Tafseer-e-Haqqani - Al-Faatiha : 5
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے (ہر کام میں) مدد مانگتے ہیں
ترکیب : نعبد فعل اور ضمیر نحن فاعل، ایاک مفعول ہے کہ جو تخصیص کے لیے مقدم کردیا گیا ہے۔ فعل اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔ واؤ حرف عطف نستعین فعل با فاعل ایاک مفعول مقدم برائے تخصیص فعل اپنے فاعل اور مفعول سے مل کر جملہ فعلیہ ہو کر معطوف ہوا جملہ سابقہ پر۔ 1 ؎ چونکہ دین پر جزا ملتی ہے اس لیے اس کو دین کہتے ہیں اور اس کو اس لحاظ سے کہ وہ ایک راہ خدا کی ہے اس پر خلق کو چلنا چاہیے مذہب اور شریعت کہتے ہیں اور چونکہ وہ لکھنے کے قابل ہوتا ہے اس لحاظ سے اس کو ملت کہتے ہیں۔ بات ایک ہے مگر ہر اعتبار سے ایک جدا نام ہے۔ 12 منہ 2 ؎ اس نبی اخیر کی تعلیم خدا سے ملانے میں اپنا نظیر نہیں رکھتی جو بات پہلی امتوں کو ساری عمر میں نصیب ہوتی تھی اس امت میں اول بار حاصل ہوتی ہے ؎ اول، آخر ہر منتہی است آخر ‘ جیب تمنا تہی است اور اسی لیے پہلی کتابوں کی طرف حاجت نہ رہی۔ چناچہ نبی (علیہ السلام) نے حضرت عمر ؓ کو فرمایا تھا کہ تم کو موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب کی کیا ضرورت ہے واللہ اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو میرا ہی اتباع کرتے (بخاری) ان ہی روح افزا باتوں سے تخمیناً 33 برس میں شرقاً غرباً روئے زمین پر دین محمدی ابر رحمت کی طرح پھیل گیا۔ بھلا یہ بات تلوار کے زور سے کہیں نصیب ہوتی ہے ؟ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دین محمدی تلوار کے زور سے دنیا میں پھیلا وہ اپنے تعصب بےجا سے اسلام کے نورانی چہرہ پر دھبہ لگانا چاہتے ہیں۔ تفسیر : بندہ جبکہ اس کی حمد ان اوصاف کے ساتھ کرچکا کہ جن کی تجلی نے خدا تعالیٰ کی ہستی اور صفات کمالیہ کا وہ نقشہ اس کے دل پر جمایا اس کے سوائے پھر اور کوئی نظروں میں نہ سمایا تو اس شوق غائبانہ نے اس کو بارگاہ حضور تک پہنچایا پس جیسا کہ وہ ابتدا میں خدا تعالیٰ کو بن دیکھے اس کے صفات مخصوصہ سے یاد کر کے دلشاد کرتا تھا اسی طرح اب اس کے روبرو ہو کر یہ کہنے لگا کہ اے میرے معبود میں تجھ پر سے قربان تیرے سوا کون ہے میں تیری ہی عبادت اور تجھ ہی سے ہر کام میں مدد مانگتا ہوں۔ آپ کو اس آیت کا پہلی آیتوں سے ربط معلوم ہوگیا کہ یہ ان دلائل کا نتیجہ اور اس تعلیم کا ثمرہ ہے اور غائبانہ سے حاضر ہو کر کلام کرنے کا سر بھی منکشف ہوگیا ہوگا۔ مگر اس کلام کے اسرار و معانی بیان کرنے باقی ہیں سو پیشتر ہم معانی بیان کرتے ہیں۔ عبادت : نہایت درجہ کی عاجزی و انکساری ہے کہ جو کسی کی تعظیم کے لیے عمل میں آوے اور یہ عرب کے اس قول سے ماخوذ ہے۔ طریق معبدای مدلل اس رستہ کو عرب معبد کہتے تھے کہ جس پر کثرت سے لوگ چلتے ہوں اور وہ پائوں میں روندا جائے۔ پس اسی سے عبادت ہے کہ عابد اپنے معبود کے آگے بچھا جاتا ہے۔ عبادت دو قسم پر ہے : اول وہ کہ جو ظاہر اعضائے بدن سے متعلق ہو۔ دوم وہ کہ جو قوائے باطنیہ سے علاقہ رکھتی ہو۔ پھر اول کی دو قسم ہیں۔ بدنی اور مالی پھر بدنی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی فعل تعظیماً عمل میں آوے جیسا کہ سجدہ کرنا ‘ رکوع کرنا جس کو نماز کہتے ہیں اور اس کا نام زبان سے تبرکاً لینا ‘ اس کی تسبیح و تقدیس کرنا ‘ اس کے کلام کو تبرکاً پڑھنا ‘ اس کے مقدس مقامات پر تبرکاً جانا کہ جہاں اس کے ابرار کے نشانات و ظہور برکات ہوں جیسا کہ حج و طواف و سعی وغیرہ ‘ مصائب و حاجات میں اس کو پکارنا ‘ اس کے نام کی دہائی دینا دعا مانگنا۔ دوم اس کے خوف اور ادب سے کسی کام کو عمل میں نہ لانا جیسا کہ جماع واکل وشرب کہ جو نفس کے نزدیک نہایت مرغوب ہیں اس کے لیے ترک کرنا جس کو شرع میں صوم یعنی روزہ کہتے ہیں اور جیسا کہ مقامات متبرکہ میں شکار نہ کھیلنا ‘ وہاں کے درخت نہ کاٹنا۔ جیسا کہ حرم اور احرام میں اور مالی عبادت اس کے نام پر کچھ دینا جیسا کہ زکوٰۃ اور صدقہ اور جو قوائے باطنیہ سے متعلق ہیں وہ بھی چند قسم ہیں۔ اس کے آیات اور عجائبِ قدرت میں غور و فکر کرنا ‘ اس سے دلی اور حقیقی محبت رکھنا ‘ اس کی دل سے تعظیم کرنا ‘ اذکار روح اور نفس اور قلب اور خفی اور سر بھی اسی قسم میں داخل ہیں کہ جن کو ارباب طریقت عمل میں لا کر قدسی ہوجاتے ہیں۔ یہ اصول ہیں باقی ان کے فروع اور اسباب و شروط بیشمار ہیں۔ پس جب اس کے روبرو حاضر ہو کر بندے نے یہ کہا کہ ایاک نعبد کہ ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے اور آیندہ کریں گے تو اقرار کرلیا کہ یہ امور خاص تیرے ہی لیے عمل میں لاویں گے اور کسی کو شریک نہ کریں گے۔ اب غور کرو کہ ایک تو بندے کو یہ حکم دینا کہ تو بت کو سجدہ نہ کیجیو کسی تصویر کو نہ پوجیو جیسا کہ تورات میں مذکور ہے اور ایک یہ کہ ان دلائل کا پر تو ڈال کر کہ جو پہلے تین آیتوں میں مذکور ہوئیں بندے کے منہ سے یہ اقرار کرا دینا دونوں میں کون زیادہ اثر رکھتا ہے۔ چونکہ پہلی کتابیں اس امر میں قاصر تھیں اس لیے نزول قرآن کی ضرورت ہوئی اور جس طرح ردِّ شرک میں یہ کلام بینظیر ہے اسی طرح ہر قسم کی بندگی اور عبادتِ الٰہی کی ترغیب میں اپنا مثل نہیں رکھتا۔ کیونکہ ایک تو یہ کہنا کہ تو اپنے سارے دل اور سارے جی سے اس کی بندگی کر (تورات سفر استثناء) اور ایک ان دلائل سے کہ جو پہلے مذکور ہوئے بندہ کی آنکھوں میں اور کسی کو قابل عبادت نہ رکھ کر اور اپنی رحمت اور پرورش یاد دلا کر خود اس کے منہ سے یہ اقرار کروانا۔ ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور اسی طرح یہ آیت محبت الٰہی پیدا کرنے میں بھی بےمثل ہے۔ تورات میں صرف یہی ہے کہ تو اپنے سارے زور سے اپنے خداوند کو دوست رکھ (استثناء) وہاں نہ محبت کا طریق بتلایا نہ وجوہات محبت ذکر کئے اور اس جگہ دونوں باتیں ہیں کس لیے کہ وجوہات محبت تو (پرورش کرنا ‘ ہر طرح کی حاجات کا روا کرنا ‘ بعد مرنے کے آرام و راحت پہنچانا) اول کی تینوں آیتوں میں ذکر ہوچکے اور یہاں طریق محبت بتلا دیا کہ اس کی عبادت کرو ورنہ اس کے سوا محبت کا اور کیا طور ہے ؟ کیا کسی لکڑی اور بت کو گلے سے لگا کر پیار کیا کرے۔ واضح ہو کہ دنیا میں جو لوگ وہم اور خیالات فاسدہ کی پابندی سے جن خیالی معبودوں کی پرستش کرتے ہیں ان کی چند قسمیں ہیں کیونکہ بعض تو جسمانی چیزوں کو شریک عبادت کرتے ہیں اور بعض غیرجسمانی چیزوں کو۔ اَول اعنی جسمانی چیزوں کی دو قسم ہیں ایک جسم سفلی اور دوسرا جسم علوی پھر وہ معبود کہ جو جسم سفلی ہیں ان کی بھی دو قسم ہیں بسیط اور مرکب۔ بسائط جیسا کہ آگ اور پانی اور ہوا۔ چناچہ ان چیزوں کی اب تک ہنود اور مجوس پرستش کرتے ہیں اور دساتیر اور وید اور پرانوں میں مذکور ہے اور پھر وہ معبود کو جو اجسام مرکبہ ہیں ان کی بھی چند اقسام ہیں معدنیات ‘ پتھر، چاندی، سونا، تانبا، پیتل، چناچہ ان چیزوں کو بھی اب تک اہل ہند پرستش کرتے ہیں اور درخت وغیرہ نباتات چناچہ پیپل کو اب تک ہندو پوجتے ہیں اور اس کے کاٹنے کو بڑا گناہ جانتے ہیں اور حیوانات چناچہ گائے اور بیل اور سانپ وغیرہ جانوروں کو ہندو اب تک پوجتے ہیں اور ان کے ذبح کو بڑا گناہ جانتے ہیں اور انسان چناچہ راجہ رام چندر اور کرشن اور مہادیب اور بشن وغیرہم بہت سے انسانوں کو اب تک معبود جانتے اور ان کے نام کی خیالی صورتیں پتھر وغیرہ کی بنا کے مندروں میں رکھتے ہیں اور ان کے آگے گا بجا کر اور بھوگ لگا کر پوجا کرتے اور سجدہ کرتے ہیں اور ان سے حاجات طلب کرتے ہیں اور اسی طرح عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود جانتے ہیں اور بعض بیوقوف یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کو بھی خدا کا بیٹا کہتے تھے اور وہ معبود باطل کہ جو اجسام علویہ ہیں ان کی بھی کئی قسم ہیں۔ آفتاب، ماہتاب ‘ ستارے۔ چناچہ ان کو بھی ہنود اور مجوس اب تک پوجتے ہیں۔ دساتیر میں ہر ایک ستارے اور آفتاب و ماہتاب کی تسبیح اور پرستش کا طریق مندرج ہے اور وید اور پرانوں میں بھی بہت سے دیوتائوں اور سورج دیوتا کی پوجا کے طریق مندرج ہیں اور گا تری منتر بھی۔ ہندو اس کی پوجا کرنے میں بڑے اعتقاد سے پڑھتے ہیں جس میں آفتاب کی بڑی مدح ہے اور بعض تو ایسے دھرماتما ہیں کہ جب تک سورج دیوتا کے درشن نہیں کرتے اَن جل کے پاس نہیں جاتے اور آسمان چناچہ بہت سے جہلائِ عرب اور مجوس آسمان کو ہر بات کا خالق سمجھتے تھے اور جب ایران میں آ کر اہل اسلام آباد ہوئے تو ان کی اولاد میں بعض پر مجوس کا خیال قدرے موثر ہوا اور اپنے اشعار میں آسمان کو مخاطب کرنے لگے اور پھر جب اردو میں شعر نے جنم لیا تو انہیں ایرانیوں کی تقلید سے یہاں کے شعراء بھی بیچارے آسمان کے پیچھے پڑگئے اور سارے گلے شکوے ناکامیابی کے اسی کے سر لگا کردس پانچ گالیاں دینا ضرور سمجھنے لگے اور جو اجسام نہیں تو ان کی بھی چند قسم ہیں ایک قسم نورو ظلمت اعنی چاندنی اور اندھیرا۔ چناچہ فرقہ مانویہ اور ثنویہ کہ جو مجوس ہیں اندھیرے اور چاندنی کو مدبر عالم جان کر پوجتے اور خدا سمجھتے ہیں۔ دوسری قسم ارواح چناچہ ایک قوم عرب میں یہی عقیدہ تھا کہ ملائکہ ارواح فلکیہ ہیں اور ہر ملک کے لیے ایک ارواح فلکیہ میں سے ایک روح مدبر اور کارکن ہے اور اسی طرح اس عالم میں سے ہر نوع کے لیے ایک روح مدبر اور رب ہے۔ سو یہ لوگ ہر روح کی ایک خیالی صورت پتھر یا پیتل کی بنا کر پوجتے تھے۔ چناچہ ہنود بھی اب تک یہی کرتے ہیں اور ایک قسم خیر و شر، چناچہ مجوس میں سے ایک گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اس عالم کے دو خدا ہیں اور وہ دونوں بھائی ہیں ایک یزداں جو خیر ہے اور تمام اچھی باتیں وہی کرتا ہے اور ایک اہرمن کہ جو شر ہے اور تمام بری باتیں وہی کرتا ہے۔ اگرچہ پادری موحد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر باہمی مناظرات سے بھی اور ان کی بعض کتابوں سے بھی یہ بات معلوم ہوئی کہ شرکا خالق خدا تعالیٰ نہیں گواہر من کے قائل نہ ہوں مگر اس کی جگہ دوسرا مستقل خدا انسان کو مانتے 1 ؎ ہیں۔ حالانکہ ہم نے ان کو سمجھایا بھی کہ خالق ہونا اور چیز ہے اور کا سب ہونا اور چیز۔ خدا خالق ہے اور بندہ کا سب اور اس فعل کے ساتھ کا سب متصف ہوتا ہے نہ خالق۔ دیکھو سیاہی بنانے والے کو سیاہ نہیں کہتے بلکہ اس کو کہ جس کے بدن پر لگی ہو لیکن ان کی سمجھ میں یہ باریک بات نہیں آئی اور اسی لیے اہل اسلام میں سے بھی بعض لوگ کہ جن کو قدریہ یا معتزلہ کہتے ہیں بہک کر شر کا خالق بندے کو قرار دیتے ہیں جس سے عالم کے لیے دو مستقل خالق ماننے پڑتے ہیں۔ وفسادہ ممالا یخفی۔ پس یہ تمام گروہ ان چیزوں کو نفع کی امید اور برائی کے ڈر سے پوجتے تھے اور اب بھی پوجتے ہیں اور جو کسی کی عبادت یا طاعت کرتا ہے تو انہیں دونوں باتوں سے کرتا ہے اور جو ذاتی عبادت کرتے ہیں تو وہ بہت ہی کم ہیں اور محکمہ نبوت کے لیے پر ضرور ہے کہ وہ 1 ؎ آریہ کا بھی یہی اعتقاد ہے۔ اس خراب عقیدہ کو مٹاوے بالخصوص اس نبی کے لیے کہ جو تمام عالم کا نبی ہو اور اس وقت تمام عالم میں انہیں خیالات فاسدہ کی اندھیریاں ہر طرف سے محیط ہوں اور اس گمراہی نے تمام عالم کو تاریک کر رکھا ہو۔ اور اس خیال فاسد کے مٹانے کے لیے تنہا معجزات کافی نہیں۔ کس لیے کہ کچھ عجب نہیں کہ اس نبی کو بھی ان معجزات و کرامات سے منجملہ اور معبودوں کے ایک معبود سمجھ بیٹھیں۔ مطلب برعکس ہوجاوے جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا سمجھ لیا اور اس کا بیٹا بنا دیا بلکہ برہان قوی سے ان تمام چیزوں کا بلکہ مجموعہ عالم کا اور جس قدر عالم فرض کئے جاویں ان سب کا محتاج اور حادث ہونا اور ان کے سب کمالات بلکہ ان کی حیات کا مستعار ہونا دکھا دیا جاوے اور کسی مالک و مختار قادر علیم و رحیم کا ہر وقت دست نگر ہونا مشاہدہ کرا دیا جاوے تاکہ پھر اور کسی چیز کو استحقاق عبادت عقل سلیم کے نزدیک نہ رہے اور نہ کسی سے مدد مانگنے کی حاجت پڑے۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں ایسا ہی کردیا کہ اول تینوں آیتوں میں تمام عالم کا محتاج ہونا اور اپنا ہر طرح قادر و رحیم و کریم ثابت کر کے بندے کے دل پر وہ تجلی ذاتی کی کہ ہر چیز اس کی نظروں میں گر گئی اور خدا ہی کی عبادت و استعانت کا اقرار کرنا پڑا۔ پس ان تینوں کے بعد ایاک نعبد نے تمام جہان کے جھوٹے معبودوں کی خدائی چھین کر کلمہ حق لا الہ الا اللہ کو برہان قطعی سے ثابت کردیا۔ استعانت : معونت (مدد) کا طلب کرنا۔ استعانت کے اصول چار ہیں : (1) دل میں کسی کام کا ارادہ پیدا کرنا اور اس کی خوبی اور نتیجہ کا حسن دل پر نقش کردینا کہ جس کی وجہ سے انسان اس کی طلب میں سرگرم ہوتا ہے۔ (2) اس کام کے آلات و اسباب اور سب ساز و سامان بہم پہنچا دینا۔ پھر اس ساز و سامان کی دو قسم ہیں۔ ایک ضروری کہ جس کے بغیر کام تمام نہ ہو۔ بلا لحاظ سہولت۔ دوسرے زائد از ضروری کہ جس سے بآسانی وہ کام تمام ہوجائے۔ مثلاً ایک تو صرف پیٹ بھر دینا خواہ عمدہ غذا ہو یا بری۔ دوسرے یہ کہ عمدہ غذا سے پیٹ بھرنا۔ پس اس قسم اول کے ساز و سامان کو قدرت ممکنہ اور دوسری کو قدرت میسرہ کہتے ہیں اور استطاعت بھی اسی کو کہتے ہیں۔ پھر یہ ساز و سامان بیشمار ہیں۔ سلاست حواس ظاہرہ و باطنہ اور خارجی اسباب کا بہم پہنچانا۔ و غیر ذلک۔ (3) ارتفاع موانع۔ اعنی اس کار میں جو چیزیں خلل انداز ہیں (خواہ اس کام میں یا اس کی حسن و خوبی میں) ان کو دفع کرنے کے لیے کہ گو کسی کام کا ارادہ دل میں مصمم ہو اور اس کے سب سامان بھی بہم پہنچیں مگر تا وقتیکہ اس کی حارج اور خلل انداز اور مانع آنے والی چیزوں کو دور نہ کیا جائے وہ کبھی کام انجام کو نہیں پہنچے گا۔ (4) اس کام پر غرض کا مرتب ہونا کیونکہ گو ایک گروہ کی یہ رائے ہے (کہ جب دونوں چیزیں ہوں گی یعنی سازو سامان اور ارتفاع موانع ہوگا تو خواہ مخواہ اس فعل کا نتیجہ یا غرض پیدا ہوگی) مگر ہم خدائے تعالیٰ کو قادر مطلق مان چکے ہیں۔ ہرچند اس کی عادت یوں ہی جا ری ہے کہ وہ ان دونوں باتوں کے بعد اثر کو فعل پر مرتب کرتا ہے لیکن وہ قادر ہے چاہے تو نہ ہونے دے چناچہ جس طرح کبھی کبھی اپنا ید قدرت دکھانے کو بغیر سامان و اسباب کے اثر مرتب کردیتا ہے اسی طرح گاہے اسباب پائے جانے اور موانع نہ ہونے پر بھی اثر کو مرتب نہیں ہونے دیتا۔ کبھی آگ نہیں جلاتی ‘ پانی سے سیرابی نہیں حاصل ہوتی ‘ بےلشکر کے فوجوں کو ہزیمت دے دیتا ہے ‘ بےسازو سامان غیب سے کام کردیتا ہے ‘ اس کو ہم خرق عادات کہتے ہیں جو اپنے خدا کو عاجز کہے اور اس کا انکار کرے ہمیں اس سے کیا ؟ مگر ہمارا خدا تعالیٰ قادر ہے۔ اس چوتھی قسم کو برکت بھی کہتے ہیں پس جن کاموں پر اثر مرتب نہیں ہوتا یا حسب دلخواہ نہیں ہوتا تو وہاں کہتے ہیں کہ اس میں برکت نہ ہوئی اور اسی لیے ہر کاروبار میں خدا کا نام لینا اس برکت کے لیے طریقہ اسلام قرار پا گیا۔ پس جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سامان کا بہم پہنچنا کافی ہے وہ اپنے زعم فاسد میں اپنی احتیاج کا سلسلہ خدا سے منقطع جانتے ہیں اس لیے نہ وہ برکت کے قائل ہیں نہ ہر کام میں اس کا نام لینا سودمند سمجھتے ہیں جیسا کہ اکثر اہل یورپ اور ان کے مقلد نیچری۔ خدا تعالیٰ ان کو اس گمراہی سے نجات دے۔ پس یہ جس قدر معونت ہیں سب خدا ہی کے خزانہ غیب سے عطا ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ اس کے دامن تربیت تلے محتاجانہ پرورش پاتا ہے۔ وہ خود محتاج ہیں ان کی ہستی بھی گھر کی نہیں چہ جائیکہ اور کمالات ان سے اور کوئی کیا خاک مدد مانگے ؎ جو خود محتاج ہو وے دوسرے کا بھلا اس سے مدد کا مانگنا کیا وہ لوگ کہ جو مخلوق پرستی کرتے ہیں۔ جیسا کہ معنی عبادت میں بیان ہوا وہ ان معبودوں سے حاجات بھی طلب کرتے ہیں پس خدا تعالیٰ نے لفظ اِیَّاک مقدم کر کے جب بندہ کے منہ سے حالت مشاہدہ میں یہ اقرار کرایا کہ ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں تو ان تمام غلط مذاہب کو مٹا دیا اور راہ توحید دکھا دیا۔ اس مسئلہ کو بھی حضرت خاتم الانبیاء (علیہ السلام) نے لوگوں کے دلوں پر ایسا مدلل کر کے بٹھا دیا کہ جس سے زیادہ ممکن نہیں۔ اس لیے اس نبی (علیہ السلام) کا پیرو ہر جگہ موحد کے لقب سے ممتاز ہے۔ سوال : بلاشک جو قومیں کہ مخلوق پرستی کرتی ہیں خواہ اس مخلوق کو اس کا مظہر بنا کر پوجیں یا جہت قبلہ کی توجیہ کریں جو کچھ ہو بہرحال صریح گمراہی میں ہیں مگر ہندوستان کے بعض مسلمان بھی تو اس سے بری نہیں۔ دیکھئے کوئی تعزیہ پوجتا ہے ‘ کوئی کسی قبر کو سجدہ کرتا ہے ‘ کوئی طاق بھرتا ہے۔ الغرض جس طرح ہندو کرتے ہیں اسی طرح یہ بھی کرتے ہیں۔ صرف یہ فرق ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کو پوجتے ہیں اور یہ اپنے بزرگوں کو۔ جواب : اس سے اسلام پر کوئی عیب نہیں لگتا کیونکہ اسلام نے ان باتوں کی ممانعت کردی ہے جو کرے گا وہ عدالت اسلام کا مجرم ہوگا۔ پس خالص مسلمان تو ان باتوں کے پاس بھی نہیں جاتے۔ ہاں صحبت ہنود سے اگر بعض جہلا ایسا کرتے ہیں تو برا کرتے ہیں۔ دیکھو زنا کو شرع نے حرام کردیا اب جو کوئی مسلمان اس کا مرتکب ہو تو اس سے اسلام پر کچھ عیب نہیں لگتا۔ یہ اس شخص کی برائی ہے۔ اسرار : (ا) یہ کہ لفظ اِیّاَکَ کو جو ضمیر منصوب منفصل ہے لفظ نَعْبُدُ سے مقدم کیا چند حکمتوں کے لئے۔ (اول) یہ کہ عبادت بندہ کی طرف سے اس شاہنشاہ حقیقی کے لیے ایک ہدیہ یا نذرانہ ہے۔ پس اس کا مقتضاء یہ ہے کہ اس نذرانے سے پیشتر جس کے لیے نذرانہ ہے اس کا وجود اور اس کا جلال آنکھوں میں سما جائے۔ کیونکہ جب تک بادشاہ قائم اور اس کا وجود مسلم نہیں تو نذرانہ اور ہدیہ بھی قائم نہیں ہوسکتا۔ (دوم) یہ کہ خدا تعالیٰ کی ذات قدیم اور بندہ اور اس کی بندگی حادث ہے تو جو چیز مقدم الوجود ہے جب تک کوئی اور وجہ عارض نہیں تو اس کو ذکر میں بھی مقدم کرتے ہیں۔ (سوم) یہ کہ عبادت ہرچند غذائے روحانی ہے مگر یہ جسم اور اس کے مقتضیات جو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ان پر عبادت شاق گزرتی ہے اور لہو و لعب میں آرام آتا ہے۔ دیکھئے ناچ میں رات بھر نیند نہیں آتی ‘ مسجد میں تھوڑی سی دیر میں اونگھنے لگتے ہیں اور درحقیقت یہ عبادت خدا تعالیٰ کی وہ امانت ہے کہ جس کا اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ الآیہ میں اشارہ ہے۔ سو یہ بوجھ بھاری بغیر کسی سہارے کے نہیں اٹھ سکتا۔ پس اس تکان اور ماندگی کو دفع کرنے کے لیے بیشتر شربت حضوری کا جام پلا دیا کہ اس کے نشہ اور سرور میں چور ہو کر دنیا ومافیہا سے غافل ہو کر ہمہ تن عبادت میں مستغرق ہوجائے اور اس پر تکان و ماندگی نہ آئے ؎ ہرچند پیر خستہ دل و ناتواں شدم ہر گہ کہ یاد روئے تو کردم جواں شدم دیکھئے جب کوئی کسی پر عاشق زار ہوتا ہے تو جب اس کے محبوب کا نام لے کر کوئی اس سے کیسے ہی بھاری کام کو کہتا ہے تو اس کے نشہ میں آکر کس خوشی سے کرتا ہے اور جب وہ اس کے سامنے کھڑا ہو کر یوں کہے کہ تیرے قربان (کیونکہ عبادت دراصل قربان ہونا ہے) محبوب کا تو نام سننے سے دل بےقرار ہوجاتا ہے چہ جائیکہ وصال اور مشاہدئہ جمال ہو ؎ ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا پس اس لیے ایاک کو مقدم کیا۔ (چہارم) اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ عابد کو لازم ہے کہ اولاً بالذات معبود کی طرف دھیان رہے اور عبادت کو صرف اپنے اور اس کے بیچ میں ایک عمدہ واسطہ اور رابطہ جانے نہ یہ کہ عبادت یا اس کے ثواب و جزا پر نظر کرے۔ کس لیے کہ کامل عبادت یہ ہے کہ اور تو کیا اپنی ہستی کو بھی بھول جائے اور سوائے معبود کے اور کچھ نظر نہ آئے اور یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عبادت عالم غرور سے عالم سرور کی طرف اور اشغال خلق سے حضرت حق کی طرف جانا ہے اور یہ محویت کچھ تعجب کی بات نہیں۔ عشق مجازی میں محبوب کو دیکھ کر سب کچھ بھول جاتا ہے۔ دیکھئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر مصر کی عورتوں نے بیخود ہو کر ترنج کی جگہ اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے۔ پس اس مجازی محبت اور جمال کا یہ حال ہے تو اس حقیقی محبوب اور حقیقی جمال میں کیا مقال ہے اور یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عبادت کے تین مرتبہ ہیں پہلا مرتبہ یہ کہ عبادت ثواب کی امید اور عذاب کے خوف سے کی جائے۔ دوسرا مرتبہ یہ کہ اپنی عبادت کے قبول ہونے سے بزرگی اور کمال پیدا کرنے کے لیے عبادت کرے۔ تیسرا درجہ یہ کہ خدا کی خاص خدا ہی کے لیے عبادت کرے (یعنی وہی مقصود ہو) ۔ تینوں میں یہ اخیر مرتبہ بلند ہے پس اس لیے ایاک کو جو ذات الٰہی پر دلالت کرتا ہے مقدم کیا۔ (پنجم) اگر لفظ ایاک کو مقدم نہ کرتے تو حصر اور خصوصیت نہ سمجھی جاتی۔ پس ان مذاہب باطلہ کا اس لطف و خوبی کے ساتھ رد نہ ہوتا۔ کیونکہ یہاں اور معبودوں کی عبادت کنایۃً مٹائی گئی ہے اور اور کنایہ صراحۃ سے ابلغ ہوتا ہے۔ کیا خوب کہا ہے کسی نے ؎ خوشترآں باشد کہ سِرِّ دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں (2) یہ کہ لفظ نعبد جمع متکلم کا صیغہ بولا اعبد نہ کہا اس میں بھی کئی حکمتیں ہیں : (اول) یہ کہ عبادت ایک نہایت عمدہ فعل ہے۔ اس کے لیے خلوص نیت اور حضور قلب شرط ہے اور یہ ہر شخص کو میسر آنا مشکل ہے اس لیے اپنی عبادت کو اور اچھے لوگوں کی عبادت میں شامل کردیا تاکہ وہ کریم ان کے طفیل میں اس کو بھی قبول کرلے۔ مثل مشہور ہے لکڑی کے ساتھ لوہا بھی تیرتا ہے۔ (دوسرے) یہ کہ عبادت کا استحقاق تربیت اور رحمت اور بندوں کی حاجت روائی کی وجہ سے ہے (کہتے ہیں جس کا کھایئے اس کا گایئے) اور اس کی پرورش ایک دو کے لیے نہیں بلکہ تمام جہان کے لیے ہے جیسا کہ پہلے گزرا۔ پس اس کی عبادت بھی تمام جہان پر فرض ہوئی۔ پس اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے (کہ نہ تنہا میں بلکہ اے خداوند عالم ہم سب تیری عبادت کرتے ہیں) جمع کا صیغہ بولا۔ (تیسرے) یہ کہ یہ سورة نماز میں پڑھی جاتی ہے اور نماز میں جماعت مقصود ہے (تاکہ شوکت اسلام معلوم ہو اور ایک کا دوسرے کو حال معلوم ہوا کرے اور باہم محبت پیدا ہو اور ایک پر دوسرے کے انوار منعکس ہوں اور بہتوں میں ایک نہ ایک خالص بندہ بھی ہوتا ہے اس کے ساتھ عبادت کرنا قبولیت کا باعث ہے) پس اس مقصود کی طرف اشارہ کرنے کو لفظ جمع لایا گیا۔ (چوتھے) یہ کہ اگر اعبد کہتے تو اس میں عابد کو یہ خیال آتا کہ میں عبادت کرتا ہوں اور کوئی نہیں۔ سو اس وسوسہ کے مٹانے کے لیے جمع متکلم کا صیغہ نعبد کہا تاکہ معلوم ہوا کہ اور ہزاروں ہیں میں کیا ہوں۔ (3) کہ نعبد مضارع کا صیغہ بولا کہ جو حال اور استقبال دونوں کو شامل ہے ماضی عبدنا نہ کہا۔ کس لیے کہ حضوری کا مقام یہ چاہتا ہے کہ اس وقت بھی عبادت کی جائے اور آیندہ کے لیے اس کا عہد کرے۔ سو یہ بات مضارع میں حاصل ہے نہ ماضی میں۔ اور اسی قدر اسرار ایاک نستعین میں ہیں ان سب کو وہاں خیال کرلیجئے۔ طول کلام سے ڈر کر بس کرتا ہوں۔ (4) عبادت کو مقدم کیا اور استعانت کو مؤخر اس میں چند اسرار ہیں۔ (اول) یہ کہ اول بادشاہوں کے حضور میں پیشتر کوئی تعظیم اور کو رنش بجا لا کر اور کچھ ہدیہ یا نذرانہ پیش کر کے عرض حال اور سوال کیا کرتے ہیں گو خدا تعالیٰ کو دنیاوی بادشاہوں سے کچھ بھی مناسبت نہیں مگر فطرت سلیمہ کا یہی مقتضا ہے۔ اس لیے اول عبادت کو اس کے حضور عالی میں پیش کر کے اپنی عبودبیت کا اظہار کردیا۔ اور اس کی خوشنودی کو حاصل کرلیا۔ اس کے بعد ایاک نستعین کہہ کر سوال کیا۔ خلاصہ یہ کہ عبادت وسیلہ ہے استعانت ‘ سوال ‘ مطلب اور ہمیشہ وسیلہ مقدم ہوتا ہے۔ (دوم) یہ کہ ایاک نعبد یہ چاہتا ہے کہ نفس کو عبادتِ الٰہی سے ایک بڑا رتبہ حاصل ہو اور اس میں ایک قسم کی خودپسندی پیدا ہونے کا احتمال تھا۔ تو اسی لیے اس کے بعد ایاک نستعین کہہ دیا کہ یہ عبادت بھی تیری ہی مدد اور اعانت سے ہوتی ہے تاکہ اس مرض کا علاج ہوجاوے۔ (سوم) اس میں اشارہ ہے اس طرف کہ استعانت اسی سے چاہتے ہیں کہ جس کی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا وہی مستحق ہے کہ جو خالق اور مربی اور ہر طرح کی قدرت و اختیار رکھتا ہو اور وہ مستحق طلب اعانت بھی ہے۔ گویا کہ یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم ہیں۔ پھر ان دونوں لفظوں کے جمع کرنے میں بھی حکمت ہے (الف) یہ کہ مرتبہ عبودیت دو باتوں سے کامل ہوتا۔ اول یہ کہ عبادت کرے۔ دوم یہ کہ اپنے آپ کو محتاج محض سمجھ کر ہر کام میں اسی سے مدد مانگے کس لیے کہ جو نوکر ہمیشہ خدمت گزاری کرتے ہیں اور اپنی حاجات کا اظہار مولیٰ سے نہیں کرتے نہ اس سے طالب امداد ہوتے ہیں تو ان سے کسی قدر بوئے نخوت آیا کرتی ہے اور ان کا فدوی مخلص ہونا ثابت نہیں ہوتا بالخصوص اس آقا کے روبرو جو دے کر خوش ہوتا ہے اور جو مانگنے کا حکم دیتا ہے۔ پس اس لیے ایاک نعبد کے بعد ایاک نستعین کہہ دیا۔ (ب) یہ کہ تکملہ عبادت کا ہے۔ اعنی پوری اور اصل عبادت جب ہی پائی جاتی ہے کہ جب ہمہ تن عجز و انکسار ہو کر اس کے آگے ہاتھ پھیلایا جاوے۔ کس لیے کہ اس وقت وہ روحانی نیاز اور ارتباط پیدا ہوتا ہے کہ جو بہت سی عبادت سے نہیں ہوتا۔ اور اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے (مشکوٰۃ) اور اسی لیے ہر عبادت کے ساتھ دعا کا مانگنا اسلام میں لازم قرار دیا گیا۔ نماز پنجگانہ کے بعد ہمیشہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام دعا مانگا کرتے تھے اور سب انبیاء اکثر اوقات دعا کرتے تھے اور اسی لیے حکیموں کا قول ہے کہ جب بندہ دعا کرتا ہے تو عرش الٰہی کو جنبش ہوتی ہے یعنی بندے اور خدا میں جو واسطہ اور رابطہ ہے وہ زندہ ہوتا ہے اور اسی لیے اس کے بعد اکثربندہ کا مقصود خدائے تعالیٰ عطا بھی کرتا ہے۔ (ج) یہ کہ دنیا کے جس قدر فریق مشرک ہیں وہ اپنے خیالی معبودوں کی عبادت بھی کرتے تھے اور پھر ان سے ہر حاجت کا سوال بھی کرتے تھے۔ جیسا کہ اب بھی ہنود بتوں سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر مانگتے ہیں اور بعض آدمیوں سے بھی اولاد و مال و تندرستی و عزت مانگا کرتے ہیں۔ پس شرک کی یہ دو شاخ ہیں ایک عبادت دوسرے استعانت اس لیے خدا تعالیٰ نے پہلے تین آیتوں میں دو دلائل قائم کر کے (کہ جن سے اس کے ماسوا ہر چیز کا محتاج اور حادث ہونا ثابت ہو) ان دونوں شاخوں کو جڑ سے کاٹ دیا کہ بندہ کے منہ سے دربار خاص میں بہت سی جماعت کے روبرو اپنا جلوہ دکھا کر یہ اقرار کرا دیا کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں نہ اور کسی کی اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں نہ اور کسی سے (د) یہ کہ دنیا میں تین قسم کے آدمی ہیں۔ اول جبری جو کہتے ہیں کہ ہم کو کچھ اختیار نہیں جو کچھ کرتا ہے وہی کرتا ہے ہم تو لکڑی پتھر کی طرح بےاختیار ہیں۔ دوم قدری کہ جو ہر چیز میں اپنے آپ کو فاعل مختار اور موجد اور قادر سمجھتے ہیں۔ سوم اہل حق کہ جو نہ بندہ کو مختار محض کہتے ہیں نہ بےاختیار محض۔ چونکہ وہ دونوں فریق غلطی پر ہیں کس لیے کہ اول گروہ تو شریعت بلکہ کل معاملات دنیاوی کا ابطال کرتا اور خدا کی ذات مقدس میں عیب ثابت کرتا ہے۔ پس ان کی رد میں تو اِیَّاکَ نَعْبُدُ فرمایا کہ جس سے بندہ کو عبادت کا اختیار ثابت ہوتا ہے اور دوسرا فریق کارخانہ خالقیت میں حصہ پیدا کرتا ہے۔ ان کی اصلاح کے لیے لفظ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ فرمایا کہ جس سے بندہ کا محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مسائل فقہیہ : اس آیت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ خدائے تعالیٰ کے سوا اور کسی کی پرستش حرام ہے خواہ وہ اور کوئی ہو نہ اور کسی کو سجدہ درست ہے نہ رکوع۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ یا حضرت ! ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا کریں آپ نے منع فرمایا (مشکوٰۃ) اور نہ کسی کے نام کا روزہ رکھنا جائز ہے اور نہ غیر اللہ کے نام سے صدقہ و خیرات کرنا درست ہے نہ اور کسی گھر کا خانہ کعبہ کی طرح طواف درست ہے نہ احرام باندھ کر جانا یہاں تک کہ ذبیحہ پر بھی غیر اللہ کا نام لے کر ذبح درست نہیں اور اسی طرح غیر اللہ سے مدد مانگنا بھی درست نہیں۔ نہ اور کسی کو قاضی الحاجات و دافع البلیات خیال کرنا روا ہے۔ سوال : جب یہ بات ہے تو پھر مسلمان ایک دوسرے سے کیوں مدد مانگتے ہیں۔ کوئی کسی سے پانی مانگتا ہے ‘ طبیب کے پاس علاج کے لیے جاتے ‘ بادشاہوں اور امراء سے سوال کرتے ہیں۔ علیٰ ہذالقیاس حالانکہ ان باتوں کو کوئی بھی منع نہیں کرتا نہ ان کے مرتکب کو کوئی مشرک کہتا ہے۔ جواب : استمداد کی دو قسم ہیں۔ ایک یہ کہ جس سے امداد چاہتا ہے اس کو عالم اسباب میں ایک حیلہ اور مدد الٰہی کا مظہر جانتا ہے اور دراصل مدد کرے والا خدا ہی کو سمجھتا ہے چونکہ وہ اور کے دل میں القا کرتا ہے تو وہ کام کردیتا ہے اور یہ کہ اسی غیر کو مستقل جانتا ہے۔ قسم اول کی استمداد درحقیقت خدا تعالیٰ سے استمداد ہے نہ اس غیر سے اور دوسری قسم غیر سے ہے۔ اس لیے قسم اول مباح اور قسم دوم حرام ہے اور سوال مذکور میں جو استمداد ہے وہ قسم اول سے ہے۔ اسی لیے علمائِ اسلام نے یہ فرمایا ہے کہ جو طبیب کو صحت بخشنے و الا جانے گا اور دوا کو مستقل موثر سمجھے گا مشرک ہوگا۔ ہاں دوا کو اور حکیم کو ایک سبب جانے اور خاص فاعل اسی کو سمجھے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اور اسی طرح انبیاء اور اولیاء اور صلحاء سے محبت رکھنا اور ان کی تعظیم کرنا عبادت غیر اللہ نہیں۔ کس لیے کہ یہ بھی صرف خدا تعالیٰ کے واسطے سے کیا جاتا ہے نہ ایسے افعال میں عبادت پائی جاتی ہے مگر افراط وتفریط نہ چاہیے۔ فروعات : (1) اس حکم کو قرآن مجید میں اور جگہ بھی بکثرت فرمایا ‘ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ ” میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے “۔ وَقَضٰی رَبُّکَ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّا اِیَّاہٗ (ترجمہ) ” تیرے رب نے یہی حکم دیا ہے کہ اسی کو پوجو “ اِسْتَعِیْنُوْا بْاللّٰہِ خدا سے مدد مانگو۔ اور بہت سی آیات ہیں۔ اس حکم کا اسلامیوں پر وہ اثر ہوا کہ کبھی کسی نبی کی امت پر نہیں ہوا۔ پنجگانہ نماز ( کہ جس میں روحانی اور جسمانی عبادت اور استعانت اور استغفار اور اپنی عاجزی اور خدا کی شکر گزاری اور اس کی ثناو صفت اور دعا ہے) پھر اس کے ساتھ سنن اور نوافل اور پھر شب بیداری کہ جس کی نسبت فرمایا ہے یَبْیْتُوْنَ لِرَبَّھْمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا (ترجمہ) ” خدا کے خالص بندے اس کے لیے سجدہ اور قیام میں شب گزاری کرتے ہیں اور پھر صبح اور شام اور زوال وغیرہ اوقات سفر و حضرسونے جاگنے ‘ کھانے پینے کے اذکار بیشمار اسلام کے شرف کی دلیل واضح ہے۔ یہ بات کسی مذہب و ملت میں نہیں۔ پھر مالی عبادت اور ریاضت صوم و حج بھی اس ملت میں فرض ہے۔ یہ نہیں کہ جو چاہے کرے چاہے نہ کرے۔ پھر اس عبادت اور توحید کا نور اور سرور جو کچھ اہل اسلام کے دلوں پر جلوہ گر ہوا اور اب تک ہے اس کا نظیر بھی کہیں اور کسی امت میں پایا نہیں جاتا۔ محبت اور خوفِ الٰہی سے شب بھر رونا اور اس مزہ میں بےخود و مست ہونا کہ نہ تن کی خبر نہ بدن کی۔ سرور کائنات (علیہ السلام) و الصلوٰۃ اور صحابہ ؓ اور تابعین اور تبع تابعین بلکہ اولیائے متاخرین حضرت محبوب سبحانی عبدالقادر جیلانی قدس سرہ اور حضرت بایزید بسطامی اور حضرت جنید بغدادی اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی وغیرہم کے احوال بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں۔ خود آنحضرت ﷺ کے سینہ فیض گنجینہ سے ایک ہانڈی کے جوش کی طرح شوق الٰہی میں آواز آیا کرتی تھی۔ حضرت ابوحنیفہ (رح) کو شام سے صبح ہوجاتی مگر اس ذوق میں ان کو خبر بھی نہ ہوتی تھی۔ اسی لیے ان لوگوں کی روحانی قوت اس درجہ کو غالب آگئی تھی کہ جو انبیائِ بنی اسرائیل سے معجزات سرزد ہوئے ہیں وہ ان سے کرامات صادر ہوئی ہیں کہ جن کو لوقا اور مرقس سے زیادہ تر ثقہ لوگوں نے مشاہدہ کیا اور اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ حواریوں کے حالات اور ان کی تاریخ و ملفوظات کو عیسائی انجیل اور کتاب الٰہی کہتے ہیں ہم ان بزرگواروں کے حالات کی کتابوں کو قرآن اور کلام الٰہی نہیں کہتے مگر دونوں برابر ہیں کوئی کچھ کہا کرے۔ چونکہ ان کے ہاں کتاب الٰہی نہ تھی اگر یہ لوگ ان تاریخوں کو انجیل کہہ کر دل خوش نہ کرتے تو کیا کرتے۔ ہمارے ہاں چونکہ قرآن مجید کلام الٰہی موجود ہے ہم کو اس تکلیف کی کیا ضرورت۔ اس بات سے ان کی تاریخیں (کہ جن کو انجیل کہتے ہیں) معتبر اور ہماری تاریخیں غیر معتبر نہیں ہوسکتیں نہ وہ ہم سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان باتوں کو قرآن مجید میں دکھلائو۔ (2) چونکہ اس مذہب میں یہ نور عبادت و توحید ہمیشہ ہے اس لیے ان کے ہاں وہ لوگ کہ جن پر فیض روح القدس نازل ہوتا ہے ہمیشہ چلے آئے ہیں اور عیسائیوں کے ہاں یہ بات چونکہ حواریوں میں تھی کہ ان پر روح نازل ہوتی تھی جس سے وہ صدہاکرامات دکھاتے تھے۔ زہر ان پر اثر نہ کرتا تھا ‘ بیمار ان کے ہاتھ لگانے سے تندرست ہوجاتے تھے ‘ سانپوں کو اٹھا لیتے تھے۔ (مرقس) مگر ان کے بعد دین مسیحی میں تحریف و تبدیل ہو کر فرق آگیا وہ بات جاتی رہی پھر کوئی ایسا نہیں ہوا نہ کوئی عیسائی ایسا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ اب کیا حواریوں کے بعد سے کوئی سچا عیسائی نہ رہا۔ ورنہ اس فیض روحانی کے بند ہونے کی کیا وجہ ؟ (3) آپ جان چکے ہیں کہ بندے سے کرامات جب صادر ہوتی ہیں کہ وہ قرب خدا حاصل کرتا ہے کیونکہ دراصل ہر چیز پر وہی قادر ہے لیکن جب بندہ اس کی صحبت میں رہتا ہے تو جس طرح آگ کالو ہے پر اثر آکر اس کو بھی جلا دینے والا بنا دیتی ہے یا جس طرح پھول اپنی صحبت میں مٹی کو معطر بنا دیتا ہے یہی حال عابد و عارف کو خدائے تعالیٰ کی قربت سے نصیب ہوتا ہے تو پھر اس کی زبان اس کا بیان ہوجاتی ہے جمال ہمنشیں درمن اثر کرد وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم کس لیے کہ جب ممکنات میں اثرو تاثیر کا یہ حال ہے پھر وہ تو قادر و ذوالجلال ہے اور یہاں سے آپ کو یہ بھی معلوم ہوا کہ عبادت کا فائدہ بندہ کے لیے ہے خدا کو کچھ ضرورت نہیں وہ بندے کے نفع کے لیے حکم دیتا ہے۔
Top