Tafseer-e-Haqqani - Al-Ankaboot : 23
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآئِهٖۤ اُولٰٓئِكَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : انکار کیا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیوں کا وَلِقَآئِهٖٓ : اور اس کی ملاقات اُولٰٓئِكَ : یہی ہیں يَئِسُوْا : وہ ناامید ہوئے مِنْ رَّحْمَتِيْ : میری رحمت سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور جو اللہ کی آیتوں اور اس کے ملنے کے منکر ہوئے وہی میری رحمت سے بھی ناامید ہوگئے ہیں اور انہی کے لیے عذاب الیم ہے،
ترکیب : قال جار اللہ الزمخشری مودۃ بالنصب اما باضافۃ او بغیر اضافۃ فعلی الاول التعلیل لتودوا بینکم وعلی الثانی یکون مفعولاً ثانیا علی حذف المضاف اوعلی ان المصدر بمعنی بمفعول ای اتخذتم الاوثان سبب المودۃ بینکم و اتخذ تموھامود وۃ بینکم وقری بالرفع ایضاً باضافۃ فعلی الوجھین یکون خیر الان علی ان ما موصلہ والتقدیران التی اتخذ تموھا اوثاناھی سبب مودۃ بینکم او مودہ بینکم۔ پھر جب مجبوراً ہمارے دربار عدالت میں لائے جاؤ گے تو والذین کفروا بایات اللہ ولقائہٖ وہ جو اللہ کی آیتوں اور اس کے پاس جانے کے منکر ہوگئے ہیں۔ اولئک یئسوا من رحمتی وہ درحقیقت میری رحمت سے ناامید ہوگئے ہیں، پس اولئک لہم عذاب الیم ان کو سخت سزا ملے گی، یہ آخرت کا فیصلہ ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وان تکذبوا سے لے کر اولئک لہم عذاب الیم تک بقرینہ قولہ تعالیٰ قل سیروا فی الارض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ میں جملہ معترضہ ہے، جس میں قریش مکہ سے کلام ہے۔ اس لیے کہ عرب کی حالت کفر و شرک و انکار حشر میں بعینہٖ قوم ابراہیم کی حالت تھی فما کان جواب قومہ الا ان قالوا اقتلوہ اوحرقوہ فانجہ اللہ من النار سے پھر ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوتا ہے کہ اس کی قوم کو بجز اس کے اور کچھ جواب نہ آیا کہ جل کر یہ کہہ دیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالو یا آگ میں جلا دو ۔ چناچہ آگ میں ڈال دیا۔ اللہ نے حضرت کو سلامت وہاں سے نکالا۔ ان فی ذلک لآیٰتٍ 1 ؎ لقوم یؤمنون اس میں ایمانداروں لیے 1 ؎ نوح کی کشتی کے لیے آیۃ للعالمین آیا ہے اور یہاں آیات یقوم یومنون آیا اس سبب سے کہ وہ کشتی صرف ایک ہی نشانی تھی اور جہان کے لیے بھی کے قرنوں وہ باقوں رہی ہر ایک شخص کا فرد مومن اسکو دیکھتا تھا برخلاف ابراہیم کے اگ سے نکلنے کے اس کو تو وحی کے سبب ایمان والے ہے انتہی ہیں اور اس میں چند نشانیاں ہیں جیسا کہ بیان ہوا۔ 12 منہ بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ کہ اللہ ایسا قادر ہے کہ آگ میں ڈال کر سلامت نکال لیتا ہے۔ منجملہ ان کے ایک یہ کہ دینداروں پر ہمیشہ اس کی عنایت رہتی ہے۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ امت محمدیہ ملت ابراہیمیہ کی پابند ہے جس طرح ان کو آگ سے نجات دی اس کے پیرو وں کو جہنم کی آگ سے بھی نجات دے گا۔ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے وعظ شروع کیا کہ آج دنیا میں تم نے باہمی محبت سے بت پرستی کر رکھی ہے، باپ دادا کی محبت سے ان کے غلط طریق پر چلتے ہو اور برادری کی محبت سے غلط بات کو نہیں ترک کرتے قیامت میں وہ محبت بھی جاتی رہے گی، وہی تم پر لعنت کریں گے اور تم جہنم میں جاؤ گے کوئی نہ بچائے گا۔ فامن لوط پس اس قوم میں سے حضرت کا بھتیجا لوط ( علیہ السلام) ایمان لایا اور وہ وطن چھوڑ کر پہلے حران اطراف کوفہ میں آئے، پھر وہاں سے ملک شام میں گئے، مہاجر الی ربی یعنی رب کے حکم سے ہجرت کرتا ہوں، جہاں وہ لے جاتا ہے جاتا ہوں
Top