Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 34
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا
اَلرِّجَالُ
: مرد
قَوّٰمُوْنَ
: حاکم۔ نگران
عَلَي
: پر
النِّسَآءِ
: عورتیں
بِمَا
: اس لیے کہ
فَضَّلَ
: فضیلت دی
اللّٰهُ
: اللہ
بَعْضَھُمْ
: ان میں سے بعض
عَلٰي
: پر
بَعْضٍ
: بعض
وَّبِمَآ
: اور اس لیے کہ
اَنْفَقُوْا
: انہوں نے خرچ کیے
مِنْ
: سے
اَمْوَالِهِمْ
: اپنے مال
فَالصّٰلِحٰتُ
: پس نیکو کار عورتیں
قٰنِتٰتٌ
: تابع فرمان
حٰفِظٰتٌ
: نگہبانی کرنے والیاں
لِّلْغَيْبِ
: پیٹھ پیچھے
بِمَا
: اس سے جو
حَفِظَ
: حفاطت کی
اللّٰهُ
: اللہ
وَالّٰتِيْ
: اور وہ جو
تَخَافُوْنَ
: تم ڈرتے ہو
نُشُوْزَھُنَّ
: ان کی بدخوئی
فَعِظُوْھُنَّ
: پس امن کو سمجھاؤ
وَاهْجُرُوْھُنَّ
: اور ان کو تنہا چھوڑ دو
فِي الْمَضَاجِعِ
: خواب گاہوں میں
وَاضْرِبُوْھُنَّ
: اور ان کو مارو
فَاِنْ
: پھر اگر
اَطَعْنَكُمْ
: وہ تمہارا کہا مانیں
فَلَا تَبْغُوْا
: تو نہ تلاش کرو
عَلَيْهِنَّ
: ان پر
سَبِيْلًا
: کوئی راہ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيًّا
: سب سے اعلی
كَبِيْرًا
: سب سے بڑا
” مرد عورتوں پر قوام ہیں ‘ اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ‘ اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں ۔ پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں ۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو ‘ پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لئے بہانے تلاش نہ کرو ‘ یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے ۔ اور تم لوگوں کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ ہو تو ایک حکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو ‘ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت پیدا کر دے گا ‘ اللہ سب کچھ جانتا اور باخبر ہے
ان قرآنی نصوص کی تفسیر اور تشریح شروع کرنے پہلے اور ان کی نفسیاتی اور اجتماعی اغراض کے بیان سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ خاندان کے بارے میں اسلام کا اجمالی نقطہ نظر بیان کردیا جائے اور یہ بتا دیا جائے کہ اسلام خاندان کی تعمیر کس منہاج پر کرتا ہے اور پھر اس کے بچاؤ کے لئے کیا تدابیر اختیار کرتا ہے ۔ اور پھر یہ کہ اس انتظام سے اسلام کے پیش نظر کیا اہداف اور مقاصد ہیں ۔ یہ بیان ہم حتی الوسع اجمالی طور پر کریں گے ‘ اس لئے کہ اس موضوع پر مفصل بحث کے لئے زیادہ صفحات درکار ہوں گے ۔ جس ذات نے انسان کو پیدا کیا اس نے اس کے اندر وہی ازدواجی فطرت ودیعت کی جو اس نے تمام چیزون کے اندر رکھی ہے جو اس نے پیدا کیں۔ (آیت) ” ومن کل شیء خلقلنا زوجین لعلکم تذکرون) (اور جو چیزیں ہم نے پیدا کیں ان کے ہم نے جوڑے بنائے تاکہ تم نصیحت پکڑو) انسان کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے جوڑا پیدا کیا لیکن اس جوڑے کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا ۔ (آیت) ” یایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا “۔ (4 : 1) ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا “۔ اس جوڑے کے ملاب کے اندر اللہ تعالیٰ نے زندگی کے تمام راز رکھ دیئے ہیں ۔ اس ملاپ کے اندر نفسیاتی سکون ‘ اعصابی ٹھہراؤ ‘ روحانی اطمینان اور جسمانی راحت اور آرام کا انتظام کیا ۔ پھر اس ملاپ کے اندر دونوں کا پردہ ‘ عفت مابی اور گناہوں سے بچاؤ کا سامان رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ ملاپ نسل کے لئے کھیت کا کام بھی دیتا ہے ۔ اور اس کے ذریعے زندگی کے اندر تسلسل قائم ہوتا ہے اور اس کے بعد طریقہ ہائے زندگی کی ترقی کا راز بھی اسی میں ہے لیکن اسلام نے اس پورے نظام کو ایک تربیت گاہ ایک نرسری ‘ ایک باپردہ اور پرسکوں خاندان کی شکل میں بنایا جس کی ابتداء زوجین سے ہوتی ہے ۔ (آیت) ” ومن ایتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودۃ وراحمۃ ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون “۔ (30 : 31) ” اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تمہارے جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کی ۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور وفکر کرتے ہیں) (آیت) ” ھن لباس لکم وانتم لباس لھن “ (وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو) (آیت) ” نساء کم حرث لکم فاتوا حرثکم انی شئتم وقدموا لانفسکم واتقوا اللہ) ” تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو ‘ جاؤ اور اپنے مستقبل کا بھی سروسامان کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو) (آیت) ” یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ) ” اے لوگو ‘ جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ “ (آیت) ” والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم وما التنھم من عملھم من شیئ) (اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کرتی رہی ان کی اس اولاد کو بھی ہم ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ہم ان کے اعمال کے صلے میں سے کچھ کم نہ کریں گے) نفس انسانی کے دونوں اطراف مرد وزن کا مقام اللہ کے ہاں کیا ہے ؟ انسانیت میں وہ دونوں برابر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نفس انسان کو مکرم بنایا جس میں عورت میں شامل ہے اور مرد بھی اللہ تعالیٰ مرد و عورت دونوں کا اپنے اپنے اعمال پر پوری جزاء دے گا ۔ اللہ کے قانون میں جس طرح مرد ملکیت رکھ سکتا ہے ‘ اسی طرح عورت بھی ملکیت رکھ سکتی ہے ۔ مرد حق میراث رکھتا ہے تو عورت بھی حق میراث رکھتی ہے ۔ مرد ایک قانونی شخصیت ہے تو عورت علیحدہ قانونی شخصیت ہے اور ان تمام نکات پر بحث ہم اس سبق میں اس سے پہلے کر آئے ہیں ۔ چونکہ ادارہ خاندان کو وجود میں لانے کے لئے نفس انسانی کے دونوں اجزاء کا باہم ملاپ ضروری تھا اور اس کے نتیجے میں فرائض اور واجبات پیدا ہوتے تھے ‘ اس لئے شریعت نے اس ادارے کے معاملات کے ہر جزء کے بارے میں تفصیلی ہدایات دیں ۔ مقصد یہ تھا کہ مرد وزن کو سکون ’ اطمینان ‘ پردہ پوشی اور برائی اور فحاشی سے بچنے کے لئے مواقع حاصل ہوں۔ دوسرے یہ کہ اس خاندانی نظام کے ذریعے زندگی کو تسلسل حاصل ہو اور وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو ۔ اس سورة کے بڑے حصے میں خاندان کی شیرازہ بندی کی گئی ہے جس کا ایک حصہ ہم نے اس پارے کی ابتداء میں دیا تھا اور پارہ چہارم میں بھی اس کے تکمیلی احکام دیئے گئے تھے ۔ اسی طرح سورة بقرہ میں بھی یہ احکام بیان ہوئے تھے جس کی تشریح ہم نے دوسرے پارے میں پیش کی تھی ۔ قرآن کریم کی کئی دوسری سورتوں میں بھی خاندانی نظام کے بارے میں تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں ۔ مثلا اٹھارہویں پارے میں سورة نور اور سورة احزاب (پارہ 21۔ 22) سورة طلاق ‘ سورة تحریم (پارہ 28) اور بعض دوسری سورتوں کے متفرق مقامات پر ۔ ان تمام مقامات پر جو مباحث کئے گئے ہیں ان میں اسلام کے خاندانی نظام کا ایک مکمل دستور موجود ہے۔ اس طویل و عریض مباحث اور متنوع اور مفصل احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام انسانی زندگی کی تعمیر ایک خاندانی نظام کے مطابق کرتا ہے ۔ اسی وجہ سے ان سورتوں میں خاندانی زندگی کے ایک ایک گوشے کو لیا گیا ہے ۔ A ہمیں امید ہے کہ اس صفحے کے پڑھنے والے ان تمام تفصیلات کو ذہن میں رکھیں گے جو ہم نے اس سلسلے میں پیش کی ہیں ۔ مثلا انسان کے بچوں کا طویل بچپن ‘ اس کے دوران بچوں کی طویل پرورش اور نگہداشت کی ضرورت ‘ اور پھر ان بچوں کے لئے ایک خاندان کی ضرورت تاکہ بچہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر ‘ زندگی کی معاشی جدوجہد میں داخل ہو سکے اس معاشی جدوجہد سے بھی زیادہ اہم بچے کی وہ تربیت ہے جو اسے اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے تیار کرتی ہے اور معاشرے کا ایک اچھا فرد بننے کے اہل بناتی ہے تاکہ وہ انسانی ترقی کی رفتار میں اپنے فرائض سرانجام دے سکے ۔ اور جب وہ اس معاشرے کو چھوڑے تو اس حالت سے بہتر کر کے چھوڑے جس میں اس نے اسے پایا تھا ۔ غرض خاندانی نظام کے صحیح فہم کے لئے مذکورہ بالانکات پر غور کرنا نہایت ہی ضروری ہے ۔ نیز خاندان کے مقاصد ‘ خاندان کے فرائض ‘ خاندان کے بچاؤ اور تباہی اور بربادی کے ہر اثر سے اسے محفوظ اور مامون رکھنے نیز خاندان کی نشوونما کے سلسلے میں اسلامی نظام زندگی کے موقف اور پالیسی کو سمجھنے کے لئے یہ امور نہایت ہی اہم ہیں ۔ اسلام کی نظر میں خاندان کی جو اہمیت ہے اور جس کے بارے میں ہم نے اوپر تفصیلی اشارات دیئے ہیں ان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ایک خاندانی نظام کے قیام ‘ اس کے استحکام اور اس کے اندر سکون اور ٹھہراؤ پیدا کرنیکے لئے اسلام نے جتنا زور دیا ہے اس کا تصور بھی دوسرے نظاموں میں نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ اسلام نے عورت کو بھی پہلی مرتبہ ایک باعزت مقام اور باعزت شخصیت عطا کی ۔ عورت کو جو حقوق اسلام نے دنیا میں پہلی بار عطا کئے ‘ یہ وہ حقوق نہیں جن کے ذریعے وہ صرف محبت اور لذت حاصل کرے بلکہ وہ حقوق ہیں جن کے ذریعے عورت حیات انسانی کے حوالے سے اپنے بلند ترین فرائض سرانجام دے ۔ ان تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اب اس سبق کی آخری آیت پر کلام کرتے ہیں جو اس سلسلے کی بہت سی اہم آیت ہے اور اسی وجہ سے اس کی تشریح سے پہلے ہم نے درج بالا تمہیدی اشارات دیئے ہیں ۔ یہ آیت زوجین کے درمیان قائم ادارے کی تنظیم اور اس ادارے کے افراد کے درمیان اختیارات کی وضاحت کرتی ہے اور افراد خاندان کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کو دور کرنے کی خاطر ان کو ہدایات دیتی ہے کہ تمام مسلمان خواہشات نفسانیہ اور ذاتی تاثرات ومیلانات کے تابع ہونے کے بجائے اللہ جل شانہ کے احکام کی اطاعت کریں اور اللہ کا حکم یہ ہے کہ خاندان کے اندر قوام اور سربراہ مرد ہوگا اور یہ کہ مرد کو سربراہ بنانے کے اسباب یہ ہیں کہ ایک تو مرد کو اللہ نے فضیلت دی ہے اور اس کے اندر وہ تنظیمی صلاحیتیں زیادہ رکھی گئی ہیں ‘ جن صلاحیتوں پر خاندانی نظام کا چلنا موقوف ہے ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد پر یہ ڈیوٹی عائد کی ہے کہ وہ خاندان کی معاشی ضروریات کا کفیل ہوگا ۔ چونکہ خاندان کا قیم مرد کو بنایا گیا ہے ‘ اس لئے مرد کو وہ خصوصی اختیارات بھی دیئے گئے ہیں جن سے وہ اس ادارے کو بچا سکے اور محض عارضی جذبات اور شہوات نفسانیہ اسے تباہ نہ کرسکیں اور یہ بھی بتایا گیا کہ ان وقتی شہوات سے بچاؤ کی تدابیر کیا ہوتی ہیں ۔ علاج کی حدود بھی متعین کردی گئی ہیں اور اگر داخلی علاج نہ ہو سکے تو پھر خارجی علاج بھی بتایا گیا ہے خصوصا ان حالات میں جبکہ اس ادارے کو شدید خطرات لاحق ہوں اور نہ صرف یہ خطرہ ہو کہ اس کے دو اہم اطراف اور فریق ایک دوسرے سے جدا ہورہے ہیں بلکہ ان کی جدائی کے نتیجے میں معصوم بچوں اور نوخیز نسل کی تربیت کو بھی خطرات درپیش ہوں بلکہ ان کے وجود تک کو خطرہ لاحق ہوگیا ہو۔ ذرا غور سے دیکھئے کہ ہر اقدام اور تدبیر کی پشت پر کس قدر گہری حکمت ہے ۔ اور اس کی کس قدر ضرورت ہے ۔ (آیت) ” الرجال قومون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض وبما انفقوا من اموالھم “۔ (4 : 34) (مرد عورتوں پر قوام ہیں ‘ اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک دو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں) جیسا کہ ہم نے کہا خاندان انسانی زندگی کا ابتدائی ادارہ اس طرح کہ یہ ایک نکتہ آغاز ہے جو انسانی کی پوری زندگی پر اثرا نداز ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے بھی یہ نکتہ آغاز ہے کہ خاندان ہی سے آئندہ زندگی کے عناصر پیدا ہوتے ہیں اور اسلامی نقطہ نظر سے انسان اس کائنات کا اہم ترین عنصر ہے ۔ دنیا میں خاندان کے ادارے کے مقابلے میں کم اہم اداروں کی ادارت اور انتظام (MAnAgement) اہل ترین افراد کے سپرد کیا جاتا ہے مثلا مالی ادارے بینک وغیرہ ‘ صنعتی ادارے اور کارخانے اور دوسرے تجارتی ادارے اور کمپنیاں ۔ ان اداروں کا انتظام وانصرام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دیا جاتا ہے جو اپنے شعبے میں اچھی مہارت رکھتے ہوں اور انہوں نے اس شعبے میں وافر معلومات حاصل کر رکھی ہوں اور ان کے اندر تجربہ اور صلاحیت موجود ہو۔ یہ تو ہے رواج ان اداروں کے انتظام کا جن کا مقام و مرتبہ اور اہمیت انسانی ادارے سے بہت ہی کم تر ہے ۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ خاندان کا انتظام اور انصرام سپرد کرنے میں بھی اسی اصول کو مد نظر رکھا جائے اس لئے کہ خاندان کا ادارہ اس کائنات کی اہم ترین پیداوار یعنی نسل انسانی کی افزائش کا ذمہ دار ہے ۔ ظاہر ہے کہ انسان کے نقطہ نظر سے انسان اہم ترین پیداوار ہے ۔ اسلامی نظام حیات اس اصول کو مدنظر رکھتا ہے ۔ وہ انسان کی فطرت کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور پھر خاندان کے اجزاء یعنی مرد وزن دونوں کی صلاحیتوں کو بھی مدنظر رکھتا ہے ۔ وہ ان فرائض وواجبات پر بھی نظر رکھتا ہے جو مرد اور عورت پر از روئے فطرت عائد کئے گئے ہیں ۔ اسلامی نظام نے مرد وزن دونوں پر فرائض عائد کرتے وقت دونوں کے ساتھ عدل و انصاف کو بھی ملحوظ رکھا ہے اور یہ عدل یعنی تقسیم وظائف ‘ مرد وزن کی فطرت کو دیکھ کر کی گئی ہے ۔ یہ بات تو ناقابل انکار ہے کہ مرد اور عورت دونوں ہی اللہ کی مخلوق ہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ جبکہ وہ ہر ایک کو اس کی مخصوص فطری ڈیوٹی کے لئے تیار کرتا ہے اور اسے اس کی ڈیوٹی کے لائق استعداد بھی عطا کرتا ہے ۔ یہ امور نہایت ہی بدیہی اور مسلم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا اور پھر ان کا جوڑا بنایا جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کو جوڑے جوڑے بنایا ہے ۔ یعنی اس کائنات کے اندر جمادات تک میں جوڑے ہیں ۔ اب عورت کا فطری فریضہ یہ ہے کہ وہ حاملہ بنے ‘ پھر وضع حمل ہو ‘ پھر وہ بچے کو دودھ پلائے اور مرد اور عورت کے ملاپ کا جو ثمرہ نکلے اس کی پوری طرح وہ ذمہ دار ہو ۔ اس فطری نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو عورت پر یہ ایک عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ایک نہایت ہی اہم ذمہ داری ہے ۔ یہ کوئی معمولی اور آسان ذمہ داری نہیں ہے ۔ اور یہ ذمہ داری بغیر جسمانی ‘ نفسیاتی ‘ اور گہری عقلی تیاری اور استعداد کے ادا بھی نہیں کی جاسکتی ۔ یہ سب خوبیاں عورت کی ذات کے اندر پائی جانی ضروری ہیں۔ اس لئے یہ بات عین ترین انصاف تھی کہ اس شراکت کے دوسرے ساتھی کے ذمہ بھی ایک اہم ڈیوٹی لگائی جائے اور وہ یہ کہ خاندان کی تمام ضروریات کا کفیل وہی ہو اور اس طرح وہ والدہ اور بچے دونوں کی حمایت اور بچاؤ کا بھی ذمہ دار ہو تاکہ عورت اپنی نہایت ہی اہم اور قیمتی ڈیوٹی کے لئے من کل الوجوہ فارغ ہو ۔ اس پر یہ زیادتی نہ ہو کہ وہ حمل بھی برداشت کرے ‘ وضع حمل کی تکلیفات بھی برداشت کرے ‘ اور بچے کی رضاعت اور کفالت بھی کرے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مزدوری اور محنت بھی کرے اور اپنے بچے کے لئے اور اپنی ذاتی ضروریات کیلئے جاگتی بھی رہے ۔ بیک وقت دونوں ڈیوٹیاں اس پر عائد کردی جائیں ۔ اس لئے یہ نہایت ہی منصفانہ تقسیم کار تھی کہ عورت کے لئے اس کی جسمانی اور فطری صلاحیتوں کے مطابق میدان کار وضع کیا جائے اور مرد کے لئے اس کے جسمانی ‘ نفسیاتی اور فطری صلاحیتوں کے مطابق میدان کار تجویز کیا جائے اور اسلام نے عملا یہی کچھ کیا ، اس لئے کہ اسلام کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔ رب ذوالجلال کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کرتا ۔ یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو صلاحیتیں دی ہیں ان میں نرمی ‘ مہربانی ‘ جلدی متاثر ہوجانا ‘ جلدی جواب دینا ‘ اور بچوں کی فوری ضروریات کے لئے تمام ضروری صفات فطرت نے ماں میں ودیعت کردیں اور یہ ایسی صفات ہیں جو عورت کے اندر تعلیم وتربیت کے ذریعے پیدا نہیں کی گئیں بلکہ ان افعال کا ارتکاب عورت بےسوچے سمجھے کرتی ہے ۔ اس لئے کہ انسان کی اہم ضروریات یہاں تک کہ ایک فرد واحد کی اہم ضروریات کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس بات پر موقوف نہیں رکھا کہ کوئی سوچے ‘ غور کرے اور وقت گزارنے کے بعد فطری ضروریات کو پورا کرے ۔ جبکہ فطری ضروریات کا مطالبہ بھی غیر ارادی ہوتا ہے اور انہیں پورا بھی غیر ارادی طور پر کیا جاتا ہے تاکہ مطالبہ ہوتے ہی ان ضروریات کو پورا کر دیاجائے بلکہ بعض حالات میں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان فطری مطالبات کے پورا کرنے کا نظام کوئی جبری نظام ہے ۔ ہاں اگر اس میں جبر کا کوئی عنصر ہے تو وہ داخلی عنصر ہے ‘ خارج سے کوئی جبر نہیں ہے ۔ بعض اوقات تو یہ مطالبہ مستحب اور لذیذ ہوتا ہے تاکہ انسان جلدی اس مطالبہ فطرت کے پورا کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے ۔ وہ انسان کے لئے فرحت بخش ہو ‘ اگرچہ اس میں طویل مشقت اور بےبہا قربانی ہو ۔ یہ اللہ کی ساخت ہے جس نے ہر چیز کو بہت ہی اچھا کر کے بنایا ہے ۔ فطرت انسانی کے اندر ان خصوصیات کا پایا جانا کوئی سطحی چیز نہیں ہے ۔ فطرت کے یہ دواعی عورت کے عضویاتی ‘ اعصابی ‘ شعوری اور نفسیاتی ساخت کے اندر نہایت ہی عمق کے ساتھ ودیعت کیے گئے ہیں ۔ اس بارے میں ماہرین فن کا یہ کہنا ہے کہ یہ اوصاف اس خلیے کے اندر موجود ہوتے ہیں جن سے انسان پیدا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے خلیے کی گہرائیوں کے اندر ان خصوصیات کو پیدا کردیا تھا اور اس خلیے کی تقسیم اور بڑھوتری سے پھر بچہ نشوونما پاتا ہے اور اس کے اندر وہ تمام اساسی خصائص موجود ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مرد کو جو خصوصیات دی گئیں ان میں سے اہم ترین خصوصیت مرد کی سخت جاتی اور مضبوطی ہے ۔ مرد جلدی متاثر نہیں ہوتا اور کسی بھی صورت حال کو جلد قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ وہ ہر کام سوچ سمجھ کر کرتا ہے اور کوئی اقدام کرنے سے پہلے اس کے نتائج پر بھی غور کرتا ہے ۔ کیونکہ آغاز حیات میں اس کی زندگی کا فریضہ یہ تھا کہ وہ شکار کرکے لائے اور اپنے بچوں اور بیوی کے بچاؤ کے لئے مرنے مارنے پر اتر آئے بیوی بچوں کی معیشت کا انتظام کرے اور زندگی کے تمام فرائض سرانجام دے ۔ اس کے تمام فرائض اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہر اقدام سے پہلے اچھی طرح سوچا جائے ۔ غور وفکر سے کام لیاجائے اور اگر کوئی کسی بات کی دعوت دے تو اسے بہت سوچ سمجھ کر قبول کیا جائے ۔ یہ سب خصوصیات مرد کی شخصیت کی ساخت کے اندر پائی جاتی ہیں جس طرح عورت کی خصوصیات اس کی شخصیت کی ساخت کے اندر موجود ہوتی ہیں ۔ مرد کی یہ فطری خصوصیات اسے اس بات کا مستحق بنا دیتی ہیں کہ وہ گھرانے کا نگراں ہو اور مرتبے کے اعتبار سے خاندان میں سینئر ہو ۔ مزید یہ کہ چونکہ پورے خاندان کے اخراجات کا ذمہ دار بھی مرد ہی ہوتا ہے اس لئے اس کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ وہی ہے جو پورے خاندانی ادارے کی معاشی ضروریات کا کفیل ہے ۔ چونکہ وہی خرچ کرنے والا ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہی مدیرہو ۔ یہی دو خصوصیات ہیں جن کو قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے اور انہی کی بنا پر اسلامی معاشرے میں مرد کو قوام بنایا گیا ہے ۔ مرد کی نگرانی کے بعض اسباب تکوینی اسباب ہیں یعنی صلاحیت کے اعتبار سے اور بعض اسباب ذمہ داریوں کے حوالے سے ہیں ۔ نیز ذمہ داریوں کی تقسیم میں انصاف اور عدل کے حوالے سے بھی مرد نگران بن جاتا ہے اور پھر شریعت نے مرد اور عورت پر ذمہ داریاں ڈالتے وقت اس امر کو بھی ملحوظ رکھا ہے کہ کس کے لئے کیا ذمہ داری باعث سہولت ہے اور کس کی فطرت کیا ذمہ داری چاہتی ہے اور کس ذمہ داری کے لئے معاون ہے ۔ عورت کے مقابلے میں نگرانی کیلئے مرد کی افضلیت کے اپنے اسباب ہیں ‘ جو صلاحیت اور تجربے کے حوالے سے ہیں اور نگرانی کے ان تمام اسباب کو لے کر ذمہ داریاں ادا ہوں گی ۔ اس لئے کہ کوئی ادارہ بھی منیجر اور نگران کے بغیر نہیں چل سکتا یعنی وہ تمام ادارے جو خاندان کے ادارے کے مقابلے میں بہت کم اہم اور بہت کم قدر و قیمت کے حامل ہیں پھر مزید یہ کہ انسانیت کا ایک حصہ بعض خاص ڈیوٹیوں کے لئے تیار کیا گیا ہے ۔ از روئے فطرت ان ڈیوٹیوں کی ادائیگی اس کے لئے سہل ہے اسی لئے یہ ڈیوٹیاں اس پر عائد کی گئی ہیں۔ اور انسانیت کا دوسرا حصہ از روئے فطرت ان کے لئے تیار نہیں کیا گیا ۔ ان ڈیوٹیوں کی ادائیگی اس کے لئے سہل نہیں ہے اور اگر اس پر وہ ڈیوٹیاں عائد کردی جائیں تو یہ اس پر صریح ظلم ہوگا ۔ لیکن اگر اسے ان فرائض کی ادائیگی کے لئے تیار بھی کیا جائے اسے ان کی ٹریننگ بھی دی جائے ‘ علمی اور عملی تربیت بھی دی جائے پھر وہ انہیں سرانجام بھی دے پائے تو اس سے اس کی وہ صلاحیت بری طرح متاثر ہوگی جسکے لئے اسے پیدا اور تیار کیا گیا ہے ۔ مثلا عورت کے حوالے اس کے مادرانہ ذمہ داریاں ۔ یعنی اگر عورت پر دوسری تمدنی ذمہ داریاں عائد کردی جائیں تو وہ مادرانہ فرائض کی ادائیگی کے قابل نہ رہے گی جو اس کی فطرت کا تقاضا ہیں اور جس کی اصل استعداد ہے سرعت انفعال اور سرعت قبولیت ۔ یہ عورت کی فطرت کے اندر مرکوز ہیں ۔ اس پر مزید یہ کہ عورت کی عضویاتی اور اعصابی ساخت کے اندر مادرانہ صلاحیتیں رکھی گئی ہیں اور ان کے اثرات عورت کے طرز عمل اور اس کی طرف سے بچے کی ضروریات کے لئے تڑپ رکھنے کا جذبہ وغیرہ ۔ یہ نہایت ہی اہم مسائل ہیں اس قدر اہم کہ ان کے بارے میں ٹھوس فیصلہ صرف انسانی خواہشات کے زوایے سے نہیں کیا جاسکتا اور یہ اس قدر خطرناک ہیں کہ ان کے جوابات محض تیر تکے چلانے سے نہیں دیئے جاسکتے ۔ جب قدیم اور جدید جاہلیتوں نے ان اہم مسائل کے فیصلے انسان کی گھٹیا خواہشات کے زاویے سے کئے تو انہوں نے انسان کے وجود تک کو خطرے میں ڈال دیا ۔ انسان کے اندر انسانی خصائص کا باقی رہنا مشکل ہوگیا ‘ جن انسانی خصائص پر انسان کی زندگی قائم ہے اور جن سے اسے امتیازی شان ملی ہے ۔ اس پر ایک دلیل تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ لوگ اس حقیقت کا انکار کردیں اسے ترک کردیں اور اسے بالکل انوکھا سمجھنے لگیں ‘ انسان کے وجود کے اندر ان قوانین فطرت کو مکمل کنڑول حاصل ہے اور انسانی فطرت اس کی طرف واضح اشارات کرتی ہے ۔ پھر یہ بھی ایک دلیل ہے کہ جب بھی انسانیت نے اس اصول کی خلاف ورزی کی ہے ‘ اس کی وجہ سے انسانی زندگی کے اندر بےچینی ‘ فساد اور اخلاقی گراوٹ پیدا ہوئی ہے اور انسانی زندگی سخت خلفشار سے دو چار ہوئی ہے ۔ خاندان کے اندر نظم ونسق تباہ ہوا ہے ۔ انسانی زندگی کے نشانات اور امتیازات ختم ہوگئے ہیں اور وہ اپنے فطری اور اصلی مقام سے ہٹ گئی ہے ۔ اس پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خود عورت کی یہ نفسیاتی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اوپر کوئی مرد قوام اور حکمران ہو اس لئے کہ خاندان کے اندر مرد کی حاکمیت اور برتری ایک فطری امر ہے ۔ اگر عورت کو مرد کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو محروم ‘ ناقص اور بدحال سمجھتی ہے ۔ یہ صورت حال اس وقت مشاہدے میں آتی ہے جب وہ کسی ایسے مرد کے ساتھ زندگی بسر کر رہی ہو جس کے اندر سرپرستی اور قوام ہونے کی صلاحیت نہ ہو اور وہ یہ حیثیت عورت کے سپرد کر دے ۔ دور جدید کی گم کردہ راہ اور بےراہ رو عورتیں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ عورت کی فطرت میں ہے کہ اس کا کوئی سرپرست اور حاکم ہو ۔ مزید یہ دلیل بھی ہے کہ ایسا خاندانی ادارہ جس میں باپ کی قوامیت نہ ہو ‘ اس خاندان کے اندر بچوں کی پرورش صحیح نہیں ہوتی ۔ مثلا اس صورت میں کہ مرد کی شخصیت کمزور ہو اور بچوں پر والدہ کی شخصیت چھا جائے ۔ یا ایسی صورتوں میں جہاں باپ موجود ہی نہ ہو ‘ فوت ہوچکا ہو یا ایسے خاندان جن میں اولاد کا کوئی قانونی سرپرست اور باپ ہوتا ہی نہیں ۔ ایسے خاندانوں میں بچے بداخلاق اور ناقص شخصیت کے مالک ہوتے ہیں اور کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ انحراف اور بےراہ روی سے بچ نکلیں ۔ نیز ایسے بچے اعصابی اور نفسیاتی اعتبار سے اور اخلاقی اور عملی اعتبار سے کامل شخصیت کے مالک ہر گز نہیں ہوتے ۔ مرد کی نگرانی اور سرپرستی کے جواز پر یہ بعض اہم دلائل ہیں جن کی طرف خود انسانی فطرت ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ مرد کی فطرت کے اندر یہ سرپرستی موجود ہوتی ہے اور انسان کے اندر اس کے اصول وقواعد پوری قوت کے ساتھ جاری ہیں ۔ اگرچہ لوگ انکار کریں ‘ اسے ترک کردیں اور اسے انوکھا سمجھیں ۔ اس سے زیادہ مرد کی قوامیت پر یہاں بحث ممکن نہیں ہے ۔ یہاں مرد کی سرپرستی ‘ نگرانی اس کے جواز اور اس کی معاشرتی ضرورت اور فطری تقاضوں پر اتنی ہی بحث کافی ہے ۔ لیکن یہاں ہمارے لئے اس قدر کہنا مناسب ہے کہ مرد کی اس قوامیت اور نگرانی کا معنی یہ نہیں ہیں کہ کسی خاندان یا معاشرے کے اندر عورت کی شخصیت کی نفی کردی جائے ۔ نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی شہری حیثیت کو ختم کیا جا رہا ہے جیسا کہ اس سے قبل ہم کہہ آئے ہیں بلکہ مرد کی یہ نگرانی خاندانی نظام کے اندر اس کی ایک ذمہ داری ہے ‘ جو اس اہم ادارے کے چلانے اس کی حفاظت اور اس کے بچاؤ کے لئے اس پر عائد کی گئی ہے ۔ یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ کسی ادارے کا نگران مقرر کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ اس ادارے کے وجود کو ختم نہ کرے گا ۔ اس کے کسی رکن کی شخصیت کو ختم نہ کرے گا ‘ نہ اس ادارے کے شرکاء کے حقوق تلف کرے گا اور نہ اس ادارے میں کام کرنے والوں کے فرائض کو ختم کرے گا ۔ دوسرے مقامات پر اسلام نے مرد کی نگرانی کی حدودوقیود کو اچھی طرح بیان کیا ہے ۔ اس پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ نہایت ہی نرمی اور نہایت ہی شفقت اور رحمت کے ساتھ اس فرض کر ادا کرے گا ۔ نیز دوسرے مقامات پر مرد کے مالی اور جانی فرائض بھی بیان کئے گئے ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بیوی اور بچوں کے ساتھ مرد کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے ؟ (اس موضوع پر مزید وضاحت کے لئے درج ذیل مراجع زیر نظر رہیں ۔ نحو مجتمع اسلامی کی فصل معاشرہ اور خاندان ۔۔۔۔۔ فصل ” عورت اور زوجین کے باہم تعلقات “ از کتاب اسلام اور مشکلات تہذیب ‘ کتاب پردہ از مولانا مودودی (رح) کتاب ” خاندان اور معاشرہ “ اور کتاب حق الانسان از عبد الواحد وافی ۔ انسان ‘ مادیت اور اسلام کے درمیان ۔ مصنفہ محمد قطب وغیرہ) مرد کے حقوق اور فرائض کے بیان کے بعد اور اس عام نگرانی کے حوالے سے اس پر عائد شدہ پابندیوں اور اس کے فرائض کے بیان کے بعد ‘ اب صالح اور مومن عورت کی صفات کا بیان ہوتا ہے اور خاندان کے دائرے کے اندر اس کے طرز عمل خصوصا اس کے ایمانی طرز عمل کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ (آیت) ” فالصلحت قنتت حفظت للغیب بما حفظ اللہ (4 : 34) (پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی میں ‘ ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں) مومنہ اور صالحہ عورت کا فطری مزاج اور اس کی لازمی خصلت یہ ہونی چاہیے کہ وہ اطاعت شعار ہو ‘ مطیع فرمان ہو اور یہ اس کے صاحب ایمان اور اس کے صالح ہونے کا عین تقاضا ہوتا ہے ۔ القنوت کے معنی ہوتے ہیں توجہ ‘ ارادہ ‘ رغبت اور دلی چاہت سے اطاعت کرنا ، جس میں کوئی جبر نہ ہو ‘ کوئی دباؤ نہ ہو ‘ اور جس میں کمزوری اور سستی نہ ہو ۔ اس لئے قرآن کریم نے قانتات کہا اور طائعات نہیں کہا ۔ اس لئے کہ پہلے لفظ کا مفہوم نفسیاتی ہے اور اس کے اوپر نرمی اور تازگی کا پر تو موجود ہے ۔ یہ لفظ میاں بیوی کے محبت بھرے پرائیویٹ اور پرسکون تعلق کے عین مناسب ہے ۔ ایک ایسے گہوارے کیلئے جس میں بچوں نے پرورش پانی ہے اور جس کی فضا جس کے سائے ‘ جس کے سانس اور جس کی تمام حرکات بچے کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ ایک صالح اور مومن عورت کا یہ بھی مزاج ہوتا ہے اور یہ بھی اس کی لازمی صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کی عزت اور اس کے حقوق کی محافظ ہوتی ہے ۔ خاوند کی عدم موجودگی میں اس کے مقدس گھرانے کی حفاظت کرتی ہے اور یہ صفات بھی اس کے ایمان اور اس کی ذاتی اصلاح کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ جب ایک مومنہ عورت صالحہ مرد کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی محافظ ہوتی ہے تو اس کی موجودگی میں وہ بطریق اولی اس کی عزت کی محافظ ہوگی ۔ اس طرح وہ اپنی ذات کو کسی کی نظروں کا شکار ہونے بھی نہیں دیتی اور نہ ہی وہ اپنی عصمت اور عزت کو مٹاتی ہے ‘ جو کچھ بھی شوہر کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے جائز نہ ہو اس لئے کہ مرد و عورت دونوں ہی ایک ذات ہیں اور ایک ہی نفس سے دونوں کو پیدا کیا گیا ہے ۔ اور جو چیزیں شوہر کے سوا دوسروں کے لئے حرام ہیں ‘ اس کا فیصلہ نہ عورت کرسکتی ہے اور نہ مرد کرسکتا ہے ‘ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ۔ (آیت) ” بما حفظ اللہ “ (4 : 34) (اس چیز کی جس کی اللہ نے حفاظت کی ہے) یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے کہ مرد عورت کو اس کی ذات کے بارے میں کسی فعل کے ارتکاب کی اجازت دیتا ہے یا نہیں اس کی موجودگی میں یا اس کی پس پشت ۔ ایسے افعال جس پر مرد برا نہیں مناتا یا کوئی معاشرہ ایسے افعال کے ارتکاب کے لئے اس مرد یا اس عورت کو آمادہ کرتا ہے ۔ ایسے حالات میں جب معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو اور اسلامی نظام سے دور ہوچکا ہو۔ اس حفظ کے میدان میں ایک ہی حکم ہے ‘ وہ یہ کہ عورت پر فرض ہے کہ وہ اللہ کے حفظ کی حدود میں اپنی حفاظت کرے ۔ یہاں عورت کے حفظ ذات کے لئے قرآن کریم نے امر کا صیغہ استعمال نہیں کیا بلکہ ایسا انداز بیان اختیار کیا ہے جو صیغہ امر سے بھی زیادہ موکد ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حفاظت ان ذرائع کے ساتھ ہے جنکے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور یہ انداز حفاظت صالحات کے مزاج اور صلاح وتقوی کا عین تقاضا ہے ۔ یہاں آکر ذہنی طور پر شکست خوردہ مسلمان مردوں اور خواتین کے تمام حیلے اور بہانے کافور ہوجاتے ہیں ‘ جنہوں نے جدید بےراہ معاشرے کے دباؤ کے مقابلے میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے ۔ اور معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صالحات کے لئے حفظ ذات کی کیا حدود وقیود مقرر کی ہیں یعنی یہ کہ وہ نہایت ہی اطاعت شعاری اور دلی آمادگی سے مطیع فرماں ہوتی ہیں ۔ رہیں وہ عورتیں جو صالحات نہیں ہیں تو وہ سرکش ہیں ۔ (ناشزات کے معنی یہ ہیں کہ کوئی ” نشز “ پر کھڑا ہو ‘ یعنی اونچے مقام پر جو ہر طرف سے نظر آتا ہو) اس لفظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے نفسیاتی صورت حال کی حسی تعبیر کی ہے ۔ ناشز دراصل اپنی نافرمانی کو جائز سمجھتا ہے ‘ علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے ‘ اور سرکشی اختیار کرتا ہے ۔ اسلامی نظام زندگی اس وقت تک انتظار نہیں کرتا کہ عملا سرکشی کا ارتکاب ہوجائے ‘ نافرمانی اور بغاوت کے علم بلند ہوجائیں ‘ مرد کی نگرانی کا رعب اور ڈر ختم ہوجائے اور خاندان دو کیمپوں میں تقسیم ہوجائے ‘ اس لئے کہ اگر حالات اس مقام تک آپہنچیں تو پھر علاج کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا ۔ لہذا اس بات کی ضرورت ہے کہ سرکشی کا خطرہ محسوس ہوتے ہی اور اس کے خطرناک حد تک بڑھ جانے سے پہلے ہی اس کا تدارک کیا جائے ‘ کیونکہ سرکشی کے انجام میں اس اہم ادارے کی ٹوٹ وپھوٹ ہوتی ہے جس کے بعد معاشرے کا امن اور سکون تباہ ہوتا ہے پھر اس ادارے کے ختم ہونے کے ساتھ ہی نئی نسل کی تربیت اور تیاری کا کام بھی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ خاندان ہی نئی نسل کے لئے ایک بہترین گہوارہ ہوتا ہے ۔ اس ادارے کے باہر اگر کسی نسل کی تربیت ہوگی تو وہ نسل نفسیاتی امراض ‘ اعصابی امراض اور دوسرے جسمانی امراض کا شکار ہوگی اور نتیجتا ایک اخلاق باختہ نسل تیار ہوگی ۔ چناچہ خاندان کے بچاؤ کا معاملہ چونکہ بہت ہی اہم معاملہ ہے ‘ لہذا اس سلسلے میں جلد از جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ سرکشی کے آثار نمودار ہوتے ہی ان پر حملہ کیا جائے اسی لئے اس ادارے کو شر و فساد سے بچانے کی خاطر یا اسے بالکل تباہ ہونے سے بچانے کی خاطر اس ادارے کے ڈائریکٹر کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ بعض تادیبی اقدامات کرسکے جو اکثر اوقات نہایت ہی مفید ثابت ہوتے ہیں۔ یہ اقدامات محض انتقام ‘ توہین یا جسمانی اذیت کے لئے نہیں روا رکھے گئے بلکہ یہ اصلاح اقدامات ہیں اور ابتدائی مراحل میں اصلاح کے لئے اور سرکشی کو ختم کرنے کے لئے ہیں۔ (آیت) ” والتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلا ان اللہ کان علیا کبیرا “۔ (4 : 34) ” اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اور مارو ‘ پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لئے بہانے تلاش نہ کرو ‘ یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالاتر ہے ۔ جیسا کہ اس سے قبل ہم کہہ آئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم بنایا ہے اور اس میں مرد وزن دونوں شامل ہیں عورت کو وہی انسان حقوق دیئے جو اس کی صفت انسانیت کے حوالے سے تھے اور ایک مسلمان عورت کو وہ تمام شہری اور قانون حقوق دیئے جو مرد کو دیئے گئے تھے ۔ نیز اگرچہ مرد کو اس کا نگران بنایا گیا ہے لیکن مرد کی نگرانی عورت کو اپنے شوہر کے انتخاب کے حق سے محروم نہیں کرتی ۔ اس سلسلے میں وہ مکمل طور پر خود مختار ہے ۔ نیز وہ اپنے مال اور دولت میں بھی ہر قسم کا تصرف کرسکتی ہے ۔ وہ تمام دوسرے اختیارات جو اسلامی نظام زندگی میں بنیادی عناصر ہیں اور بنیادی حقوق ہیں ‘ اسے حاصل ہیں۔ اگر یہ سب امور ہمارے ذہن نشنین رہیں اور پھر وہ بحث بھی ذہن میں مستحضر رہے جو ہم نے ادارہ خاندان کی اہمیت کے سلسلے میں سابقہ صفحات میں کی ہے ‘ تو ہمارے لئے یہ سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ شریعت نے عورت کی تادیب اور خاندان کے بچاؤ کے لئے یہ اقدامات کیوں جائز رکھے ہیں اور وہ طریق کار کیوں تجویز کیا ہے جس کے مطابق یہ تادیب کی جائے گی ‘ بشرطیکہ ہمارے دل خواہشات نفسانیہ کی پیروی میں فاسد نہ ہوگئے ہوں اور ہمارے دماغ کبر و غرور سے پھر نہ گئے ہوں ۔ یہ حقیقت ہے کہ شریعت اسلامی نے یہ اقدامات محض انسدادی تدابیر کے طور پر کئے ہیں ۔ یہ اقدامات اس لئے گئے جاتے ہیں کہ اداراہ خاندان کے اندر انتظامیہ کو امن وامان کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے اور انتظامیہ پہلے ہی نفوس کی اصلاح کر کے حالات کو درست کردیتی ہے تاکہ دلوں کا یہ فساد خطرناک صورت اختیار نہ کرلے اور میاں بیوی کے درمیان بغض اور نفرت زیادہ نہ ہوجائے اور دل ہی دل میں میاں بیوی کا تعلق ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم نہ ہوجائے ۔ خاندان کے اندر صرف مرد اور عورت کے درمیان معرکہ ہی نہیں ہوتا اور ان اقدامات سے یہ مقصود نہیں ہے کہ مرد اٹھے اور عورت کو کچل کر رکھ دے ‘ جب بھی وہ عورت کی جانب سے نافرمانی کا خطرہ محسوس کرے اسے خوب پیٹے اور اسے بھی واپس لاکر ایک کتے کی طرح زنجیر سے جکڑ دے ۔ اسلام میں ایسے طرز عمل کی اجازت ہر گز نہیں دی گئی ۔ اگرچہ انسانوں میں بعض خاندانوں کے اندر ایسی عادات پائی جاتی ہیں لیکن مرد و زن کے مابین ایسا سلوک اور ایسا تعلق محض اس لئے پیدا ہوا کہ پوری انسانیت نے اپنے اصل مقام کو چھوڑ دیا ۔ یہ اس لئے نہ تھا کہ مرد زن میں سے کوئی ایک غلطی پر تھا ۔ لیکن جب اسلامی معاشرہ صحیح طرح قائم ہوگا تو اس میں صورت حال بالکل مختلف ہوگی اور اس میں تادیب کے اغراض ومقاصد بھی مختلف ہوں گے ۔ (آیت) ” والتی تخافون نشوزھن) (4 : 34) ” اور عورتیں جن سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ “ اسلام میں یہ پہلا اقدام ہے کہ ایسی عورت کو سمجھانے کی کوشش کی جائے گی ۔ کسی خاندان کے سربراہ اور ڈائریکٹر کا یہ پہلا فریضہ ہے کہ وہ سمجھائے ۔ ہر حالت میں اس سے توقع یہ ہے کہ وہ نہایت ہی مہذب انداز میں بیوی کو سمجھائے گا ۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (آیت) ” یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ “ ۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ “ اپنے بچوں اور اہل و عیال کو بچانا تو ہر حال میں مطلوب ہے لیکن ایسے حالات میں جہاں نشوز کا خطرہ ہو وہاں اہل و عیال کو ایک متعین بیماری یعنی سرکشی سے بچانا مطلوب ہوتا ہے ‘ قبل اس کے کہ وہ حد سے تجاوز کرجائے ۔ لیکن بعض اوقات صرف وعظ بھی مفید نہیں ہوتا کبھی عورت پر ہوائے نفس غالب ہوتی ہے اور وہ خود سرتاثرات کی زد میں ہوتی ہے کبھی یوں ہوتا ہے کہ اسے اپنی خوبصورتی پر نازل ہوتا ہے کبھی اپنی دولتمندی کا گھمنڈ ہوتا ہے کبھی اپنے خاندانی مرتبہ کی وجہ سے وہ خاوند کو خاطر میں نہیں لاتی یا بعض دوسری اقدار واوصاف کی وجہ سے وہ تعلی کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور وہ اس بات کو بھول جاتی ہے کہ وہ ایک ادارے میں مرد کے ساتھ برابر کی ذمہ دار ہے ۔ وہ مرد کے مقابلے میں اس کے مقابل قوت آزمائی کے لئے نہیں آئی ہے اور نہ یہاں کوئی موقعہ افتخار اور تعلی کا ہے اس لئے یہاں اس کے خلاف ایک دوسرا اقدام تجویز ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ مرد عورت کی جاذبیت ‘ اس کی خوبصورتی اور تمام دوسری چیزوں کو جن پر وہ تعلی کرتی ہے ‘ روندتا چلا جائے اور نفسیاتی طور پر ثابت کر دے کہ وہ اس عورت سے برتر ہے ۔ اور یہ کہ وہ اس ادارے کا مدیر اور ڈائریکٹر ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ (آیت) ” واھجروھن فی المضاجع “۔ (4 : 34) (خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو) خواب گاہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں عورت اپنی فطری کشش کی وجہ سے مرد کو دھوکہ دیتی ہے ‘ جہاں عورت انتہائی علو شان کے ساتھ اپنا حکم منواتی ہے ۔ جب ایک مرد اپنی خواہشات پر قابو پا کر عورت کی اس فطری کشش کا مقابلہ کرلے تو وہ عورت کے موثر ترین ہتھیار کو کند کردیتا ہے جو ہتھیار وہ مرد کے خلاف استعمال کرتی ہے ۔ جب مرد اپنے اس موقف میں ڈٹ جاتا ہے اور اپنی شخصیت کی قوت کا اظہار کرتا ہے تو اکثر اوقات عورت ہتھیار ڈال دیتی ہے ‘ البتہ عورتوں کو خواب گاہ سے علیحدہ کرنے کے اپنے مخصوص قواعد اور آداب ہیں ۔ وہ یہ کہ خوابگاہ کے علاوہ عورت کے ساتھ دوسرے تعلقات بحال رہیں ۔ مرد صرف خوابگاہ میں اس سے علیحدہ رہے ۔ نیز بچوں پر میاں بیوی کے درمیان ہونے والی یہ کشیدگی ظاہر نہ ہو تاکہ ان پر نفسیاتی طور پر برے اثرات نہ پڑیں ۔ نیز غیر لوگوں کے سامنے کوئی جدائی یا کشیدگی نہ ہو ‘ جس کے نتیجے میں عورت کی تذلیل ہو یا اس کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ زیادہ سرکشی اختیار کرے کیونکہ مقصد تو یہ ہے کہ وہ سرکشی سے باز آجائے ۔ اصل مقصد عورت کی تذلیل نہیں ہے اور نہ بچوں کو خلجان کا شکار کر کے انہیں خراب کرنا مطلوب ہے ۔ اس دوسرے اقدام میں ان دونوں امور کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ لیکن بعض اوقات یہ دوسرا اقدام بھی کامیاب نہیں رہتا ۔ تو پھر کی اب ادارہ خاندان کی تحلیل کردی جائے ۔ نہیں ایک کوشش مزید بھی ہے ۔ اگرچہ یہ آخری تدبیر قدرے سخت ہے لیکن ایک خاندان کی تحلیل اور بربادی کے مقابلے میں وہ بہت ہی آسان اور معمولی ہے ۔ (آیت) ” واضربوھن “ ” اور انہیں مارو “ اس سے پہلے ہم نے جو مطالب بیان کئے ہیں اور ان اقدامات کے جو اہداف سامنے رکھے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مار سے مقصود عورت کو سزا دینا نہیں ہے اور نہ اس سے انتقام لینا مطلوب ہے ‘ نہ محض غصے کو ٹھنڈا کرنا مطلوب ہے ‘ اور نہ اس بات کی اجازت دی جاسکتی ہے کہ یہ مار محض تذلیل ‘ توہین اور تحقیر کیلئے ہو ۔ اور نہ اس سے مقصود یہ ہے کہ عورت کو ایک ایسے خاندان میں زندہ رہنے پر مجبور کیا جائے جس پر وہ کسی صورت میں بھی راضی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ مار محض اصلاح کی خاطر ہو اور اس مار کے اندر بھی مرد کی جانب سے ہمدردی اور محبت ہو ۔ مثلا جس طرح باپ اپنی اولاد کو مارتا ہے ‘ یا جس طرح استاد اپنے شاگردوں کو سزا دیتا ہے ۔ اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اگر ادارہ خاندان کے دونوں فریقوں کے درمیان مکمل یک جہتی ہو تو پھر اس مار کی ضرورت ہی کیا ہو سکتی ہے ۔ البتہ ان اقدامات کی ضرورت اس وقت لاحق ہو سکتی ہے جب خاندان کے اندر فساد اور توڑ پھوڑ کا خطرہ ہو اور یہ تب ہی ہوتا ہے جب کسی نہ کسی خرابی کا آغاز ہوگیا ہو اور اسے ان اقدامات کے ذریعے دور کرنا مطلوب ہو ۔ جب وعظ ونصیحت بھی کام نہ دے اور خواب گاہوں کے اندر تفریق بھی مفید نہ رہے تو معلوم ہوجائے گا کہ یہ انحراف اور فساد خطرناک نوعیت اختیار کر گیا ہے اور خطرناک سطح تک پہنچ گیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں وسیلہ ضرب تادیبی کامیاب ہوجائے ۔ بعض عملی واقعات اور بعض نفسیاتی کیسوں سے معلوم ہوتا ہے اور ماہرین نفسیات اس بات کو مانتے ہیں کہ بعض اوقات عورت کی سرکشی کے لئے اسے تادیبی مار دینا ہی اس کے لئے مفید ہوتا ہے ۔ اس سے عورت کا نفسیاتی علاج ہوتا ہے اور وہ فورا راہ راست پر آجاتی ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت کو سرکشی کی ایک نفسیاتی بیماری لاحق ہوتی ہے اور علمائے نفسیات اسے ایک نام بھی دیتے ہیں ۔ لیکن علم النفس نے جو نتائج اب تک پیش کئے ہیں وہ علمی اور سائنسی نتائج نہیں ہیں کہ انہیں علمی لحاظ سے ثابت شدہ حتمی نتائج کہا جاسکے ‘ جیسا کہ ڈاکٹر الیکنیس کہتے ہیں ۔ البتہ اکثر اوقات ایسا ضرور ہوتا ہے کہ بعض عورتیں مرد کی قوت کی محسوس نہیں کرتیں جبکہ ان کا نفس یہ چاہتا ہے کہ جو مردان کا نگران اور خاوند ہو وہ قوی تر ہو اور وہ اسے تب تسلیم کرتی ہیں جب مرد جسمانی طور پر ایسی عورت کو قابو میں رکھے ۔ لیکن ہر عورت کا نہ یہ مزاج ہوتا ہے اور نہ ہی نفسیاتی خواہش ہوتی ہے ۔ البتہ عورتوں میں سے بعض ایسی ضرور ہوتی ہیں جو خاوند کی طرف سے جبر اور قہر کی طالب ہوتی ہیں اور یہ ضرب کا اقدام ایسے ہی کیسوں کے لئے تجویز کیا گیا ہے تاکہ خاندان جیسا اہم ادارہ صحیح طرح استواری کے ساتھ کام کرسکے ‘ امن و سکون کے ساتھ ۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)
Top