Fi-Zilal-al-Quran - At-Talaaq : 3
وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ١ؕ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا
وَّيَرْزُقْهُ : اور رزق دے گا اس کو مِنْ حَيْثُ لَا : جہاں سے، نہ يَحْتَسِبُ : وہ گمان کرتا ہوگا وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ : اور جو بھروسہ کرے گا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر فَهُوَ حَسْبُهٗ : تو وہ کافی ہے اس کو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ بَالِغُ اَمْرِهٖ : پہنچنے والا ہے اپنے حکم کو قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ : تحقیق بنادیا اللہ نے لِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کے لیے قَدْرًا : ایک اندازہ
اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک تقدیر مقرر کررکھی ہے۔
ومن .................... یحتسب (56 : 3) ” جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو “۔ وہ دنیا اور آخرت کی تنگیوں سے انہیں نکال دے گا۔ اور رزق ایسے ذرائع سے اسے دے گا جدھر کا اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ یہ ایک عام فیصلہ اور دائمی حقیقت ہے۔ لیکن یہاں ان اصولوں کو احکام طلاق پر منطبق کیا جاتا ہے۔ اشارہ یہ ہے کہ ان احکام پر پورا پورا عمل کرو۔ خدا خوفی ایک ایسا ضابطہ ہے جو ایسے معاملات میں سب سے زیادہ کارگر ہے۔ خوف خدا ہی انسان کے لئے ایک اچھا نگراں ہے ورنہ قانونی ضوابط میں سے لوگ اپنے لئے راہیں نکال لیتے ہیں صرف تقویٰ ہی انسان کو صحیح عمل پر گامزن کرسکتا ہے۔ ومن یتوکل ............................ لاغ امرہ (56 : 3) ” جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے “۔ اس معاملے میں سازشوں کی بڑی گنجائش ہوتی ہے ، اور بعض اوقات سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے سازش کرنی پڑتی ہے ، یہاں کہا جاتا ہے کہ ایسی سازشیں نہ کرو ، اللہ پر بھروسہ کرو ، اور جو لوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں وہ ان کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اللہ اپنے کام کرکے رہتا ہے ، وہ جو فیصلے کرچکا ہے وہ واقع ہوکر رہتا ہیں۔ لہٰذا اللہ اور اس کے فیصلوں پر بھروسہ کرنا ، جبکہ وہ بڑی قوت ہے اور جو چاہتا ہے ، کرتا ہے ۔ کامیابی کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہ آیت عام ہے۔ مقصد یہ ہے کہ دلوں کے اندر ایمان اور بھروسے کی صحیح کیفیت پیدا کی جائے۔ اللہ کے ارادے اور اللہ کی تقدیر کے حوالے سے۔ لیکن یہاں چونکہ یہ عام بات طلاق کے حوالے سے آئی ہے تو اس کا یہاں خاص طلاق کی طرف بھی اشارہ ہے ، کیونکہ یہ بھی اللہ کے فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ہے۔ قد جعل ................ قدرا (56 : 3) ” اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک تقدیر مقرر کررکھی ہے۔ “۔ ہر چیز اس کی مقدر ہے ، اس کے زیر نگین ہے ، ہر واقعہ کی ایک جگہ ، ایک مقام ہے۔ اس کے حالات ، اس کے اسباب اور نتائج اس کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔ کوئی چیز از خود وجود میں نہیں آتی۔ نہ یہ معاملات یونہی چلتے ہیں جس طرح کوئی چلائے۔ یہ پوری کائنات ، نفس انسانی اور اس کی زندگی کے تمام واقعات ، اسی عظیم حقیقت کے نتیجے میں نمودار ہوتے ہیں یعنی مطابق تقدیر الٰہی۔ (اس پر ہم نے آیت۔ ) وخلق ................ تقدیرا کے ضمن میں تفصیل سے بات کی ہے دیکھئے سورة الفرقان : 2) یہاں مقصد یہ ہے کہ یہ طلاق اور یہ رجوع ، عدت ، شہادت ، ادائیگی شہادت وغیرہ سب احکام اللہ کے ہاں مقدر ہیں۔ اور یہ اس طرح ہوتے چلے جاتے ہیں جس طرح کائنات میں سنت الٰہیہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس طرح انسان ان معاملات کو یوں سمجھتا ہے جس طرح اللہ کے ہاں فیصلے ہوتے ہیں۔
Top