Tafseer-e-Haqqani - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
(اے نبی ! ) اور آپ کسی کام کے لیے یہ نہ کہا کرو کہ اس کو میں کل کر دوں گا
ترکیب : الا استثنا ہے نہی سے اے لاتقولن لاجل شیء تعزم علیہ انی فاعلہ فیما یستقبل الابان یشاء اللہ اے الا متلبسا بمشیۃ اللہ تعالیٰ قائلاان شاء اللہ۔ ابصربہ اسمع صیغہ ٔ تعجب ہیں۔ بہ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور محل اس کا رفع ہے فاعلیت سے اور ب زائد ہے سیبویہ کے نزدیک۔ تفسیر : ولا تقولن الخ۔ مفسرین کہتے ہیں اس آیت کے نازل ہونے کی یہ وجہ ہے کہ جب قریش نے نبی (علیہ السلام) سے اصحاب کہف و ذوالقرنین و روح کا حال دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کل بیان کروں گا اور اس کے ساتھ انشاء اللہ نہ کہا۔ اس پر پندرہ دن تک بقول بعض چالیس روز تک وحی بند رہی تب یہ آیت نازل ہوئی کہ کسی کام کرنے کا وعدہ بغیر انشاء اللہ کہے نہ کیا کرو کیونکہ بندے کا ایسا کہنا گویا کارخانہ قضاوقدر میں اپنا استقلال ظاہر کرنا ہے جو عبدیت کیخلاف ہے اور ہدایت فرمائی کہ جب انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو جس وقت یاد آئے کہ لو۔ اس پر امام شافعی (رح) نے یہ بات نکالی کہ اگر کسی کام کی قسم کھائی اور عرصہ کے بعد انشاء اللہ کہہ لیا تو حانث نہ ہوگا مگر عام فقہا کہتے ہیں ملا کر کہے گا تو معتبر ہوگا کس لیے کہ اذکر ربک سے انشاء اللہ کہنا مراد نہیں بلکہ عموماً یادِ الٰہی مراد ہے یا انشاء اللہ کہنا مراد ہے تو متصلا اور جب قریش کو اصحاب کہف کا حال سن کر تعجب ہوا تو فرمایا کہہ دو عسیٰ ان یہدین کہ اس سے بھی زیادہ اور خبروں کی میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بتائے گا چناچہ صدہا غیب کے اسرار بتائے۔ ولبثو افی کہفہم الخ۔ اس قصہ کا تتمہ ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس جملہ میں قل اللہ اعلم بما لبثوا انی کہفہم لوگوں کے قول کو نقل کرتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ وہ غار میں تین سو نو برس تک سوتے رہے اس لیے بعد میں فرماتا ہے قل اللہ اعلم بما لبثوا الخ کہ اللہ ہی کو خوب معلوم ہے کہ وہ کس قدر ٹھہرے (لوپادری صاحب اب تو کچھ بھی خلاف باقی نہیں رہا) مگر دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ اپنی طرف سے خبر دیتا ہے اور قل اللہ اعلم بما لبثوا اسے اس کی تائید کرتا ہے کہ وہی خوب جانتا ہے کہ وہ کس قدر سوئے کیونکہ وہ آسمانوں اور زمین کی سب چھپی ہوئی باتیں جانتا ہے وہ بڑا سمیع وبصیر ہے نہ کہ تم جو قیاس سے کہتے ہو مالہم من دون اللہ من ولی الخ وہی ان کا یعنی اصحاب کہف کا کارساز ہے جس نے ان کو اس قدر مدت تک سالم رکھا اور اپنے حکم میں کسی کو شریک نہ کیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں اپنا جلال و جبروت ظاہر کرتا ہے تاکہ مخالفین اس کے خلاف کرنے سے ڈریں کہ ان کا کوئی حمایتی نہ پیدا ہوگا اس لیے اس کے بعد حضرت کو بےدھڑک قرآن سنانے کا حکم دیتا ہے۔ واتل ما اوحی الخ کہ کسی کا کچھ خوف و خطر نہ کرو کوئی اس کی بات بدل نہیں سکتا۔ جو وہ کہتا ہے وہی حق ہے وہی ہوگا وہی ہوا ہے آپ اس کی دی ہوئی کتاب کو پڑھا کرو اور لوگوں کو سنایا کرو کسی کے اختلاف کی کچھ پروا نہ کرو۔ ف۔ جنوب ازمیر واقع شدہ است دادا آلان ایازلوک میگونید جعرافیہ فرہاد مرزا 432۔ 12 منہ۔ 1 ؎ المہل الحدیہ المناب وقیل الرعی واہ المذاب او الصغیر وقیل و وفانریت ای بایقی فی اسفل الاناء قال ابوعبیدہ ولا خفش ہوا حکرو وہو کل ما اذیب من جواہر الارض من حدید درصاص وانحاس 12 منہ 2 ؎ مرتفقا مئکار واصل الارتفاق نصیب الرفیق تحت وقال النحہ القینی ہو منزل والمجلس 12۔ 3 ؎ اساد وقال الرحاج جمع اسورۃ دہی زینۃ تلبس فی الیہ من زینۃ الملوک 12 ف۔ 4 ؎ السندنس اسید الرفیق من الحریر واستبرق منہا وھہما جمعان واحد بما استد اواستبرد وقیل مفردان وقیل ابقرق الدیباج المنسوج بالذہب 12 منہ
Top