Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠ ۧ
اَفَحُكْمَ
: کیا حکم
الْجَاهِلِيَّةِ
: جاہلیت
يَبْغُوْنَ
: وہ چاہتے ہیں
وَمَنْ
: اور کس
اَحْسَنُ
: بہترین
مِنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
حُكْمًا
: حکم
لِّقَوْمٍ
: لوگوں کے لیے
يُّوْقِنُوْنَ
: یقین رکھتے ہیں
اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ‘ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنیوالا کون ہو سکتا ہے
(آیت) ” افحکم الجاھلیۃ یبغون ، ومن احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون “۔ (5 : 50) (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے) یہاں یہ آیت جاہلیت کے مفہوم اور مدلوں کو متعین کردیتی ہے ۔ یہ اللہ کا قرآن ہے جو جاہلیت کے مفہوم کو متعین کردیتا ہے اور اس کے مطابق جاہلیت یہ ہے کہ مملکت میں انسان کی حکومت انسان پر چلے ۔ یہ دراصل انسانوں کی جانب سے انسانوں کی غلامی ہے ۔ اللہ کی حاکمیت کا انکار ہے اور اللہ کی حاکمیت کے نظریہ کو ترک کرنا ہے ۔ یہ انکار اور ترک اصل انسانوں کی حاکمیت کا اقرار ہے اور انسانوں کی بندگی اور پرستش ہے ۔ اس آیت کی روشنی میں جاہلیت کا تعلق زمان ومکان سے نہیں ہے بلکہ جاہلیت ایک صورت حال کا نام ہے جو کل بھی تھی ‘ آج بھی ہے اور کل بھی ہوگی ۔ لہذا جس چیز کی ممانعت ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی نظام کے مطابلے میں جاہلی صورت حال نہ اختیار کی جائے جو اسلام سے متصادم ہے ۔ لوگوں کے مختلف حالات ہو سکتے ہیں اور ہر دور میں ‘ یا تو وہ اللہ کی شریعت کے مطابق عمل کریں گے ‘ ماسوائے اس کے کہ وہ اس کے کچھ اجزاء کو ترک کردیں یا پھر نظام شریعت کو مکمل طور پر تسلیم ورضا کے ساتھ قبول کریں گے ۔ ایسی صورت میں لوگ اللہ کے دین میں متصور ہوں گے ۔ یا وہ اپنے فیصلے کسی ایسے قانون کے مطابق کر رہے ہوں جو انسانوں کا بنایا ہوا ہوتا ہے ‘ چاہے اس کی جو شکل و صورت بھی ہو ‘ اور وہ اسے قبول کریں گے لہذا یہ لوگ ان لوگوں کے دین کے اندر متصور ہوں گے ‘ جن کے قانون کو یہ لوگ مانتے ہیں ۔ ایسے حالات میں یہ لوگ ہر گز دین اسلام میں داخل نہ ہوں گے ۔ جو شخص اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے نہیں کراتا وہ دراصل جاہلیت کے مطابق فیصلے کراتا ہے اور جو شخص اللہ کی شریعت کا انکار کرتا ہے ‘ وہ دراصل جاہلیت کی شریعت چاہتا ہے اور جاہلیت میں بستا ہے ۔ یہ ہے ایک دوراہہ جس پر اللہ تعالیٰ کو لا کر کھڑا کردیتا ہے اور اس کے بعد لوگوں کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ جس راہ پر جانا چاہیں اس راہ کو اختیار کرلیں ۔ اس کے بعد ذرا درشت نظروں کے ساتھ دیکھ کر پوچھا جاتا ہے ان لوگوں سے جو جاہلیت کے مطابق فیصلے کرانا چاہتے ہیں ۔ یہ استفہام انکاری ہے لیکن سوالیہ انداز میں احکام الہی کی برتری کا فیصلہ کردیا جاتا ہے ۔ (آیت) ” ومن احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون “۔ (5 : 50) (حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے ؟ ) ۔۔۔۔۔ ہاں یہ بالکل درست ہے کہ اللہ کے قانون اور احکام کے علاوہ اور کوئی قانون اور حکم نہیں ہے کون ہے جو یہ دعوی کرسکتا ہے کہ وہ لوگوں کا قانون ساز ہے ۔ یا وہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں زیادہ اچھا قانون بنا سکتا ہے ۔ وہ اس عظیم دعوے کے حق میں کیا دلیل رکھتا ہے ۔ کیا کوئی یہ دعوی کرسکتا ہے کہ وہ لوگوں کے خالق کے مقابلے میں لوگوں کے بارے میں زیادہ جاننے والا ہے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہو لوگوں کے رب کے مقابلے میں ان کا زیادہ ہمدرد ہے اور کوئی ہے جو یہ کہہ سکتا ہو کہ وہ الہ العالمین کے مقابلے میں لوگوں کی مصلحتوں سے زیادہ باخبر ہے ؟ کیا کوئی یہ کہنے کی جرات کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو لوگوں کے لئے آخری شریعت بنا رہا تھا ‘ جو اپنے رسول ﷺ کو خاتم النبین بنا رہا تھا ‘ جو انکی رسالت کو خاتم الرسالات بنا رہا تھا اور ان کی شریعت کو شریعت ابدی بنا رہا تھا کیا اللہ قیامت تک آنے والے حالات میں سے کسی حال سے بیخبر تھا کہ ایسا حال بھی آئے گا ۔ کیا وہ اس سے بیخبر تھا کہ لوگوں کی نئی نئی ضروریات پیدا ہوں گی ‘ نئے حالات پیدا ہوں گے اور اللہ نے اس قانوں سازی میں ان کا کوئی خیال نہ رکھا ۔ مطلب پھر یہ ہوگا کہ اللہ کو ان حالات کا علم نہ تھا اور یہ علم اب آخری زمانے میں لوگوں پر منکشف ہوا۔ اس سوال کا وہ شخص جواب دے جو زندگی کے دھارے سے اسلامی شریعت کو نکالنا چاہتا ہے ۔ اس کی جگہ جاہلیت کی شریعت نافذ کرنا چاہتا ہے ۔ وہ اپنی خواہشات کو قانون میں بدلنا چاہتا ہے ‘ یا کسی قوم کی خواہشات کو قانون سمجھتا ہے یا کسی نسل کی خواہشات کو اللہ کے حکم اور اللہ کے قانون سے اونچا سمجھتا ہے ۔ میں پوچھتا ہوں کہ ایسا شخص درج بالا سوالات کا جواب کیا دیتا ہے اور خصوصا اگر یہ شخص اپنے بارے میں یہ زعم بھی رکھتا ہے کہ وہ مسلمان ہے ۔ حالات ماحول ‘ لوگوں کا دلچسپی نہ لینا ‘ دشمنوں کا خوف وغیرہ کیا یہ تمام امور اللہ کے علم میں نہ تھے ؟ خصوصا اس وقت جب اللہ مسلمانوں کو یہ حکم دے رہا تھا کہ وہ اپنے معاشرے میں معاشرے میں شریعت نافذ کریں ‘ اسلامی نظام کے مطابق زندگی بسر کریں اور اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل کئے ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی نہ چھوڑیں ۔ کیا یہ بات اللہ کے علم میں نہ تھی ۔ نئے نئے حالات پیدا ہوں گے اور ان میں کوئی شرعی حکم نہ ہوگا ۔ نئی نئی عادات پیدا ہوں گی اور انسان کو حالات مجبور کریں گے ۔ یہ سب باتیں اللہ کے علم میں تھیں جب اللہ بڑی سختی سے یہ حکم دے رہے تھے کہ شریعت کو نافذ کرو اور اگر وہ نافذ نہ کریں تو انہیں اس قدر سخت نتائج سے ڈرا رہا تھا ۔ ایک غیر مسلم تو جو چاہے کہہ سکتا ہے لیکن مسلمان ‘ جو اسلام کے داعی ہیں ‘ وہ ان سوالات کا کیا جواب دیں گے ۔ کیا وہ اسلام پر قائم رہ سکتے ہیں یا ان کے پاس اسلام سے کوئی چیز رہ سکتی ہے اگر وہ یہی سوچیں اور یہی کہیں ؟ لاریب یہ ایک فیصلہ کن اور دو ٹوک معاملہ ہے ‘ انسان دورا ہے پر کھڑا ہے ۔ کوئی اور راہ نہیں ہے اور اس میں کوئی بحث و تکرار ممکن نہیں ۔ اور نہ کوئی حجت بازی کام کرسکتی ہے یا ایک راہ ہے اور یا دوسری راہ ہے ۔۔۔۔۔ یا اسلام ہے اور یا جاہلیت ہے یا ایمان ہے اور یا کفر ہے ‘ یا اللہ کا حکم ہوگا اور یا جاہلیت کی حکمرانی ہوگی ۔ اور جو لوگ اللہ کے احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ‘ ظالم اور فاسق ہوں گے ۔ اور محکوموں میں سے جو لوگ اللہ کے احکام کو قبول نہیں کرتے وہ مومن نہیں رہتے ۔ ایک مومن کے دل اور فکر میں یہ مسئلہ نہایت ہی واضح اور دو ٹوک ہونا چاہئے ۔ اسے چاہئے کہ وہ نفاذ شریعت میں کسی زمان ومکان کے اثر کو قبول نہ کرے ، نہ تردد کرے اور وہ اس معاملے میں دوست اور دشمن کا کوئی لحاظ نہ کرے ۔ جب تک اس مسئلے میں اہل اسلام اپنے ضمیروں میں دو ٹوک فیصلہ نہیں کرتے تو ان کے حالات درست نہیں ہو سکتے نہ ان کا کوئی ایک معیار اور میزان ہوگا نہ ان کا نظام واضح ہوگا نہ ان کے ضمیر کے اندر حق اور باطل کی کوئی تمیز ہوگی اور نہ وہ اسلام کی شاہراہ پر ایک قدم بھی آگے بڑھ سکیں گے اگر یہ اجازت دی جاتی ہے کہ یہ مسئلہ جماہیر کے ذہنوں میں واضح نہ ہو مجمل ہی رہے ‘ اور لوگوں اور عوام الناس کے ہاں یونہی ڈھیل رہے جس طرح کہ ہے ۔ اور لیکن جو لوگ صحیح طرح مسلمان بننا چاہتے ہیں ان کے ذہن تو صاف ہونے چاہئیں ۔ ان کو تو چاہئے کہ وہ اپنے اندر یہ صفت پیدا کریں ۔ درس نمبر 50 ایک نظر میں : اس سورة کے زمانہ نزول کے بارے میں ‘ مقدمہ میں ہم نے جو کچھ کہا تھا ‘ اس سبق کی آیات اس کی تصدیق کرتی ہیں ‘ یعنی یہ کہ یہ سورة تمام سورة فتح کے بعد نازل نہیں ہوئی ‘ جو صلح حدیبیہ کے بعد چھٹی صدی ہجری میں نازل ہوئی تھی ۔ اس سورة کے کئی ٹکڑے ہیں جو اس سے پہلے نازل ہوچکے ہوں گے ۔ یعنی کم از کم بنی قریظہ کی جلا وطنی سے پہلے جو چار ہجری میں ہوئی ‘ یعنی عام الاحزاب میں اگرچہ اس سے مزید پہلے یعنی بنی نضیر کی جلاوطنی (بعد جنگ احد) اور بنی قینقاع کی جلاوطنی (بعد جنگ بدر) کے دور تک ہم اسے قدیم نہ کہہ سکیں ۔ بہرحال یہ آیات کچھ واقعات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اور جماعت مسلمہ کے اندر پیش آنے والے بعض واقعات کی طرف ان میں اشارہ ہے ۔ ان میں وہ حالات لئے گئے ہیں جو مدینہ میں منافقین اور یہودیوں کے حوالے سے موجود تھے اور یہ حالات اس وقت ہر گز نہیں رہ سکتے تھے جب کہ یہودیوں کی قوت اور شوکت کو توڑدیا گیا تھا اور ان پر آخری وار واقعہ بنی قریظہ کی صورت میں 4 ہجری میں ہوچکا تھا ۔ یہ ممانعت کہ یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ اور یہ ڈراوا بلکہ یہ دھمکی کہ وہ لوگ ان کو دوست بنائیں گے وہ انہی میں سے ہوں گے ‘ اور یہ اشارہ کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے ‘ وہ ان کے ساتھ دوستی کرتے ہیں اور وہ اس پر اپنی یہ مجبوری بیان کرتے ہیں کہ وہ مصیبتوں سے ڈرتے ہیں اور یہ مسلمانون کو نفرت دلانا کہ ان لوگوں سے اس لئے دوستی نہ کرو کہ یہ تمہارے دین کو لہو ولعب سمجھتے ہیں اور یہ اشارہ کہ یہ لوگ اقامت صلوۃ کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔ یہ سب واقعات ممکن ہی تب ہو سکتے ہیں کہ مدینہ میں یہودیوں کو پوری قوت اور شوکت حاصل ہو ۔ اگر یہ قوت نہ ہوتی تو اس قسم کے حالات کا مدینہ میں مدینہ میں پیش آنا ممکن ہی نہ تھا ۔ نہ ایسے واقعات پیش آسکتے تھے ‘ اور نہ اس قدر شدید دھمکی اور ڈراوے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی ۔ اور اس مررسہ کرر مخالفت کی ضرورت نہ ہوتی ‘ نیز یہودیوں کی جبلت کو بیان نہ کیا جاتا اور انکی اس طرح تشہیر نہ ہوتی اور نہ ہی ان پر اس قدر تنقید ہوتی ۔ نہ ان کے مکر و فریب کا پردہ چاک کرنے کی ضرورت ہوتی ۔ نہ ان کے حالات کو اس قدر دہرایا جاتا یا اس قدر روشنی ڈالی جاتی ۔ بعض روایات ایسی بھی ہیں ‘ جن میں سے بعض حالات وواقعات کا تعلق واقعہ بنی قینقاع سے بتایا گیا ہے ‘ حالانکہ یہ واقعہ غزوہ بدر کے بعد پیش آیا تھا ۔ ان کے بارے میں عبداللہ ابن ابی ابن السلول کا موقف اور اس کا یہ کہنا کہ یہودی اس کے دوست ہیں اور یہ کہ وہ یہودیوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ، مثلا اس کا یہ کہنا کہ میں ایک آدمی ہوں کہ میں برے حالات سے ڈرتا ہوں اس لئے میں اپنے حلیفوں کی حمایت نہیں چھوڑ سکتا ۔ یہ روایات اگر نہ بھی ہوں تب بھی سورة کے موضوع اور مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے موضوعات اس کے اندر بیان کردہ واقعات ‘ سیرت النبی کے واقعات اور مدینہ طیبہ میں اس کے مراحل ‘ ادوار سب کے سب اسی بات کو ترجیح دیتے ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا نیز سورة کے مقدمہ میں بھی یہی موقف اختیار کیا۔ اس سبق کی تمام آیات سے وہ اسلوب معلوم ہوتا ہے جس کے مطابق قرآنی منہاج تربیت نے جماعت مسلمہ کو اس رول کے ادا کرنے کے لئے تیار کیا جو اس نے من جانب اللہ اس دنیا میں ادا کرنا تھا ۔ نیز ان آیات سے وہ بنیادی عناصر بھی معلوم ہوتے ہیں جن کا ایک نفس مسلم اور ایک جماعت مسلمہ کی فکر اور سوچ کے اندر ہونا ضروری تھا ۔ یہ بنیادی عناصر ہر دور کے لئے وہی ہیں ۔ یہ مستقل عناصر ہیں اور مستقل اصول ہیں اور یہ کسی دوریا کسی نسل کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں یہی وہ اصول ہیں جن کے اوپر ایک فرد کی تعمیر ہوتی ہے ۔ نیز ایک جماعت کی تنظیم بھی انہیں اصولوں پر ہوتی ہے ۔ قرآن کریم ہر مسلم فرد کی تعمیر اس اساس پر کرتا ہے کہ اس کی تمام ہمدردیاں پورے خلوص کے ساتھ اللہ ‘ رسول ‘ نظریہ اور اس پر قائم ہونے والی جماعت کے ساتھ ہوں ۔ ایک مسلم فرد اور جماعت اور اس فرد اور جماعت کے درمیان مکمل بائیکاٹ ہونا چاہئے جو اسلامی صفوں کے بالمقابل کھڑی ہے اور اس جس نے اسلام کے مخالف جھنڈے اٹھا رکھے ہیں یعنی جو جماعت حضرت نبی کریم ﷺ کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتی اور اس جماعت میں ضم نہیں ہوتی جو حزب اللہ کے مقام پر کھڑی ہے ۔ قرآن کریم انسان کو یہ شعور دیتا ہے کہ وہ خوش قسمت ہے کہ اسے اللہ نے اپنے کام کے لئے چنا ہے اور وہ پردہ تقدیر الہی ہے اور اس کے ذریعے اللہ کی تقدیریں پردے سے ظاہر ہوتی ہیں ‘ ان تاریخی واقعات کی صورت میں جو پیش آتے ہیں اور یہ اللہ کا وہ کرم عظیم ہے کہ جس کے حصے میں آگیا سو آگیا ۔ الا یہ کہ اسلامی جماعت کے سوا تمام دوسری جماعتوں کے ساتھ دوستی گانٹھنا دین اسلام سے ارتداد کے مترادف ہے اور اس مقام کو ترک کردینا ہے جو اللہ نے ان کو عطا کیا اور اس خلعت فضیلت کو اتار پھینکنا ہے جو اللہ نے اسے پہنائی تھی ۔ یہ ہدایات اس سبق کی آیات میں بہت ہی واضح طور پر دی گئی ہیں مثلا اے ایمان والو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے ‘ یقینا اللہ ظالموں کو اپنی راہنمائی سے محروم کردیتا ہے ۔ ‘ ‘ ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے ۔ (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے ‘ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ جسے چاہے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔ “ ” تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ‘ زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب ہونے والی ہے ۔ “ اس کے بعد قرآن کریم ایک مسلم کے شعور میں اس کے دشمنوں کی حقیقت بھی بٹھاتا ہے ‘ اور اس کشمکش کی حقیقت سے بھی انہیں آگاہ کرتا ہے جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان برپا ہے ۔ یہ کشمکش نظریاتی کشمکش ہے ۔ عقیدہ اور نظریہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ایک مسلمان اور اس کے دشمنوں کے درمیان ہر وقت برپا رہتا ہے ۔ مسلمانوں کی دشمنی تمام دوسری چیزوں سے پہلے اپنے عقیدے اور دین کے لئے ہوتی ہے ۔ اہل کفر مسلمانوں کے ساتھ یہ دشمنی اس لئے رکھتے ہیں کہ انہوں نے اس دین کی نافرمانی کی ٹھانی ہوئی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص بھی اس دین پر سیدھا چل رہا ہو وہ اسے سخت ناپسند کرتے ہیں ۔ ” ان سے کہو اے اہل کتاب ‘ تم جس بات پر ہم سے بگڑے ہو ‘ وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور دین کی اس تعلیم پر ایمان لے آئے ہیں جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور ہم سے پہلے بھی نازل ہوئی تھی ‘ اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ۔ “ یہ ہے نظریہ اور یہ ہے نظریاتی اختلاف اور یہ ہیں اختلافی محرکات ۔ اس نظام تربیت اور اس میں دی جانے والی ہدایات کی اہمیت بہت ہی بڑی ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کی ساتھ محبت اور رسول اور اس کے دین کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور اس کی اساس پر قائم ہونے والی جماعت کے ساتھ لگاؤ اور محبت اور اس دین اور اس کے دشمنوں کے درمیان قائم ہونے والی کشمکش کی اصل نوعیت کو سمجھنا اور اس کے دشمنوں کو اچھی طرح جان لینا ہی اصل دین ہے ۔ یہ ایسے امور ہیں کہ جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ انکی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ ان کے بغیر ایمان کی ضروری شرائط پوری نہیں ہوتیں ‘ ایک مسلمان کی ذاتی تربیت بھی نہیں ہوتی اور اس دین کے لئے کسی محرک جماعت کی تشکیل بھی ممکن نہیں ہے ۔ جو لوگ اس دین کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں وہ اس وقت تک پکے مسلمان نہیں ہو سکتے ‘ اس وقت وہ ٹھوس شخصیت کے مالک نہیں ہو سکتے اور اس وقت تک وہ اس کرہ ارض پر کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے جب تک ان کے دلوں کے اندر ان تمام لوگوں کے مقابلے میں دوری نہیں پیدا ہوجاتی جو اس اسلامی محاذ کے خلاف جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں۔ جب تک اہل ایمان کی محبت اور دوستی اللہ ‘ رسول اور اہل ایمان کے لئے مختص نہیں ہوجاتی اور جب تک وہ اس کشمکش کی اصل حقیقت کو پا نہیں لیتے اس وقت تک دین کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے ۔ اور جب تک ان کو یہ یقین نہیں ہوتا ہے کہ وہ محض اس غرض کے لئے جمع ہوئے ہیں ‘ اور یہ کہ ہمارے دشمن سب کے سب اسلامی جماعت اور اسلامی عقائدے کے خلاف متحد ومتفق ہیں۔ ان آیات میں اس پر اکتفاء نہیں کیا گیا کہ مسلمانوں کو وہ اسباب بتا دیئے جائیں جن کی وجہ سے دشمنان دین اسلام کے خلاف جنگ برپا کئے ہوئے ہیں بلکہ ان آیات میں دشمنوں کی نشاندہی بھی کردی گئی ہے ۔ ان کے فسق وفجور کی مقدار کی وضاحت بھی کردی گئی ہے اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ وہ دین سے کس قدر منحرف ہوگئے ہیں تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کو کیسے دشمنوں سے واسطہ پڑا ہے اور اس کا ضمیر بھی مطمئن ہوجائے کہ وہ اس معرکے میں حق بجانب ہیں۔ اس جنگ کی سخت ضرورت ہے ۔ اور اس سے کوئی مفر نہیں ہے ۔ ” اے ایمان والو ! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ “ ۔ ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو تمہارے اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنایا ہے انہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ ۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو ۔ جب تم نماز کے لئے منادی کرتے ہو تو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس سے کھیلتے ہیں ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے ۔ “ ” جب یہ تم لوگوں کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ‘ حالانکہ کفر لئے ہوئے آئے تھے اور کفر ہی لئے واپس گئے اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت ہی بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں “۔ ” یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ‘ باندھے گئے ان کے ہاتھ ۔ اور لعنت پڑی ان پر اس بکواس کے بدولت جو یہ کرتے ہیں ۔ اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں ‘ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔ “ ۔ اس وجہ سے کہ ان کی یہ صفات ہیں اور اس وجہ سے کہ جماعت مسلمہ کے ساتھ ان کا یہ رویہ ہے ‘ اور اس وجہ سے کہ یہ جماعت مسلمہ کے خلاف سب اکھٹے ہوچکے ہیں ‘ اور اس وجہ سے کہ وہ مسلمانوں کے دین اور خصوصا نماز کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں ‘ ایک صحیح مسلمان کے لئے اور کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے کہ وہ پوری سنجیدگی اور پورے اطمینان کے ساتھ ‘ ان لوگوں کی مدافعت کرے ۔ ان تصوص کے اندر اس معرکے کے انجام کا ذکر بھی کردیا گیا ہے اور اس کا پورا نتیجہ بھی یہاں دے دیا ہے ۔ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ آخرت سے بھی پہلے خود اس دنیا میں اسلام کیا رنگ لاتا ہے : ” اور جو اللہ اور رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے ۔ “ ۔۔۔۔۔ اگر یہ اہل کتاب ایمان لے آتے ‘ اور خدا ترسی کی روش اختیار کرتے ‘ تو ہم انکی برائیاں ان سے دور کردیتے ۔ اور ان کی نعمت بھری جنتوں میں پہنچاتے ۔ کاش انہوں نے تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں ‘ ایسا کرتے تو ان کے لئے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا ۔ “ نیز ان آیات میں ایسے مسلمانوں کی صفات کا بھی تذکرہ ہے جن کو اللہ اپنے دین کی خدمت کے لئے چن لیتا ہے اور ان کو یہ فضل عظیم عطا کرتا ہے کہ انہیں اس عظیم کردار کے لئے اس نے چن لیا ۔ ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے ۔ (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے ‘ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ جسے چاہے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔ “ یہ تمام فیصلے اور قرار دایدیں اسلامی نظام کے قیام کے لئے اقدامات ہیں اور ان سے مقصود یہ ہے کہ ایک مسلم فرد اور مسلم جماعت کی ٹھوس بنیادوں پر تربیت کی جائے ۔
Top