Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 197
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ
اَلْحَجُّ
: حج
اَشْهُرٌ
: مہینے
مَّعْلُوْمٰتٌ
: معلوم (مقرر)
فَمَنْ
: پس جس نے
فَرَضَ
: لازم کرلیا
فِيْهِنَّ
: ان میں
الْحَجَّ
: حج
فَلَا
: تو نہ
رَفَثَ
: بےپردہ ہو
وَلَا فُسُوْقَ
: اور نہ گالی دے
وَلَا
: اور نہ
جِدَالَ
: جھگڑا
فِي الْحَجِّ
: حج میں
وَمَا
: اور جو
تَفْعَلُوْا
: تم کروگے
مِنْ خَيْرٍ
: نیکی سے
يَّعْلَمْهُ
: اسے جانتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
وَتَزَوَّدُوْا
: اور تم زاد راہ لے لیا کرو
فَاِنَّ
: پس بیشک
خَيْرَ
: بہتر
الزَّادِ
: زاد راہ
التَّقْوٰى
: تقوی
وَاتَّقُوْنِ
: اور مجھ سے ڈرو
يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ
: اے عقل والو
حج کے معلوم مہینے ہیں پس جو کوئی ان میں حج کا قصد کرے تو (احرام باندھنے کے بعد سے اخیر حج تک) نہ اس کو فحش بات کرنی چاہیے نہ بدکاری نہ حج میں لڑائی کرنی چاہیے اور جو کچھ نیکی کرو گے خدا کو معلوم ہوجائے گی اور (حج میں) توشہ بھی ساتھ لیا کرو۔ پھر بہتر توشہ تو پرہیزگاری ہے اور اے عقلمندو ! مجھ سے ڈرا کرو (یہ بڑی پرہیزگاری اور عمدہ توشہ ہے ) ۔
ترکیب : الحج مبتداء اشہر معلومات خبرو التقدیر الحج اشہر ویمکن ان یقال اشہر۔ الحج اشہر فمن فرض مبتداء متضمن شرط فلارفث والعائد محذوف ای فلارفث ولا فسوق بعدہ وما تفعلو الخ قد مرترکیبہ فی ماننسخ من آیۃ الخ ان تبتغوا موضع نصب میں ہے علی تقدیر فی ان تبتغوا اور ممکن ہے کہ موضع رفع میں ہو۔ جناح کی صفت ہو کر من ربکم متعلق ہے تبتغوا سے پس مفعول بہ ہوگا اور فضل کی صفت بھی ہوسکتا ہے فاذا شرط فاذکر اللّٰہ الخ جملہ جواب عند الشعرالحرام ظرف ہے اذکروا کما ھداکم کاف موضع نصب میں ہے لغت ہے مصدر محذوف کی اور ممکن ہے کہ کاف بمعنی علی ہو تقدیرہ فاذکر اللہ علی ماہدا کم ‘ وان کنتم میں ان مخففہ ہے مثقلہ سے والتقدیر ان کنتم من قبلہ لمن الضالین واؤ اس جگہ تخییر یا اباحت کے لیے ہے اشد ذکرا میں اگرچہ لوگوں نے بہت قیل و قال کی ہے مگر صاف قول یہ ہے کہ اشد منصوب ہے حال ہونے کی وجہ سے اور یہ حال ذکراً سے ہے اور ممکن ہے کہ اس کی صفت ہو اور ذکر اتمیز ہے اشد کی یہاں ایک اشکال اور اس کا جواب ہے جس کا ذکر باعث تکدر فہم سامع ہے۔ تفسیر : یعنی حج کے چند مہینے مقرر ہیں شوال ‘ ذی القعدہ ‘ دس دن ذی الحجہ کے پس جو کوئی ان دنوں میں حج کے لیے احرام باندھے تو اس کے بعد نہ اپنی بیوی سے اختلاط کرے اور نہ کوئی بات فحش اور نہ شہوت انگیز کام کرے اور نہ کسی سے لڑائی تکرار کرے اور جو کچھ نیکی ہو سکے نہایت کوشش کرکے عمل میں لاوے۔ کس لیے کہ ایام تقرب میں ملائِ اعلیٰ کو ان ایام میں بندہ کی طرف نہایت التفات ہوتا ہے۔ یعلمہ اللہ اس کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ حج میں جس طرح سفر ظاہری اور ایک دن ایک جگہ اجتماع عام ہوتا ہے اس سے سفر آخرت اور وہاں قیامت کے روز 1 ؎ خدا کے پاس جمع ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ پس اس سفر کے لیے بھی توشہ لو اور عمدہ توشہ پرہیزگاری ہے اور ممکن ہے کہ اس سے یہ مراد ہو کہ سفر حج کے لیے کچھ زاد راہ لے کر چلا کرو اور اس قدر زاد راہ بہتر ہے کہ جس سے سوال سے بچو۔ چناچہ اس کے شان نزول میں منقول ہے کہ یمن کے لوگ بغیر زاد راہ سفر حج کرتے تھے اور خرچ ساتھ لینا مکروہ جانتے تھے۔ پھر لوگوں سے سوال کرکے حاجیوں کو دق کرتے تھے۔ جیسا کہ ہندوئوں میں دستور ہے کہ بعض قومیں تیرتھ بھیک مانگ کر کرنا ثواب جانتی ہیں۔ اس لیے اس کو خدا تعالیٰ نے منع کیا کہ ایسا نہ کرو۔ ان دونوں مطلبوں کے لیے واتقون یا اولی الالباب نہایت چسپاں ہے۔ توشہ آخرت میں بھی خدا کا خوف بڑی پونجی ہے اور سوال بندوں سے کرنا اور اس پر توکل نہ کرنا یا توشہ راہ ناجائز کمائی کا لینا بھی محل خوف خدا ہے۔ عرب کی قومیں ایام حج میں تجارت کو برا سمجھتی تھیں۔ حالانکہ یہ کچھ برائی نہیں بلکہ ایسے مجامع میں کاروبار خریدو فروخت 2 ؎ بند ہونا 1 ؎ الیہ تحشرون میں اسی طرف اشارہ ہے۔ 12 منہ 2 ؎ مسلمانوں کی اصلاح دنیا کا بھی حج ایک ایسا ذریعہ ہے کہ جس سے دنیا بھر کے مسلمان باہمی اتفاق اور خاص خاص تجاویز پر عمل کرنے کا باہمی معاہدہ کرسکتے ہیں۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی انجمن ہو نہیں سکتی جہاں مشرق و مغرب کے مسلمان ہر طبقہ کے موجود ہوتے ہیں اور دینی برادری کا کمال ظاہر ہوتا ہے مگر مسلمانوں نے اس قوی آلہ کو بیکار کر رکھا ہے۔ صرف ادائے فریضہ کا کام لیتے ہیں۔ 12 منہ ایک طرح کی مسافران باخدا کے لیے تکلیف ہے اور نیز بقول شخصے دست بکار دل بیار ‘ اسلام کا شیوہ خاص ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اگر تم ان ایام میں روزی کہ جو فضل ربی ہے ٗ تلاش کرو یعنی تجارت کے لیے کچھ مال لائو تو کچھ مضائقہ نہیں اور یہ توشہ سفر حج کا ایک عمدہ ذریعہ ہے اس لیے اس کو بھی اس کے ساتھ بیان فرما دیا۔ محققین کہتے ہیں کہ اس سے فضائل و محامد حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہے کہ جو ایسے پاکبازوں کے مجمع سے حاصل ہوسکتے ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ اہل اسلام کے باہمی میل و جول اور ترقی علوم و فنون اور برکات باطنیہ حاصل ہونے کا یہ عمدہ سبب ہے۔ اس کے بعد پھر بترتیب حج کو بیان فرماتا ہے کہ جب تم عرفات سے لوٹ کر مزدلفہ میں آکر شب کو رہو اور صبح کو منٰی جانے لگو تو مشعر الحرام کے پاس کو جو مزدلفہ میں ایک مقدس پہاڑ ہے کہ جس کو قزح بھی کہتے ہیں۔ تکبیر و تہلیل کے ساتھ خدا کو یاد کیا کرو کیونکہ مقامات متبرکہ میں یاد الٰہی باعث نورانیت روح ہے اور اس میں ایک سِرِّ روحانی ہے کہ جس کو ہم اکثر جگہ بیان کر آتے ہیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے اس جگہ کھڑے ہو کر بڑی دیر تک ذکر الٰہی کیا اور دعا مانگی یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ اس کے بعد قریش کی اس تحریف کو مٹاتا ہے کہ جو انہوں نے ملت ابراہیمیہ میں رکھی تھی۔ وہ یہ کہ یہ لوگ اور بعض دیگر قبائل کہ جن کو حمس کہتے تھے اس خیال سے کہ ہم تو کعبہ کے زیر سایہ رہتے ہیں ٗ ہم کو عرفات جانا کیا ضرور ہے ؟ مزدلفہ ہی تک آیا کرتے تھے اور پھر وہاں سے لوٹ کر کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے اور ان کو فرماتا ہے جہاں سے اور لوگ لوٹ کر آتے ہیں اعنی عرفات سے تم بھی وہیں جا کر آیا کرو اور اپنے گناہوں کی خدا سے معافی مانگو کیونکہ وہ غفور رحیم ہے اور یہ تحریف ایک گناہ ہے۔ پھر اصل مطلب کو ذکر کرتا ہے کہ تم جب منٰی میں آکر اپنے تمام ارکانِ حج پورے کر چکو تو جس طرح کہ ایام جاہلیت میں تین روز تک منٰی میں عرب کی قومیں بعد فراغِ حج اپنے باپ دادا کے محامد اور بہادریوں کے شعر پڑھتے اور فخر کیا کرتے تھے اور مجمعوں میں بڑے زور کے قصائد پڑھتے تھے اسی طرح تم اے مسلمانو اپنے خدا کی یاد کرو بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ تم اس کی خاص جماعت ہو۔ اس کے بعد فرماتا ہے کہ ایسے مواضع میں بعض لوگ کوتاہ نظر خاص دنیا ہی کے لیے دعا کرتے ہیں اور اسی کو مدِّنظر رکھتے ہیں۔ دارِ آخرت پر ان کا یقین نہیں لیکن جن پاکبازوں کے سامنے آخرت کھڑی ہے وہ جس طرح اپنی حوائجِ دنیا کے لیے دعا کرتے ہیں اسی طرح اس جہان کی خوبیاں بھی اپنے پروردگار سے مانگتے ہیں۔ سو ایسے لوگوں کی کوشش اور سعی کارگر ہوتی ہے اور ان کو دونوں جہان میں بھلائی کا حصہ پہنچتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ منیٰ میں جس نے دو ہی روز تک رمی جمار کی تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ جو تین روز تک ٹھہرے تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ جیسا کہ ایام جاہلیت میں سمجھتے تھے۔ متعلقات الحج اشہر معلومات اس آیت کے ظاہر معنی یہ ہیں کہ حج کے لیے چند مہینے معلوم ہیں مگر اس سے یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ ان مہینوں میں جب چاہے حج کے تمام ارکان ادا کرکے خواہ شوال میں خواہ ذی القعدہ میں خواہ چوتھی پانچویں ذی الحجہ ہی کو فارغ ہوجاوے بلکہ یہ مراد ہے کہ جن مہینوں میں کہ حج شروع کیا جاوے اور پھر وہ تمام کیا جاوے اس کے لیے ایک موسم اور وقت مقرر ہے کہ اس سے پہلے اور پیچھے کوئی کام حج کا نہ کرنا چاہیے جیسا کہ ہمارے محاورہ میں بولتے ہیں۔ آنب کے چار مہینے ہیں یعنی ان کا موسم یہ ہے کہ بور آنے سے لے کر انتہا تک یہ دن ہیں ٗ نہ یہ کہ ان چار مہینوں میں سے اول مہینے کے اول ہی روز آنب موجود ہوجاتے ہیں۔ پس حج کا احرام باندھ کر جب تک کہ اس کو ختم کیا جاوے اس کے لیے شوال ‘ ذی قعدہ ‘ ذی الحج کے دس روز ہیں۔ پس اول تاریخ شوال سے افعالِ حج شروع ہوتے ہیں اور دسویں ذوالحجہ کو تمام ہوجاتے ہیں۔ اشہر معلومات میں باتفاق جمہور مفسرین شوال اور ذی القعدہ تو پورے پورے داخل ہیں مگر ذی الحج میں اختلاف ہے۔ عروۃ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ سارا مہینہ اشہر حج میں شمار ہے اور یہی امام مالک (رح) کا مذہب ہے۔ ان کے قول پر اگر کوئی طواف زیارت کو اخیر مہینے ذی الحج میں بھی کرے گا تو درست ہوگا اور دلیل ان کی یہ ہے کہ لفظ اشہر جمع ہے اور عرب کی زبان میں جمع کے لیے کم سے کم تین ہونے چاہییں۔ ابن عباس اور ابن عمر ؓ اور نخعی اور شبعی ; اول عشرہ یعنی دس روز لیتے ہیں اور یہی مذہب امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے۔ کس لیے کہ تمام ارکانِ حج طواف زیارت وغیرہ آج ہی تمام ہو چکتے ہیں اور عرب میں جز کو کل سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس تقدیر پر دس روز کو مہینہ قرار دے کر لفظ جمع بولا گیا۔ امام شافعی کہتے ہیں نو دن اور دسویں تاریخ کی رات نہ دسواں دن مراد ہے۔ کس لیے کہ عرفات میں ٹھہرنا جو بڑا رکن اعظم ہے اسی دن ہوتا ہے مگر ہنوز آیت کے معنی میں ایک اشکال باقی رہ گیا وہ یہ کہ اس آیت سے تو مدت حج دو مہینے دس روز مراد لیے گئے حالانکہ خدا تعالیٰ چاندوں کو فرماتا ہے قلھی مواقیت للناس والحج اور نیز صحابہ میں مشہور تھا کہ عمدہ حج وہ ہے کہ جس کے لیے گھر سے احرام باندھ کر چلے اور بعض لوگوں کے گھر چار یا چھ مہینے کی راہ ہوتے ہیں۔ اس بات کا جواب یہ ہے کہھی مواقیت للناس والحج کے معنی یہ نہیں کہ ہر چاند میں حج کے افعال درست ہیں بلکہ یہ کہ ہر چاند کو سلسلہ وار حساب حج میں دخل ہے اور صحابہ کا قول غالباً ان عرب کی نسبت ہے کہ جن کے گھر دو مہینے کی راہ سے کم ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور مالک اور سفیان ثوری جو اشہر حج سے پیشتر احرام باندھنے کو ان وجوہ اشکال کو تسلیم کرکے جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ جواب دیتے ہیں کہ احرام تو صرف التزامِ حج ہے جیسا کہ نیت پس جس طرح نیت حج کی اشہر حج سے پیشتر کرنی درست ہے اسی طرح احرام کا بھی کچھ مضائقہ نہیں۔ ہاں جو امور مہتم 1 ؎ بالشان حج کے ہیں وہ اشہر حج ہی میں ادا ہونے چاہییں اور گو موسم حج یہی ہے مگر بعض باتیں بفرط شوق قبل موسم ہوگئیں تو مضائقہ نہیں۔ وفیہ نظر۔ اب ہم پیشترحج کے ارکان و ہیئت بیان کرکے پھر اس کے اسرار اور مخالفوں کے طعن کا جواب ذکر کرتے ہیں۔ احرام میقات سے باندھنا پھر مکہ میں آکر طواف قدوم کرنا پھر سعی بین الصفا والمروہ۔ پھر اس کے بعد آٹھویں تاریخ کو منٰی میں جانا پھر نویں کو عرفات میں ٹھہرنا۔ پھر شام کو وہاں سے لوٹ کر شب کو مزدلفہ میں رہنا۔ پھر صبح کو وہاں سے اٹھ کر دسویں کو منٰی میں واپس آکر رمی جمار یعنی منارہ کو کنکریاں مارنا۔ قربانی کرکے سر منڈوانا یا بال کتروانا پھر خانہ کعبہ کا جا کر طواف کرنا کہ جس کو طواف زیارت کہتے ہیں پھر وہاں سے منٰی میں آکر دو روز یا تین روز تک رمی جمار کرنا۔ ان چیزوں میں سے بعض رکن ہیں اور بعض واجب اور باقی سنت ہیں۔ احرام اور عرفات میں ٹھہرنا (دعا کے لئے) اور طواف زیارت بالاتفاق رکن ہیں۔ ان کے فوت ہونے سے حج نہیں ہوتا اور سعی بین الصفا والمروہ اور حلق و قصر یعنی سر منڈانا یا کتروانا اور رمی جمار اور مزدلفہ میں شب کو دعا کے لیے قیام کرنا اور ایام تشریق تک منٰی میں رہنا اور رمی جمار کرنا اور ان ارکان کی ترتیب کو ملحوظ رکھنا واجب ہے۔ باقی چیزیں سنت ہیں یا کفارہ ہیں۔ احرام اور طواف اور دیگر امور حج کی تشریح پھر ان کے کفارات کی تشریح کتب فقہ میں مذکور ہے۔ کعبہ کے ہر طرف چندمقامات مقرر ہیں کہ جو ادھر سے اندر آوے تو کعبہ کی تعظیم کے لیے احرام باندھ کر آوے خواہ نیت حج وعمرہ سے آوے خواہ تجارت یا کسی اور ضروری کام کے لیے آوے۔ یہ صرف امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اس حدیث سے لایجاوز حدالمیقات الامحرما رواہ ابن ابی شیبۃ والطبرانی اور امام شافعی وغیرہ علماء فرماتے ہیں کہ احرام خاص اس وقت باندھنا لازم ہے کہ جب حج وعمرہ کی نیت سے آنا چاہیے ورنہ نہیں جیسا کہ ان مقامات کے رہنے والوں کے لیے بالاتفاق اس صورت میں احرام کی کچھ ضرورت نہیں۔ میقات کہ جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہے یہ ہیں : اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل عراق کے لیے ذات عرق اور اہل شام کے لیے حجفۃ اور نجد کی طرف سے آنے والوں کے لیے قرن ہے اور یمن والوں کے لیے اور جو اس راستے سے آویں جیسا کہ ہندوستان کے لوگ تو ان کے لیے یلملم ہے۔ احرام یہ ہے کہ جب ان مقامات کی حد پر پہنچے تو 1 ؎ کہ جن کے فوت ہونے سے دم یعنی قربانی کرنی پڑی ہے۔ غسل یا صرف وضو کرکے دو کپڑے ایک تہبند اور دوسری چادر بےسلی پہنے اور دو رکعت نفل پڑھ کر یہ کہے اللہم انی ارید الحج فیسرہ لی بعد اس کے لبیک پکار کر پڑھے لبیک اللہم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ والملک لک لا شریک لک اس کے بعد سے یہ محرم ہوگیا۔ اس کے لیے شکار کرنا اور لڑنا جھگڑنا ‘ عورتوں سے مخالطت کرنا سب ممنوع ہوگیا۔ کمامر۔ یہ احرام قرآن سے ثابت ہے۔ فمن فرض فیہن الحج فلارفث الآیۃ ولا تقتلوا الصید وانتم حرم اور ان مقامات کو نبی ﷺ نے بیان فرمایا ہے اور اس کی ہیئت اور سلا کپڑا نہ پہنا اور سر نہ ڈھانکنا پستی و بلندی پر تہلیل و تکبیر کہنا تلبیہ پکارنا سب باتیں احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ گو ان میں سے کوئی کوئی بات ایام جاہلیت میں بھی باقی رہ گئی ہو مگر آنحضرت (علیہ السلام) نے اس سنت ابراہیمیہ کو ازسرنو زندہ کیا اور اس میں تحریفات ہوگئی تھیں سب کو دور کردیا۔ احرام میں سر منڈانے کی ممانعت بھی قرآن سے ثابت ہے۔ ولا تحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الہدی محلہ طواف بھی قرآن سے ثابت ہے ولیطوفوا بالبیت العتیق٭ سات بار پھرنا اور حجر اسود کو بوسہ دینا اور اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا سب احادیث صحیحہ سے ثابت ہے سعی بین الصفا والمروہ بھی قرآن مجید سے سمجھی جاتی ہے ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت او عتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بہما عرفات میں جانا اور وہاں سے لوٹ کر شب کو مزدلفہ میں رہنا اور مشعر الحرام کے پاس یاد الٰہی کرنا بھی قرآن سے ثابت ہے۔ فاذا افضتم من عرفات فاذکر اللّٰہ عند المشعر الحرام منٰی میں رہنا بھی قرآن سے ثابت ہے واذکر اللّٰہ فی ایام معدودات فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ ومن تاخر فلا اثم علیہ رمی جمار احادیث صحیحہ صریحہ سے ثابت ہے۔ حج میں جو قربانی کی جاتی ہے وہ تین طرح کی ہے۔ ایک حج وعمرہ ملانے پر ہوتی ہے۔ اس کا ذکر اس آیت میں ہے فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسرمن الہدی۔ یہ واجب ہے دوسری وہ کہ جب حج کو چلتے ہیں تو قربانی ساتھ لے جایا کرتے ہیں کہ وہاں جا کر ذبح کریں گے۔ اس قسم کی قربانیوں کو ہدی اور قلائد کہتے ہیں۔ ان کے گلے میں کچھ ڈالتے تھے کہ راستہ میں کوئی تعرض نہ کرے یا کچھ خفیف خراش سا اس کے کوہان پر کردیتے تھے اور وہیں سے خرید کر بھی بہ نیت تقرب ذبح کرتے تھے۔ اس کا ذکر بھی قرآن میں ہے والبدن جعلنا ھالکم من شعائر اللہ لکم فیہا خیر فاذکروا اسم اللہ علیہا صواف فاذا وجبت جنوبہا فکلوا منہا الایۃ۔ تیسری قسم وہ کہ جو کفارات میں ذبح ہوتی ہے جن کو دم جنایات کہتے ہیں ان کا ذکر احادیث میں ہے۔ حج کے بارے میں مخالفین کا اعتراض : مخالفین اسلام یہود اور عیسائی اور ہندو حج کے بارے میں اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہ عرب کے جاہلوں کا میلہ ہے جو بغرض تجارت قائم ہوا تھا۔ چناچہ نیچر مفسر بھی ص 249 میں کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے بغرض آبادی مکہ اور ترقی تجارت کے لیے لوگوں کو جمع کی ترغیب دی۔ پس نبی (علیہ السلام) نے انہیں رسمیات کو (کہ جو بعید از عقل ہیں اور صرف جسمانی باتیں ہیں) کہ ننگا سر کرکے ایک چوکھونٹی مکان کے گرد گھومو اور وحشیانہ وضع بنائو ٗ تہبند باندھو پھر دو پہاڑیوں کے درمیان دیوانوں کی طرح ہیرے پھیرے کرو بےفائدہ منٰی اور عرفات میں رہو۔ پتھر کے میناروں کو کنکریاں مارو ‘ سر منڈوائو۔ ناحق جانوروں 2 ؎ کو ذبح کرکے جنگل کو سڑائو فرض واجب بنا دیا ہے۔ جواب الزامی : اس کا جواب بہت سہل ہے۔ اہل کتاب کہ جو تورات کو مانتے ہیں ان کے لیے تو یہ اعتراض کرنا شیشہ کے گھر میں بیٹھ کر مخالف پر پتھر پھینکنا ہے کیونکہ بائبل بالخصوص تورات سفر احبار میں متعدد مقامات پر بنی اسرائیل کے لیے خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت وہ احکام 1 ؎ اور طواف افاضہ بھی کہتے ہیں 2 ؎ نیچر مفسر کا یہ کہنا (ص 5۔ 25 حج میں قربانی کی کوئی مذہبی اصل قرآن مجید سے نہیں پائی جاتی۔ خشک بیابان تھا اناج غلہ کم تھا اس لیے خوراک کے لیے لوگ جانور ساتھ لے جاتے تھے۔ الخ) قرآن مجید سے ناواقفیت پر دلیل صریح ہے۔ 12 منہ فرض کئے ہیں کہ جو بظاہر عقل میں نہیں آتے بلکہ صریح فضول معلوم ہوتے ہیں پھر جو ان پر اعتراض کرے حج کے بارے میں بھی منہ کھولے۔ دیکھئے کتاب خروج کے 35 باب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو حکم دیا کہ خداوند کے لیے سونا اور چاندی اور رنگ برنگ کی چیزیں لاویں جس سے بطلی ایل اور اہلیاب جو بڑے کاریگر تھے خداوند کے لیے (11) مسکن اور خیمہ اس کا گھٹا ٹوپ اس کا اور آنکڑے اس کے اور تختے اس کے اور ستون اس کے اور پائے اس کے صندوق اور چوبیں اس کی اور سرپوش اس کا اور پردہ اس کا میز اور چوبیں اس کی اور سب برتن اس کے اور نذر کی روٹیاں شمعدان روشنی کے لیے اور اس کے سرانجام اور اس کے چراغ اور جلانے کا تیل اور قر بان گاہ بخور کے لیے اور چوبیں اس کی اور ملنے کا تیل اور بخور خوشبو مصالح کا اور پردہ مسکن کے دروازہ کا اور مذبح سوختنی قربانی کا اور اس کے لیے پیتل کا آتش دان اور چوبیں اس کی اور حوض و کرسی اور پردہ صحن کے دروازہ کا اور میخیں مسکن کی اور صحن کی میخیں اور ڈوریاں ان دونوں کی اور خدمت کا لباس مقدس میں عباد کے لیے اور مقدس لباس ہارون کاہن کے لیے اور لباس اس کے بیٹوں کا کاہنوں کے لیے بنایا اور پھر ہر ایک کے اندر جو جو قیدیں لگیں کہ ایسا رنگ ہو اور اتنا طول اور اتنا عرض اور ایسا خیمہ اور کروبیوں کی تصویریں پیتل کی اور کاہن کا لباس ایسا اور ایسا اور چناں اور چنیں پھر ان احکام کی ایسی سخت تاکید کہ جو کوئی ذرا بھی سرتابی یا خلاف کرے تو بیچارا مارا جائے۔ اب اگر حج کے ارکان کہ جن کی وجہ ہم ابھی بیان کرتے ہیں فضول ہیں تو یہ بکھیرا کیا معقول ہے ؟ پھر اگر اس سے موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور تورات کے کتاب الٰہی ہونے میں کچھ فرق نہیں آیا تو قرآن اور نبی آخر الزماں (علیہ السلام) کی نبوت میں کیوں نکتہ چینیاں ہوتی ہیں ؟ لطف یہ کہ ارکانِ حج میں تو سراسر روحانیت ہے اور ان میں محض جسمانیت پھر ان سے اعراض کرکے ان پر منہ مارنا عجب بات ہے۔ علاوہ اس کے اور جو کچھ سوختنی قربانی اور اس کا خون چھڑکنا اور تیل کا پکوان پکانا وغیرہ احکام مندرج تورات عجیب حیرت انگیز ہیں۔ طرفہ یہ کہ عیسائیوں کے ہاں باوجود یکہ شریعت سے مطلقاً آزادی ہے مگر عشائِ ربانی کہ جس میں خمیری روٹیاں مسیح کا گوشت تصور کرکے کھائی جاتی ہیں اور پھر بپتسمہ کہ حوض میں تمام گناہوں سے پاک ہوجانے کے لیے غوطہ دلایا جاتا ہے کیا نامعقول چیز ہے اور پھر اس کو دین کا اصول قرار دینا کیا امر فضول ہے۔ پادری صاحب ان باتوں کی کوئی معقول وجہ بیان فرمائیں ورنہ غیروں پر طعن کرنا تو کچھ بڑی بات نہیں اور وید اور شاستر اور پوران تو پوجا پاٹ سے بھرے پڑے ہیں۔ جن میں عناصر اور آفتاب و ماہتاب اور اندر دیوتا اور دیگر لوگوں کے پرستش کے عجائب طریقے لکھے ہیں اور بلدان اور یگ کا دستور کہ یوں آگ جلاویں اور کرچھی میں فلاں چیز کا عرق چوا دیں اور صبح و شام یوں کریں اور سینکڑوں باتیں بعید از عقل سلیم ان کی کتب مسلمہ میں موجود ہیں اور عام دستور گنگا جمنا کا اشنان اور ایک تھیلے میں پوجا کے آلات کہیں چھوٹی چھوٹی پیالیاں اور صندل گھسنے کا پتھر اور بتوں کو پانی پلانے کے چھوٹے پیتل اور تانبے کے چمچے اور بجانے کا سنکھ ہر مہاراج کی بغل میں بھان متی کا پٹارا دبا ہوا ہوتا ہے۔ آریہ جو آج کل نئے محقق نکلے ہیں اور اپنے پوج مذہب کو عقل کے مطابق کرنا چاہتے ہیں اور جو نہیں مطابق ہوتا تو اس کا انکار کرتے ہیں۔ بایں معنی تاویل کرتے ہیں۔ وہ اپنی وید اور اس کے اپنشدوں اور شاستروں کی تو خبر لیں مگر بیچارے ناواقف ہیں کسی قدر انگریزی پڑھ لی چلو شوامی جی مہاراج کی تقریر سن کر وید اور شاستروں گو عام خیال میں کچھ اور ہی سمجھ بیٹھے ڈھٹائی کے زور سے مقدس اور پاک مذہب پر منہ آنے لگے۔ اب ہم ملحدوں کے مقابلہ میں اسرار ارکان حج بیان کرتے ہیں۔ اگر عقل سلیم کے تابع ہیں تو ضرور ہمارے قول کی تصدیق کریں گے ورنہ تعصب کا کچھ علاج نہیں۔ اسرارِ حج : ہم اول بیان کرچکے ہیں کہ خانہ کعبہ اس خدائے پاک کی تجلی اور ظہور انوار کی جگہ ہے کہ جو جسم اور مکان سے پاک ہے نہ وہاں کسی کی صورت ہے نہ کسی دیوی دیوتا کا استھان ہے بلکہ ایک چوکھونٹا اونچا سا مکان ہے گویا اس کے نشان نے اپنے عاشقوں کے لیے دنیا میں ایک نشان قائم کردیا ہے اور اس کو اپنے دیدار فیض آثار کی کھڑکی قرار دیا ہے اور جمال با کمال کا آئینہ بنایا ہے (اور ثبوت اس کا پہلے بدلائل ہوچکا ہے) اور نیز اس معبد کو رئیس المو حدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی عبادت خاص کے لیے اپنے ہاتھ سے تعمیر کیا ہے۔ جیسا کہ تواریخ مخالفین سے بھی ثابت ہے اور تمام روئے زمین پر اکثر اسی بابرکت کی نسل سے انبیاء پھیلے ہیں۔ اس وقت کیا بلکہ ہر زمانہ کی خدا پرست قومیں انہیں کو سر دفتر توحید تسلیم کرتی چلی آئی ہیں۔ بالخصوص اخیر زمانہ میں جناب محمد ﷺ انہیں کی نسل سے ہیں جو تمام بنی آدم کے ہادی اور سب کے رہنما ہو کر اس باخدا کے اصول مذہب کو ازسرنو زندہ کرنے کو دنیا میں تشریف لائے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بمقام عرفات خدا پرست لوگوں کو توحید کا جلوہ دکھانے کے لیے آواز دے کر بلایا۔ وجہ اوّل : اس لیے تمام خدا پرستوں پر فرض ہوا کہ عمر بھر میں بشرط استطاعت فرمان والا شان کو قبول کرکے دربار خاص میں آویں اور ایک مجمع خدا پرستوں کا ایک خاص دن میں (کہ جس روز اس نے تجلی باطنی اور برکت و مغفرت کا وعدہ کیا ہے) اس معبد میں حاضر ہو کر اپنی فرمانبرداری اور ملت ابراہیمیہ کی پابندی کا اظہار کریں اور حسب استعداد باطنی اس کے جمال باکمال سے بہرہ یاب بھی ہوں اور اس معشوق حقیقی کے انوار اور عجائبات قدرت کا مشاہدہ کریں۔ وجہ دوم : اور یہ بھی ہے کہ جس طرح دنیا میں بت پرستوں کے میلے اور غیر اللہ کے لیے مجمعے ان کی عظمت شان کے لیے ہوتے ہیں جس سے ان کی عظمت و عزت لوگوں کے دلوں میں مرسوخ ہوجاتی ہے اور ان کی پرستش و نذر و نیاز کا بازار گرم ہوتا ہے اسی طرح حکمت الٰہی میں (جبکہ خدا پرستی اور نور توحید عالم پر ظاہر کرنے کا منشا تھا) ضرور ہوا کہ خاص موحدین کا بھی ایک مجمع عام روئے زمین کے لوگوں کا اژدہام خاص خدا کے لیے اور اس کے لیے اس کی تہلیل و تکبیر و تقدیس و نیز یہ ظاہر کرنے کے لیے ہو تاکہ لوگوں میں خدا پرستی کی شوکت ظاہر ہو اور ہر ایک خدا پرست دوسرے سے مل کر اکتساب خیر و برکت بھی کرے اور روئے زمین کے خدا پرستوں میں ایک میل جول اور اتحاد قلبی قائم ہوجاوے اور اس کے ضمن میں علوم و فنون و تجارت و صنعت کے متعلق و فوائد اور تبادلہ خیالات بھی ہو۔ چناچہ اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے لیشہدا ومنافع لہم۔ الایہ وجہ سوم : اور یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ دنیا میں توحید پھیلانے والے اور مؤحدین کے بزرگ مانے گئے ہیں۔ پس اس بزرگ کی یادگاری پر کوئی مجمع توحید کی ترقی کے لیے ہونا بالخصوص اس مقام پر کہ جہاں اس کی بیوی اور معصوم بچے کے ہاتھ سے بھی اس خدا پرستی کی بدولت خرق عادات کا ظہور ہوا ہو اور جہاں اس کا پوتا اخیر نبی پیدا ہوا خصوصاً ان مقامات پر کہ جہاں حضرت آدم (علیہ السلام) نے بھی سب سے پیشتر خدا کی یاد کی ہو اور جن پہاڑوں اور میدانوں میں اس کی قدرت کے عجائب ظاہر ہوئے ہوں اور جس جگہ سے کہ اسلام کی روشنی نکل کر دنیا کے پرلے کناروں تک پھیلی ہو۔ ضرور اور پر ضرور ہے اور یہی حج ہے۔ اسرار ارکان حج : اسی لیے ان دنوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا لباس پہن کر کہ جو احرام ہے اور نیز تکلفات و تزنیات دور کرکے اس کے دربار میں فطرتی حالت اور عاشقانہ ہیئت بنا کے حاضر ہونا اور ایک فاصلہ معین سے اس گھر کا ادب ملحوظ رکھ کر ہیئت بنانا اور اسی وقت سے اس کی تہلیل و تکبیر و لبیک پکارنا اور اس گھر کا ادب اور اس حالت کا لحاظ رکھنا ‘ شکار نہ کرنا ‘ فحش اور لڑائی جھگڑوں سے باز رہنا ‘ پھر جب خاص اس مسجد کے پاس آویں تو اس کے شوق میں اس کے گرد قربان 1 ؎ ہونا کیونکہ اس سے دل پر ایک عجیب اثر پیدا ہوتا ہے پھر جس طرح کہ ہاجرہ دو 1 ؎ یہ کہناقولہ ص 251 جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایک ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے الخ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھرنے سے کیا ہوتا ہے اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھرتے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوتے (انتہٰی) صریح رندانہ پن ہے اور نیز قرآن و حدیث بلکہ حقیقتِ حج سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ بیچارے اپنی خو سے ناچار ہیں۔ جبلی اور ابتداء و عمر کا الحاد اور بےدینی اور دنیا پرستی نخوت و غرور دل میں بھرا ہوا ہے۔ وہ بےساختہ منہ سے اگل پڑتا ہے۔ سینکڑوں رندوں کو ہم نے دیکھا ہے۔ وہ خدا اور رسول اور ہر امر دین سے تمسخر کرتے ہیں اور زبان میں لگام نہیں رکھتے بعد مردن حقیقت معلوم ہوجاوے گی۔ نعوذ باللہ۔ 12 منہ پہاڑیوں میں دوڑتی پھری تھیں اسی حالت کے یاد کرنے کے لیے ویسا ہی کرنا اور پھر عرفات میں جس میدان میں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) پر خدا کی تجلی ہوئی تھی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے لوگوں کو وہاں سے بلایا تھا ٗ جا کر دن بھر خدا کی تکبیر و تہلیل کرنا پھر منٰی میں آکر جہاں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خدا کے لیے اپنے پیارے فرزند اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کرنا چاہا تھا قربانی کرنا اور جس طرح تین بار شیطان نے نمودار ہو کر انہیں بہکانا چاہا تھا اور انہوں نے اس کو کنکریاں مار کر بھگایا تھا اسی طرح ان مقامات پر جو منارے ہیں ان پر کنکریاں مارنا جس سے نفس بد پر تین بار خاک ڈالنے کی طرف اشارہ ہے۔ پھر وہاں سے آکر اس مقدس مسجد میں وہی نماز عاشقاں یعنی طواف کرنا سراسر معقول اور اسلام میں رئیس المؤحدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عاشقانہ جذبات کا اظہار ہے جس میں کوئی بات بھی خلاف عقل نہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ قوم کو بری و بحری سفر کا تجربہ کرانا اور محنت کش اور پختہ کار بنانا اور ایسے متبرک مقام کا دکھانا جو ہمیشہ سے توحید و حق پرستی کا سرچشمہ رہا ہے اور نیز ان خدا پرستوں کی عظمت بھی دلوں میں مرسوخ کرانا اور اس ملک کے باشندوں کو مالی فائدہ پہنچانا بھی مقصود ہے جس کی وہ سلف صالحین کی یادگار و متوکل قوم ہر طرح سے مستحق بھی ہے اور یہی بیشمار اسرار ہیں۔
Top