Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Kahf : 20
اِنَّهُمْ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ یَرْجُمُوْكُمْ اَوْ یُعِیْدُوْكُمْ فِیْ مِلَّتِهِمْ وَ لَنْ تُفْلِحُوْۤا اِذًا اَبَدًا
اِنَّهُمْ
: بیشک وہ
اِنْ يَّظْهَرُوْا
: اگر وہ خبر پالیں گے
عَلَيْكُمْ
: تمہاری
يَرْجُمُوْكُمْ
: تمہیں سنگسار کردیں گے
اَوْ
: یا
يُعِيْدُوْكُمْ
: تمہیں لوٹا لیں گے
فِيْ
: میں
مِلَّتِهِمْ
: اپنی ملت
وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا
: اور تم ہرگز فلاح نہ پاؤ گے
اِذًا
: اس صورت میں
اَبَدًا
: کبھی
کیونکہ اگر وہ تم پر قابو پا جائیں تو تمہیں سنگسار کر ڈالیں گے یا اپنے مذہب میں الٹا پھیر لائیں گے اور تب تو تم کبھی فلاح نہ پاؤ گے
ترکیب : ان یظہروا شرط یرجمو اور یعیدو جواب شرط ولن تفلحوا اذابدا ای ان رجعتم الی دینھم لن تسعدوا فی الدنیا ولافی الآخرۃ اعثرنا اے اطلعنا غیرھم علی احوالھم یقال عثرت علی کذا اے علمۃ یعلموا کا فاعل ضمیر راجع الناس کی طرف۔ اذا ظرف اعثرنا کا۔ تفسیر : اس لیے ان لوگوں کو اصحاب الکہف والرقیم کہتے ہیں۔ فرماتا ہے کہ اے پیغمبر ! کیا آپ ان کو ہماری آیات قدرت میں سے عجیب تر خیال کرتے ہیں ؟ یہ کچھ زیادہ عجیب نہیں اس سے بڑھ کر ہماری نشانیاں ہر روز تمہارے سامنے موجود ہیں وہ کیا ؟ آسمان و زمین کا پیدا کرنا ان میں، چاند و سورج کا حرکت کرنا، ہوائوں کا بدلنا، انسان و حیوان و نباتات و جمادات کی پیدائش وغیرہ وغیرہ۔ یہ قصہ کی تمہید تھی۔ اذاوی الفتیۃ سے ان کا قصہ شروع ہوتا ہے فیۃ فتی کی جمع ہے جس کے معنی جوان کے ہیں اور جمع کی صورت میں چند جوان جیسا کہ صبّیٍ کی جمع صبیۃ آتی ہے یعنی وہ چند جوان اس غار میں آ بیٹھے تو وہاں خدا سے یہ دعا کرنے لگے کہ ہم پر رحمت کر ‘ اس سختی اور تنگی کے وقت ہماری کارسازی کر، فضربنا علیٰ اذانہم خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کے کانوں پر پردے ڈال دیے۔ یہ عرب میں سلانے کے لیے محاورہ ہے کیونکہ خواب میں کانوں پر پردہ پڑا ہوتا 1 ؎ ہے جس سے وہ کسی کی بات نہیں سنتا۔ ثم بعثناھم پھر ان کو ہم نے اٹھایا یعنی بیدار کیا۔ لنعلم ای الحزبین تاکہ ان دونوں جماعتوں میں سے کہ جو ان کی مدت خواب میں اختلاف کرتے تھے ہم کو معلوم ہو کہ کس کو ٹھیک مدت معلوم ہے۔ یا تو بیدار ہونے کے بعد خود انہیں میں اختلاف تھا کہ کوئی ان میں ایک روز اور کوئی آفتاب کو خیال کر کے ایک روز سے کم کہتا تھا یا اس عہد میں لوگوں میں اختلاف تھا کوئی دو سو برس کہتا تھا، کوئی تین سو چناچہ آج تک عیسائی اور اہل اسلام کے مؤرخوں میں اختلاف ہے جیسا کہ آپ کو آگے چل کر معلوم ہوگا اگرچہ خدا تعالیٰ کو ازل میں ہر چیز کا علم تھا اور ہے مگر امتحان کرنا اور اپنا علم حاصل ہونا بندوں کے لحاظ سے فرماتا ہے یا علم اجمالی کے بعد علم تفصیلی مراد ہے جو بعد وقوع حوادث ہوتا ہے اس کو علم تفصیلی کہتے ہیں۔ نحن نقص الخ سے اجمالاً بیان کر کے پھر اس قصہ کی تفصیل فرماتا ہے جیسا کہ فصحاء وبلغا کا قاعدہ ہے انہم فتیۃ اٰمنوا بربہم کہ وہ چند لوگ تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے، بت پرستی سے جو اس عہد میں عام وبا کی طرح پھیلی ہوئی تھی بیزار ہوگئے تھے۔ زدنا ھم ھدی وہ ایمان پر نہایت ثابت قدم اور ایمانداروں میں مخصوص تھے۔ وربطنا علٰی قلوبہم ان کے دلوں کو صبرواستقلال بھی ہم نے دیا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب اس بادشاہ نے ان کو اپنے بتوں کے لیے سجدہ کرنے اور ان کی قربانی کرنے پر مجبور کیا تو انہوں نے علی رئوس الاشہاد صاف کہہ دیا کہ ربنا السمٰوات والارض الخ کہ یہ بت ہمارے خدا نہیں ہمارا خدا تو وہ ہے کہ جو آسمان و زمین کا خدا ہے اگر ہم اس کے خلاف کہیں تو ہم نہایت غلط بات منہ سے نکالیں گے اور ہم کو کبھی فلاح نہ ہوگی اور تم جو ان بتوں کو خدا کہتے ہو ان کی خدائی پر کوئی روشن دلیل کیوں نہیں لاتے۔ یہ تو تمہارے ہاتھوں کے تراشے ہوئے بت ہیں اگر تم ان کو یا وہ جن کی یہ صورتیں ہیں خدائی کا حصہ دار یا اس کے رشتہ دار بناتے ہو (یا ہنود کی طرح اس کی تصویر قرار دے کر جہت عبادت کہتے ہو) تو یہ سب باتیں خدا تعالیٰ پر افتراء و بہتان ہیں کیونکہ نہ اس کا کوئی رشتہ دار ہے نہ شریک خدائی نہ اس بیچوں و بیچگوں کی کوئی صورت ہے۔ جب اس تقریر پر بادشاہ جابر ان پر خفا ہوا اور حکم دیا کہ یا تو سجدہ کرو ورنہ قتل کئے جاؤ گے۔ روئی میں لپیٹ کر جلائے جاؤ گے جیسا کہ اس عہد میں ایمانداروں کی نسبت روم کے قیصر کرتے تھے۔ تب انہوں نے کچھ مہلت طلب کی۔ بادشاہ نے مہلت دی تو اپنے مقام پر آ کر آپس میں یہ مشورہ کیا کہ اذا اعتزلتموھم وما یعبدون الا اللہ فاؤا الی الکہف الخ کہ جب تم نے اس قوم اور ان کے معبودوں کو جو اللہ کے سوا ہیں ترک ہی کردیا اور ان سے کنارہ کشی کرلی تو چلو اس غار میں جا چھپو۔ خدا تعالیٰ وہاں تم کو مصیبت میں نہ ڈالے گا بلکہ تم پر رحمت کرے گا اور تمہارے کام میں آسانی اور کارسازی کرے گا۔ (ان کو اپنے ایمان کامل کی وجہ سے اس بات پر یقین ہوگیا تھا چناچہ اس نے ان کے ساتھ ایسا ہی کیا، اس کی مدد غیبی ایمانداروں پر ہمیشہ اسی طرح ہوا کرتی ہے) ۔ اب آیندہ قصہ کو حذف کردیا (کہ وہ غار میں آ چھپے اور وہاں ان کو 1 ؎ اور نیز جب بچہ کو سلاتے ہیں تو اس کے کان تھپکتے ہیں اس لیے یہ محاورہ ہوگیا۔ 12 منہ ایسی نیند آئی جو کئی سو برس تک سوتے رہے) ادھر بادشاہ اور ان کے ارکان دولت تلاش کرنے لگے اور جب یہ معلوم ہوا کہ اس کئی میل کے تنگ و تاریک غار میں گھس گئے ہیں جس میں جا کر تلاش کرنا مشکل ہے اور غرض ان کا قتل کرنا تھا سو غار کے منہ پر ایک مستحکم دیوار چن دی کہ بن آئے آپ مر رہیں گے اور دفتر میں یہ حال درج کرا دیا گیا۔ یہ بات اگلے بیان سے سمجھی جاتی ہے اور فصحاء و بلغاء ہمیشہ اس طرح حذف کردینا جزء بلاغت سمجھتے ہیں۔ اب ان کے غار میں رہنے کی کیفیت بیان فرماتا ہے۔ وتری الشمس الی قولہ الملئت منہم رعبا کہ غار میں وہ اس موقعہ پر سوئے کہ طلوع کے وقت آفتاب یعنی دھوپ ان کے دائیں طرف سے ہو کر گزر جاتی تھی اور غروب کے وقت یعنی پچھلے پہر بائیں طرف رہتی تھی۔ ان پر دھوپ نہیں آتی تھی اور وہ کھوہ میں کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔ اس قسم کے مکان کی تصویر (کہ جہاں اول دن دھوپ دائیں طرف رہے اور اخیر دن بائیں طرف) علماء کرام نے کئی طور پر کی ہے۔ اول یہ کہ غار کا منہ شمال کی جانب تھا، طلوع کے وقت دھوپ ان کے دائیں سے اور غروب کے وقت بائیں سے ہو کر گزر جاتی تھی جیسا کہ شمال رویہ مکانوں میں ہوتا ہے۔ بیضاوی نے کہف کے درازہ کو بنات النعش ستاروں کے نیچے قرار دیا ہے اور قاعدہ ہیئت پر تقریر کی ہے جس کو سامعین کے قصور فہم کے لیے ترک کرنا پڑا۔ بعض کہتے ہیں کہ خواہ کسی رخ غار کا منہ ہو اور کسی برج کے مقابلہ میں ہو مگر خدائے تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے ان کو آفتاب کی شعاع سے بچاتا تھا اس لیے اس کے بعد ذالک من آیات اللہ فرمایا کہ یہ خدا کی عجائبات قدرت میں سے ہے پھر نکتہ چینوں اور کوتاہ بینوں کو تنبیہ کرتا ہے کہ من یہد اللہ فہوا المہتد و من یضلل فلن تجدلہ ولیًا مرشدًا۔ یہ زجاج کا قول ہے۔ دیگر مفسرین کہتے ہیں ان کے اس قدر باقی رہنے کو ذالک من آیات اللہ سے تعبیر کیا ہے اور ان کی ہدایت و ایمان کے لیے من یہد اللہ الخ آیا ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے تحسبھم ایقاظًا کہ اے دیکھنے والے ! تو ان کو دیکھے تو بیدار جانے، ان کے کروٹیں بدلنے اور آنکھیں کھلی رہنے سے حالانکہ وہ خواب میں تھے اور اپنی قدرت سے ہم نقلبہم ذات الیمین وذات الشمال ان کے دائیں بائیں کروٹیں بدلتے رہتے تھے تاکہ ایک طور پر پڑے رہنے سے زمین ان کو نہ کھا جائے اور اسی حالت سے ان کا کتا بازو پھیلائے غار کی دہلیز پر پڑا ہوا تھا اور ان کے اس تنگ و تاریک مکان میں بالوں اور ناخنوں کے بڑھ جانے سے ایسی مہیب شکل ہو رہی تھی کہ جو کوئی دیکھے تو ڈر کر بھاگ جائے، انسان کی فطرت ہے کہ مہیب شکلوں اور تنگ و تاریک مکانوں سے وحشت ہوتی ہے کیونکہ اس کی روح منور گھبراتی ہے۔ ان الفاظ میں گو خطاب کے صیغے ہیں مگر مراد انسان ہیں عموماً جیسا کہ فصحا ایک طرف خطاب کرتے ہیں اور مراد عام لیا کرتے ہیں۔ پس یہ اعتراض کرنا کہ آنحضرت سرور کائنات ﷺ ڈرپوک تھے جس طرح بچے اور عورتیں ایسے مکانات اور اشکال سے ڈر کر بھاگتے ہیں آپ بھی ایسے ہیں، محض حماقت ہے۔ اس مقام پر بیضاوی وغیرہ مفسرین نے نقل کیا ہے کہ جب امیر معاویہ ؓ نے روم پر چڑھائی کی اور اس شہر اور غار کے پاس پہنچے تو عبداللہ ابن عباس ؓ نے منع کیا کہ آپ اندر آدمی بھیج کر ان کی شکل و صورت دیکھنے کے درپے نہ ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ نے خاص آنحضرت ﷺ سے خطاب کر کے فرمایا ہے جو آپ سے بھی بہتر ہیں۔ لولیت منہم فرارًا مگر امیرمعاویہ ؓ نے نہ مانا اور کچھ لوگ بھیجے جو لو سے جل کر مرگئے۔ جب ان لوگوں کے خواب پر جو موت سے مشابہ ہے تین سو نو برس گزر گئے اور اس عہد کے لوگ مرکھپ کر اس کے بعد اور بھی قرن مرکھپ گئے اور اب ایک ایسا زمانہ آیا کہ جس کا بادشاہ بت پرستی چھوڑ کر عیسائی اور حواریین کے مذہب پر تھا مگر اس عہد میں مر کر زندہ ہونے پر باہم بحث تھی ایک فریق منکر تھا، ایک فریق قائل۔ خود بادشاہ کو تردد تھا، خدا تعالیٰ سے التجا کرتا تھا کہ اس امر میں اس کو کوئی شافی دلیل دکھا دے۔ خدا کی قدرت دیکھو کہ اس غار کی دیوار کو مکان بنانے کے لیے کسی نے ڈھانا شروع کیا یہاں تک کہ بالکل ڈھا کر غار کا منہ کھول دیا۔ ادھر دیوار کا گرنا دروازہ کھلنا تھا کہ ادھر خدا نے ان کو بیدار کیا۔ وکذلک بعثناھم کہ جس طرح اپنی قدرت کاملہ سے ہم نے ان کو اس قدر عرصہ تک محفوظ رکھا اسی طرح اپنی قدرت سے اٹھا بھی دیا۔ گویا کہ ازسرنو زندگی عطا کی، اب جو انگڑائیں لیتے آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے تو باہم پوچھنے لگے کم لبثتم کہ کس قدر سوئے جواب دیا کہ یومًا او بعض یومٍ ، ایک روز یا کچھ کم کیونکہ سونے والے کو تخمینی مدت معلوم ہوا کرتی ہے۔ غار میں صبح کے وقت داخل ہوئے تھے جب بیدار ہوئے تو پچھلا پہر تھا اس لیے سمجھا کہ ایک دن یا کچھ کم مگر جب اپنے سر کے بال اور ناخن بڑھے دیکھے تو سمجھے کہ ہفتوں تک سوئے ہیں اس لیے کہہ دیا ربکم اعلم بما لبثتم کہ خدا ہی کو خوب معلوم ہے کہ کس قدر سوتے رہے مگر ابھی یہ معلوم نہیں ہے کہ تین سو نو برس گزر گئے ہیں بھوک پیاس معلوم ہوئی تو کہا اپنے میں سے کسی کو شہر کی طرف روپیہ دے کر بھیجو (غار سے تقریباً تین میل یہ شہر طرسوس کہ جس کو افسوس کہتے ہیں واقع تھا کہ جہاں سے یہ بھاگ کر آئے اور یہاں چھپے تھے) چاہیے کہ وہ پاک یا عمدہ کھانا لائے اور اس طرح چھپ کر جائے کہ کسی کو معلوم نہ ہو ورنہ خرابی آجائے گی کیونکہ ان یظہروا علیکم الخ اگر وہ قابو پا جائیں گے تو یا مار ڈالیں گے یا اپنے مذہب میں شریک کریں گے جس میں سراسر خرابی ہے۔ یہ سمجھ رہے ہیں کہ دقیانوس موجود ہے وہی زمانہ ہے ‘ وہی لوگ ہیں پس ایک شخص ان میں سے چلا اور لوگوں سے بچتے ہوئے شہر کے دروازہ پر آیا تو اس کی ہیئت بدلی ہوئی پائی، حیرت ہوئی کہ یہ کیا ہوگیا ! اسی طرح دوسرے درازہ پر گیا تو اس کا نقشہ بھی بدلا ہوا پایا۔ شہر میں آیا تو بازار کی صورت نئی، دکاندار نئے، لوگ نئے، مذہب بھی نیا یعنی انہیں کے خیالات کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قائل۔ حیران تھا کہ الٰہی اس غار کے پاس تو کوئی شہر نہ تھا مگر یہ وہ شہر نہیں نہ اس کے وہ آدمی ہیں آخر ایک دکاندار کو روپیہ دیا کہ بھئی ہمیں اس کی فلاں فلاں چیزیں دے دو ۔ وہ روپیہ ہاتھ میں لیتے ہی حیران رہ گیا کہ یہ کس عہد کا سکہ ہے ! پاس والے کو دکھایا اس نے اور کو، پھر کیا تھا کہ بازار میں بھیڑ لگ گئی۔ پوچھنے لگے کہ سچ بتاؤ تم کون ہو اور یہ روپیہ تم کو کہاں سے ملا ؟ ضرور پرانا دفینہ پایا ہے۔ سچ بتلاؤ نہیں تو پولیس کے حوالہ ہوتے ہو۔ یہ کہہ رہے تھے کہ پولیس آن پہنچی۔ آخر بادشاہ زماں کے روبرو پیش ہوئے۔ اس نے پوچھا سچ بتاؤ تم کون ہو، کہاں کے ہو، یہ روپیہ کہاں سے لائے ہو ؟ آخرالامر اس نے سب سرگزشت بیان کی کہ ہم دقیانوس کے ڈر کے مارے اس غار میں جا چھپے تھے۔ ہمارے یہ نام ہیں آج سوتے ہوئے آنکھ کھلی ہے میں کھانا خریدنے آیا تھا، لوگوں نے میری ہیئت اور سکہ دیکھ کر مجھے پکڑ کر آپ تک پہنچایا۔ اس بادشاہ نے تسلی دی کہ دقیانوس کے زمانہ کو کئی سو برس گزر گئے۔ اب میں بادشاہ عیسائی مذہب رکھتا ہوں۔ ارکان دولت اور بادشاہ نے ان کے نام دفتر کے مطابق پا کر اور دیگر قرائن سے بھی معلوم کرلیا کہ وہی لوگ ہیں سب کو مر کر دوبارہ زندہ ہونے پر یقین 1 ؎ آیا۔ پھر بادشاہ مع ارکان دولت اس کو لے کر غار میں لے گئے وہاں جا کر اس نے کہا پہلے مجھے جانے دو تاکہ وہ بھیڑ دیکھ کر نہ گھبرا جائیں۔ وہ غار میں گیا پھر باہر نہ آیا۔ بادشاہ نے بہت کوشش کی کہ اندر جا کر تلاش کرے مگر قضاء وقدر نے رستہ بھلا دیا اور کوئی اندر تک نہ جاسکا۔ بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ مع چند مصاحبوں کے اندر ان کے پاس گیا اور ان سے مل کر آیا اور پھر ان کے کہنے سے غار کا منہ بند کرا دیا۔ (عرائس) اس قصہ کی طرف مجملاً ان جملوں میں اشارہ فرماتا ہے کذلک اعثرنا علیہم یعنی جس طرح اپنی قدرت کاملہ سے انہیں اٹھایا اسی طرح ان کو لوگوں پر ہم نے ظاہر کردیا۔ لیعلموا ان وعداللہ حق وان الساعۃ لاریب فیہا تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کا وعدہ حق اور قیامت کا آنا سچ ہے کیونکہ ان کا اس قدر عرصہ تک سو کر جاگنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی مر کر جی اٹھے۔ سو اس بات کا انہوں نے مشاہدہ کرلیا اور جو تین سو نو برس بعد ان کی روح ان کے جسم کے ساتھ متعلق کرسکتا ہے وہ تمام عالم کو ایک مدت کے بعد اسی طرح کھڑا کرسکتا ہے۔ اذیتنا زعون بینہم امرھم یعنی ان کو اس وقت اٹھایا جبکہ وہ باہم اپنے دین کے امر میں جھگڑتے تھے۔ بعض کہتے تھے حشر ابدان کے ساتھ ہوگا بعض صرف روح کا مبعوث ہونا مانتے تھے تاکہ ان کا خلاف دور ہوجائے، یا یہ مراد کہ جب وہ غار میں پھر جاگ کر غائب ہوئے اور وہاں جا کر مرگئے تو بعض کہتے تھے پہلے کی طرح پھر سو گئے یا یہ مراد کہ بعض اس غار پر ایک ایسی عمارت بنانا 1 ؎ اصحاب کہف بیدار ہوتے ہیں۔ چاہتے تھے جس میں ہر کوئی آ کر رہے اور بعض وہاں عبادت گاہ بنانا چاہتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فقالوا بنوا علیہم بنیانًا ربہم اعلم الخ ربہم اعلم بہم۔ خدا کی طرف سے جملہ معترضہ ہے ان کے رد میں جو اس عہد میں یا آنحضرت ﷺ کے عہد میں ان کے حالات پر زیادہ بحث کرتے تھے کوئی ان کی کچھ تعداد بتلاتا تھا، کوئی کچھ جس کی تصریح خود کرتا تھا۔ سیقولون ثلثۃ رابعہم کلبہم کہ بعض ان کو تین شخص کہتے ہیں اور چوتھا کتا بتلاتے ہیں۔ یہ یہود کایا بخران کے نصاریٰ کا قول تھا۔ ویقولون خمسۃ سادسہم کلبہم۔ یہ بھی بعض نصاریٰ عرب کا قول تھا کہ وہ پانچ شخص تھے چھٹا کتا تھا۔ ان دونوں قولوں کو رد کرتا ہے۔ رجمًا بالغیب کہ یہ محض قیاسی اور بےتکی باتیں ہیں۔ ویقولون سبعۃ وثامنہم کلبہم کہ وہ سات شخص تھے اور آٹھواں کتا تھا۔ یہ اہل اسلام کا قول تھا حضرت نبی (علیہ السلام) کے بتلانے سے اس قول کی تائید فرماتا ہے۔ قل ربی اعلم بعدتہم مایعلمہم الاقلیل کہ ان کی تعداد تو خدا ہی جانتا ہے اور تھوڑے سے بندے اس کے بتلانے سے جانتے ہیں جن میں اہل اسلام ہیں۔ اسی لیے حضرت علی ؓ 1 ؎ ان کے یہ نام بتلاتے تھے۔ یملیخا، مکثلمینا، مثلینیا، بادشاہ کے دائیں طرف والوں میں سے تھے اور مرنوش، برنوش، شاذنوش بائیں طرف والوں میں سے اور ساتواں ایک چرواہا تھا جو راستہ میں ان کے ساتھ ہو لیا تھا اور ان کے کتے کا نام قطمیر تھا اور شہر کا افسوس۔ (بیضاوی) ۔ جبکہ خدا تعالیٰ نے حضرت کو ان کے حال سے بخوبی مطلع کردیا تو اب اوروں سے پوچھنے اور ان کے امر میں جھگڑا کرنے سے منع فرما دیا۔ فلا تمار فیہم الامرًا ظاھرًا کہ ان کے امر میں زیادہ جھگڑا نہ کرو صرف قرآن کے واقعہ سے خبر دے دو کسی کی تجہیل دور نہ کرو۔ ولاتستفت فیہم منہم احدا۔ اور نہ کسی سے ان کا زیادہ حال دریافت کرو جس میں ان کی لاعلمی اور جہالت ثابت ہونے لگے کیونکہ مکارم اخلاق نبوت سے یہ بھی بعید ہے۔ واضح ہو کہ شہر افسوس یا افسس 2 ؎ جس کو طرطوس بھی کہتے ہیں ایشیائِ کو چک کا ایک شہر ہے اس میں ارتیمس دیوی کا ایک ایسا مندر تھا جو دنیا کے عجائبات میں شمار ہوتا تھا جس کو ایک شخص نے اپنی شہرت کے لیے اس رات میں جلا دیا کہ جس رات سکندر رومی پیدا ہوا تھا۔ پھر دوبارہ یہ مندر اسی طرح بنایا گیا۔ اس شہر سے تین کوس کے فاصلہ پر ایک پہاڑ ہے جس میں وہ غار ہے کہ جہاں اصحاب کہف غائب ہوئے تھے۔ یہ غار کئی میل تک کا ہے اور اس کی کئی شاخیں ہیں ہیبت ناک درے ہیں یہ شہرقیاصرہ روم کے عہد میں بڑی رونق پر تھا اب اس کے خرابات پڑے ہیں ایک قصبہ سا ہے یہاں حضرت سلطان خلد اللہ ملکہ کی عملداری ہے۔ اس غار پر ایک خانقاہ ہے جس کی عیسائی اور مسلمان دونوں تعظیم کرتے ہیں۔ غالباً یہ وہی خانقاہ ہے جو اصحاب کہف کے برآمد ہونے کے بعد بنائی گئی تھی یا وہی عمارت نہ ہو مگر اس کی جگہ پر عمارت قائم ہے۔ یہ واقعہ اصحاب کہف کا ڈیشیش (دقیانوس) قیصر کے عہد میں ہوا ہے۔ 249 ء کے بعد جب قیصر فیلپوس کی جگہ جو عیسائیوں پر بڑا مہربان تھا ڈیشیش بیٹھا تو یہ پہلے قیصروں سے بھی بڑھ کر عیسائیوں کے حق میں ظالم اور سفاک تھا۔ ان قیصران روم کے عہد میں قسطنطین تک نیرو و قیصر سے لے کر وہ ظلم و زیادتی ہوتی تھی کہ جس کا بیان نہیں۔ یہ روم کے بادشاہ جن کا پایہ تخت ملک اٹلی میں شہر روم تھا اور ان کا لقب قیصر، بت پرست تھے بتوں کی پرستش خصوصاً جو پٹر کی عبادت ان کے ہاں قانوناً فرض تھی۔ جو عدول حکمی کرتا تھا اس کو فہمائش ہوتی تھی پھر کوئی قتل کیا جاتا تھا اور کوئی درندوں کے آگے ڈالا جاتا تھا، کوئی آگ میں ڈال دیا جاتا تھا، کسی کو لوہے کے گرم ستون سے باندھتے تھے جیسا کہ عیسائیوں کی کتب تواریخ کلیسیا میں مصرحاً مذکور ہے۔ 1 ؎ اصحاف کہف کے اسما مختلف کتابوں میں مختلف لکھے ہیں مگر صحیح وہی اسماء ہیں جو سیدنا علی ؓ کرم اللہ وجہہ سے منقول ہیں۔ 12 منہ۔ 2 ؎ افسیس در مغربی آسیائے صغیرست و مسافت میان او وازمیر تخمیناً سی وہفت میل ست وافسیس قریب بجانب جنوب ازمیر واقع شدہ است دادرالآن ایاز لوک میگویند جغرافیہ فرہاد مرزا۔ صفحہ 432۔ 12 منہ۔ یہ واقعہ اس قیصر کے عہد میں گزرا ہے جیسا کہ لارڈولیم میور اپنی تاریخ کلیسیا کے چھٹے باب صفحہ 246 کے حاشیہ میں لکھتے ہیں قولہ کہتے ہیں افسس کے رہنے والے سات جوان ڈیشیش کے ظلم کی سختی سے شہر چھوڑ کر پاس ہی کسی غار میں جا چھپے تھے اور وہاں دو سو برس تک برابر سوتے رہے اور پھر جب جاگے اور ان میں سے ایک شہر میں گیا تو وہ وہاں تمام حاکم و محکوم کو پورا عیسائی دیکھ کر نہایت تعجب میں آیا۔ یہ نقل اصحاب کہف کی قرآن میں بھی بہت سی خیالی باتوں کے ساتھ مل کر مذکور ہوئی ہے۔ اس میں اس خواب کے ایام بجائے تین سو نو برس لکھے ہیں پس اس کو جس طرح سمجھے مبالغہ صاف ہے۔ گبن کی کتاب کے 33 باب کا آخر دیکھو انتہٰی۔ الغرض ولیم میور صاحب اور گبن صاحب کو جو نئی روشنی کے عہد کے مؤرخ ہیں اس قصہ کی بابت جو قرآن مجید میں مذکور ہے بجز تسلیم کے چارہ نہ ہوا تو ایک مبالغہ کا اتہام لگایا کہ خواب کی مدت میں قرآن نے مبالغہ کیا ہے۔ ولیم میور صاحب اگر ان کی بیداری کا زمانہ متعین بدلائل کرتے تو یہ اتہام پا دریا نہ زیبا تھا ورنہ اس بےتکی رائے کو کتاب الٰہی کے مقابلہ میں کون سنتا ہے۔ خصوصاً آنحضرت ﷺ کے عہد کے نصاریٰ جن سے تخمیناً بہتر 1 ؎ برس پیشتر یہ واقعہ گزرا ہے آنحضرت ﷺ پر غلط بیانی کی صورت میں کیسے کیسے الزام لگاتے اور پھر قریش مکہ کے ہاتھ تو آنحضرت ﷺ کی تغلیظ کے لیے ایک بڑی سند ہاتھ آجاتی حالانکہ وہ شب و روز ایسی ہی باتوں کی تلاش میں رہا کرتے تھے۔ فوائد : (1) سوال ان آیات سے اصحاب کہف کی ایمانداری اور مدح ثابت ہوتی ہے اور اس کا سبب بظاہر دین عیسوی قبول کرنا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اس عہد تک دین عیسوی غیرمحرف تھا اور جہاں تک تاریخ کی کتابوں کو دیکھا گیا اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد کے عیسائیوں کا بھی یہی عقیدہ تھا جو آج کے زمانہ کے عیسائیوں کا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلا کہ آج کل جو مذہب پر الزام تحریف لگایا کرتے ہیں محض تعصب ہے۔ جواب : جس نے مذہب عیسوی کی تاریخیں دیکھی ہیں اس پر یہ بات ہرگز مخفی نہیں کہ حضرات حواریوں کے زمانہ ہی میں اختلاف کی بنیاد قائم ہوگئی تھی۔ پولوس اور شمعون اور دیگر لوگوں میں جو کچھ اختلاف پڑا وہ خود حواریوں کی تاریخ یعنی کتاب اعمال حواریین ہی سے ثابت ہے جس کو عیسائی انجیل کہتے ہیں اور پولوس کے ناموں سے بھی جو انجیل مانے جاتے ہیں اور پھر بعد میں جو کلیسائوں میں اختلاف ہوا اور مختلف فرقے اول اور دوسری صدی عیسوی میں پیدا ہوئے ان کا بیان کرنا طوالت ہے۔ چوتھی صدی عیسوی میں جب روم کے قیصروں میں سب سے اول قسطنطین عیسائی ہوا اس نے انہیں اختلافات دور کرنے کے لیے اور نیز الوہیت مسیح و دیگر اصول مذہب قائم کرنے کے لیے شہر نائس میں بڑے زوروشور سے ایک انجمن منعقد کی اور پھر برسوں تک انجمنیں منعقد ہوتی رہیں مگر تاہم بہت سے فریق جدا ہی رہے۔ عیسائیوں میں الوہیت مسیح کے منکر بھی باقی رہے اور اب تک عیسائیوں میں ان مخالف فریقوں کے پیرو باقی ہیں۔ پس جب یہ ہے تو اب کون کہہ سکتا ہے کہ افسوس کے عیسائیوں کا مذہب آج کل فرقہ ٔ پر اٹسٹنٹ یا فرقہ ٔ رومن کیتھولک کا مذہب تھا جو آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت ملکوں میں پھیلا ہوا تھا جس میں بیشمار تحریفات ہیں اور جن کی اصلاح کے لیے نبی آخرالزمان (علیہ السلام) بھیجے گئے ؟ حق یہ ہے کہ اصحاب کہف حواریوں کے اصلی مذہب پر تھے۔ تثلیث والوہیت مسیح سے ان کے کان بھی آشنا نہ تھے ان پر پولوس کی تعلیم کا اثر نہ پڑا تھا۔ (2) اس بات کا کہ اصحاب کہف اس غار میں اب تک سوتے ہیں اور قیامت تک وہیں سوتے رہیں گے یا یہ کہ وہ بیدار ہونے کے بعد غار میں جا کر مرگئے اور نیز یہ کہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک چادر آئی، اس کے چاروں کونے خلفاء اربعہ نے پکڑے اور بیچ میں 1 ؎ قرآن مجید میں تین سو نو برس قمری ہیں جن میں تقریباً نو برس بحساب شمسی گئے باقی تین سو رہے اور یہ واقعہ ہوا دو سو انچاس عیسوی میں اور تین سو برس سوتے رہے اب بیداری ان کی پانچ سو انچاس عیسوی میں ہوئی اور ولادت آنحضرت ﷺ کی تخمیناً پانچ سو ستر عیسوی میں ہے اس حساب سے اصحاب کہف کی بیداری تخمیناً اکیس برس پیشتر حضرت کی ولادت سے ہوئی اور آنحضرت ﷺ کی ہجرت کے وقت تخمیناً بہتر برس کا زمانہ گزرا تھا۔ 12 منہ۔ آنحضرت ﷺ بیٹھے اور اڑا کر فرشتے اصحاب کہف کے پاس لے گئے ان سے حضرت ﷺ نے ملاقات کر کے ان کو اسلام تلقین فرمایا۔ قرآن و احادیث سے پتا نہیں لگتا۔ مؤرخین کی رائیں اور ان کے اقوال ہیں واللہ اعلم۔
Top