Fi-Zilal-al-Quran - Adh-Dhaariyat : 51
وَ لَا تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ١ؕ اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
وَلَا تَجْعَلُوْا : اور نہ تم بناؤ مَعَ : ساتھ اللّٰهِ : اللہ کے اِلٰهًا اٰخَرَ ۭ : کوئی دوسرا الہ اِنِّىْ لَكُمْ : بیشک میں تمہارے لیے مِّنْهُ : اس کی طرف سے نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : ڈرانے والا ہوں کھلم کھلا
اور نہ بناؤ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ، میں تمہارے لئے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والوں ہوں۔
ولا تجعلوا ........ مبین (15 : 15) ” اور نہ بناؤ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ، میں تمہارے لئے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔ “ اللہ کی طرف آنے کو فرار سے تعبیر کرنا درحقیقت ایک عجیب اور معنی خیز تعبیر ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ اس زمین میں انسانوں کو کس طرح ناجائز طور پر برباد کردیا گیا۔ کس طرح اسے پابندیوں میں جکڑ دیا گیا ہے کس طرح اسے بیڑیاں پہنا کر جیلوں کے گڑھوں میں بند کردیا گیا ہے جنہوں نے انسانوں کو اس زمین کے ساتھ چپکا دیا ہے ، اس پر گرادیا ہے اور اس کو قسم قسم کے بندھنوں سے باندھ دیا گیا ہے۔ خصوصاً رزق اور مال و دولت کی لالچ کے ذریعے اور اپنے حصے کا رزق حاصل کرنے کے لئے ظاہری اسباب رزق میں انسانوں کو منہمک کردیا گیا ہے۔ اس لئے انسانوں کو ان بندھنوں سے چھڑانے کے لئے بھی نہایت ہی زور دار دعوت اور بلند آواز کے ساتھ پکار کی ضرورت تھی اور الفاظ کے استعمال میں بھی ایسا لفظ لیا گیا کہ شدت سے بھاگو ، اور بھاگو بھی اللہ کی طرف بغیر کسی کو شریک ٹھہرائے ہوئے اور حجت تمام کرنے کے لئے کہا گیا۔ انی لکم منہ نذیر مبین (15 : 15) ” میں تمہارے لئے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں “ دونوں آیات کے اندر اس بات کا تکرار تاکید مزید بردلالت ہے۔ پہلی آیت میں بھی کہا گیا۔ انی لکم منہ نذیر مبین (15 : 15) یہ تکوینی آیات اور نشانات آسمانوں کی نشانیوں ، زمین کی نشانیوں ، تخلیق کی نشانیوں اور ان کے ساتھ رسولوں کی تاریخ کے نشانات یہ ایک مسلسل بیان تھا نشانات الجہ کے لئے اور ۔ والسماء بنینھا (15 : 74) بھی انہی کا نتیجہ تھا۔ اس لئے اب رسولوں کی تاریخی نشانیوں پر ایک تبصرہ آتا ہے اور آپ کو تسلی دی جاتی ہے۔
Top