Tafseer-e-Haqqani - Al-Kahf : 69
قَالَ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعْصِیْ لَكَ اَمْرًا
قَالَ : اس نے کہا سَتَجِدُنِيْٓ : تم مجھے پاؤگے جلد اِنْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہا اللہ نے صَابِرًا : صبر کرنے والا وَّلَآ اَعْصِيْ : اور میں نافرمانی نہ کروں گا لَكَ : تمہارے اَمْرًا : کسی بات
موسیٰ نے کہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر ہی پائیں گے میں کسی بات میں بھی آپ کے خلاف نہ کروں گا۔
تفسیر : فرمایا اپنے تھیلے میں ایک تلی ہوئی مچھلی رکھ لو پھر جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملیں گے۔ پس موسیٰ (علیہ السلام) مچھلی تھیلے میں ڈال کر یوشع بن نون کو ہمراہ لے کر چلے۔ چلتے چلتے ایک موقع پر (سمندر کے کنارے) پہنچے تو ایک پتھر پر سر رکھ کر سو گئے۔ مچھلی اس تھیلے میں سے تڑپ کر دریا میں جا گری اور جہاں تک وہ جاتی تھی پانی میں ایک سوراخ سا ہوتا جاتا تھا۔ حکمِ الٰہی سے پانی ادھر ادھر سے ملنے نہیں پاتا تھا۔ پھر بیدار ہوئے تو یوشع کو یاد دلانا یاد نہ رہا کہ اس مقام پر مچھلی گم ہوگئی ہے۔ اس سے رات دن تک چلا کئے یہاں تک کہ جب اگلے روز صبح کا وقت آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے جوان یعنی مرید یوشع سے کھانا مانگا۔ اس سے پہلے منزلوں میں موسیٰ (علیہ السلام) نہ تھکے تھے لیکن اس منزل میں تھک گئے جو مقام مطلوب کو چھوڑ کر چلے تھے مچھلی کو دیکھا تو ندارد یوشع نے عذر کیا کہ کمبخت شیطان نے مجھے یاد دلانا بھلا دیا۔ یہ اس پتھر کے پاس گم ہوئی تھی تب دونوں الٹے پھرے اور اس پتھر کے پاس آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) کو وہ شخص ملا کہ جس کو علم لدنی دیا گیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے السلام علیکم کہا انہوں نے جواب دے کر پوچھا کون ہو ؟ کہا موسیٰ بنی اسرائیل ‘ اس لیے آیا ہوں کہ آپ سے کچھ علم لدنی سیکھوں۔ خضر نے فرمایا اے موسیٰ ! تجھ کو خدا نے جو علم دیا ہے اس کو میں نہیں جانتا اور جو علم مجھے عطا ہوا ہے اس کو تو نہیں جانتا تم میرے ساتھ نہیں رہ سکو گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا انشاء اللہ میں برداشت کروں گا اور کسی بات میں آپ سے خلاف نہ کروں گا پھر تمام قصہ مروی ہے کہ دریا میں ان کو ایک کشتی ملی، اس پر سوار ہوئے تو خضر (علیہ السلام) نے ایک تختہ نکال دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا واہ بغیر کرایہ سوار کیا، اس پر آپ نے یہ سلوک کیا ؟ خضر (علیہ السلام) نے کہا لو رخصت۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عذر کیا کہ بھول کر سوال کیا آیندہ ایسا نہ ہوگا۔ پس کشتی سے نکل کر چلے تو ایک جوان لڑکا ملا جو لڑکوں میں کھیل رہا تھا۔ خضر (علیہ السلام) نے اس کو مار ڈالا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اس بےگناہ کو تم نے ناحق قتل کیا۔ یہ بری بات کی۔ خضر ( علیہ السلام) نے اب کی بار نہایت برہم ہو کر کہا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تم ہرگز میرے ساتھ نہ رہ سکو گے اس لیے کے بعد تاکید کے لیے لک لام و کاف زیادہ کیا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے عذر کیا اور شرط کرلی کہ اگر اب کے پوچھوں تو اپنے ساتھ نہ رکھنا۔ آگے چلے تو ایک گائوں میں پہنچے۔ ہرچند انہوں نے دستور کے موافق گائوں والوں سے کھانا مانگا، ضیافت چاہی مگر انہوں نے صاف جواب دے دیا۔ اسی گائوں میں ایک دیوار تھی جو گرا ہی چاہتی تھی، خضر (علیہ السلام) نے اس کو سیدھا کردیا، اب تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تاب نہ رہی۔ اور خود جان کر سوال کیا کیونکہ ان کے پاس رہنا مقصود ہی نہ تھا کہہ اٹھے کہ ان سے اس دیوار کے سیدھا کرنے کی اجرت لے لینی چاہیے تھی۔ انہوں نے ہمارا حق مہمانی بھی ادا نہیں کیا۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا لو اب مجھ میں اور تم میں جدائی ہے مگر میں تم کو ان تینوں باتوں کا سر بتلائے دیتا ہوں کہ جن پر تم سے صبر نہ ہوسکا۔ کشتی کی سنئے، وہ بیچارے غریبوں کی کشتی تھی جو اس کے ذریعہ سے محنت مزدوری کر کے بسراوقات کرتے تھے اور آگے ایک بادشاہ بیگار میں زبردستی کشتیاں پکڑ رہا تھا میں نے اس کا تختہ نکال کر عیب دار کردیا تاکہ بادشاہ اس کو نہ پکڑے چناچہ اس نے نہ پکڑا اور تختہ لگا کر کشتی کو انہوں نے درست کرلیا۔ اب بتلائیے یہ کام اچھا تھا یا برا ؟ اور وہ جو لڑکا تھا وہ نہایت شریر اور سرکش تھا، اس کے ماں باپ نیک تھے، خوف تھا کہ اس کی محبت میں آ کر کہیں وہ بھی کفروسرکشی میں مبتلا نہ ہوجائیں، اس لیے خدا کو منظور ہوا کہ یہ مرجائے اور اس کے بدلے ان کو اور اولاد ملے جو خیرًا منہ زکوٰۃ تقویٰ و صلاح میں اس سے بہتر ہو اوراقرب رحما جو صلہ رحمی اور ماں باپ کے ساتھ سلوک کرنے میں بھی اس سے بہتر ہو چناچہ اس کے بعد ان کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی جو نہایت نیک تھی جس کے پیٹ سے ایک نبی پیدا ہوا۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ وہ جوان تھا لیکن نوعمر ہونے کی وجہ سے اس کو لڑکا کہا اور چونکہ خوبصورت تھا اس لیے اس کو ستھرا کہا۔ کلبی کہتے ہیں وہ جوان تھا، راہزنی کر کے مال اپنے ماں باپ کے ہاں لاتا تھا۔ ضحاک کہتے ہیں لڑکا تھا مگر فساد کیا کرتا تھا جس سے اس کے والدین کو ایذا ہوتی تھی (معالم التنزیل) کہو اس میں ارادہ الٰہی کے بموجب کیا برائی ہے ؟ اب رہی دیوار سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جس کے نیچے ان کا خزانہ مدفون تھا اور ان کا باپ نیک مرد تھا جس کی برکت سے خدا کو اس کی اولاد کے ساتھ احسان کرنا منظور تھا کہ جوان ہو کر وہ اپنا خزانہ نکالیں۔ اگر اس دیوار کو درست نہ کیا جاتا اور یہ گر پڑتی تو اور لوگ خزانہ لے لیتے اس لیے اس کو درست کردیا کہ ان کی جوانی تک نہ گرے۔ کہیے اس پر کیا اجرت لینی مناسب تھی ؟ اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خضر (علیہ السلام) سے جدا ہو کر پھر بنی اسرائیل میں آگئے۔ لیکن معلوم ہوگیا کہ دنیا میں خدا کے بندے مجھ سے بھی زیادہ عالم ہیں۔ ابحاث : (اوّل) یہ واقعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر کب گزرا ہے ؟ حال کے اہل کتاب کہتے ہیں کہ توریت میں اس کا کہیں ذکر نہیں اس لیے وہ اس کے منکر ہیں۔ علمائِ اسلام میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر میں تھے اسی لیے مجمع البحرین یعنی دو سمندروں کے ملنے کے موقع پر اختلاف کیا ہے۔ قتادہ بحر فارس روم مشرقی جانب کا کہتے ہیں۔ محمد بن کعب طنجہ بتلاتے ہیں، ابی بن کعب افریقہ کہتے ہیں (معالم) مگر صحیح یہی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر قلزم کو عبور کر کے ملک عرب کے شمالی و مغربی کناروں میں آرہے تھے اور بحرین سے مراد بحر قلزم کی وہ دو شاخیں ہیں جو شمالی جانب ہیں، دور تک جا کر دو شاخ ہوگئی ہیں جہاں سے وہ دو شاخ جدا ہوتی ہیں گویا وہ ان دونوں شاخوں کا مجمع یعنی جمع ہونے کی جگہ ہے۔ انہیں دو شاخوں کے بیچ میں کوہ سینا اور حو رب اور وہ مقامات ہیں کہ جہاں بنی اسرائیل برسوں رہے ہیں چناچہ جغرافیہ فرہاد صفحہ 435 کے حاثیہ میں یہ ہے۔ وباعتقاد من مجمع البحرین کہ در قرآن مجید است کماقال اللہ عزوجل حتی ابلغ مجمع البحرین الخ ملتقائے خلیج عقبہ و خلیج سویس است و اکثر مفسرین باشتباہ افتادہ مجمع البحرین راملتقائے بحر عمان و ہند گرفتہ اندوحضرت موسیٰ بایں صفحات عبور نفرمود واسم قدیم عقبہ ایلہ است و اکثرے نیز ایلہ راندانستہ اندو ابلہ بصرہ خواندہ اندببیں تفاوت راہ ازکجاست تابکجا انتہیٰ ۔ توریت موجود میں اس قصہ کا درج نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ قصہ واقع نہیں ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بہت سی کتابیں تھیں کہ جن کو سب اہل کتاب کہتے ہیں مفقود ہوگئیں، ان میں بھی اگر اس کو نہ پاتے تو پھر کچھ مجال گفتگو تھی۔ (دوم) اکثر اہل اسلام اس کے قائل ہیں کہ موسیٰ سے مراد ان آیات میں حضرت موسیٰ بن عمران ‘ ہارون (علیہما السلام) کے بھائی ہیں مگر کعب احبار کی بیوی کا بیٹا نوفل بکالی یہ کہتا تھا کہ یہ اور موسیٰ ہیں جو منسی بن یوسف بن یعقوب (علیہم السلام) کے بیٹے تھے لیکن خود حضرت ابن عباس ؓ نے اس کی تکذیب کی ہے کہ وہ غلط کہتا ہے۔ تحقیق خضر : وہ شخص کہ جس کے پاس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) علم لدنی تعلیم پانے گئے تھے کون تھے ؟ علمائِ اسلام کہتے ہیں کہ وہ حضرت خضر ( علیہ السلام) تھے کہ جن کو بعض نے ولی اور بعض نے نبی کہا ہے۔ مجاہد کہتے ہیں جس جگہ وہ نماز پڑھتے تھے وہ جگہ سبز اور ہریالی ہوجاتی تھی اس لیے ان کو خضر کہتے ہیں جس کے معنی سبز کے ہیں۔ یہ بات کسی صحیح حدیث سے دریافت نہیں ہوتی کہ خضر کس ملک میں پیدا ہوئے اور کس قوم کے تھے اور کس زمانہ میں پیدا ہوئے تھے ؟ توریت سفر پیدائش کے چودھویں باب کے اخیر میں ملک صدق کا ذکر آیا ہے کہ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو برکت دی اور وہ خدا کا کاہن 1 ؎ تھا۔ پھر اسی ملک صدق کی نسبت عیسائیوں کی انجیل میں یعنی نامہ عبرانیوں کے ساتویں باب میں یہ لکھا ہے کیونکہ یہ ملک صدق سالیم کا بادشاہ تھا خدا کا کاہن تھا جس نے ابرہام کا جبکہ وہ بادشاہوں کو مار کے پھر آتا تھا استقبال کیا اور اس کے لیے برکت چاہی جس کو ابرہام نے سب چیزوں کی دہ یکے 2 ؎ دی وہ پہلے اپنے نام کے معنوں کے موافق راستی کا بادشاہ اور پھر شاہ سالیم یعنی سلامتی کا بادشاہ یہ بےباپ بےماں بےنسب نامہ جس کے نہ دنوں کا شروع نہ زندگی کا آخر مگر خدا کے بیٹے سے (عیسیٰ ) مشابہ ٹھہر کے ہمیشہ کاہن رہتا ہے۔ گرچہ ملک صدق کی بابت جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد میں تھا اور جس کی نسبت ہمیشہ زندہ رہنا لکھا ہے اہل کتاب کے مختلف قول ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ ملک صدق وہی شخص ہے کہ جس کو اہل اسلام خضر سے تعبیر کرتے ہیں۔ اب ان کی عظمت اسی سے ظاہر ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جدِامجد اور اب الانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو برکت دی تھی۔ شاید پولوس کا یہ کہنا کہ ان کے نہ ماں تھی نہ باپ نہ اس کی عمر کی ابتداء ہے۔ مبالغہ پر محمول ہو جو اس نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تشبیہ کے لیے یہ بات کہی ہو۔ والعلم عنداللہ۔ خضر (علیہ السلام) : (اول) کے بارے میں علمائِ اسلام کے دو قول ہیں ایک جماعت صرف حدیث سے استدلال کر کے (جس کو بخاری وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک بار عشاء کی نماز پڑھ کر یہ فرمایا تھا کہ آج کی رات جو زمین پر زندہ ہے سو برس کے اخیر تک مرچکے گا) یہ کہتی ہے آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت خضر بھی بموجب حدیث مذکور مرگئے مگر اکثر علماء فرماتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں جس طرح کہ حضرت الیاس اور سال بھر میں دونوں ایک بار ملاقات بھی کرتے ہیں۔ حدیث مذکور میں جو سو برس کے بعد مرنا آیا ہے وہ اکثر لوگوں کی عمر طبعی کا لحاظ کر کے فرمایا ہے عموم مراد نہیں کہ جن کی زندگی محض اس کی قدرت کاملہ کے طور پر ہو وہ بھی اس میں شامل ہوجائیں۔ (دوم) خضر کی زندگی کی بابت یہ جو عوام میں مشہور ہے (کہ وہ سکندر ذوالقرنین کے ساتھ ظلمات میں گئے اور ذوالقرنین آب حیات کے چشمہ کا رستہ بھول گئے اور خضر نے وہاں پہنچ کر وہ پانی پی لیا جس لیے ان کی زندگانی ہمیشہ تک رہے گی اور نیز یہ کہ خضر دریائوں پر رہتے ہیں وہاں کے کاروبار انہیں سے متعلق ہیں یہاں تک کہ عوام کنوئوں، تالابوں، نہروں پر بھی خضر کے نام کا چراغ جلاتے اور دلیہ پکا کر فاتحہ دلاتے ہیں اور ان کے نام کی دہائی دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ) نہ قرآن سے اس کا ثبوت ہے نہ پیغمبر (علیہ السلام) کے کسی قول سے اور ان کی پرستش کرنا اور دہائی دینا تو صریحاً ممنوع ہے۔ علم لدنی : (سوم) باوجودیکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑے اولوالعزم رسول تھے ان کو توریت دی گئی تھی، خدا تعالیٰ سے کلام کرتے تھے، پھر وہ کون سا علم تھا جو انہیں حاصل نہ تھا جس کی خضر (علیہ السلام) کے پاس تعلیم پانے گئے تھے۔ 1 ؎ پیشوا۔ امام بمح اور ہ اہل کتاب۔ 12 منہ 2 ؎ ہر چیز میں سے دسواں حصہّ ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانوں میں سے بعض نفوس ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کے قوی خیالیہ وحسبہ انوار ولمعان روحانی کی وجہ سے ضعیف ہوجاتے ہیں اور ان کی قوت ملکیہ ان پر یہاں تک غالب ہوتی ہے کہ اگر ان کو طبقہ ملائکہ میں شمار کیا جائے تو کچھ بعید نہ ہو اور ان کی روح علوم و معارفِ الٰہیہ کے لیے ایک آئینہ پر جلا ہوتی ہے تب ان پر بلاتوسط غیرہ عالم غیب کے اسرار فائض ہوتے اور اس کو علم لدنی کہتے ہیں گرچہ سب انبیاء (علیہم السلام) ایسے ہیں مگر۔ ہر گلے رارنگ و بوئے دیگر است، ہر ایک کے مراتب متفاوت ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تعلیم خلق کی طرف زیادہ توجہ تھی ان پر اسی قسم کے علوم فائض ہوتے تھے ملائکہ کے سلسلہ میں داخل ہونا ان کے حق میں ان کے مقاصد کے منافی تھا۔ برخلاف حضرت خضر (علیہ السلام) کے کہ وہ ملکیت غالب آجانے کی وجہ سے رجال الغیب اور ملائکہ میں مل گئے تھے اس لیے نظر سے غائب ہوجانا اور ہزاروں کوس دم مارنے میں چلا جانا، سمندروں پر سے پار اتر جانا ان کے نزدیک کچھ مشکل نہ تھا۔ خدا تعالیٰ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ دکھانا تھا کہ ہمارے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو ملائکہ کی طرح جو کچھ کرتے ہیں اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں بظاہر ان کے افعال کسی سر کی وجہ سے کسی کی سمجھ میں نہ آئیں اسی لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خضر ( علیہ السلام) نے کہا تھا کہ تم کو اور علوم مجھے اور علوم دیے گئے ہیں، تم میرے ساتھ نہ رہ سکو گے۔ آخر موسیٰ نے بھی دیکھا کہ ان علوم سے مجھے کچھ فائدہ نہیں، وہاں سے چلے گئے۔ امت محمدیہ میں خضر جیسے لوگ ہوتے ہیں : (چہارم) امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں بھی خضر صفت آدمی ہر زمانہ میں موجود ہوتے ہیں جن کو ابدال واوتا دو اقطاب کہتے ہیں مگر جاہل صوفیوں کا اس قصہ سے یہ سمجھ لینا کہ باوا شریعت اور ہے طریقت اور ہے نماز روزہ حرام و حلال کے ہم پابند نہیں، ہم عالم غیب کے مختار ہیں جس کو چاہتے ہیں دیتے ہیں، پھر اس اعتقاد سے جہلاء کا ان سے حاجات طلب کرنا اور ان لوگوں کا شراب پینا، بھنگ نوشی کرنا اور معترض کو یہ کہنا کہ باوا موسیٰ نے بھی خضر پر ایسے ہی اعتراض کئے تھے۔ یہ علم لدنی کی باتیں ہیں جو مرشدوں (یعنی تکیہ میں بھنگ گھوٹنے والوں) سے حاصل ہوتی ہے۔ وغیرہ ذالک من الخرافات محض وسوسہء شیطانی اور دام تزویر ہے معاذاللہ اقطاب وابدال ایسے منہیات کے کب مرتکب ہوتے ہیں خضر (علیہ السلام) کی تینوں باتوں کو غور کرو ان میں سرموقباحت نہ تھی۔ دیوار کا بنانا تو ظاہر ہے، رہا کشتی کا تختہ نکالنا کہ جس سے وہ غرق نہ ہوئے اور ان کی کشتی بچ گئی ایسی ہی بات ہے کہ جس طرح سر کے بال مونڈ دینے سے کسی کا مرض دفع کردیا جائے، رہا اس بدبخت لڑکے کا قتل کرنا سو وہ بھی ٹھیک بات تھی خصوصاً جبکہ وہ جوان اور قزاق تھا یوں تو ملک الموت پر بھی سینکڑوں قتل کے ہر کوئی الزام لگا سکتا ہے۔ ہنود کے معارضہ کا جواب : ہندوئوں کی کتابوں سے جبکہ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ کرشن نے گوپیوں سے ایسا کیا مہادیوجی نے اور فلاں فلاں بزرگوں نے ذرا سی بات پر اتنے لوگوں کو بےرحمی سے قتل کر ڈالا تو ہنود کے رئیس المناظرین لالہ اندرمن نے حضرت موسیٰ کا قبطی کو مکا مارنا اور خضر (علیہ السلام) کا کشتی کا تختہ اکھیڑنا، لڑکے کو قتل کرنا، حضرت آدم کا بھول کر گندم کے درخت کو کھانا گنوا دیا اور سینکڑوں وہ بےاصل قصے جو ہمارے خوش اعتقاد راویوں نے اہل کتاب سے لیے تھے بیان کردیے کہ لو دیکھو تمہارے مسلم بزرگوں نے کیا کم کیا ہے ؟ اس جواب سے ناواقف ہنود تو شاید خوش ہوگئے ہوں گے مگر منصف مزاجوں کے نزدیک یہ جواب سننے کے بھی قابل نہیں کیونکہ کہاں حضرت خضر و موسیٰ و آدم کا یہ فعل کہاں ان کے بزرگوں کے وہ حیرت انگیز ماجرے جو ان کی کتابوں 1 ؎ میں بھرے پڑے ہیں جس کی تشریح سوط اللہ الجبار وغیرہ میں علمائِ اسلام نے خوب کی ہے۔ قرآن مجید میں جو خضر (علیہ السلام) کے تین فعل بیان ہوئے ہر ایک امت کے لیے عجب رموز ہیں۔ (1) اول کشتی کا تختہ توڑ کر بادشاہ ظالم کے ہاتھ سے بچا دینا اس بات کی تعلیم ہے کہ تھوڑے سے نقصان پر ناصبر نہ ہونا چاہیے اس میں جانے کیا فوائد رکھے ہوتے ہیں اور نیز 1 ؎ پورانوں میں۔ 12 منہ یہ بھی کہ کسی غریب کو للہ کشتی میں سوار کرنا یا اس کے ساتھ اور کوئی سلوک کرنا آسمانی ہلاکتوں سے بچنے کا سبب ہوجاتا ہے۔ (2) نیک آدمی پر صدمہ آنا کسی مصلحتِ الٰہیہ کی دلیل ہے جیسا کہ اس بدبخت لڑکے کا مرنا جو دنیا و آخرت میں ان کے ننگ کا باعث تھا جس کے بدلہ میں نیک اولاد ملی۔ (3) نیک آدمی کے بعد پشتوں تک خدا تعالیٰ اس کی اولاد کو نیک صلہ دیا کرتا ہے جیسا کہ دیوار کے قصہ سے ظاہر ہے۔
Top