Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اللہ (یہ) چاہتا ہے کہ جو (نیک لوگ) تم سے پہلے ہو گذرے ہیں ان کا طریقہ تم کو بتائے اور ان کے رستے (پر) تم کو چلائے اور تم پر مہربانی کرے اور اللہ خبردار حکمت والا ہے
ترکیب : یرید کا مفہوم ذلک محذوف ‘ لیبتین کالام یرید سے متعلق ہے اور ممکن ہے کہ لام زائدہ ہو تقدیرہ یریدان یتبیّن ویرید الذین یتبعون معطوف ہے واللّٰہ یریدان یتوب پر۔ ضعیفًا حال ہے انسان سے اور بعض کہتے ہیں تمیز ہے وفیہ مافیہ۔ تفسیر : لونڈیوں سے نکاح کی اجازت کے بعد یہ بھی فرما دیا تھا کہ یہ اس کے لئے ہے کہ جس کو حرامکاری میں گرفتار ہونے کا ڈر ہو ورنہ صبر کرنا تو بہتر ہے کیونکہ لونڈیوں کی عادتیں اچھی نہیں ہوتیں۔ اس کے بعد یہ بتلاتا ہے کہ یہ احکام اور نصائح ہم تمہارے فائدہ کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ تم صالحین اور راستبازوں کے طریقہ پر چل کر مقصود تک پہنچو۔ ویتوب علیکم سے یہی مراد ہے اور جو تمہیں کہیں شبہ ہو کہ فلاں چیز کو کیوں حلال کیا فلاں کو کیوں حرام کیا اور اس کی حکمت تمہاری سمجھ میں نہ آوے تو تم وسوسہ شیطانی میں نہ پڑو بلکہ یہ خیال کرلو کہ اللہ علیم ہے ہر چیز کی ابتداء انتہاء اس کو معلوم ہے اور نیز حکیم ہے۔ ہر امر میں ضرور حکمت مرعی رکھتا ہے۔ پھر جو اس نے حکم دیا ہے اس میں ضرور کچھ نہ کچھ حکمت ہے۔ خدا تو ان احکام کے بیان کرنے اور زنا سے بچنے کے لئے رستہ نیک بتانے میں تم پر مہربانی کر رہا ہے اور شہوات و لذات کے فریفتہ یہ چاہتے ہیں کہ تم کو راہ راست سے بہت ہی دور لے جا کر ڈال دیں کیونکہ مجوسی ‘ یہودی ‘ عیسائی ‘ مشرکین فرقوں میں بڑی آزادی ہے۔ خدا تمہارے لئے آسانی کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان جبلی طور پر خواہش کے ساتھ مقابلہ کرنے میں نہایت کمزور ہے۔ بہت لوگ دیو شہوت کے مقابلہ میں ذرا بھی نہیں ٹھہر سکتے۔ انسان کے لئے جس طرح شتر بےمہار ہو کر لذات و شہوات میں آزادانہ کامرانی کرنا بلا قید حلال و حرام اور پاک و ناپاک بہائم جیسی زندگی ہے جو کمالات روحانیہ سے محروم رکھتی ہے جیسا کہ یورپ کی قوموں میں پولوسی مذہب سے پیدا ہے۔ اسی طرح مباح اور جائز اشیاء کو بھی از خود اپنے اوپر حرام کرکے معیشت کے دائرہ کو تنگ کرلینا ہے۔ جیسا کہ ہنود میں برہمنوں نے کر رکھا ہے اور اس کے ہاں چچا ماموں خالہ پھوپھی کی بیٹی سے نکاح ‘ ممنوع غیر کے ہاتھ لگ جانے سے ان کا کھانا پینا ناپاک ‘ بغیر نہائے خونی سردی ہو یا گرمی جنابت ہو یا نہ ہو کھاناپینا ممنوع وغیرہ دنیا میں قومیت کو برباد کرنے والی چیز ہے۔ یہ کام حضرات انبیاء کا ہے۔ ہر چیز کی حلت و حرمت کا نتیجہ روحانی بلکہ جسمانی وہی خوب سمجھ سکتے ہیں جن قوموں نے یہ کام اوروں کے سپرد کیا وہ گمراہ ہوگئیں۔ اسلام نے یہ خدمت حضرات انبیاء بالخصوص خاتم المرسلین ﷺ کے ساتھ مخصوص رکھی۔ اس لئے وہ اس افراط وتفریط سے محفوظ ہے جس میں ہر قسم سے انسان کے لئے سہولت بھی ملحوظ رکھی ہے مگر اور قومیں مسلمانوں کو بھی اپنے رستہ پر لے جانے کی کوشش کرتی ہیں جو مسلمان اس طریقہ انبیاء کو چھوڑ کر جس قدران کے طریقہ کو اختیار کرے گا اسی قدر گمراہی میں پڑ کر راہ راست سے دور جا پڑے گا اور ایسا واقعہ ہوا بھی ہے جن لوگوں پر افراط کی ہوا لگی وہ یورپ کی قوموں کی طرح بےقدر ہوگئی یہاں تک کہ فرائض بھی چھوڑ بیٹھے اور جن پر ہنود کا اثر پڑا ان میں ہزاروں رسوم بیجا پیدا ہوگئے۔ شدہ شدہ ان کے مذہبی قوانین بھی اسی رنگ میں رنگین ہوگئے بلکہ جس طرح وہ اپنے بزرگوں کی پرستش کرتے ہیں یہ بھی اپنے بزرگوں کی پرستش کرنے لگے۔ تعزیہ پرستی ‘ قبر پرستی ‘ فال اور ٹوٹکوں کی پابندی ان میں پیدا ہوگئی۔ آیت کے الفاظ میں دونوں فرقوں میں اہل افراط وتفریط کی طرف اور درمیانی رستہ کی طرف کس خوبی سے اشارہ ہے۔ درمیانی رستہ کی طرف یرید اللّٰہ لیبین لکم سنن الذین من قبلکم ای طریق الانبیاء السابقین میں اشارہ ہے اور افراط کی طرف ویرید الذین یتبعون الشہوات ان تمیلوا میلاً عظیما میں اشارہ ہے اور دراصل یہ آزادی بہت ہی دور لے جا کر ڈال دیتی ہے اور تفریط کی طرف یرید اللّٰہ ان یخفف عنکم میں اشارہ ہے کہ انہوں نے تو رستہ بھاری اور مشکل کردیا۔ خدا آسانی کرنا چاہتا ہے وخلق الانسان ضعیفا اس کی علت ہے کہ انسان ایسی دشواری کا متحمل ہونے میں ضعیف ہے۔
Top