 31) ” ” اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کردیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے ۔ ذرا دیکھئے تو سہی ! کس قدر فیاض ہے یہ دین اور اس نظام میں کس قدر سہولتیں دی گئی ہیں ۔ ببانگ دہل دعوت دی جارہی ہے کہ انسانو ! آؤ بلندیوں کی طرف ‘ علو شان کی طرف پاکیزگی کی طرف اور ڈسپلن کی طرف ۔ یاد رکھو کہ تم پر جو فرائض عائد کئے جاتے ہیں ‘ تمہارے لئے جو حدود بھی مقرر ہوتے ہیں ‘ اور اوامر ونواہی کے جو جو احکام دیئے جاتے ہیں ‘ ان سب کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس جہان میں پاک وصاف نفوس پیدا کئے جائیں اور پھر ان نفوس طیبہ سے ایک پاک وصاف معاشرہ وجود میں لایا جائے ۔ لیکن یہ دعوت دیتے وقت اور یہ حدود وقیود عائد کرتے وقت انسان کی ضعیفی اور اس کی فطری کو تاہیاں بھی پیش نظر رکھی گئی ہیں ۔ یہ فرائض وواجبات اس کی فطری طاقت کے دائرے کے اندر اندر ہیں۔ ان میں اس کی فطرت ‘ اس کی طاقت کے حدود اور اس کے رجحانات کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ نیز انسانی زندگی کی راہوں کے نشیب و فراز کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام زندگی میں ‘ فرائض وواجبات عائد کرتے وقت ان فرائض اور انسانی مقدرت کے اندر ایک حسین امتزاج اور توازن رکھا گیا ہے ۔ انسانی ضروریات اور انسانی خواہشات کے درمیان بھی توازن موجود ہے ۔ میلانات اور رکاوٹوں کے درمیان بھی توازن ہے ‘ اوامر اور نواہی کے درمیان بھی توازن ہے ۔ ترغیب اور ترہیب کے درمیان توازن ہے ‘ اور اسی طرح ایک طرف عذاب الہی سے سخت ڈراوا ہے ۔ اگر معصیت کا ارتکاب کیا گیا اور دوسری جانب اگر کوئی پیشمان ہوجائے اور واپس لوٹنا چاہئے تو اس کے لئے بھی معافی کا دروازہ بند نہیں کیا گیا ۔ دین اسلام کا حقیقی مطلوب ومقصود صرف یہی ہے کہ وہ نفس انسانی کا قبلہ درست کرکے اس کا رخ اللہ کی طرف موڑ دے ‘ اور اس قبلہ رخی میں اسے مخلص ہونا چاہئے ۔ وہ حتی المقدور اپنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے ۔ اس کے بعد اللہ کی رحمت کی سرحد شروع ہوجاتی ہے ۔ اللہ کی رحمت ضعیف وناتواں سب کے شامل حال رہتی ہے ‘ وہ تقصیرات درگزر کرتی ہے ‘ وہ توبہ قبول کرتی ہے ‘ کمزوریوں سے صرف نظر کرتی ہے ‘ گناہ معاف کرتی ہے اور واپس آنے والوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہے اور بڑے انس و محبت سے آنے والوں کا استقبال کرتی ہے ۔ اس آیت میں حکم یہ دیا گیا ہے کہ تم کبائرے اجتناب کرو۔ گناہ کبیرہ ہمیشہ واضح ‘ کھلے اور عظیم ہوتے ہیں ‘ اس لئے کوئی شخص یہ عذر نہیں کرسکتا کہ اس نے ان گناہوں کا ارتکاب کیا جن کا اسے علم نہ تھا کہ یہ گناہ ہیں ‘ یا وہ سمجھا ہی نہیں ہے اور گناہ کا ارتکاب ہوگیا ہے ‘ اس لئے کہ جو شخص ان گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے ‘ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے گناہ سے بچنے اور اجتناب کرنے کی سعی کی ہے ‘ یا اس نے اس کے ارتکاب کے خلاف پورا مقابلہ کیا ہے لیکن ان گناہوں کے ارتکاب کے بعد بھی اگر ایک شخص صحیح طرح پورے اخلاص کے ساتھ توبہ کرے تو بھی اللہ کے ہاں معافی ہو سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ بھی فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت) ” والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون “۔ (3 : 135) ” ” اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہوجاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معا اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۔ ایسے لوگوں کی جزاء ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کے گناہ معاف کر دے گا ۔ “ اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے متقیوں میں شمار فرمایا ہے ۔ یہاں کبائر سے توبہ کی بحث نہیں ‘ یہاں مدعا یہ ہے کہ اگر کوئی کبائر سے اجتناب کرے تو اس کے چھوٹے گناہ براہ راست اللہ تعالیٰ معاف فرماتے ہیں ‘ یہاں اسی کا وعدہ کیا جارہا ہے اور مسلمانوں کو خوشخبری دی جا رہی ہے ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کبائر کیا ہیں جن کے ارتکاب سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ‘ احادیث میں ان کا ذکر ہوا ہے ‘ لیکن کسی حدیث میں ان کی پوری تعداد کا ذکر نہیں ہوا ‘ بلکہ موقعہ ومحل کے اعتبار سے جن گناہوں سے ممانعت کی زیادہ ضرورت تھی ان کا ذکر کردیا گیا ‘ اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی حدیث میں کبائر کی پوری فہرست دے دی گئی ہے ۔ ہاں مختلف احادیث میں مختلف نوعیت اور مختلف تعداد کو کبائر کہا گیا ہے اور یہ جرائم مختلف معاشروں اور مختلف سوسائٹیون میں مختلف ہو سکتے ہیں ۔ یہاں ہم حضرت عمر بن خطاب ؓ کا واقع نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں ‘ حضرت عمر ؓ معصیت کے معاملے میں بےحد حساس اور متشدد تھے اور وہ معاصی سے سخت اجتناب فرماتے تھے ، اس واقعے سے معلوم ہوگا کہ اسلام نے ان کے اس تیز احساس کو کس طرح سیدھے راستے پر ڈال دیا تھا ‘ اور ان کے ہاتھ میں یہ ترازو ‘ حساس ہونے کے باوجود کس قدر اعتدال پر تھا ‘ خصوصا جبکہ ان کا واسطہ اجتماعی امور اور انسان کے نفسیاتی معاملات سے پڑا کرتا تھا ۔ ابن جریر نے یعقوب ابن ابراہیم ، ابن علی ‘ ابن عون اور ۔۔۔۔۔۔۔ کے واسطے سے نقل کیا ہے کہ مصر میں بعض لوگوں نے عبداللہ ابن عمرو سے پوچھا کہ ہم اللہ جل شانہ کی کتاب میں بعض احکام پاتے ہیں کہ ان کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ ان پر عمل کیا جائے ‘ لیکن ان پر عمل نہیں کیا جاتا ‘ اس لئے ہم نے ارادہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں امیر المومنین سے ملیں ۔ چناچہ عبداللہ بن عمرو مدینہ آئے اور وہ لوگ بھی ان کے ساتھ آئے اور حضرت عمر ؓ سے ملے ۔ انہوں نے پوچھا تم کب آئے ہو ؟ انہوں نے کہا میں فلاں فلاں تاریخ کو آیا ہوں ‘ حضرت عمر ؓ نے پوچھا کہ کیا تم اجازت لے کر آئے ہو ؟ راوی کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ اس سوال کا حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓ نے کیا جواب دیا ۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ امیر المومنین ! مجھے مصر میں بعض لوگ ملے تھے ‘ انہوں نے سوال کیا تھا کہ ہم قرآن کریم میں بعض احکام پاتے ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا ‘ تو ان لوگوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : آپ ان لوگوں کو میرے لئے جمع کریں ۔ انہوں نے ان لوگوں کو جمع کیا ۔ ابو عون نے کہا : ” میرا خیال ہے کہ اس نے کہا بیٹھک میں جمع کیا ۔ اس پر انہوں نے ان میں سے ادنی تر آدمی سے بات کی اور کہا : میں خدا کو حاضر وناظر جان کر اور اسلام کا آپ پر جو حق اس کو مدنظر رکھتے ہوئے تم سے پوچھتا ہوں : ” کیا تم نے پور کے قرآن مجید کو پڑھ لیا ہے ؟ “ اس نے جواب دیا : ” ہاں “ اس پر انہوں نے فرمایا : ” کیا وہ پورا تمہارے ذہن میں ہے ؟ ‘ اس نے جواب دیا : ” خدا جانتا ہے نہیں ۔ “ اگر یہ شخص کہتا ہاں سب قرآن میرے ذہن میں ہے تو حضرت عمر یہیں سے اس کے ساتھ مباحثہ شروع کردیتے ۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے کہا : ” کیا سب قرآن تمہارے پیش نظر ہے ؟ “ کیا سب قرآن لفظ ” تمہیں یاد ہے ؟ کیا سب قرآن پر تم عمل پیرا ہو ؟ غرض ایسے ہی سوالات انہوں نے سب سے کئے اور آخری شخص تک وہ سب سے یہ سوالات کرتے چلے گئے ، اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا : ” تمہیں تمہاری ماں روئے : کیا تم عبداللہ بن عمرو کو اس بات کا مکلف بناتے ہو کہ وہ لوگوں کو مکمل طور پر قرآن کریم کے مطابق استوار کردے ۔ ہمارے اللہ کو یہ معلوم تھا کہ ہم میں گناہ گار بھی ہوں گے ۔ “ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ (آیت) ” ان تجتنبوا کبآئر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم “۔ (4 : 31) ” ” اگر تم کبائر سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا جارہا ہے تو ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے ۔ “ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا : ” کیا اہل مدینہ جانتے ہیں ۔ “ یا فرمایا : ” کیا کسی ایک شخص کو معلوم ہے کہ تم یہاں کس لئے آئے ہو ؟ “ تو انہوں نے کہا : ” نہیں۔ “ تو فرمایا اگر اہل مدینہ کو علم ہوتا تو میں تمہیں ضرور وعظ کرتا ۔ “ (لفظ احصیۃ فی اثرک کا مفہوم یہ ہے کہ کیا تم نے اپنی پوری زندگی میں قرآن کو نافذ کردیا ہے ۔ اور ابن کثیر نے اسے نقل کیا ہے اور کہا ہے : ” اسناد صحیح ہے ‘ متن حسن ہے ۔ اگرچہ یہ عمر سے حسن نے روایت کی ۔ اس میں لقطاع ہے ۔ بہرحال یہ مشہور ہے اور مشہور ہونے کی وجہ سے ہم اسے نقل کر رہے ہیں ۔ ) حضرت عمر ؓ جیسے حساس اور سخت گیر شخص بھی اس حکمت کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کر رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے شعور کو قرآن کریم نے استوار کردیا تھا ‘ اور ان کو گہری حکمت و دانائی عطا کردی تھی ۔ انہوں نے کیا خوب کہا ‘ ” ہمارے اللہ کو پیشگی علم تھا کہ ہم سے گناہوں کا صدور ہوگا “۔ اور ہم ظاہر ہے کہ اللہ کے علم کے خلاف تو ہو نہیں سکتے ‘ اس لئے مدار فیصلہ اس پر ہوگا کہ ہم نے کیا ارادہ کیا ؟ ہم نے کس قدر اپنے آپ کو درست کرنے کی نیت کی ‘ کس قدر کوشش کی کس قدر خواہشمند رہے ‘ کس قدر ہم نے پابندی شریعت کرنے کی سعی کی ‘ کس قدر جدوجہد اور وفاداری کرنے کی کوشش کی ؟ یہ ہے اسلامی نظام زندگی کا توازن ‘ سنجیدگی ‘ اعتدال اور ہر معاملے میں آسانی پیدا کرنے کی کوشش ۔
Top