Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 25
وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْ١ؕ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَ اٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ١ۚ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَسْتَطِعْ : نہ طاقت رکھے مِنْكُمْ : تم میں سے طَوْلًا : مقدور اَنْ يَّنْكِحَ : کہ نکاح کرے الْمُحْصَنٰتِ : بیبیاں الْمُؤْمِنٰتِ : مومن (جمع) فَمِنْ : تو۔ سے مَّا : جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : تمہارے ہاتھ مالک ہوجائیں مِّنْ : سے فَتَيٰتِكُمُ : تمہاری کنیزیں الْمُؤْمِنٰتِ : مومن۔ مسلمان وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِاِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان کو بَعْضُكُمْ : تمہارے بعض مِّنْ : سے بَعْضٍ : بعض (ایک دوسرے سے فَانْكِحُوْھُنَّ : سو ان سے نکاح کرو تم بِاِذْنِ : اجازت سے اَھْلِهِنَّ : ان کے مالک وَاٰتُوْھُنَّ : اور ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ : ان کے مہر بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق مُحْصَنٰتٍ : قید (نکاح) میں آنے والیاں غَيْرَ : نہ کہ مُسٰفِحٰتٍ : مستی نکالنے والیاں وَّلَا : اور نہ مُتَّخِذٰتِ : آشنائی کرنے والیاں اَخْدَانٍ : چوری چھپے فَاِذَآ : پس جب اُحْصِنَّ : نکاح میں آجائیں فَاِنْ : پھر اگر اَتَيْنَ : وہ کریں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی فَعَلَيْهِنَّ : تو ان پر نِصْفُ : نصف مَا : جو عَلَي : پر الْمُحْصَنٰتِ : آزاد عورتیں مِنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب (سزا) ذٰلِكَ : یہ لِمَنْ : اس کے لیے جو خَشِيَ : ڈرا الْعَنَتَ : تکلیف (زنا) مِنْكُمْ : تم میں سے وَاَنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبرو کرو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور جس کو تم میں سے (اس بات کا) مقدور نہ ہو کہ وہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرسکے تو پھر جو تمہارے قبضہ میں مسلمان لونڈیاں ہوں (ان سے ہی نکاح کرے) اور اللہ تمہارے ایمان سے خوب واقف ہے۔ تم آپس میں ایک ہو 1 ؎ سو ان سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کرو اور ان کو ان کے مہر دستور کے موافق دو (نکاح) بیویاں بنانے کے لئے ہے نہ کہ شہوت رانی کے لئے اور نہ مخفی آشنائی کے لئے۔ پھر جب وہ نکاح میں آجائیں (اور نکاح میں آئے پیچھے) پھر اگر وہ زنا کریں تو جو سزا بیویوں پر ہے اس کی آدھی سزا ان پر ہے یہ (لونڈیوں سے نکاح کی اجازت) اس کے لئے ہے کہ جو تم میں گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ رکھتا ہو اور جو صبر کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔
1 ؎ : لونڈیاں بھی آدم کی اولاد تمہارے ہم جنس ہیں۔ اصل فضیلت ایمان و نیکوکاری سے ہے۔ ترکیب : ومن لم یستطع شرط فمن ما ملکت جواب۔ طولا مفعول یستطع ان ینکح منصوب ہے طولا کی وجہ سے۔ محصنات حال ہے ضمیر ھن سے۔ ولا متخذات الخ معطوف ہے محصنات پر اخدان جمع خدن مثل عدل واعدال بمعنی پوشیدہ آشنائی۔ فاذا الخ شرط فان اتین شرط و جزا کا مجموعہ جواب۔ ان تصبروا مبتداء خیرلکم خبر۔ تفسیر : آزاد عورتوں سے نکاح کرنے میں مہر بھی زیادہ دینا ہوتا ہے اور مصارف بھی زیادہ ہوتے ہیں اور تجرد بھی ایک مصیبت ہے۔ زنا کا دروازہ بند کردیا گیا اس لئے لونڈی چھوکریوں سے نکاح کی اجازت دی۔ فقال ومن لم یستطع منکم الخ کہ جس کو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کا مقدور نہ ہو تو کسی مسلمان لونڈی سے نکاح کرلے بشرطیکہ وہ محصنہ یعنی پاکدامن ہو۔ زانیہ اور درپردہ آشنائی کرنے والی نہ ہو۔ دوم یہ نکاح اس مسلمان لونڈی سے اس کے مالک کی اجازت سے کرو کیونکہ خدا کو تمہارے ایمان اور دلی حالات معلوم ہیں اور اس میں کوئی عار بھی نہیں۔ کس لئے کہ بنی آدم بلحاظ نسل کے یکساں ہیں۔ لونڈی ہونا عارضی بات ہے اور جو کچھ قدر قلیل دستور اور رواج کے موافق ان کے مہر و مصارف ہوں دیتے رہو نہ کہ ان کے مصارف کا بار مالکوں ہی پر ڈال دو اور نہ یہ ہو کہ ان سے نکاح نہ کرو۔ مخفی آشنائی کرکے شہوت رانی کرو۔ فوائد : (1) من لم یستطع منکم طولاً ۔ طول تونگری اور فراخی اور بالضم ضد قصر ہے یہ معنی ابن عباس ؓ اور مجاہد اور سعید بن جبیر اور سدی اور ابو زید وغیرہم نے لئے ہیں اور قتادہ اور نخعی اور ثوری کے نزدیک صبر مراد ہے من لم یستطع کی شرط سے بطور مفہوم مخالف امام شافعی (رح) نے یہ بات نکالی ہے کہ لونڈی سے جب نکاح درست ہے جبکہ اس کو حرہ سے نکاح کرنے کی قدرت نہ ہو ورنہ نہیں اور مومنات کی قید سے یہ بات ثابت کی ہے کہ کافرہ لونڈی سے خواہ اہل کتاب ہی کیوں نہ ہو نکاح درست نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں ٗ یہ شرط وجودی بات کے لئے ہے نہ کہ عدمی کے لئے اور مومنات کی قید بطور افضلیت کے ہے یعنی افضل یہ ہے ورنہ جب نکاح حرہ کتابیہ سے ہوسکتا ہے تو لونڈی کتابیہ سے کیوں نہیں ہوسکتا ؟ من فتیاتکم یعنی اہل اسلام کی لونڈی سے نکاح کرو نہ یہ کہ خود اپنی لونڈی سے کیونکہ اس سے نکاح کی کیا ضرورت ہے ؟ (2) اتوھن اجورھن لونڈی کو مہر دینا اس کے مالک کو دینا ہے کیونکہ اس کی ہر ایک جائز آمدنی کا وہی مالک ہے۔ پھر ان دونوں باتوں میں تعارض ثابت کرکے قرآن پر اعتراض کرنا نادانی ہے اور امام مالک (رح) ظاہر الفاظ سے استدلال کرکے مہر کو خاص لونڈی کا ہی حق قرار دیتے ہیں۔ (3) فاذا احصن یعنی جبکہ نکاح میں آجاویں اور پھر زنا کریں تو جو حرہ عورت کی زنا میں سزا ہے اس کی نصف لونڈی کی ہے۔ حرہ پر سو درے ہیں تو لونڈی پر پچاس اور رجم چونکہ تنصیف کے قابل نہیں اس لئے لونڈی پر رجم نہیں اور یہی غلام کا حکم ہے اور یہ اس لئے کہ بسبب خدمتگاری کے اس کو باہر جانا مردوں سے اختلاط کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے محفوظ رہنا بہ نسبت حرہ کے مشکل ہے اور نیز سزا بقدر نعمت ہوتی ہے۔ فاذا کی شرط سے بعض نے یہ لکھا ہے کہ اگر لونڈی نکاح میں نہ آئی ہو اور پھر زنا کرے تو اس پر حد نہیں ماری جائے گی ہاں تعزیر ہوگی۔ چناچہ طائوس اور سعید اور ابو عبید اور دائود ظاہری کا یہی مذہب ہے مگر بحکم حدیث صحیحین (کہ جس کو ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا کہ اگر لونڈی زنا کرے تو اس پر حد قائم کرو پھر زنا کرے تو پھر حد قائم کرو اور صحیح مسلم میں ہے لونڈی غلاموں پر حد قائم کرو خواہ وہ محصن ہوں یا نہ ہوں) یہ غلط ہے احصن کے معنی بعض نے مسلمان ہونے کے لئے ہیں کما ھو مروی عن ابن مسعود ؓ وغیرہ
Top