Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 197
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ
اَلْحَجُّ : حج اَشْهُرٌ : مہینے مَّعْلُوْمٰتٌ : معلوم (مقرر) فَمَنْ : پس جس نے فَرَضَ : لازم کرلیا فِيْهِنَّ : ان میں الْحَجَّ : حج فَلَا : تو نہ رَفَثَ : بےپردہ ہو وَلَا فُسُوْقَ : اور نہ گالی دے وَلَا : اور نہ جِدَالَ : جھگڑا فِي الْحَجِّ : حج میں وَمَا : اور جو تَفْعَلُوْا : تم کروگے مِنْ خَيْرٍ : نیکی سے يَّعْلَمْهُ : اسے جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَتَزَوَّدُوْا : اور تم زاد راہ لے لیا کرو فَاِنَّ : پس بیشک خَيْرَ : بہتر الزَّادِ : زاد راہ التَّقْوٰى : تقوی وَاتَّقُوْنِ : اور مجھ سے ڈرو يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو
حج کے معلوم مہینے ہیں پس جو کوئی ان میں حج کا قصد کرے تو (احرام باندھنے کے بعد سے اخیر حج تک) نہ اس کو فحش بات کرنی چاہیے نہ بدکاری نہ حج میں لڑائی کرنی چاہیے اور جو کچھ نیکی کرو گے خدا کو معلوم ہوجائے گی اور (حج میں) توشہ بھی ساتھ لیا کرو۔ پھر بہتر توشہ تو پرہیزگاری ہے اور اے عقلمندو ! مجھ سے ڈرا کرو (یہ بڑی پرہیزگاری اور عمدہ توشہ ہے ) ۔
ترکیب : الحج مبتداء اشہر معلومات خبرو التقدیر الحج اشہر ویمکن ان یقال اشہر۔ الحج اشہر فمن فرض مبتداء متضمن شرط فلارفث والعائد محذوف ای فلارفث ولا فسوق بعدہ وما تفعلو الخ قد مرترکیبہ فی ماننسخ من آیۃ الخ ان تبتغوا موضع نصب میں ہے علی تقدیر فی ان تبتغوا اور ممکن ہے کہ موضع رفع میں ہو۔ جناح کی صفت ہو کر من ربکم متعلق ہے تبتغوا سے پس مفعول بہ ہوگا اور فضل کی صفت بھی ہوسکتا ہے فاذا شرط فاذکر اللّٰہ الخ جملہ جواب عند الشعرالحرام ظرف ہے اذکروا کما ھداکم کاف موضع نصب میں ہے لغت ہے مصدر محذوف کی اور ممکن ہے کہ کاف بمعنی علی ہو تقدیرہ فاذکر اللہ علی ماہدا کم ‘ وان کنتم میں ان مخففہ ہے مثقلہ سے والتقدیر ان کنتم من قبلہ لمن الضالین واؤ اس جگہ تخییر یا اباحت کے لیے ہے اشد ذکرا میں اگرچہ لوگوں نے بہت قیل و قال کی ہے مگر صاف قول یہ ہے کہ اشد منصوب ہے حال ہونے کی وجہ سے اور یہ حال ذکراً سے ہے اور ممکن ہے کہ اس کی صفت ہو اور ذکر اتمیز ہے اشد کی یہاں ایک اشکال اور اس کا جواب ہے جس کا ذکر باعث تکدر فہم سامع ہے۔ تفسیر : یعنی حج کے چند مہینے مقرر ہیں شوال ‘ ذی القعدہ ‘ دس دن ذی الحجہ کے پس جو کوئی ان دنوں میں حج کے لیے احرام باندھے تو اس کے بعد نہ اپنی بیوی سے اختلاط کرے اور نہ کوئی بات فحش اور نہ شہوت انگیز کام کرے اور نہ کسی سے لڑائی تکرار کرے اور جو کچھ نیکی ہو سکے نہایت کوشش کرکے عمل میں لاوے۔ کس لیے کہ ایام تقرب میں ملائِ اعلیٰ کو ان ایام میں بندہ کی طرف نہایت التفات ہوتا ہے۔ یعلمہ اللہ اس کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ حج میں جس طرح سفر ظاہری اور ایک دن ایک جگہ اجتماع عام ہوتا ہے اس سے سفر آخرت اور وہاں قیامت کے روز 1 ؎ خدا کے پاس جمع ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ پس اس سفر کے لیے بھی توشہ لو اور عمدہ توشہ پرہیزگاری ہے اور ممکن ہے کہ اس سے یہ مراد ہو کہ سفر حج کے لیے کچھ زاد راہ لے کر چلا کرو اور اس قدر زاد راہ بہتر ہے کہ جس سے سوال سے بچو۔ چناچہ اس کے شان نزول میں منقول ہے کہ یمن کے لوگ بغیر زاد راہ سفر حج کرتے تھے اور خرچ ساتھ لینا مکروہ جانتے تھے۔ پھر لوگوں سے سوال کرکے حاجیوں کو دق کرتے تھے۔ جیسا کہ ہندوئوں میں دستور ہے کہ بعض قومیں تیرتھ بھیک مانگ کر کرنا ثواب جانتی ہیں۔ اس لیے اس کو خدا تعالیٰ نے منع کیا کہ ایسا نہ کرو۔ ان دونوں مطلبوں کے لیے واتقون یا اولی الالباب نہایت چسپاں ہے۔ توشہ آخرت میں بھی خدا کا خوف بڑی پونجی ہے اور سوال بندوں سے کرنا اور اس پر توکل نہ کرنا یا توشہ راہ ناجائز کمائی کا لینا بھی محل خوف خدا ہے۔ عرب کی قومیں ایام حج میں تجارت کو برا سمجھتی تھیں۔ حالانکہ یہ کچھ برائی نہیں بلکہ ایسے مجامع میں کاروبار خریدو فروخت 2 ؎ بند ہونا 1 ؎ الیہ تحشرون میں اسی طرف اشارہ ہے۔ 12 منہ 2 ؎ مسلمانوں کی اصلاح دنیا کا بھی حج ایک ایسا ذریعہ ہے کہ جس سے دنیا بھر کے مسلمان باہمی اتفاق اور خاص خاص تجاویز پر عمل کرنے کا باہمی معاہدہ کرسکتے ہیں۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی انجمن ہو نہیں سکتی جہاں مشرق و مغرب کے مسلمان ہر طبقہ کے موجود ہوتے ہیں اور دینی برادری کا کمال ظاہر ہوتا ہے مگر مسلمانوں نے اس قوی آلہ کو بیکار کر رکھا ہے۔ صرف ادائے فریضہ کا کام لیتے ہیں۔ 12 منہ ایک طرح کی مسافران باخدا کے لیے تکلیف ہے اور نیز بقول شخصے دست بکار دل بیار ‘ اسلام کا شیوہ خاص ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اگر تم ان ایام میں روزی کہ جو فضل ربی ہے ٗ تلاش کرو یعنی تجارت کے لیے کچھ مال لائو تو کچھ مضائقہ نہیں اور یہ توشہ سفر حج کا ایک عمدہ ذریعہ ہے اس لیے اس کو بھی اس کے ساتھ بیان فرما دیا۔ محققین کہتے ہیں کہ اس سے فضائل و محامد حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہے کہ جو ایسے پاکبازوں کے مجمع سے حاصل ہوسکتے ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ اہل اسلام کے باہمی میل و جول اور ترقی علوم و فنون اور برکات باطنیہ حاصل ہونے کا یہ عمدہ سبب ہے۔ اس کے بعد پھر بترتیب حج کو بیان فرماتا ہے کہ جب تم عرفات سے لوٹ کر مزدلفہ میں آکر شب کو رہو اور صبح کو منٰی جانے لگو تو مشعر الحرام کے پاس کو جو مزدلفہ میں ایک مقدس پہاڑ ہے کہ جس کو قزح بھی کہتے ہیں۔ تکبیر و تہلیل کے ساتھ خدا کو یاد کیا کرو کیونکہ مقامات متبرکہ میں یاد الٰہی باعث نورانیت روح ہے اور اس میں ایک سِرِّ روحانی ہے کہ جس کو ہم اکثر جگہ بیان کر آتے ہیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے اس جگہ کھڑے ہو کر بڑی دیر تک ذکر الٰہی کیا اور دعا مانگی یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ اس کے بعد قریش کی اس تحریف کو مٹاتا ہے کہ جو انہوں نے ملت ابراہیمیہ میں رکھی تھی۔ وہ یہ کہ یہ لوگ اور بعض دیگر قبائل کہ جن کو حمس کہتے تھے اس خیال سے کہ ہم تو کعبہ کے زیر سایہ رہتے ہیں ٗ ہم کو عرفات جانا کیا ضرور ہے ؟ مزدلفہ ہی تک آیا کرتے تھے اور پھر وہاں سے لوٹ کر کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے اور ان کو فرماتا ہے جہاں سے اور لوگ لوٹ کر آتے ہیں اعنی عرفات سے تم بھی وہیں جا کر آیا کرو اور اپنے گناہوں کی خدا سے معافی مانگو کیونکہ وہ غفور رحیم ہے اور یہ تحریف ایک گناہ ہے۔ پھر اصل مطلب کو ذکر کرتا ہے کہ تم جب منٰی میں آکر اپنے تمام ارکانِ حج پورے کر چکو تو جس طرح کہ ایام جاہلیت میں تین روز تک منٰی میں عرب کی قومیں بعد فراغِ حج اپنے باپ دادا کے محامد اور بہادریوں کے شعر پڑھتے اور فخر کیا کرتے تھے اور مجمعوں میں بڑے زور کے قصائد پڑھتے تھے اسی طرح تم اے مسلمانو اپنے خدا کی یاد کرو بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ تم اس کی خاص جماعت ہو۔ اس کے بعد فرماتا ہے کہ ایسے مواضع میں بعض لوگ کوتاہ نظر خاص دنیا ہی کے لیے دعا کرتے ہیں اور اسی کو مدِّنظر رکھتے ہیں۔ دارِ آخرت پر ان کا یقین نہیں لیکن جن پاکبازوں کے سامنے آخرت کھڑی ہے وہ جس طرح اپنی حوائجِ دنیا کے لیے دعا کرتے ہیں اسی طرح اس جہان کی خوبیاں بھی اپنے پروردگار سے مانگتے ہیں۔ سو ایسے لوگوں کی کوشش اور سعی کارگر ہوتی ہے اور ان کو دونوں جہان میں بھلائی کا حصہ پہنچتا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ منیٰ میں جس نے دو ہی روز تک رمی جمار کی تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ جو تین روز تک ٹھہرے تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ جیسا کہ ایام جاہلیت میں سمجھتے تھے۔ متعلقات الحج اشہر معلومات اس آیت کے ظاہر معنی یہ ہیں کہ حج کے لیے چند مہینے معلوم ہیں مگر اس سے یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ ان مہینوں میں جب چاہے حج کے تمام ارکان ادا کرکے خواہ شوال میں خواہ ذی القعدہ میں خواہ چوتھی پانچویں ذی الحجہ ہی کو فارغ ہوجاوے بلکہ یہ مراد ہے کہ جن مہینوں میں کہ حج شروع کیا جاوے اور پھر وہ تمام کیا جاوے اس کے لیے ایک موسم اور وقت مقرر ہے کہ اس سے پہلے اور پیچھے کوئی کام حج کا نہ کرنا چاہیے جیسا کہ ہمارے محاورہ میں بولتے ہیں۔ آنب کے چار مہینے ہیں یعنی ان کا موسم یہ ہے کہ بور آنے سے لے کر انتہا تک یہ دن ہیں ٗ نہ یہ کہ ان چار مہینوں میں سے اول مہینے کے اول ہی روز آنب موجود ہوجاتے ہیں۔ پس حج کا احرام باندھ کر جب تک کہ اس کو ختم کیا جاوے اس کے لیے شوال ‘ ذی قعدہ ‘ ذی الحج کے دس روز ہیں۔ پس اول تاریخ شوال سے افعالِ حج شروع ہوتے ہیں اور دسویں ذوالحجہ کو تمام ہوجاتے ہیں۔ اشہر معلومات میں باتفاق جمہور مفسرین شوال اور ذی القعدہ تو پورے پورے داخل ہیں مگر ذی الحج میں اختلاف ہے۔ عروۃ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ سارا مہینہ اشہر حج میں شمار ہے اور یہی امام مالک (رح) کا مذہب ہے۔ ان کے قول پر اگر کوئی طواف زیارت کو اخیر مہینے ذی الحج میں بھی کرے گا تو درست ہوگا اور دلیل ان کی یہ ہے کہ لفظ اشہر جمع ہے اور عرب کی زبان میں جمع کے لیے کم سے کم تین ہونے چاہییں۔ ابن عباس اور ابن عمر ؓ اور نخعی اور شبعی ; اول عشرہ یعنی دس روز لیتے ہیں اور یہی مذہب امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے۔ کس لیے کہ تمام ارکانِ حج طواف زیارت وغیرہ آج ہی تمام ہو چکتے ہیں اور عرب میں جز کو کل سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس تقدیر پر دس روز کو مہینہ قرار دے کر لفظ جمع بولا گیا۔ امام شافعی کہتے ہیں نو دن اور دسویں تاریخ کی رات نہ دسواں دن مراد ہے۔ کس لیے کہ عرفات میں ٹھہرنا جو بڑا رکن اعظم ہے اسی دن ہوتا ہے مگر ہنوز آیت کے معنی میں ایک اشکال باقی رہ گیا وہ یہ کہ اس آیت سے تو مدت حج دو مہینے دس روز مراد لیے گئے حالانکہ خدا تعالیٰ چاندوں کو فرماتا ہے قلھی مواقیت للناس والحج اور نیز صحابہ میں مشہور تھا کہ عمدہ حج وہ ہے کہ جس کے لیے گھر سے احرام باندھ کر چلے اور بعض لوگوں کے گھر چار یا چھ مہینے کی راہ ہوتے ہیں۔ اس بات کا جواب یہ ہے کہھی مواقیت للناس والحج کے معنی یہ نہیں کہ ہر چاند میں حج کے افعال درست ہیں بلکہ یہ کہ ہر چاند کو سلسلہ وار حساب حج میں دخل ہے اور صحابہ کا قول غالباً ان عرب کی نسبت ہے کہ جن کے گھر دو مہینے کی راہ سے کم ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور مالک اور سفیان ثوری جو اشہر حج سے پیشتر احرام باندھنے کو ان وجوہ اشکال کو تسلیم کرکے جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ جواب دیتے ہیں کہ احرام تو صرف التزامِ حج ہے جیسا کہ نیت پس جس طرح نیت حج کی اشہر حج سے پیشتر کرنی درست ہے اسی طرح احرام کا بھی کچھ مضائقہ نہیں۔ ہاں جو امور مہتم 1 ؎ بالشان حج کے ہیں وہ اشہر حج ہی میں ادا ہونے چاہییں اور گو موسم حج یہی ہے مگر بعض باتیں بفرط شوق قبل موسم ہوگئیں تو مضائقہ نہیں۔ وفیہ نظر۔ اب ہم پیشترحج کے ارکان و ہیئت بیان کرکے پھر اس کے اسرار اور مخالفوں کے طعن کا جواب ذکر کرتے ہیں۔ احرام میقات سے باندھنا پھر مکہ میں آکر طواف قدوم کرنا پھر سعی بین الصفا والمروہ۔ پھر اس کے بعد آٹھویں تاریخ کو منٰی میں جانا پھر نویں کو عرفات میں ٹھہرنا۔ پھر شام کو وہاں سے لوٹ کر شب کو مزدلفہ میں رہنا۔ پھر صبح کو وہاں سے اٹھ کر دسویں کو منٰی میں واپس آکر رمی جمار یعنی منارہ کو کنکریاں مارنا۔ قربانی کرکے سر منڈوانا یا بال کتروانا پھر خانہ کعبہ کا جا کر طواف کرنا کہ جس کو طواف زیارت کہتے ہیں پھر وہاں سے منٰی میں آکر دو روز یا تین روز تک رمی جمار کرنا۔ ان چیزوں میں سے بعض رکن ہیں اور بعض واجب اور باقی سنت ہیں۔ احرام اور عرفات میں ٹھہرنا (دعا کے لئے) اور طواف زیارت بالاتفاق رکن ہیں۔ ان کے فوت ہونے سے حج نہیں ہوتا اور سعی بین الصفا والمروہ اور حلق و قصر یعنی سر منڈانا یا کتروانا اور رمی جمار اور مزدلفہ میں شب کو دعا کے لیے قیام کرنا اور ایام تشریق تک منٰی میں رہنا اور رمی جمار کرنا اور ان ارکان کی ترتیب کو ملحوظ رکھنا واجب ہے۔ باقی چیزیں سنت ہیں یا کفارہ ہیں۔ احرام اور طواف اور دیگر امور حج کی تشریح پھر ان کے کفارات کی تشریح کتب فقہ میں مذکور ہے۔ کعبہ کے ہر طرف چندمقامات مقرر ہیں کہ جو ادھر سے اندر آوے تو کعبہ کی تعظیم کے لیے احرام باندھ کر آوے خواہ نیت حج وعمرہ سے آوے خواہ تجارت یا کسی اور ضروری کام کے لیے آوے۔ یہ صرف امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے اس حدیث سے لایجاوز حدالمیقات الامحرما رواہ ابن ابی شیبۃ والطبرانی اور امام شافعی وغیرہ علماء فرماتے ہیں کہ احرام خاص اس وقت باندھنا لازم ہے کہ جب حج وعمرہ کی نیت سے آنا چاہیے ورنہ نہیں جیسا کہ ان مقامات کے رہنے والوں کے لیے بالاتفاق اس صورت میں احرام کی کچھ ضرورت نہیں۔ میقات کہ جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہے یہ ہیں : اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل عراق کے لیے ذات عرق اور اہل شام کے لیے حجفۃ اور نجد کی طرف سے آنے والوں کے لیے قرن ہے اور یمن والوں کے لیے اور جو اس راستے سے آویں جیسا کہ ہندوستان کے لوگ تو ان کے لیے یلملم ہے۔ احرام یہ ہے کہ جب ان مقامات کی حد پر پہنچے تو 1 ؎ کہ جن کے فوت ہونے سے دم یعنی قربانی کرنی پڑی ہے۔ غسل یا صرف وضو کرکے دو کپڑے ایک تہبند اور دوسری چادر بےسلی پہنے اور دو رکعت نفل پڑھ کر یہ کہے اللہم انی ارید الحج فیسرہ لی بعد اس کے لبیک پکار کر پڑھے لبیک اللہم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ والملک لک لا شریک لک اس کے بعد سے یہ محرم ہوگیا۔ اس کے لیے شکار کرنا اور لڑنا جھگڑنا ‘ عورتوں سے مخالطت کرنا سب ممنوع ہوگیا۔ کمامر۔ یہ احرام قرآن سے ثابت ہے۔ فمن فرض فیہن الحج فلارفث الآیۃ ولا تقتلوا الصید وانتم حرم اور ان مقامات کو نبی ﷺ نے بیان فرمایا ہے اور اس کی ہیئت اور سلا کپڑا نہ پہنا اور سر نہ ڈھانکنا پستی و بلندی پر تہلیل و تکبیر کہنا تلبیہ پکارنا سب باتیں احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں۔ گو ان میں سے کوئی کوئی بات ایام جاہلیت میں بھی باقی رہ گئی ہو مگر آنحضرت (علیہ السلام) نے اس سنت ابراہیمیہ کو ازسرنو زندہ کیا اور اس میں تحریفات ہوگئی تھیں سب کو دور کردیا۔ احرام میں سر منڈانے کی ممانعت بھی قرآن سے ثابت ہے۔ ولا تحلقوا رؤسکم حتی یبلغ الہدی محلہ طواف بھی قرآن سے ثابت ہے ولیطوفوا بالبیت العتیق٭ سات بار پھرنا اور حجر اسود کو بوسہ دینا اور اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا سب احادیث صحیحہ سے ثابت ہے سعی بین الصفا والمروہ بھی قرآن مجید سے سمجھی جاتی ہے ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت او عتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بہما عرفات میں جانا اور وہاں سے لوٹ کر شب کو مزدلفہ میں رہنا اور مشعر الحرام کے پاس یاد الٰہی کرنا بھی قرآن سے ثابت ہے۔ فاذا افضتم من عرفات فاذکر اللّٰہ عند المشعر الحرام منٰی میں رہنا بھی قرآن سے ثابت ہے واذکر اللّٰہ فی ایام معدودات فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ ومن تاخر فلا اثم علیہ رمی جمار احادیث صحیحہ صریحہ سے ثابت ہے۔ حج میں جو قربانی کی جاتی ہے وہ تین طرح کی ہے۔ ایک حج وعمرہ ملانے پر ہوتی ہے۔ اس کا ذکر اس آیت میں ہے فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسرمن الہدی۔ یہ واجب ہے دوسری وہ کہ جب حج کو چلتے ہیں تو قربانی ساتھ لے جایا کرتے ہیں کہ وہاں جا کر ذبح کریں گے۔ اس قسم کی قربانیوں کو ہدی اور قلائد کہتے ہیں۔ ان کے گلے میں کچھ ڈالتے تھے کہ راستہ میں کوئی تعرض نہ کرے یا کچھ خفیف خراش سا اس کے کوہان پر کردیتے تھے اور وہیں سے خرید کر بھی بہ نیت تقرب ذبح کرتے تھے۔ اس کا ذکر بھی قرآن میں ہے والبدن جعلنا ھالکم من شعائر اللہ لکم فیہا خیر فاذکروا اسم اللہ علیہا صواف فاذا وجبت جنوبہا فکلوا منہا الایۃ۔ تیسری قسم وہ کہ جو کفارات میں ذبح ہوتی ہے جن کو دم جنایات کہتے ہیں ان کا ذکر احادیث میں ہے۔ حج کے بارے میں مخالفین کا اعتراض : مخالفین اسلام یہود اور عیسائی اور ہندو حج کے بارے میں اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہ عرب کے جاہلوں کا میلہ ہے جو بغرض تجارت قائم ہوا تھا۔ چناچہ نیچر مفسر بھی ص 249 میں کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے بغرض آبادی مکہ اور ترقی تجارت کے لیے لوگوں کو جمع کی ترغیب دی۔ پس نبی (علیہ السلام) نے انہیں رسمیات کو (کہ جو بعید از عقل ہیں اور صرف جسمانی باتیں ہیں) کہ ننگا سر کرکے ایک چوکھونٹی مکان کے گرد گھومو اور وحشیانہ وضع بنائو ٗ تہبند باندھو پھر دو پہاڑیوں کے درمیان دیوانوں کی طرح ہیرے پھیرے کرو بےفائدہ منٰی اور عرفات میں رہو۔ پتھر کے میناروں کو کنکریاں مارو ‘ سر منڈوائو۔ ناحق جانوروں 2 ؎ کو ذبح کرکے جنگل کو سڑائو فرض واجب بنا دیا ہے۔ جواب الزامی : اس کا جواب بہت سہل ہے۔ اہل کتاب کہ جو تورات کو مانتے ہیں ان کے لیے تو یہ اعتراض کرنا شیشہ کے گھر میں بیٹھ کر مخالف پر پتھر پھینکنا ہے کیونکہ بائبل بالخصوص تورات سفر احبار میں متعدد مقامات پر بنی اسرائیل کے لیے خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت وہ احکام 1 ؎ اور طواف افاضہ بھی کہتے ہیں 2 ؎ نیچر مفسر کا یہ کہنا (ص 5۔ 25 حج میں قربانی کی کوئی مذہبی اصل قرآن مجید سے نہیں پائی جاتی۔ خشک بیابان تھا اناج غلہ کم تھا اس لیے خوراک کے لیے لوگ جانور ساتھ لے جاتے تھے۔ الخ) قرآن مجید سے ناواقفیت پر دلیل صریح ہے۔ 12 منہ فرض کئے ہیں کہ جو بظاہر عقل میں نہیں آتے بلکہ صریح فضول معلوم ہوتے ہیں پھر جو ان پر اعتراض کرے حج کے بارے میں بھی منہ کھولے۔ دیکھئے کتاب خروج کے 35 باب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو حکم دیا کہ خداوند کے لیے سونا اور چاندی اور رنگ برنگ کی چیزیں لاویں جس سے بطلی ایل اور اہلیاب جو بڑے کاریگر تھے خداوند کے لیے (11) مسکن اور خیمہ اس کا گھٹا ٹوپ اس کا اور آنکڑے اس کے اور تختے اس کے اور ستون اس کے اور پائے اس کے صندوق اور چوبیں اس کی اور سرپوش اس کا اور پردہ اس کا میز اور چوبیں اس کی اور سب برتن اس کے اور نذر کی روٹیاں شمعدان روشنی کے لیے اور اس کے سرانجام اور اس کے چراغ اور جلانے کا تیل اور قر بان گاہ بخور کے لیے اور چوبیں اس کی اور ملنے کا تیل اور بخور خوشبو مصالح کا اور پردہ مسکن کے دروازہ کا اور مذبح سوختنی قربانی کا اور اس کے لیے پیتل کا آتش دان اور چوبیں اس کی اور حوض و کرسی اور پردہ صحن کے دروازہ کا اور میخیں مسکن کی اور صحن کی میخیں اور ڈوریاں ان دونوں کی اور خدمت کا لباس مقدس میں عباد کے لیے اور مقدس لباس ہارون کاہن کے لیے اور لباس اس کے بیٹوں کا کاہنوں کے لیے بنایا اور پھر ہر ایک کے اندر جو جو قیدیں لگیں کہ ایسا رنگ ہو اور اتنا طول اور اتنا عرض اور ایسا خیمہ اور کروبیوں کی تصویریں پیتل کی اور کاہن کا لباس ایسا اور ایسا اور چناں اور چنیں پھر ان احکام کی ایسی سخت تاکید کہ جو کوئی ذرا بھی سرتابی یا خلاف کرے تو بیچارا مارا جائے۔ اب اگر حج کے ارکان کہ جن کی وجہ ہم ابھی بیان کرتے ہیں فضول ہیں تو یہ بکھیرا کیا معقول ہے ؟ پھر اگر اس سے موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور تورات کے کتاب الٰہی ہونے میں کچھ فرق نہیں آیا تو قرآن اور نبی آخر الزماں (علیہ السلام) کی نبوت میں کیوں نکتہ چینیاں ہوتی ہیں ؟ لطف یہ کہ ارکانِ حج میں تو سراسر روحانیت ہے اور ان میں محض جسمانیت پھر ان سے اعراض کرکے ان پر منہ مارنا عجب بات ہے۔ علاوہ اس کے اور جو کچھ سوختنی قربانی اور اس کا خون چھڑکنا اور تیل کا پکوان پکانا وغیرہ احکام مندرج تورات عجیب حیرت انگیز ہیں۔ طرفہ یہ کہ عیسائیوں کے ہاں باوجود یکہ شریعت سے مطلقاً آزادی ہے مگر عشائِ ربانی کہ جس میں خمیری روٹیاں مسیح کا گوشت تصور کرکے کھائی جاتی ہیں اور پھر بپتسمہ کہ حوض میں تمام گناہوں سے پاک ہوجانے کے لیے غوطہ دلایا جاتا ہے کیا نامعقول چیز ہے اور پھر اس کو دین کا اصول قرار دینا کیا امر فضول ہے۔ پادری صاحب ان باتوں کی کوئی معقول وجہ بیان فرمائیں ورنہ غیروں پر طعن کرنا تو کچھ بڑی بات نہیں اور وید اور شاستر اور پوران تو پوجا پاٹ سے بھرے پڑے ہیں۔ جن میں عناصر اور آفتاب و ماہتاب اور اندر دیوتا اور دیگر لوگوں کے پرستش کے عجائب طریقے لکھے ہیں اور بلدان اور یگ کا دستور کہ یوں آگ جلاویں اور کرچھی میں فلاں چیز کا عرق چوا دیں اور صبح و شام یوں کریں اور سینکڑوں باتیں بعید از عقل سلیم ان کی کتب مسلمہ میں موجود ہیں اور عام دستور گنگا جمنا کا اشنان اور ایک تھیلے میں پوجا کے آلات کہیں چھوٹی چھوٹی پیالیاں اور صندل گھسنے کا پتھر اور بتوں کو پانی پلانے کے چھوٹے پیتل اور تانبے کے چمچے اور بجانے کا سنکھ ہر مہاراج کی بغل میں بھان متی کا پٹارا دبا ہوا ہوتا ہے۔ آریہ جو آج کل نئے محقق نکلے ہیں اور اپنے پوج مذہب کو عقل کے مطابق کرنا چاہتے ہیں اور جو نہیں مطابق ہوتا تو اس کا انکار کرتے ہیں۔ بایں معنی تاویل کرتے ہیں۔ وہ اپنی وید اور اس کے اپنشدوں اور شاستروں کی تو خبر لیں مگر بیچارے ناواقف ہیں کسی قدر انگریزی پڑھ لی چلو شوامی جی مہاراج کی تقریر سن کر وید اور شاستروں گو عام خیال میں کچھ اور ہی سمجھ بیٹھے ڈھٹائی کے زور سے مقدس اور پاک مذہب پر منہ آنے لگے۔ اب ہم ملحدوں کے مقابلہ میں اسرار ارکان حج بیان کرتے ہیں۔ اگر عقل سلیم کے تابع ہیں تو ضرور ہمارے قول کی تصدیق کریں گے ورنہ تعصب کا کچھ علاج نہیں۔ اسرارِ حج : ہم اول بیان کرچکے ہیں کہ خانہ کعبہ اس خدائے پاک کی تجلی اور ظہور انوار کی جگہ ہے کہ جو جسم اور مکان سے پاک ہے نہ وہاں کسی کی صورت ہے نہ کسی دیوی دیوتا کا استھان ہے بلکہ ایک چوکھونٹا اونچا سا مکان ہے گویا اس کے نشان نے اپنے عاشقوں کے لیے دنیا میں ایک نشان قائم کردیا ہے اور اس کو اپنے دیدار فیض آثار کی کھڑکی قرار دیا ہے اور جمال با کمال کا آئینہ بنایا ہے (اور ثبوت اس کا پہلے بدلائل ہوچکا ہے) اور نیز اس معبد کو رئیس المو حدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی عبادت خاص کے لیے اپنے ہاتھ سے تعمیر کیا ہے۔ جیسا کہ تواریخ مخالفین سے بھی ثابت ہے اور تمام روئے زمین پر اکثر اسی بابرکت کی نسل سے انبیاء پھیلے ہیں۔ اس وقت کیا بلکہ ہر زمانہ کی خدا پرست قومیں انہیں کو سر دفتر توحید تسلیم کرتی چلی آئی ہیں۔ بالخصوص اخیر زمانہ میں جناب محمد ﷺ انہیں کی نسل سے ہیں جو تمام بنی آدم کے ہادی اور سب کے رہنما ہو کر اس باخدا کے اصول مذہب کو ازسرنو زندہ کرنے کو دنیا میں تشریف لائے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بمقام عرفات خدا پرست لوگوں کو توحید کا جلوہ دکھانے کے لیے آواز دے کر بلایا۔ وجہ اوّل : اس لیے تمام خدا پرستوں پر فرض ہوا کہ عمر بھر میں بشرط استطاعت فرمان والا شان کو قبول کرکے دربار خاص میں آویں اور ایک مجمع خدا پرستوں کا ایک خاص دن میں (کہ جس روز اس نے تجلی باطنی اور برکت و مغفرت کا وعدہ کیا ہے) اس معبد میں حاضر ہو کر اپنی فرمانبرداری اور ملت ابراہیمیہ کی پابندی کا اظہار کریں اور حسب استعداد باطنی اس کے جمال باکمال سے بہرہ یاب بھی ہوں اور اس معشوق حقیقی کے انوار اور عجائبات قدرت کا مشاہدہ کریں۔ وجہ دوم : اور یہ بھی ہے کہ جس طرح دنیا میں بت پرستوں کے میلے اور غیر اللہ کے لیے مجمعے ان کی عظمت شان کے لیے ہوتے ہیں جس سے ان کی عظمت و عزت لوگوں کے دلوں میں مرسوخ ہوجاتی ہے اور ان کی پرستش و نذر و نیاز کا بازار گرم ہوتا ہے اسی طرح حکمت الٰہی میں (جبکہ خدا پرستی اور نور توحید عالم پر ظاہر کرنے کا منشا تھا) ضرور ہوا کہ خاص موحدین کا بھی ایک مجمع عام روئے زمین کے لوگوں کا اژدہام خاص خدا کے لیے اور اس کے لیے اس کی تہلیل و تکبیر و تقدیس و نیز یہ ظاہر کرنے کے لیے ہو تاکہ لوگوں میں خدا پرستی کی شوکت ظاہر ہو اور ہر ایک خدا پرست دوسرے سے مل کر اکتساب خیر و برکت بھی کرے اور روئے زمین کے خدا پرستوں میں ایک میل جول اور اتحاد قلبی قائم ہوجاوے اور اس کے ضمن میں علوم و فنون و تجارت و صنعت کے متعلق و فوائد اور تبادلہ خیالات بھی ہو۔ چناچہ اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے لیشہدا ومنافع لہم۔ الایہ وجہ سوم : اور یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ دنیا میں توحید پھیلانے والے اور مؤحدین کے بزرگ مانے گئے ہیں۔ پس اس بزرگ کی یادگاری پر کوئی مجمع توحید کی ترقی کے لیے ہونا بالخصوص اس مقام پر کہ جہاں اس کی بیوی اور معصوم بچے کے ہاتھ سے بھی اس خدا پرستی کی بدولت خرق عادات کا ظہور ہوا ہو اور جہاں اس کا پوتا اخیر نبی پیدا ہوا خصوصاً ان مقامات پر کہ جہاں حضرت آدم (علیہ السلام) نے بھی سب سے پیشتر خدا کی یاد کی ہو اور جن پہاڑوں اور میدانوں میں اس کی قدرت کے عجائب ظاہر ہوئے ہوں اور جس جگہ سے کہ اسلام کی روشنی نکل کر دنیا کے پرلے کناروں تک پھیلی ہو۔ ضرور اور پر ضرور ہے اور یہی حج ہے۔ اسرار ارکان حج : اسی لیے ان دنوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا لباس پہن کر کہ جو احرام ہے اور نیز تکلفات و تزنیات دور کرکے اس کے دربار میں فطرتی حالت اور عاشقانہ ہیئت بنا کے حاضر ہونا اور ایک فاصلہ معین سے اس گھر کا ادب ملحوظ رکھ کر ہیئت بنانا اور اسی وقت سے اس کی تہلیل و تکبیر و لبیک پکارنا اور اس گھر کا ادب اور اس حالت کا لحاظ رکھنا ‘ شکار نہ کرنا ‘ فحش اور لڑائی جھگڑوں سے باز رہنا ‘ پھر جب خاص اس مسجد کے پاس آویں تو اس کے شوق میں اس کے گرد قربان 1 ؎ ہونا کیونکہ اس سے دل پر ایک عجیب اثر پیدا ہوتا ہے پھر جس طرح کہ ہاجرہ دو 1 ؎ یہ کہناقولہ ص 251 جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایک ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے الخ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھرنے سے کیا ہوتا ہے اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھرتے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوتے (انتہٰی) صریح رندانہ پن ہے اور نیز قرآن و حدیث بلکہ حقیقتِ حج سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ بیچارے اپنی خو سے ناچار ہیں۔ جبلی اور ابتداء و عمر کا الحاد اور بےدینی اور دنیا پرستی نخوت و غرور دل میں بھرا ہوا ہے۔ وہ بےساختہ منہ سے اگل پڑتا ہے۔ سینکڑوں رندوں کو ہم نے دیکھا ہے۔ وہ خدا اور رسول اور ہر امر دین سے تمسخر کرتے ہیں اور زبان میں لگام نہیں رکھتے بعد مردن حقیقت معلوم ہوجاوے گی۔ نعوذ باللہ۔ 12 منہ پہاڑیوں میں دوڑتی پھری تھیں اسی حالت کے یاد کرنے کے لیے ویسا ہی کرنا اور پھر عرفات میں جس میدان میں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) پر خدا کی تجلی ہوئی تھی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے لوگوں کو وہاں سے بلایا تھا ٗ جا کر دن بھر خدا کی تکبیر و تہلیل کرنا پھر منٰی میں آکر جہاں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خدا کے لیے اپنے پیارے فرزند اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کرنا چاہا تھا قربانی کرنا اور جس طرح تین بار شیطان نے نمودار ہو کر انہیں بہکانا چاہا تھا اور انہوں نے اس کو کنکریاں مار کر بھگایا تھا اسی طرح ان مقامات پر جو منارے ہیں ان پر کنکریاں مارنا جس سے نفس بد پر تین بار خاک ڈالنے کی طرف اشارہ ہے۔ پھر وہاں سے آکر اس مقدس مسجد میں وہی نماز عاشقاں یعنی طواف کرنا سراسر معقول اور اسلام میں رئیس المؤحدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عاشقانہ جذبات کا اظہار ہے جس میں کوئی بات بھی خلاف عقل نہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ قوم کو بری و بحری سفر کا تجربہ کرانا اور محنت کش اور پختہ کار بنانا اور ایسے متبرک مقام کا دکھانا جو ہمیشہ سے توحید و حق پرستی کا سرچشمہ رہا ہے اور نیز ان خدا پرستوں کی عظمت بھی دلوں میں مرسوخ کرانا اور اس ملک کے باشندوں کو مالی فائدہ پہنچانا بھی مقصود ہے جس کی وہ سلف صالحین کی یادگار و متوکل قوم ہر طرح سے مستحق بھی ہے اور یہی بیشمار اسرار ہیں۔
Top