Tafseer-e-Haqqani - Al-Ankaboot : 2
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ
اَحَسِبَ : کیا گمان کیا ہے النَّاسُ : لوگ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا : کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے اَنْ : کہ يَّقُوْلُوْٓا : انہوں نے کہہ دیا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَهُمْ : اور وہ لَا يُفْتَنُوْنَ : وہ آزمائے جائیں گے
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم آمنا کہہ کر چھوٹ جاویں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جاوے گی
ترکیب : ان یترکوا ان وما عملت فیہ یسد مسد المفعولین۔ ان یقولوا ای بان یقولوا دیجوز ان یکون بدلا من ان یترکوا من کان شرط و الجواب فان اجل اللہ و التقدیر لایۃً ۔ تفسیر : پہلی سورة کے خاتمہ میں فرمایا تھا کہ ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الیٰ معاد اور معاد دار آخرت کی طرف کامیابی کے ساتھ جانا آسان بات نہیں، اس میں بڑی بڑی جانفشانیاں کرنی پڑتی ہیں اور بڑی سختیوں کی برداشت کرنی پڑتی ہے، اس لیے اس سورة میں الم سے ایک خاص 1 ؎ مطلب کی طرف اشارہ کرکے، یہ فرمایا احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا وھم لایفتنون کہ کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ لا الہ الا اللہ کہہ دینا اور صرف ایمان لا کے بیٹھ رہنا کافی ہے اور ان کی کوئی آزمائش نہ ہوگی ؟ ضرور ہوگی کس لیے کہ ان سے پہلے بھی ایمانداروں نے بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں۔ آزمائے گئے ہیں گھر بار لوٹے گئے ہیں، ماریں پڑی ہیں، دیس سے نکالے گئے ہیں۔ اس سے اہل اسلام کو مضبوط کیا جاتا ہے کہ اسلام میں تکالیف دیکھ کر نہ گھبرائیں، ایسی ہی آزمائشوں میں سچے جھوٹے کا امتیاز ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے عہد میں خصوصاً ہجرت سے پیشتر ایمانداروں کو بڑی بڑی مصیبتوں کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ برادری کا چھوٹنا، کافروں سے مار کھانا، جلاوطن ہونا، مارا جانا، جورو بچے چھٹنا، مال و اسباب سے دست بردار ہونا وغیرہ وغیرہ، چناچہ ایک بار آنحضرت ﷺ کعبہ کی دیوار سے تکیہ لگائے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بعض صحابہ نے مشرکین کے ظلم و ستم کی شکایت کی کہ ہم یوں یوں ستائے جارہے ہیں۔ آپ دعا نہیں کرتے۔ خفا ہو کر فرمایا تم سے پہلے دیندار آرے سے چیرے گئے ہیں، پر وہ دین سے نہ ہٹے ‘ لوہے کے کنگھے ان کے سر میں کئے گئے کہ گوشت چیر کر ہڈی تک پہنچ گئے، پر وہ تب بھی اپنے دین سے نہ ہٹے اور قسم ہے اللہ کی یہ دین تو پھیلے گا یہاں تک کہ صنعا سے لے کر حضرموت تک سوار امن سے جاوے گا، لیکن تم جلدی کررہے ہو۔ رواہ البخاری مفسرین متفق ہیں کہ یہ ان اہل اسلام کی شان میں نازل ہوا ہے کہ جن کو کفار سے تکلیفیں پہنچ رہی تھیں۔ جیسا کہ عمار بن یاسر اور ولید بن الولید وسلم ہ بن ہاشم، فتنہ جان اور مال اور آبرو پر مصیبت آنا۔ الغرض مسلمانوں کو تسلی اور ثابت قدمی دی گئی کہ راہ حق میں جو تکالیف پیش آویں ان کی برداشت کرو زبانی دعویٰ کافی نہیں۔ یہ آزمائش ہے جو ثابت قدم رہا، صادقوں میں لکھا گیا ورنہ کاذب قرار دیا گیا اور یہ کچھ نئی بات نہیں تم سے پہلے بھی دینداروں کو بڑی تکلیفیں پہنچی ہیں۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد جب ان کے حواری یا ان کے مرید روم میں پہنچے تو روم کے بادشاہوں نے کسی کو لوہے کے ستونوں سے گرم کرکے بندھوادیا۔ کسی کو آگ میں ڈلوادیا۔ کسی کو درندوں سے پھڑوادیا مگر وہ ثابت قدم رہے۔ اس کے بعد ان تکلیف دینے والوں کو بھی آگاہ کرتا ہے، بقولہ ام حسب الذین یعملون السیئات الخ یہ برائی کرنے والے یہ نہ سمجھیں کہ ہم سے بڑھ جاویں گے، یعنی ہمارے قابو میں نہ آویں گے۔ اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ہم بہت جلد اپنے نبی کی مدد کریں گے۔ سرکشوں کے سر توڑ ڈالیں گے، چناچہ چند روز کے بعد ایسا ہی ہوا۔ پھر دینداروں کی طرف روئے سخن کرکے فرماتا ہے کہ من کان یرجوا لقاء اللہ الخ کہ جو کوئی دار آخرت کا طالب اور اللہ سے ملنے کی امید رکھتا ہے کہ اس کے پاس جاؤں اور حیات ابدی پاؤں تو اللہ کا وعدہ آنے والا ہے، یعنی موت چلی آرہی ہے۔ اس کے بعد اس کو وہ کچھ ملے گا کہ جو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا، نہ دل میں گزرا پس اس کو چاہیے کہ سرگرمی سے ایمان اور نیکوکاری میں مصروف رہے۔ وھو السمیع العلیم اور تمہاری یہ کوشش ایسی نہیں کہ جو اس کو معلوم نہ ہو کیونکہ وہ سمیع ہے، منہ کی بات سنتا ہے۔ علیم ہے، دل کے بھید جانتا ہے،
Top