Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 174
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو ! قَدْ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس آچکی بُرْهَانٌ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَاَنْزَلْنَآ : اور ہم نے نازل کیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف نُوْرًا : روشنی مُّبِيْنًا : واضح
اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے اور ہم تمہاری طرف چمکتی ہوئی روشنی بھی نازل کرچکے ہیں (قرآن)
ترکیب : من ربکم صفت ہے برھان کی فسید خلہم جواب اما صراطا موصوف مستقیما صفت مجموعہ مفعول ثانی ہے یہدی کا۔ تفسیر : جبکہ خدا تعالیٰ منافقین اور کفار عرب اور یہود و نصاریٰ وغیرہم باطل فرقوں پر حجت قائم کرچکا اور ان کے شبہات باطلہ کا جواب باصواب دے چکا تو اعلان عام کرکے تمام بنی آدم کو حضرت محمد ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے کہ یا ایہا الناس قد جاء کم برھان من ربکم کہ لوگو تمہارے پاس خدا کی برہان آچکی ہے۔ برہان سے مراد آنحضرت ﷺ ہیں کیونکہ برہان کہتے ہیں دلیل کو آنحضرت ﷺ کا وجود مبارک اور آنحضرت ﷺ کا بیان اور معجزات اور رویہ تمام عالم کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے حجت قاطعہ ہے۔ آنحضرت ﷺ مجسم حق تھے۔ آپ کے بعد پھر آپ کے برخلاف طریقہ اختیار کرنا صریح حق کا خلاف کرنا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے نہ تنہا اپنے وعظ و پند سے بنی آدم کی ڈوبتی کشتی کو تھام لیا تھا بلکہ اپنے ایک ایک حرکات و سکنات کو ہدایت و نیک روی ‘ بردباری ‘ صلہ رحمی ‘ خدا پرستی کے لئے سچا نمونہ بنا دیا۔ آنحضرت ﷺ کے عہد سے پہلے کتب تواریخ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گمراہی اور ہر ایک قسم کی بدکاری اور شرک سے دنیا کی تمام قومیں آلودہ تھیں لیکن جب اس آفتاب ہدایت نے طلوع کیا تو عالم کو منور کردیا اور نہ صرف نبی برحق تمہارے پاس آئے بلکہ ہم نے اس کے ساتھ اس سلسلہ ہدایت کو ہمیشہ قائم کرنے کے لئے انزلنا الیکم نورا مبینا صاف نور اور کھلا ہوا یعنی قرآن مجید بھی نازل کیا ہے۔ قرآن کا نور مبین ہونا بھی دنیا کے منصف اور روشن دماغوں نے تسلیم کرلیا ہے جس قدر آج کل دنیا میں الہامی کتابیں کہلاتی ہیں۔ اگر کوئی ذرا انصاف کرکے ان سے قرآن کے مضامین روح افزا توحید و عبادت ‘ عالم آخرت کی رغبت ‘ خدا کی تنزیہ و تقدیس ‘ نیک روی ‘ تمدن کے اصول وغیرہ کو مقابلہ کرکے دیکھے گا تو بےساختہ نور مبین ہونے کا مقر ہوجاوے گا۔ وہ جو سینکڑوں برس میں حضرت موسیٰ و عیسیٰ ( علیہ السلام) کی کتاب نے دنیا میں خدا پرستی نہ پھیلائی تھی جو چند برسوں میں قرآن نے اطراف عالم کے بت پرستوں ‘ دہریوں ‘ شہوت پرستوں ‘ درندوں کو فرشتہ بنا دیا یہ بات تاریخ سے بخوبی ظاہر ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد یہ فرماتا ہے کہ ہم نے دنیا میں برہان اور نور مبین بھیج دیا پھر جو اس کو مان کر اللہ پر ایمان لائیں گے اور اس کو مضبوط پکڑیں گے یعنی اس کی ذات پر تکیہ اور توکل کریں گے یا یہ مراد کہ شریعت محمدیہ اور قرآن کو جس نے مضبوط پکڑا ( یہ اس لئے فرمایا کہ صرف ایمان لانا کافی نہیں بلکہ اس پر قیام اور استقامت بھی ہو) ان کو اللہ اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ دکھائے گا۔ رحمت اور فضل سے مراد جنت اور حیات جاودانی ہے کیونکہ جنت اس کی رحمت کا مظہر ہے اور فضل میں ولدینا مزید کی طرف اشارہ ہے ویہدیہم کے ساتھ الیہ یعنی اپنی طرف ہدایت کرنا اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ انبیاء اور کتابیں اس معشوق حقیقی کے کہ جو پردہ حسی میں ہے پیامبر ہیں۔
Top