Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 36
وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ
وَاعْبُدُوا
: اور تم عبادت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَلَا تُشْرِكُوْا
: اور نہ شریک کرو
بِهٖ
: اس کے ساتھ
شَيْئًا
: کچھ۔ کسی کو
وَّ
: اور
بِالْوَالِدَيْنِ
: ماں باپ سے
اِحْسَانًا
: اچھا سلوک
وَّ
: اور
بِذِي الْقُرْبٰى
: قرابت داروں سے
وَالْيَتٰمٰي
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: اور محتاج (جمع)
وَالْجَارِ
: ہمسایہ
ذِي الْقُرْبٰى
: قرابت والے
وَالْجَارِ
: اور ہمسایہ
الْجُنُبِ
: اجنبی
وَالصَّاحِبِ بالْجَنْۢبِ
: اور پاس بیٹھنے والے (ہم مجلس)
وَ
: اور
ابْنِ السَّبِيْلِ
: مسافر
وَمَا
: اور جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: تمہاری ملک (کنیز۔ غلام
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
لَا يُحِبُّ
: دوست نہیں رکھتا
مَنْ
: جو
كَانَ
: ہو
مُخْتَالًا
: اترانے والا
فَخُوْرَۨا
: بڑ مارنے والا
” اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ‘ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ‘ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ‘ اور پڑوسی رشتہ دار سے ‘ اجنبی ہمسایہ سے ‘ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضے میں ہوں ‘ احسان کا معاملہ رکھو ‘ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے
(آیت) ” نمبر 36 تا 43۔ یہ پیرا گراف اس حکم سے شروع ہوتا ہے کہ صرف اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور یہ حکم واؤ کے ساتھ شروع ہوتا ہے جو حرف عطف ہے ۔ حرف عطف اس امر اور نہی کو سابقہ احکام کے ساتھ مربوط کردیتا ہے جو ادارہ خاندان کی تنظیم اور شیرازہ بندی سے متعلق ہیں اور جن کا ذکر سابقہ سبق کے آخر تک ہوا ۔ واؤ عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دین کا ایک ہی کلیہ اور اصول ہے اور وہی تمام امور کے درمیان رابطہ ہے یعنی پوری زندگی میں بندگی صرف اللہ کی کی جانی چاہئے اور یہ کہ اسلام صرف عقیدے اور چند نظریات کا نام نہیں ہے جو کسی انسان کے ضمیر میں پختہ طور پر بیٹھے ہوں نہ اسلام چند مراسم عبودیت کا نام ہے جو مسجد میں سرانجام دیئے جاتے ہوں اور نہ اسلام صرف دنیوی کاروبار کا نام ہے جس کا تعلق عقیدے اور رسوم پرستش سے بالکل نہ ہو ‘ بلکہ وہ ایک ایسا نظام ہے جس کے اندر یہ سب چیزیں موجود ہیں پھر اس کے تمام اجزاء بھی ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں اور پھر یہ سب اجزاء اپنے اصل الاصول یعنی نظریہ توحید کے ساتھ مربوط ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں میں صرف اللہ سے ہدایت حاصل کرنا اور اس کے سوا کسی سے کوئی ہدایت نہ لینا یعنی مراسم عبادت میں اللہ کو الہ و معبود سمجھنا اور اسی طرح حاکمیت اور قانون سازی میں بھی اسے الہ وحاکم سمجھنا یہ دونوں چیزیں نظریہ توحید میں شامل ہیں ۔ ان دونوں میں توحید اسلام کا جزء ہے اور یہی خدا کا دین ہے ۔ توحید کے حکم اور شرک کی نفی کے ساتھ ہی حکم دیا جاتا ہے کہ احسان کرو اور یہ حکم ایک خاندان کو بھی دیا جاتا ہے ۔ اور پورے انسانی خاندان یعنی معاشرے کو بھی دیا جاتا ہے ۔ بخل فخر اور تکبر کی مذمت کی جاتی ہے ‘ نیز لوگوں کو بخل پر آمادہ کرنے کی بھی مذمت کی جاتی ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ کے فضل کو چھپانا بھی ایک مذموم حرکت ہے۔ اللہ کا فضل عام ہے ‘ چاہے مالی فضل ہو یا اخلاقی اور دینی فضل ہو ۔ پھر شیطان کی اطاعت سے ڈرایا جاتا ہے ۔ اب روئے سخن آخرت کی طرف پھرجاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ دن نہایت ہی شرمندہ کرنے والا اور توہین آمیز ہوگا ۔ ان سب امور کو عقیدہ توحید سے مربوط کردیا جاتا ہے اور وہ مصدر ومنبع متعین کردیا جاتا ہے جس سے ان لوگوں نے ہدایت لینی ہے جو اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور وہ مصدر ہے بھی یکتا اس میں تعدد ممکن نہیں ہے ۔ ہدایت لینے کا ذریعہ بھی وہ ہے اور قانون ساز بھی وہ ہے ۔ اس کی حاکمیت میں بھی کوئی شریک نہیں ہے اور اس کی بندگی اور عبادت میں بھی کوئی شریک نہیں ہے ۔ (آیت) ” واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا وبذی القربی والیتمی والمسکین والجار ذی القربی والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم (4 : 36) ” اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ‘ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ‘ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ‘ اور پڑوسی رشتہ دار سے ‘ اجنبی ہمسایہ سے ‘ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضے میں ہوں ‘۔ اسلامی نظام حیات میں پرستش کے بارے میں ہدایات اور قانون سازی کے بارے میں ہدایات ایک ہی مرجع Sonrce سے اخذ ہوتی ہیں اور وہ ایک ہی محور کے اردگرد گھومتی ہیں ۔ یہ سب چیزیں ایمان باللہ سے اخذ ہوتی ہیں اور ایمان باللہ کا ارتکاز نقطہ توحید پر ہے اس لئے اسلام میں تمام ہدایات اور تمام تشریعات Law Making باہم جڑی ہوئی اور ہم آہنگ ہیں۔ اسلامی نظام میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کے ایک جزء کو دوسرے سے علیحدہ کردیا جائے ۔ اور اگر کوئی شخص اسلام کے کسی جزء کو اس کے نقطہ ارتکاز یعنی عقیدہ توحید سے علیحدہ کرکے سمجھنے کی سعی کرے گا تو اس کی سمجھ ناقص ہوگی ۔ اسی طرح عملی میدان میں بھی اسلام کے ایک جزئیہ پر عمل کرنے اور دوسری جزئیات کو ترک کرنے سے بھی اسلام پوری طرح نافذ اور قائم نہیں ہو سکتا اور نہ انسانی زندگی میں اس طرح کے جزئی اسلام کے ثمرات نکل سکتے ہیں ۔ اس کائنات ‘ زندگی اور انسانی تعلقات کے اساسی تصورات صرف ایمان باللہ کے سرچشمے سے پھوٹتے ہیں اور ان تصورات کے اوپر پھر طریقہ ہائے کار ‘ اقتصادی نظام ‘ سیاسی نظام ‘ اخلاقی نظام ‘ قانونی نظام اور عالمی روابط پر بھی اثر ہوتا ہے اور یہ تصورات ایک فرد کے ضمیر اور ایک معاشرے کی واقعی صورت حال کی کیفیات کا تعین بھی کرتے ہیں ۔ یہ تصورات معاملات دنیا کو عبادت میں منتقل کردیتے ہیں ۔ اگر یہ معاملات خدا و رسول کی اطاعت کرتے ہوئے سرانجام دیئے جائیں تو یہ عبادات کو معاملات کی اساس قرار دیتے ہوئے ان میں ضمیر کی پاکیزگی اور عمل کی صفائی پیدا کرتے ہیں اور آخر کار یہ تصورات زندگی کو ایک اکائی بنا دیتے ہیں جو اسلامی نظام حیات سے پھوٹتی ہے۔ اس میں ہدایات صرف رب واحد سے لی جاتی ہیں اور پوری زندگی دنیا اور آخرت میں اللہ کی طرف ہی لوٹتی ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات اسلامی نظام حیات اور اللہ کے صحیح دین کی یہ خصوصیت کس بات سے معلوم ہوتی ہے ؟ یہ اس اصول سے معلوم ہوتی ہے کہ اس آیت میں والدین کے ساتھ احسان ‘ رشتہ داروں کے ساتھ احسان اور تمام لوگوں کے ساتھ احسان کرنے کے احکام سے پہلے یہ کہا گیا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو ۔ اس کے بعد والدین کی رشتہ داری اور دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلقات کو ایک ہی لڑی میں پرویا گیا ہے اور دونوں امور کو اللہ کی توحید اور بندگی کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے جبکہ اس سے ماقبل درس کے خاتمے پر نظریہ توحید اور اللہ کی بندگی کو خاندان کے اندر باہم تعلقات کے لئے دستور بنایا گیا تھا ۔ اس درس میں نظریہ توحید اور اللہ کی بندگی کو تمام انسانوں کے درمیان تعلقات کے لئے اساس بنایا گیا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے تاکہ ان تمام امور میں یہ نظریہ مستحکم ہو اور رابطہ بن جائے اور تمام معاشرتی روابط اور قانون سازی کا مصدر ایک ہوجائے ۔ (واعبدواللہ ولا تشرکوا بہ شیئا ) (4 : 36) ’ ؓ اجمعین اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو “۔۔۔۔ ۔۔ پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کرو اور دوسرا حکم یہ ہے کہ اللہ کی بندگی میں اللہ کے سوا کسی اور کو شریک نہ کرو ۔ یہ قطعی اور عمومی ممانعت ہے اور اس کا اطلاق ان تمام معبودوں پر ہوتا ہے جو انسانی تاریخ میں ریکارڈ ہیں ۔ (اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ) کسی بھی چیز کو ‘ چاہے وہ مادہ اور جمادات سے ہو ‘ حیوان ہو ‘ انسان ہو ‘ فرشتہ ہو اور یا شیطان ہو ۔ یہ تمام چیزیں (شئی) کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ جب اس کا استعمال اس طرز پر ہو ۔ اس کے بعد حکم دیا جاتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرو ۔ والدین کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے اور اقرباء کا ذکر عموما کیا گیا ہے ۔ زیادہ احکام اس بارے میں ہیں کہ اولاد اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ اگرچہ والدین کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ چھوٹے بچوں پر ہر حال میں ان کے ماں باپ سے بھی زیادہ رحم فرمانے والے ہیں ۔ اولاد اس بات کی زیادہ محتاج ہے کہ اسے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے ہدایت کی جائے ‘ اس لئے کہ والدین اس دنیا سے جانے والے ہیں۔ ایک ایسی نسل سے ان کا تعلق ہوتا ہے جو پس پشت اور پس کی منظر میں جارہی ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اولاد بالعموم اپنی شخصیت ‘ اپنے جذبات ‘ اپنے رجحانات اور اپنے اہتمامات کے اعتبار سے ان بچوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے جو ان کے بعد میں آنے والے ہوتے ہیں ۔ وہ اس نسل کی طرف متوجہ نہیں ہوتے جو اس سے قبل گزر رہی ہے ۔ زندگی کی دوڑ میں ان لوگوں کا رخ آگے کی طرف ہوتا ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھنے میں وہ غفلت کرتے ہیں ۔ اس لئے اس اللہ رحمن ورحیم سے انہیں یہ ہدایات ملتی ہیں جو والدین کو بھی ہدایات دیتے ہیں اور بچوں کے لئے بھی ہدایات دیتے ہیں ۔ نہ اولاد کو بھلاتے ہیں اور نہ والدین کو بھلاتے ہیں اور جو اپنے بندوں کو یہ ہدایت دیتا ہیں کہ وہ آپس میں نہایت ہی مہربانی سے پیش آئیں خواہ والدین ہوں یا اولاد ہوں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے جیسا کہ دوسری متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نیکی کے سلسلے میں یوں ہدایات دیتا ہے کہ نیکی کا آغاز اپنے خاص اور عام رشتہ داروں سے کیا جائے اور اس کے بعد اس کا دائرہ بتدریج وسیع کیا جائے اور اسے ان تمام محتاجوں تک پھیلایا جائے جن کا تعلق وسیع تر انسانی خاندان کے ساتھ ہے ۔ یہ حکم انسانی فطرت کے مطابق اور انسانی فطرت کی سمت پرچلنے والا حکم ہے ۔ اس لئے کہ رحم ‘ دکھ اور درد میں شرکت کے جذبات سب سے پہلے گھر سے شروع ہوتے ہیں ‘ جو ایک چھوٹا خاندان ہوتا ہے ۔ جس شخص نے گھر کے اندر نیکی ‘ رحم اور محبت نہیں سیکھی یا اس کا تجربہ نہیں کیا اس سے ایسے جذبات کی توقع کسی غیر کے حق میں ہر گز نہیں کی جاسکتی ۔ طبیعت اور فطرت کے اعتبار سے بھی نفس انسانی اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ اس جذبے میں کوئی برائی اور حرج نہیں ہے بشرطیکہ یہ جذبہ خیر خاندان کے محدود دائرے اور متعین نقطے سے آگے بھی بڑھے اس کے بعد پھر یہ منہاج اسلام کی اجتماعی تنظیم کے ساتھ متفق ہے کہ باہم تعاون اور کفالت کا نظام گھر سے شروع کیا جائے اور پھر اسے جماعت اور سوسائٹی کے دائرے تک پھیلایا جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام اپنے سوشل سیکورٹی کے نظام کو حکومت کے وسیع نظام کے ہاتھ میں دینا نہیں چاہتا ‘ الا یہ کہ گھر یا گاؤں کے لوگ ناکام ہوجائیں اس لئے کہ مقامی انتظام زیادہ موثر ہو سکتا ہے ۔ مقامی انجمن بہ نسبت حکومت کے غریبوں کے بارے میں سہولت کے ساتھ تحقیقات کرسکتی ہے اور بروقت امداد نہایت سہولت اور آسانی کے ساتھ مستحقین تک پہنچا سکتی ہے ۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے اندر محبت اور باہم رابطہ بھی پیدا ہوتا ہے جو ایک انسانی سوسائٹی کے لئے ضروری ہے ۔ یہاں بات کا آغاز اس طرح ہوا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرو ‘ اس کے بعد اسے رشتہ داروں تک وسعت دی گئی ہے ۔ اس کے بعد پھر یتیموں اور مسکینوں کا ذکر ہے چاہے یہ یتیم اور مساکین دور رہتے ہیں اس لئے کہ انکی ضرورت بھی زیادہ اہم ہوتی ہے اور ان کا خیال رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ اس کے بعد قریبی پڑوسی ‘ پھر اجنبی پڑوسی ‘ اس کے بعد پہلو میں رہنے والے ساتھی ‘ اس لئے کہ قرابت دار پڑوسی ہمیشہ ملتا ہے جبکہ پہلو میں رہنے والے ساتھی کبھی کبھار ملتے ہیں ۔ صاحب بالجنب کی تفسیر میں آیا ہے کہ اس سے مراد وہ دوست اور ہمنشین ہے جو ساتھ رہتا ہو۔ حضر اور سفر دونوں میں۔ پھر وہ مسافر جو اپنے اہل و عیال سے دور ہو اور پھر ان غلاموں کا حق ہے جنہیں حالات نے غلام بنا دیا ہے لیکن ہیں تو وہ بہرحال انسان ۔ احسان کے حکم کے بعد ‘ دوسرا حکم یہ آتا ہے ۔ فخر و غرور بری خصلت ہے ۔ بخل اور دعوت بخل اور اللہ کی نعمت اور فضل کو چھپانا یہ بری خصلتیں ہیں ۔ اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ میں ریاکاری کی بھی ممانعت کی گئی اور بتایا گیا کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں درحقیقت انکا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں ہوتا ۔ اور وہ شیطان کے مطیع اور ہمنشین ہیں ۔ (آیت) ” ان اللہ لا یحب من کان مختالا فخورا (36) الذین یبخلون ویامرون بالبخل ویکتمون ما اتھم اللہ من فضلہ واعتدنا للکفرین عذابا مھینا (37) والذین ینفقون اموالھم رئاء الناس ولا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر ومن یکن الشیطن لہ قرینا فسآء قرینا (38) (4 : 36 تا 38) ” یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے ۔ ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اسے چھپاتے ہیں ‘ ایسے کافر نعمت لوگوں کے لئے ہم نے رسوا کن عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔ اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور درحقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخر پر ‘ سچ تو یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی ۔ “ یہاں آکر دوبارہ اسلامی نظام حیات کی یہ خصوصیت ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس میں تمام معاملات ‘ تمام طرز ہائے عمل ‘ عقل و شعور کے تمام رجحانات اور سوسائٹی کے اندر پائے جانے والے تمام تعلقات کا ربط عقیدے اور تصور حیات کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جب انسان صرف اللہ کا بندہ بن جاتا ہے اور تمام ہدایات اللہ سے لیتا ہے تو وہ لوگوں پر احسان کرنا خود بخود شروع کردیتا ہے ‘ اللہ کی رضا کے حصول اور آخرت کے اجر کی امیدواری کے لئے ۔ وہ یہ کام نہایت ہی عاجزی ‘ نہایت ہی نرمی کے ساتھ کرتا ہے اور یہ مانتے ہوئے کرتا ہے کہ وہ جو کچھ دے رہا ہے وہ اللہ ہی کے دیئے سے عاجزی ‘ نہایت ہی نرمی کے ساتھ کرتا ہے اور یہ مانتے ہوئے کرتا ہے کہ وہ جو کچھ دے رہا ہے وہ اللہ ہی کے دیئے سے دے رہا ہے وہ کود اپنے رزق اور مال و دولت کا خالق نہیں ہے ۔ اسے تو اللہ کے ہاں سے سب کچھ ملتا ہے ۔ اور اللہ کے انکار اور یوم آخرت سے انکار کے نتیجے میں فخر اور غرور پیدا ہوتا ہے اور بخل اور دعوت بخل پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اللہ کے فضل کو چھپایا جاتا ہے کہ اس کے آثار بصورت داد ودہش ظاہر نہ ہوں اور اگر انفاق ہو بھی تو وہ ریاکاری کے لئے ہوتا ہے اور اس کے بعد لوگوں کے سامنے فخر ومباہات کا اظہار ہوتا ہے اس لئے کہ ایسے شخص کے سامنے نہ رضائے الہی ہوتی ہے اور نہ جزائے آخر کی امیدواری پس لوگوں کے سامنے فخر اور غرور کا اظہار مطلوب ہوتا ہے ۔ اس طرح ایمانی اخلاقیات اور کفر کی اخلاقیات کے حدود کا تعین بسہولت ہوجاتا ہے ۔ مومنین کے نزدیک اچھے اعمال اور اچھے اخلاق کا باعث ایمان باللہ اور جزائے آخرت ہوتے ہی ۔ اور اللہ کی رضا مندی کے حصول پر آنکھیں لگی ہوتی ہیں اور یہ ایک ایسا بلند داعیہ ہوتا ہے کہ انفاق کرنے والا لوگوں سے کسی بدلے کا منتظر نہیں ہوتا ‘ اور نہ وہ عمل لوگوں کے عرف و رواج سے سیکھتا ہے ۔ اگر کسی کے دل میں ایک خدا کا یقین نہ ہو جس کی رضا مندی وہ چاہتا ہو اور اس رضا مندی کے حصول کے لئے وہ جدوجہد کر رہا ہو اور اسی طرح یوم آخرت کا عقیدہ اور جزائے آخرت کا کوئی لالچ نہ ہو ‘ تو ایسے لوگ اگر نیکی کا کوئی کام کرتے بھی ہیں تو وہ رسم و رواج کے مطابق دنیاوی اقدار کے لئے کرتے ہیں ۔ ایسے شخص کے لئے پھر کسی نسل میں بھی کوئی ایک ضابطہ نہیں ہوتا چہ جائیکہ اس کے لئے ہر زمان ومکان میں کوئی ناقابل تغیر ضابطہ ہو ‘ اس کے لئے پھر نیکی کرنے کا داعیہ وہی باتیں ہوں گی جن کا ذکر ہوا یعنی فخر ومباہات اور یہ داعیہ بھی ہمیشہ غیر مستقل اور غیر یقینی ہوگا اور لوگوں کی اقدار اور ان کی اغراض کے ساتھ ساتھ تغیر پذیر ہوگا اور ہمیشہ یہ مذموم صفات انفاق کے ساتھ پیوسہ رہیں گی ۔ فخر ‘ غرور ‘ بخل اور بخل کی دعوت لوگوں کو دکھاوا کبھی بھی انفاق فی سبیل اللہ اخلاص اور بےلوثی سے نہ ہوگا ۔ قرآن کریم کہتا ہے اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کراہیت اور محبت کے انفعالات سے پاک ہے اس لئے ان الفاظ سے مراد یہاں کراہیت اور محبت کے اثرات ہیں ۔ یعنی اللہ ان کو دھتکارے گا ‘ اذیت دے گا اور انہیں ان کاموں پر سزا دی جائے گی ۔ (آیت) ” واعتدنا للکفرین عذابا مھینا “۔ (4 : 38) (اور ایسے کافروں کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے) یہاں فخر و غرور پر ان کے لئے رسوا کن عذاب دیئے جانے کا ذکر ہے جو ان اوصاف بد کے مقابل ہے ۔ قرآن کریم کا انداز تعبیر ایسا ہے کہ وہ معنائے مقصود کے علاوہ بھی اپنا پر تو ڈالتا ہے۔ اور قرآن کے یہ اشارات بھی بذات خود مقصود ومطلوب ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے زیر بحث اوصاف بد اور افعال مکروہیہ کے خلاف کراہیت اور نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ان چیزوں کو حقیر سمجھ کر انسان ان سے دور رہتا ہے ۔ خصوصا اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس قسم کے لوگ شیطان کے ساتھی ہیں اور جن لوگوں کا ساتھی شیطان ہوجائے تو سمجھ لیں کہ وہ بہت ہی برا ساتھی ہے ۔ (آیت) ” ومن یکن الشیطن لہ قرینا فسآء قرینا “۔ (4 : 38) بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ آیات مدینہ کے بعض یہودیوں کے بارے میں وارد ہوئی ہیں کیونکہ ان میں جو صفات مذکورہ ہیں وہ یہودیوں پر پوری طرح منطبق ہوتی ہیں ‘ جیسا کہ وہ منافقین پر منطبق ہوتی ہیں ۔ جس دور میں یہ آیات نازل ہوئیں اس دور میں اللہ نے ان پر جو فضل وکرم کیا تھا ‘ وہ اسے چھپاتے تھے ۔ نیز اس سے مراد یہ بھی ‘ ہو سکتا ہے کہ وہ سچائی ہو جو انہیں دی گئی تھی انہوں نے اسے چھپا لیا تھا ۔ یعنی حضور اکرم ﷺ کی رسالت اور دین اسلام کے بارے میں جو پیشن گوئیاں ان کے ہاں تھیں ۔ لیکن آیت کی عبارت عام ہے اور بات یہاں مال اور فعل کے ذریعے احسان کی ہو رہی ہے ‘ لہذا مناسب ہے کہ آیت کے مفہوم کو عام ہی رہنے دیا جائے کیونکہ سیاق کلام کے ساتھ اس آیت کا عام مفہوم ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ جب ان لوگوں کے نفوس کا سرچاک ہوا ‘ جب ان لوگوں کے عمل کی فضیحت ظاہر ہوگئی اور ان کے اسباب یعنی انکار خدا ‘ انکار آخرت اور شیطان کی ہم نشینی اور اس کا اتباع بھی بیان کردیئے گئے اور اس کے بعد یہ بھی بتا دیا گیا کہ ان برائیوں کی سزا توہین آمیز عذاب ہے ‘ تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ استفہام انکاری کے انداز پوچھتے ہین۔
Top