Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 83
وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ١ۚ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
وَاِذَا : اور جب سَمِعُوْا : سنتے ہیں مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَى : طرف الرَّسُوْلِ : رسول تَرٰٓي : تو دیکھے اَعْيُنَهُمْ : ان کی آنکھیں تَفِيْضُ : بہہ پڑتی ہیں مِنَ : سے الدَّمْعِ : آنسو مِمَّا : اس (وجہ سے) عَرَفُوْا : انہوں نے پہچان لیا مِنَ : سے۔ کو الْحَقِّ : حق يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے فَاكْتُبْنَا : پس ہمیں لکھ لے مَعَ : ساتھ الشّٰهِدِيْنَ : گواہ (جمع)
’ جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں ، وہ بول اٹھتے ہیں کہ ” پروردگار ‘ ہم ایمان لائے ‘ ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے ۔
(آیت) ” نمبر 83 تا 84 ۔ یہ ایک زندہ منظر ہے اور اس میں اس گروہ کی مکمل تصویر نظر آتی ہے ۔ یہ گروہ جو اہل ایمان کے ساتھ دوستی میں دوسرے کے مقابلے میں قریب تر ہے ۔ یہ ایسا گروہ ہے کہ جب قرآن مجید کا تازہ ترین حصہ نازل ہوتا ہے تو اس گروہ کے جذبات جوش میں آجاتے ہیں ۔ ان کے دل نرم ہوجاتے اور وہ اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرجاتی ہیں ۔ یہ بات اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اس قرآن سے نہایت ہی گہرا اثر لیتے ہیں ۔ وہ اس تاثر کا اظہار صرف آنسوؤں کی زبان میں کرتے ہیں اور اس قسم کا اظہار اس وقت کیا جاتا ہے جب انسان کے لئے الفاظ میں اپنے تاثرات کا اظہار ممکن نہیں ہوتا ۔ اس لئے اس تاثر کا اظہار آنسوؤں کے ذریعے کیا جاتا ہے اور اس طرح دباؤ اور گھٹن ختم ہوجاتی ہے کیونکہ جذبات کا دباؤ نہایت ہی سخت اور گہرا ہوتا ہے ۔ یہ لوگ محض آنسو بہا کر رک نہیں جاتے بلکہ قرآن کو سن کر جس سچائی سے وہ متاثر ہوچکے ‘ اس کے بارے میں منفی رویہ اختیار نہیں کرتے ۔ قرآن کریم میں جس سچے شعور کا حامل ہے ‘ اور جو شدید احساس وہ پیدا کرتا ہے ‘ اس کے مقابلے میں خاموش نہیں رہتے ۔ وہ صرف اتنا ہی نہیں کرتے کہ بس سن کر متاثر ہوئے اور آنسو بہا کر رک گئے بلکہ وہ اس سے آگے بڑھتے ہیں اور مثبت رویہ اختیار کرکے اس سچائی اس شعور اور احساس کو قبول کرلیتے ہیں ۔ وہ ایمان لاتے ہیں یقین کرلیتے ہیں اور یہ بھی نہیں بلکہ وہ اپنے ایمان اور یقین کا اعلان بھی کرتے ہیں اور یہ اعلان وہ بڑے جوش و خروش سے کرتے ہیں ۔ (آیت) ” یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِیْنَ (83) وَمَا لَنَا لاَ نُؤْمِنُ بِاللّہِ وَمَا جَاء نَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن یُدْخِلَنَا رَبَّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِیْنَ (84) ” وہ بول اٹھتے ہیں کہ ” پروردگار ‘ ہم ایمان لائے ‘ ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے ۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ” آخر کیوں نہ ہم اللہ پر ایمان لائیں اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اسے کیوں نہ مان لیں جب کہ ہم اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے ؟ ۔ دیکھئے یہ لوگ اس سچائی کا اعلان کرتے ہیں جو ان تک پہنچی اور وہ اسے پہنچان گئے ۔ اس کے بعد وہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں گواہوں کی فہرست میں شامل فرما دے اور ہمیں اس لڑی میں شامل کر دے اور ہمیں اس لڑی میں شامل کر دے جو اس کرہ ارض پر اس سچائی کو قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے ۔ اس امت میں داخل کر دے جس پر یہ قرآن گواہ ہے کہ وہ امت حقہ ہے اور جو اپنی زبان اپنے عمل اور اپنی جدوجہد کے ذریعے فریضہ شہادت حق ادا کر رہی ہے اور لوگوں کی زندگیوں میں اس سچائی کو جاری وساری دیکھنا چاہتی ہے ۔ چناچہ یہ لوگ فریضہ شہادت حق ادا کرنے والوں میں خود شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ اللہ کو اس بات پر گواہ ٹھہراتے ہیں کہ وہ اس امت میں داخل ہوگئے ہیں اور پھر یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ ہمارا نام رجسٹر کرلیا جائے ۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہ خود آپ سے بطور استفہام انکاری پوچھتے ہیں کہ اب ہماری راہ قبولیت میں کیا رکاوٹ ہو سکتی ہے ؟ کہ سنیں ‘ یقین کریں اور ایمان نہ لائیں تاکہ ان کا رب ان کی دعا قبول کرے ‘ ان کو درجات بلند عطا کرے اور انہیں صالح لوگوں میں درج کرے ‘ کیوں اور وہ ایسا نہ کریں ؟ اس کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ (آیت) ” وَمَا لَنَا لاَ نُؤْمِنُ بِاللّہِ وَمَا جَاء نَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَن یُدْخِلَنَا رَبَّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِیْنَ (84) ” آخر کیوں نہ ہم اللہ پر ایمان لائیں اور جو حق ہمارے پاس آیا ہے اسے کیوں نہ مان لیں جب کہ ہم اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالح لوگوں میں شامل کرے ؟ ‘ یہ ایک صریح ‘ دو ٹوک اور فیصلہ کن موقف ہے ‘ جس میں وہ علی الاعلان قرآن کریم میں جو سچائی اتری ہے اس کو قبول کرتے ہیں ۔ غرض یہ لوگ سنتے ہیں ‘ سمجھتے ہیں ‘ گہرا تاثر لیتے ہیں اور ایمان کا اعلان کرتے ہیں ۔ اسلام کا قبول کرتے ہیں اور امت مسلمہ کا جزء بن جاتے ہیں اور پھر بھی دعا کرتے ہیں کہ وہ انہیں توفیق دے کہ وہ فریضہ شہادت حق ادا کرسکیں ۔ وہ ان لوگوں میں سے ہوجائیں جو اپنے عمل سے ‘ اور جہاد فی سبیل اللہ کرکے اقامت دین کی جدوجہد کرتے ہیں اور دین کو لوگوں کی زندگیوں میں قائم کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کی نظر میں راستہ اس قدر صاف ہوجاتا ہے کہ وہ یہ یقین کرلیتے ہیں کہ یہی راہ ہے اور اس کے سوا ان کے لئے کسی دوسری راہ پر چلنا جائز نہیں ہے ۔ یہ اللہ پر ایمان لانے کا راستہ ہے اور اس سچائی کا راستہ ہے جو اب اللہ نے اتاری ہے ۔ اس امید کا راستہ ہے کہ اللہ انہیں صالحین میں شامل کرے گا ۔ قرآن کریم یہاں آکر بھی نہیں رکتا ۔ یہ لوگ کون ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصاری ہیں اور مسلمانوں کی دوستی میں قریب تر ہیں ۔ ان کا سلوک اور طرز عمل یہ ہے کہ وہ قرآن کی بیان کردہ سچائی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں نہایت ہی مثبت طرز عمل اختیار کرتے ہیں ‘ ایمان کا اعلان کرتے ہیں اسلامی صفوں میں داخل ہوتے ہیں ‘ جان ومال کی جدوجہد کے ذریعے شہادت حق ادا کرتے ہیں اللہ کی جناب میں دست بدعا ہوتے ہیں کہ وہ ان کا نام فہرست شاہدین حق میں درج کرے اور یہ توقع کرتے ہیں کہ اللہ ان کو صالحین میں شامل کرے ‘ قرآن کریم ان کی صرف ان صفات پر ہی بات ختم نہیں کردیتا بلکہ ان کی تصویر مکمل کرنے کے لئے کچھ رنگ اور بھرے جاتے ہیں اور یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ قیامت میں ان لوگوں کا انجام کیا ہوگا ۔
Top