Fi-Zilal-al-Quran - At-Tahrim : 11
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ١ۘ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَضَرَبَ اللّٰهُ : اور بیان کی اللہ نے مَثَلًا : ایک مثال لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوا : جو ایمان لائے امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ : فرعون کی بیوی کی اِذْ قَالَتْ : جب وہ بولی رَبِّ ابْنِ : اے میرے رب۔ بنا لِيْ عِنْدَكَ : میرے لیے اپنے پاس بَيْتًا : ایک گھر فِي الْجَنَّةِ : جنت میں وَنَجِّنِيْ : اور نجات دے مجھ کو مِنْ : سے فِرْعَوْنَ : فرعون (سے) وَعَمَلِهٖ : اور اس کے عمل سے وَنَجِّنِيْ : اور نجات دے مجھ کو مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگوں سے۔ ظالم قوم سے
اور اہل ایمان کے معاملہ میں اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے۔ جب کہ اس نے دعا کی ” اے میرے رب ! میرے لئے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور ظالم قوم سے مجھ کو نجات دے “۔
دیکھئے فرعون کی بیوی کو ، کفر کا طوفان متاثر نہ کرسکا حالانکہ وہ اس طوفان میں زندگی بسر کررہی تھی ، فرعون کے محل میں۔ وہ اس سے نجات طلب کرتی تھی اور حقیر فرعون کے مقابلے میں جنت میں محل چاہتی تھی۔ اور وہ فرعون کے کفر کے ساتھ نہ تھی ، اس سے نجات طلب کررہی تھی ، اور اس کی خواہشات یہ تھیں : اذ قالت .................... الظلمین (66 : 11) ” جب کہ اس نے کہا کہ ” اے میرے رب ! میرے لئے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور ظالم قوم سے مجھ کو نجات دے “۔ فرعون کی مومنہ بیوی کی دعا ایک مثال ہے اس بات کی کہ جب ایمان راسخ ہوجاتا ہے تو ایک مومنہ دنیا کی اعلیٰ ترین زندگی پر لات مار دیتی ہے۔ فرعون مصر اپنے دور میں دنیا کے بڑے بادشاہوں میں شمار ہوا کرتا تھا۔ اور قصر فرعون میں ایک عورت سب سے اونچا سازو سامان پاتی ہے۔ لیکن ایمان کی وجہ سے وہ اس سے بھی اونچی پرواز کرتی ہے۔ وہ اسے عیش و عشرت نہیں سمجھتی بلکہ ایک گندگی سمجھتی ہے۔ اور اس زندگی سے پناہ مانگتی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ اس سے نجات پائے۔ یہ ایک نہایت ہی عظیم مملکت کی خاتون اول ہے۔ اور یہ اس کی عظیم امتیازی خصوصیت ہے ، کیونکہ عورت ہمیشہ معاشرتی دباﺅ اور اثر کو قبول کرتی ہے لیکن یہ اکیلی عورت اس عظیم دباﺅ کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑی ہے۔ اس پر معاشرے کا دباﺅ ہے ، اس پر محل کا دباﺅ ہے ، اس پر مملکت کا دباﺅ ہے ، اس پر بادشاہ کے وزراء اور حاشیہ نشینوں کا دباﺅ ہے ، اور اس پر بادشاہ کی ملکہ ہونے کے منصب کا دباﺅ ہے ، لیکن اس ہمہ جہت دباﺅ کے مقابلے میں ، یہ عظیم عورت اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے ہے ، اور کفر کے اس عظیم سمندر کے اندر ایک چھوٹے سے تختے پر بیٹھی ہے اور اس کا دامن ان تمام آلودگیوں سے تر نہیں ہورہا ہے۔ کس قدر عظیم ہے وہ ! !
Top