بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Fi-Zilal-al-Quran - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
” اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے ؟ (کیا اس لئے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو ؟.... اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
یہ دراصل ایک عتاب ہے کیونکہ کوئی مومن اپنے اوپر اس چیز کو حرام نہیں کرسکتا جو اللہ نے حلال کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ” شہد “ یا ” ماریہ “ کے پاس جانے کو ازروئے قانون اور شریعت تو حرام نہ کیا تھا۔ صرف اپنے بارے میں فیصلہ کیا تھا کہ میں اس کام کو دوبارہ نہیں کروں گا۔ اس پر یہ جھڑکی آئی کہ جن چیزوں کو اللہ نے حلال کیا ہے ، کسی کو خوش کرنے کے لئے ان سے اپنے آپ کو محروم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلا۔ واللہ غفور رحیم (66 : 1) ” اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے “۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ فعل قابل مواخذہ ہے۔ اور اس کا علاج یہ ہے کہ اللہ کی مغفرت طلب کی جائے اور اللہ کی رحمت شامل حال ہوجائے۔ یہ نہایت ہی لطیف اشارہ ہے۔ قرآن جس حلف کی طرف اشارہ کررہا ہے ، جو رسول اللہ نے کرلیا تھا کہ دوبارہ ایسا نہیں کروں گا تو اللہ نے فرمایا کہ اس قسم سے نکل آﺅ، یعنی کفارہ ادا کرکے اور قسم اگر کسی اچھے کام سے رکنے کے لئے ہو تو اس کا توڑنا اور کفارہ دینا فرض ہے۔ واللہ مولکم (66 : 2) ” اللہ تمہارا مولیٰ ہے “۔ اللہ تمہاری کمزوریوں پر تمہاری معاونت کرتا ہے اور اس معاملے میں بھی تمہاری معاونت کرتا ہے جو تمہارے لئے گراں گزرے۔ اور یہ قسموں کو حلال کرنا اور ان سے کفارہ ادا کرکے نل آنے کا طریقہ اسی لئے تو اللہ نے فرض کیا ہے۔ وھوالعلیم الحکیم (66 : 2) ” وہی علیم و حکیم ہے “۔ وہ تمہارے لئے جو قوانین بناتا ہے ، وہ علم و حکمت سے بتاتا ہے۔ اور تمہارے لئے جو احکام دیتا ہے وہ ایسے ہوتے ہیں کہ تم ان پر عمل کرسکتے ہو اور وہ تمہارے لئے مفید ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہی چیزوں کو حرام کرو جو اللہ نے حرام کیں۔ اور جو اللہ نے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو۔ یہ مناسب نتیجہ ہے۔ اس کے بعد روئے سخن اس بات کی طرف ہے جو آپ نے فرمائی تھی لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ کیونکہ نفس بات اس قدر اہم نہ تھی۔ اور نہ کوئی ایسی بات تھی جس کا قیامت تک تاریخی ریکارڈ پہ لانا ضروری تھا۔ بس جس چیز کو باقی رکھنا مطلوب تھا ، وہ اس بات کے آثار ونتائج تھے۔
Top