Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 32
وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْا١ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ١ؕ وَ سْئَلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا
وَلَا : اور نہ تَتَمَنَّوْا : آرزو کرو مَا فَضَّلَ : جو بڑائی دی اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو اكْتَسَبُوْا : انہوں نے کمایا (اعمال) وَلِلنِّسَآءِ : اور عورتوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو اكْتَسَبْنَ : انہوں نے کمایا (ان کے عمل) وَسْئَلُوا : اور سوال کرو (مانگو) اللّٰهَ : اللہ مِنْ فَضْلِهٖ : اس کے فضل سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز عَلِيْمًا : جاننے والا
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی نسبت تمنا نہ کرو ‘ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے ‘ اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو ‘ یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے
(آیت) ” ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنسآء نصیب مما اکتسبن واسئلوا اللہ من فضلہ ان اللہ کان بکل شیء علیما (32) ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدن والا قربون والذین عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم ان اللہ کان علی کل شیء شھیدا (33) (4 : 32۔ 33) ” اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی نسبت تمنا نہ کرو ‘ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے ‘ اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو ‘ یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔ اور ہم نے ہر اس ترکے کے حقدار مقرر کردیئے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں ‘ اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو ‘ یقینا اللہ ہر چیز پر نگران ہے ۔ “ اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو جو فضیلت دی ہے اس کی تمنا کرنے سے اہل اسلام کو منع کیا گیا ہے اور یہ نص اس بارے میں عام ہے کہ یہ فضیلت کیسی بھی ہو ۔ مثلا عہدہ و مرتبہ میں فضیلت ‘ صلاحیت و قابلیت میں فضیلت ‘ مال واسباب میں فضیلت ‘ غرض اس زندگی میں نصیبہ کے اعتبار سے جو بھی فرق و امتیاز موجود ہو ‘ اس بارے میں دوسروں کے مقابلے میں تمنائیں نہیں کرنی چاہئیں ۔ جو کچھ مانگنا ہے ‘ اللہ سے مانگا جائے اور ہر امر کی طلب براہ راست اللہ سے ہونی چاہئے اور یہ نہ ہونا چاہئے کہ دوسروں کی فضیلتون پر خواہ مخواہ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر دل کی حسرتوں کی آماجگاہ بنا لے ‘ اور اس کے بعد اس غلط تمنا کے ساتھ حسد وکینہ اور بغض وانتقام کے برے جذبات اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ انسانوں پر حملہ آور ہوں ‘ یا ان کے اندر محرومیت ‘ ہلاکت اور تباہی کے جذبات اور مہلک احسانات پیدا ہوں ۔ ان جذبات کے بعد پھر ہر کسی کے خلاف بدظنی پیدا ہو ‘ اور پھر خدا اور مخلوق دونوں سے یہ شکایت پیدا ہو کہ انہیں کم دیا گیا ہے ۔ یہ صورت حال اس قدر تباہ کن ہوگی کہ معاشرے میں امن و سکون کا نام ونشان نہ رہے گا ‘ ہر شخص ذہنی پریشانی اور قلق کا شکار ہوگا ‘ انسانی قوتیں غلط رجحانات اور بدی کی راہوں میں صرف ہو کر ضائع ہوں گی جبکہ اس کے مقابلے میں یہ رجحان کہ سب کچھ عطا کرنے والا اللہ ہے ‘ وہی فضل وکرم اور داد ودہش کا منبع ہے کیا خوب ہے ۔ اور یہ عقیدہ کہ عطا اور داد ودہش سے اس کے خزانوں میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوتی ، اور اس کی درگاہ اس قدر وسیع ہے کہ اگر تمام کائنات کے سوالی اس پر اژدہام کرلیں تب بھی اس میں تنگی نہیں آتی ‘ امن و اطمینان بھی اس کی درگاہ سے ملتا ہے ‘ امید وآسرا بھی وہیں سے دستیاب ہے ۔ اسباب کی تلاش اور جدوجہد میں وہی مثبت راہ بتلاتا ہے ‘ جس راستے میں ایک دوسرے کے خلاف عداوت ‘ جلن ‘ اختلاف اور دشمنی بھی پیدا نہیں ہوتی ۔ ایک عام ہدایت دیتے ہوئے یہ آیت اپنے مفہوم میں عام ہے لیکن سیاق کلام میں اس کا مفہوم خاص ہوجاتا ہے اور اس کے اسباب نزول کے سلسلے میں بعض روایات بھی وارد ہیں جن کی وجہ سے آیت کا مفہوم عموم کسی قدر خاص ہو کر اس میں فرق آجاتا ہے اور بعض امور کی فضیلت متعین ہوجاتی ہے ۔ یہ آیت انہیں امور کو متعین کرتی ہے ۔ مثلا مردوں اور عورتوں کے حصے میں فرق ہے ۔ مردوں کا حصہ میراث میں زیادہ متعین ہوا ہے ‘ جس کا اظہار اس آیت سے بھی ہوتا ہے اور سیاق کلام سے بھی ہوتا ہے اور سیاق کلام سے بھی ہوتا ہے ۔ لیکن یہ پہلو یعنی بعض امور میں مرد وزن کے درمیان مقام و مرتبہ میں خصوصی تفاوت اس آیت کی عمومیت پر اثر انداز نہیں ہوتی اس لئے کہ مرد و زن کے تعلقات کی درستی اور ان کے درمیان باہم مکمل تعاون اور تکافل اور اسلامی معاشرے میں ایک خاندان کی تشکیل اور افراد معاشرہ کی باہم رضا مندی اور پورے معاشرے کی درمیان نظم کے قیام کے لئے اس تفاوت کی بڑی اہمیت ہے ۔ اس لئے کہ اس تفاوت اور فرق مراتب کی وجہ سے فریقین کے فرائض اور ذمہ داریاں متعین ہوجاتی ہیں لیکن اس خصوصی تفاوت کے باوجود آیت کی عمومیت متاثر نہیں ہوتی ‘ اس لئے روایات میں جو خاص اسباب نزول بیان ہوئے ہیں وہ آیت کے عمومی مفہوم کو متاثر نہیں کرتے ۔ امام احمد نے سفیان ‘ ابو نجیح ‘ مجاہد کی سند کے ساتھ حضرت ام سلمہ ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ ام سلمہ ؓ نے حضور ﷺ کے سامنے یہ عرض کی کہ حضور ! مرد جہاد کرتے ہیں لیکن ہم عورتیں جہاد میں شریک نہیں ہوتیں ‘ اور میراث میں بھی ہمارا حصہ نصف ہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ” اور جو اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو ۔ “ امام ابو حاتم ‘ ابن جریر ‘ ابن مردویہ اور حاکم نے مستدرک میں امام ثوری کی حدیث بروایت ابن جیح ‘ مجاہد حضرت ام سلمہ ؓ سے یوں روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے کہا کہ ہم عورتیں جنگ میں حصہ نہیں لیتیں تاکہ ہم شہید ہوں اور میراث میں بھی ہمارا پورا حصہ نہیں ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر اواثنی) ” میں تم میں کسی کام کرنے والے کے کام کو ضائع نہیں کرتا ‘ مرد ہو یا عورت۔ “ حضرت سدی اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے یہ کہا تھا کہ ہمارے لئے عورتوں کے ثواب کے مقابلے میں دوگنا ثواب ہونا چاہئے اس لئے کہ ازروئے فطرت ہم جنگ نہیں لڑ سکتیں لیکن اگر اللہ نے ہم پر جہاد فرض کیا ہوتا تو ہم جنگ میں حصہ لیتیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان خیالات کی تردید فرمائی اور حکم دیا کہ وہ میرے فضل کے بارے میں دعا کریں ‘ اور یہ فضل دنیا جیسا عارضی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ ایسی ہی روایت قتادہ سے بھی مروی ہے ۔ بعض دوسری روایات بھی ہیں جو اس آیت کے مفہوم کی عمومیت کو ظاہر کرتی ہیں ۔ علی ابن ابو طلحہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے ۔ انہوں نے فرمایا : ” کوئی شخص یہ تمنا نہ کرے کہ فلاں شخص کا مال اور اس کی عورت اسے ملیں ۔ اللہ نے اس سے منع کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کے فضل کے طلبگار ہوں ۔ حسن ‘ محمد بن سیرین ‘ عطاء اور ضحاک سے بھی ایسی ہی تفسیر مروی ہے ۔ مرد وزن کے درمیان زمانہ جاہلیت میں جو تعلقات پائے جاتے تھے ‘ ان کے حوالے سے دیکھا جائے تو محولہ بالا پہلے اقوال میں آثار جاہلیت کا پر تو نظر آتا ہے جبکہ دوسری جانب مرد وزن کے درمیان جذبہ مسابقت اور تنافس اس بات کا نتیجہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق عطا کئے اور جو آزادیاں عنایت کیں اس کے نتیجے میں اس قسم کے تنافس کا پیدا ہونا ایک قدری امر تھا ‘ اس لئے کہ اسلام نے عورت کو جو حقوق عطا کئے وہ اصول کرامت انسانی اور ہر جنس اور ہر گروہ کے ساتھ منصفانہ سلوک پر مبنی تھے ۔ اور یہ منصفانہ رویہ ہر شخص کو یوں سکھایا گیا کہ اس نے خود اپنی ذات کے ساتھ بھی انصاف کرنا تھا ۔ اسلام کے اہداف یہ ہیں کہ وہ اپنے متکافل اور معاون نظام زندگی کو ۔۔۔۔۔۔۔ نافذ کرنا چاہتا ہے ۔ اس کا مقصد نہ مردوں کی حمایت ہے اور نہ عورتوں کی حمایت کرنا ہے ۔ بلکہ اس کے پیش نظر انسان من حیث الانسان ہے ۔ اور اسلامی معاشرہ کی تخلیق ہے ۔ اسلام علی الاطلاق اور علی العموم انسانیت کی اصلاح اور بھلائی کے لئے کام کرتا ہے ۔ وہ اس دنیا میں عمومی اور بےقید عادلانہ نظام چاہتا ہے ‘ جو ہمہ جہت اور ہمہ پہلو عادلانہ اسباب پر مبنی ہو ۔ اسلامی نظام زندگی ‘ فرائض وواجبات کے تعین میں راہ فطرت پر چلتا ہے ۔ اسی طرح وہ مرد وزن کے حصہ رسدی کے تعین میں بھی دونوں کی فطری صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتا ہے ۔ اور فطرت نے ابتدائے تخلیق سے مرد کو مرد عورت کو عورت قرار دیا ۔ ان میں سے ہر ایک کے اندر متعین صلاحیتیں پیدا کیں ۔ اور ان خاص صلاحیتوں کے مطابق ان کے فرائض متعین کئے ۔ ان فرائض کے تعین میں کسی مخصوص مقصد کو سامنے نہیں رکھا گیا ‘ نہ کسی ایک جنس کو دوسری پر ترجیح دی گئی ہے ۔ بلکہ انسان کی پوری زندگی کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ جس کا قیام اور تنظیم اور جس کی خصوصیات کی تکمیل اور جس کے مقاصد کی تکمیل اسی صورت میں ممکن ہے کہ مرد وزن کے درمیان فرق و امتیاز ہو ‘ اور یہ فرق و امتیاز ان دونوں کی خصوصیات اور صلاحیتوں اور فرائض وواجبات کے درمیان فرق و امتیاز کے مطابق ہو تاکہ وہ خلافت فی الارض اور اللہ کی بندگی کے اعلی مقاصد پورے کرسکیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حیات انسانی کے عظیم ادارے کی تنظیم اور تکمیل کے لئے مرد و زن کے درمیان تنوع پیدا کیا ۔ ان کو مختلف صلاحیتیں دیں ۔ ان کے لئے مختلف فرائض منصبی مقرر کئے ۔ اور ان کے لئے مختلف حقوق متعین کئے اور جدا جدا دائرہ کار کا تعین کیا ۔ تاکہ کاروان زندگی صحیح سمت پر سفر جاری رکھ سکے ۔ انسان جب غیر جانبداری سے مکمل اسلامی نظام زندگی کا مطالعہ کرے ‘ خصوصا اس نظام میں مرد وزن کے باہمی تعلقات کی نوعیت کا گہرا جائزہ لے تو نہ اس نزاع کا کوئی موقعہ رہتا ہے جو قدیم روایات میں پایا جاتا ہے اور نہ ان جدید مجادلات اور نزاعات کی کوئی حقیقت رہتی ہے ‘ جو آج کل کے دور میں مردوں اور عورتوں کے درمیان بےفائدہ ہوجاتے ہیں اور جس کا شور وغوغا کبھی اس قدر بلند ہوجاتا ہے جس میں سنجیدہ مردوں اور عورتوں کی آواز دب کر رہ جاتی ہے ۔ یہ ایک عبث کوشش ہوگی کہ ہم صورت حال کی تصویر کشی یوں کریں کہ گویا مرد اور عورت کے درمیان ایک معرکہ کار زار گرم ہے ۔ اس میں ہر شخص اپنا اپنا موقف بیان کر رہا ہے ۔ ہر شخص جنگ کو جیتنے کی سعی میں لگا ہوا ہے ۔ کچھ سنجیدہ اہل قلم بھی بعض اوقات ایسا موقف اختیار کرتے ہیں کہ وہ عورت کی ذات میں نقائص نکالتے ہیں ‘ اس سے کمالات کی نفی کرتے ہیں اور اس کی طرف ہر عیب کی نسبت کرتے ہیں ۔ یہ کام وہ علمی بحث و مباحثہ کے طور پر کریں یا اسلامی نقطہ نظر سے کریں ۔ دونوں صورتیں حقیقت نفس الامری سے دور ہیں ۔ مسئلہ دراصل دونوں فریقوں کے درمیان معرکہ آرائی کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ دونوں اصناف کی نوعیت اور تقسیم کار کا ہے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ تکافل اور تعاون کا ہے اور اسلامی نظام زندگی کے مطابق ان کے درمیان قیام عدل کا ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ جاہلی معاشروں کے اندر مرد وزن کے درمیان کوئی معرکہ آرائی ہو ۔ اس لئے کہ جاہلی معاشرت اپنے لئے نظام حیات از خود تجویز کرتے ہیں ۔ ان جاہلی معاشروں کا نظام خالص ذاتی اور نبوی اغراض ومقاصد پر مبنی ہوتا ہے یا ان نظاموں میں بعض غالب طبقات کے مفادات کو مدنظر رکھا گیا ہوتا ہے یا بعض خاندانوں اور بعض افراد کے مفادات کی حفاظت مطلوب ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان جاہلی نظاموں میں انسان کی اصلیت اور جاہلیت کی نسبت جہالت کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کو غصب کیا گیا ہوتا ہے یا ان میں مرد و زن کے فرائض طبیعی کو نظر انداز کرکے ان کے حقوق وفرائض متعین کئے ہوتے ہیں یا ان میں کام کرنے والی عورت کے حقوق اس ہی جیسے کام کرنے والے مرد کے حقوق کے مقابلے میں کم رکھے گئے ہوتے ہیں ۔ اور یہ کمی محض اقتصادی وجوہات سے ہوتی ہے یا مثلا تقسیم میراث کے میدان اور مالی تصرفات کے شعبے میں عورتوں کے حقوق کم رکھے گئے ہوتے ہیں جس طرح جدید جاہلی معاشروں میں بھی صورت حال ایسی ہی ہے ۔ رہا اسلامی نظام زندگی تو اس میں کہیں بھی ایسی صورت حال نہیں ہے ۔ اس میں اولا مرد وزن کے درمیان کوئی معرکہ برپا نہیں ہوتا ۔ اس میں دنیاوی مفادات کی بنا پر ایک دوسرے کے مقابلے میں کوئی دشمنی نہیں ہوتی ۔ اس میں نہ مرد عورت کے مفادات پر حملہ آور ہو کر اسے لوٹتا ہے اور نہ عورت مرد کے مفادات پر حملہ آور ہو کر اسے لوٹتی ہے ۔ نہ وہ ایک دوسرے کی کمزوریوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اور انہیں اجاگر کرتے ہیں ۔ اسلامی نظام میں اس قسم کے افکار کی بھی گنجائش نہیں ہے ۔ مرد وزن کے درمیان طبیعی خصائص میں اس بین فرق و امتیاز کے باوجود مرد وزن کے درمیان فرائض اور واجبات کا کوئی فرق نہیں ہے اور یہ کہ ان فرائض واجبات وجہ سے مرد وزن کے منصب اور حیثیت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ اس قسم کے افکار غلط فہمی پر مبنی ہیں ‘ اور اپنی جگہ از کار رفتہ بھی ہیں ۔ اسلامی نظام کے بارے میں یہ افکار جہالت پر مبنی ہیں ‘ اور مرد وزن کی فطری ساخت اور طبیعی وظائف کے بارے میں گہری لاعلمی کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں ۔ ذرا جہاد کے معاملے پر غور فرمائیے ! جہاد اور شہادت فی سبیل اللہ ‘ اس میں عورت کی شرکت اور حصول ثواب کے مسائل کے معاملے میں دور اول کی صالح عورتوں کے دل میں تشویش تھی ۔ ان صالح عورتوں کی تشویش کا تعلق صرف آخروی نقطہ نظر سے تھا ۔ اس کا تعلق اس دنیا میں حیثیت یا برتری سے ہر گز نہ تھا ۔ بعض اوقات اس فرق و امتیاز کا تعلق دنیاوی امور سے بھی تھا مثلا وراثت میں مرد کا حصہ عورت کے مقابلے میں زیادہ رکھا گیا تھا ‘ زمانہ قدیم سے مردوں اور عورتوں کے دلوں میں اس امتیاز کے بارے میں تشویش تھی ۔ آج کے دور جدید میں بھی یہ اور اس قسم کے دوسرے مسائل دلوں میں کھٹکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فعل جہاد نہ عورت پر فرض کیا ہے اور نہ ہی اس کے لئے جہاد میں شرکت کو حرام قرار دیا ہے ۔ نیز اگر فریضہ جہاد میں عورت کی ضرورت ہو اور مرد آبادی اس کے لئے کفایت نہ کرتی ہو تو عورت کو اس سے منع بھی نہیں کیا گیا ۔ نیز تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض عورتیں جہاد میں شریک بھی ہوئیں ۔ انہوں نے تیمار داری اور باربرداری کے علاوہ جہاد میں بھی حصہ لیا لیکن ایسے واقعات قلیل اور نادر ہیں اور انتہائی ضرورت کے اوقات میں پیش آئے ، عمومی اصول اور معمول یہ نہ تھا ۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں پر جہاد فرض قرار دیا ‘ اس طرح عورتوں پر اسے فرض نہیں کیا گیا ۔ عورتوں پر جہاد اس لئے نہیں فرض کیا گیا کہ وہ مجاہدین کو پیدا کرنے کا ذریعہ (Producer) ہیں ۔ عورت کی تخلیق ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ مردوں کو پیدا کرے ۔ اس کی عضویاتی ساخت اور نفسیاتی میلان ہی اس طرف ہے کہ وہ مجاہدین پیدا کرے اور انہیں جہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار کرے ‘ انہیں اچھی زندگی بسر کرنے کے لئے تیار کرے۔ اس میدان میں عورت زیادہ قوت اور خوش اسلوبی سے کام کرسکتی ہے کہ اس کی عضویاتی اور نفسیاتی تشکیل ہی اس مقصد کے لئے ہوئی ہے ۔ یہ بات صرف عورت کی عضویاتی ساخت کی بنا پر ہی نہیں کہی جارہی بلکہ علی الخصوص اس کے اندرونی نظام میں خلیات کی پیوند کاری یعنی ۔ یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے مرد ہے یا عورت ہے عورت پیدائش کے وقت سے ہی اس فریضہ کے لئے واحد ذمہ دار ہے ۔ (دیکھئے فصل المراۃ وعلاقہ الجنین ۔ جو کتاب الاسلام ومشکلات الحصارہ کا حصہ ہے) ظاہری اعظاء کے افعال تو بعد میں یکے بعد دیگرے کام کرتے ہیں اور اس عرصہ کے بعد عظیم نفسیاتی اثرات حاملہ عورت پر مرتب ہوتے ہیں لہذا اس کی جانب سے امت مسلمہ کے لئے جہاد میں شرک کے مقالبے میں یہ عظیم فریضہ سرانجام دینا زیادہ نفع بخش ہے ۔ اس لئے کہ جب جنگ کا طوفان بڑی تعداد میں مردون کو فنا کردیتا ہے تو عورت مزید آبادی کی پیداوار کے ذریعے کے طور پر اپنا فرض ادا کرتی ہے ۔ اور وہ مزید مرد پیدا کرکے خلا کو پر کرتی ہے ۔ لیکن اگر جنگ کا بھوت مرد اور عورت دونوں ہی کو کھالے یا وہ مردوں کو چھوڑ کر صرف عورتوں کو اچک لے اور مردوں کو باقی رکھے تو یہ صورت باقی نہیں رہتی ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی میں اگر ایک مرد ہے اور وہ پوری رخصت کو کام میں لائے تو وہ بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرسکتا ہے ۔ اور بیک وقت وہ چار عورتیں آبادی میں اضافہ کرسکتی ہیں ۔ اور یوں وہ کمی پوری ہو سکتی ہے ۔ (اگرچہ ایک عرصہ بعد) جو جہاد و قتال کی وجہ سے واقع ہوا کرتی ہے ۔ لیکن اگر ایک ہزار افراد بھی ایک عورت کے ساتھ ہمبستری کریں تو بھی وہ عورت اسی مقدار میں بچے دے سکتی ہے جو ایک مرد کی ہمبستری سے دے سکتی ہے ۔ عورتوں کی کمی کی صورت میں آبادی کی کمی ہر گز پوری نہ ہو سکے گی ۔ اور یہ تو اللہ تعالیٰ کی بےپناہ حکمتوں میں سے ایک ہی نکتہ ہے جو اس حکم کی تہہ میں پوشیدہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو جہاد سے معاف رکھا ۔ اس حکم کے بیشمار منافع ہیں۔ مثلا اسلامی معاشرہ میں اخلاقی پاکیزگی کا اہتمام ‘ اسلامی معاشرے کے مزاج کو مدنظر رکھنا انسان کے دونوں اصناف کے لئے علیحدہ علیحدہ دائرہ کار کی نشاندہی وغیرہ جن کے بارے میں تفصیلات بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس نکتے پر خاص اور طویل بحث کی ضرورت ہے ۔ (دیکھئے کتاب ” نحو مجتمع اسلامی “ کی فصل ” نظام عائلی “ ) رہا معاملہ اجر وثواب کا تو اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت دونوں کو اس کی پوری پوری یقین دہانی کرائی ہے ‘ بشرطیکہ وہ اپنے فرائض وواجبات کو خدا کوفی سے بحسن و خوبی سرانجام دیں اور ان میں وہ درجہ احسان تک پہنچ جائیں ۔ رہا مسئلہ حصص میراث کا تو بادی النظر میں ” مرد کے لئے دو عورتوں کے برابر حصہ ہوگا “ کے اصول سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت پر مرد کو ترجیح دی گئی ہے ۔ لیکن مرد اور عورت کے پورے فرائض اور واجبات پر اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو بہت جلد اس رائے کی سطحیت آشکارا ہوجاتی ہے ۔ آمدن اور حصص کا تعین ذمہ داریوں کو دیکھ کر کیا گیا ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کا یہ ایک مستقل اصول ہے کہ اس میں مفادات کا تعین ذمہ داریوں کی نسبت سے کیا جاتا ہے ۔ مرد پر یہ بات فرض کی گئی ہے کہ وہ عورت کو مہر ادا کرے جبکہ اگر کوئی امیر سے امیر عورت بھی ہو تو اس پر مرد کے لئے مہر واجب نہیں کیا گیا ۔ پھر مرد پر عورت اور اس کی اولاد دونوں کے اخراجات عائد کئے گئے ہیں جبکہ عورت پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کی گئی اگرچہ وہ مالدار ہو ۔ مرد اگر ان فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو اسے سزائے قید دی جاسکتی ہے ۔ پھر مرد پر مختلف قسم کی دیات اور تاوان بھی عائد ہوتے ہیں (یعنی رخموں کے تاوان) اور یہ تاوان اسے اجتماعی طور پر خاندان کا فرد ہونے کی حیثیت سے ادا کرنے ہوتے ہیں جبکہ دیات اور ارش کے تاوانوں سے عورت کو معاف رکھا گیا ہے ۔ مرد پر اپنے خاندان کے ناداروں اور مساکین کا نفقہ بھی واجب ہے خواہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں بشرطیکہ ہو کمانے پر قادر نہ ہوں ۔ یہ فریضہ قریب سے قریب رشتہ داروں سے شروع ہوتا ہے اور عورت اس قسم کے عام خاندانی فرائض سے مستثنی ہے ۔ یہاں تک کہ جس خاوند سے اس کی اولاد پیدا ہوتی ہے ‘ اس کے ساتھ بھی اگر اس کا معاشی اشتراک نہ ہو یا طلاق ہوگئی ہو تو بچے کی پرورش کے انتظامات بھی اس مرد پر عائد ہوتے ہیں اور وہ خود اس عورت کے اخراجات کے ساتھ اسے ادا کرنے کا پابند ہے ۔ غرض اسلامی نظام ایک مکمل اور جامع نظام ہے اور اس میں تقسیم میراث کے وقت مرد و عورت کی مالی ذمہ داریوں کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ شریعت نے ذمہ داریوں کا جو بھاری بوجھ مرد پر ڈالا ہے ‘ اس کی نسبت سے میراث میں مرد کا حصہ کوئی زیادہ نہیں ہے ۔ ان تمام امور میں مرد کی معاشی سرگرمیوں کی زیادہ قدرت اور مہارت کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ اور عورت کے زیادہ سے زیادہ آرام اور اطمینان کو پیش نظر رکھا گیا ہے تاکہ وہ دل جمعی کے ساتھ انسان کے قیمتی سرمائے یعنی بچوں کی نگہداشت کرسکے ‘ جو ہر قسم کے مال ‘ ہر قسم کے سازوسامان اور ہر قسم کی مفید عام ہنر مندی سے زیادہ قیمتی ہے ۔ اس غور و فکر کے نتیجے میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام زندگی ‘ جس کی تشکیل ایک حکیم وعلیم ذات نے فرمائی ہے ۔ اس میں وسیع توازن اور گہری حکمت پوشیدہ ہے اور اسلام نے اس آیت میں عورت کو انفرادی ملکیت کا حق ان الفاظ میں دیا ہے ۔ (آیت) ” للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن “۔ (4 : 32) ” جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے ۔ “ ۔۔۔۔۔ اور یہ وہ حق ہے جو عربی جاہلیت تمام دوسری جاہلیتوں کی طرح ‘ عورت کو عطا کرنے میں ہمیشہ ہچکچاتی رہی ہے اور کبھی بھی عورت کے اس حق کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا ۔ شاذو نادر ہی کبھی عورت کو یہ حق دیا گیا اور آج بھی عورت کے اس حق کو مارنے کے حیلے کئے جاتے ہیں جبکہ خود عورت ذات کو اسی طرح وراثت میں پکڑا جاتا ہے اور میراث کی طرح تقسیم کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ حق ہے جو جاہلیت جدیدہ آج بھی عورت کو دینے میں ہچکچا رہی ہے ‘ حالانکہ اس کا دعوی یہ ہے کہ اس نے عورت کو وہ حقوق عطا کئے جو اس کو کبھی عطا نہ کئے گئے تھے ۔ جاہلیت جدیدہ میں بعض قوانین ایسے ہیں کہ سب سے بڑے مرد وارث کو تمام میراث کا حقدار سمجھتے ہیں اور بعض قوانین یہ لازم کرتے ہیں کہ عورت جو مالی معاہدہ بھی کرے اس کی منظوری ولی کی طرف سے از روئے قانون ضروری ہے ۔ اور یہ قوانین بیوی کی جانب سے خاص اپنی جائیداد کے بارے میں بھی کسی قسم کا تصرف صرف اس وقت جائز کرتے ہیں جب خاوند اس کی منظوری دے ۔ اور یہ ناقص حقوق جاہلیت جدیدہ نے اسے تب دئیے جب اس نے ان کے حصول کے لئے تحریکات چلائیں عظیم انقلابات برپا کئے اور اس کے نتجیے میں عورت کی زندگی کا نظم برباد ہوا ‘ خاندانی نظام ختم ہوگیا اور عام اخلاقی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی ۔ لیکن اسلام نے ابتداء ہی سے عورت کو یہ حقوق از خود دے دئیے بغیر اس کے کہ وہ ان کے حصول کے کوئی چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کرے ۔ قبل اس کے کہ وہ بغاوت پر اتر آئے قبل اس کے کہ وہ ان کے حصول کے لئے عورتوں کی تنظمیں قائم کرے اور قبل اس کے کہ وہ پارلیمنٹ کی ممبری تک پہنچ کر ان کا مطالبہ کرے ۔ یہ حقوق اسلام نے اسے محض انسانیت کے احترام میں عطاکئے یہ اسے محض اس لئے دیئے گئے کہ نفس انسانی کے دو اصناف ہیں مرد اور عورت اور اس لئے دیئے گئے کہ اسلام نے اپنے اجتماعی نظام کی اکائی ایک خاندان کو قرار دیا ہے ۔ اور اس خاندانی نظام کو باہم محبت ‘ باہم الفت کے ساتھ مرد و عورت کے درمیان مساوات کے اصول پر مربوط کردیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسب وکمائی اور ملکیت کے نقطہ نظر سے اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو از روئے اصول مکمل طور پر مساوی حقوق دیئے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالواحد وانی اپنی کتاب ” انسانی حقوق “ میں اسلام اور جدید مغربی ممالک میں عورت کے حقوق کے بارے میں تقابلی مطالعہ یوں پیش کرتے ہیں ” اسلام نے مرد اور عورت کو قانون کے نقطہ نظر سے مساوی حقوق دیئے ‘ اور تمام شہری حقوق میں مرد اور عورت کو برابر قرار دیا ‘ اور اس سلسلے میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کے درمیان کوئی فرق امتیاز نہیں برتا گیا ۔ اسلام اور پوری مسیحی دنیا کے درمیان شادی کی نوعیت میں بہت بڑا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اسلامی قانون کے مطابق شادی کی وجہ سے نہ عورت کا نام ختم ہوتا ہے نہ اس کی شخصیت ختم ہوتی ہے ‘ نہ اس کے معاملات طے کرنے کی حیثیت میں کوئی فرق آتا ہے ‘ اور نہ اس کا حق ملکیت محدود ہوتا ہے بلکہ ایک مسلمان عورت کا شادی کے بعد نام بھی وہی رہتا ہے ‘ اس کی قانونی اور شہری حیثیت بھی اپنی جگہ بحال رہتی ہے اور تمام قانونی حقوق اسے حاصل رہتے ہیں ۔ اس پر وہ تمام ذمہ داریاں عائد رہتی ہیں جو پہلے اس پر عائد تھیں ۔ وہ اپنے معاملات میں ہر قسم کے فیصلے اور معاہدے کرسکتی ہے ۔ مثلا خرید وفروخت ‘ رہن ‘ ہبہ اور وصیت وغیرہ ۔ وہ جن چیزوں کی مالک ہوتی ہے ‘ نکاح کی وجہ سے اس کے حق ملکیت پر کوئی قید عائد نہیں ہوتی ۔ غرض اسلام میں شادی کے بعد بھی عورت کو مستقل قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور وہ مستقل شخصیت کی مالک ہوتی ہے ‘ اس کی جائیداد اس کے شوہر کی جائیداد سے علیحدہ خود اس کی ملکیت ہوتی ہے ۔ خاوند کو کوئی قانونی اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر حاصل کرے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (آیت) ” وان اردتم استبدال زوج مکان زوج واتیتم احدھن قنطارا فلا تاخذوا منہ شیئا اتاخذونہ بھتانا واثما مبینا (20) وکیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض واخذن منکم میثاقا غلیظا “۔ (21) (4 : 20۔ 21) ” اور اگر تم بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ‘ اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ‘ کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لوگے ؟ اور آخر تم اسے کس طرح لے لوگے جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوچکے ہو ۔ اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۔ “ اگر کسی خاوند کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی مطلقہ بیوی سے وہ دولت واپس لے جو اس نے خود اسے عطا کی تھی تو اس کے لئے خود اس عورت کی مملوکہ دولت کا ہڑپ کرلینا بطریق اولی جائز نہیں ہے الا یہ کہ یہ سب کچھ اس کی مرضی سے ہو ‘ اور وہ کوئی چیز اپنی خوشی سے عطا کر رہی ہو اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے ۔ (آیت) ” واتوالنساء صدقتھن نحلۃ فان طبن لکم عن شیء منہ نفسا فکلوہ ھنیئا مریئا (4 : 4) ” اور عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی کے ساتھ ادا کرو ‘ البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کردیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو “۔ اور مرد اپنی بیوی کی دولت میں کسی قسم کا تصرف بھی نہیں کرسکتا ‘ الا یہ کہ وہ اسے اس کی اجازت دے دے یا اس نے اپنے خاوند کو کسی قسم کے تصرف اور معاہدے کی اجازت دے دی ہو ۔ لیکن ایسے حالات میں بھی اس کو اجازت ہے کہ وہ اپنے دیئے ہوئے ان اختیارات کو واپس لے لے اور جس دوسرے شخص کو چاہے وہ اختیارات دے دے ۔ “ ” یہ وہ مقام بلند ہے جس تک عورت آج کے جدید دور جمہوریت میں ان ممالک میں بھی نہیں پہنچ سکی جو اس کرہ ارض پر انتہائی ترقی یافتہ ممالک ہیں ۔ فرانس میں ماضی قریب تک عورتوں کی حالت یہ تھی کہ گویا وہ باندیاں لونڈیاں ہیں بلکہ ابھی تک یہ صورت حال موجود ہے ۔ قانون نے کئی شہری معاملات میں اس کے حقوق سلب کئے ہوئے ہیں ۔ مثلا فرانس کے سول کوڈ کی دفعہ 217 میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ ” شادی شدہ عورت ‘ چاہے نکاح کی شرائط میں یہ طے کردیا گیا ہو کہ عورت اور مرد کی ملکیت علیحدہ علیحدہ ہوگی اس کے باوجود وہ اپنی جائیداد ہبہ نہیں کرسکتی نہ اس کی ملکیت منتقل کرسکتی ہے ‘ نہ رہن کرسکتی ہے ‘ نہ وہ بالعوض یا بلاعوض تملیک کرسکتی ہے ‘ الا یہ کہ اس کا شوہر کسی معاہدے میں اس کے ساتھ شریک ہو ‘ یا یہ کہ وہ تحریری طور پر ان امور میں سے کسی امر کی اجازت دے دے ۔ “ ” بعد کے ادوار میں اس دفعہ میں متعدد ترمیمیں اور تبدیلیاں کی گئیں لیکن اس قانون کے کافی آثار ابھی تک باقی ہیں اور فرانسیسی عورت پر قانونی پابندی عائد کرتا ہے کہ عورت شادی ہوتے ہی اپنا اور اپنے خاندان کا نام کھو دیتی ہے ‘ اس کے بعد اس کا نام فلاں بنت فلاں نہیں لیا جاتا بلکہ اسے بیگم فلاں سے پکارا جاتا ہے یا اس کے نام کے ساتھ اس کے خاوند کا نام لگ جاتا ہے ۔ لیکن اس کے نام کے ساتھ اس کے باپ اور اس کے خاندان کا نام نہیں لیا جاتا ۔ اس طرح عورت کا نام ختم ہونے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ عورت کے بعد عورت کی شہری اور قانون حیثیت ختم ہوگئی ہے اور وہ اپنے خاوند کی شخصیت میں گم ہوگئی ہے ۔ “ ” مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے اکثر خواتین ان مغربی خواتین کے ساتھ یک جہتی کے طور پر اپنے لئے بھی اس کم تر اور ثانوی حیثیت کو قبول کر لینی ہیں اور اپنا نام لینے کے بجائے اپنے آپ کو بیگم فلاں ظاہر کرتی ہیں یا اپنے نام کے ساتھ اپنے خاوند اور اس کے خاندان کا نام چسپاں کرلیتی ہیں اور اپنے نام کے ساتھ اپنے باپ اور اپنے خاندان کا نام لینا پسند نہیں کرتیں ‘ جیسا کہ اسلامی نظام زندگی کی خواہش اور مزاج ہے ۔ اس کو کہتے ہیں بھونڈی نقل یا اندھی تقلید ۔ لیکن تعجب یہ ہے کہ جو خواتین مغربی عورت کی غلامی کی بھی نقالی کرتی ہیں ‘ ہمارے ہاں وہ عورت کی آزادی اور حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں ‘ اور عورتوں کو مردوں کے ساتھ تشبہ کرنے پر ابھارتی اور حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں ‘ حالانکہ درحقیقت وہ ان بہترین حقوق سے دستبردار ہو رہی ہوتی ہیں جو اسلام نے انہیں عطا کئے تھے حالانکہ اسلام نے ان کی قدر ومنزلت میں اضافہ کیا تھا اور ان حقوق میں انہیں مردوں کے برابر حیثیت دی تھی ۔ “ (صفحات 59 تا 61) اب ہم اس سبق کی آخری آیت کی طرف آتے ہیں ۔ اس میں ان معاہدوں کے احکام بتائے گئے ہیں جو احکام میراث کے آنے سے پہلے ہوئے تھے ۔ اسلام کے نظام وراثت کو رشتہ داری اور قرابت کے اساس پر مرتب کیا گیا جبکہ دوستی اور ولایت کے یہ معاہدے قرابت داری کے دائرے سے باہر بھی ہوا کرتے تھے جیسا کہ تفصیلات آرہی ہیں۔
Top