Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 39
وَ مَا ذَا عَلَیْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْمًا
وَمَاذَا : اور کیا عَلَيْهِمْ : ان پر لَوْ اٰمَنُوْا : اگر وہ ایمان لاتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت پر وَاَنْفَقُوْا : اور وہ خرچ کرتے مِمَّا : اس سے جو رَزَقَھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِهِمْ : ان کو عَلِيْمًا : خوب جاننے والا
اور ان کا کیا (نقصان) ہوجاتا اگر وہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لے آتے اور خدا کے دیے میں سے کچھ دیتے اور اللہ ان سے خوب واقف ہے۔
ترکیب : ماذا مبتداء علیہم خبر اور صرف ما مبتدا اور ذاموصول علیہم صلہ مجموعہ بھی خبر ہوسکتی ہے۔ لوامنوا الخ شرط لم یضرھم خبر محذوف اس سے ترغیب مقصود ہے لو مصدر یہ بھی ہوسکتا ہے۔ مثقال صفۃ ہے مصدر محذوف کی ای لا یظلم ظلما قدر مثقال ذرۃ ای وزن ذرۃ مصدر اور اس کی صفت کو حذف کرکے مضاف الیہ کو اس کی جگہ قائم کردیا۔ وان تَکُ اصل میں تکن تھا نون صرف کثرت استعمال کی وجہ سے حذف کردیا گیا ہے کیونکہ نون غنہ سکون کی وجہ سے مشابہ ہے اگر حرکت دی جائے گی نون حذف نہ ہوگا جیسا کہ لم یکن الذین وغیرہ میں۔ یومئذ ظرف یودالذین کفروا وعصوا الرسول اس کا فاعل لوتسوی بہم الخ اس کا مفعول لو بمعنی ان۔ تسوی فعل مجہول الأرض مفعول مالم یسم فاعلہ۔ تفسیر : پہلے ذکر تھا کہ نہ تو ان لوگوں کا اللہ پر ایمان ہے نہ قیامت کے دن پر جو انسان کو عمل خیر کی طرف اور امید ثواب رکھ کر اللہ کی راہ میں صرف کرنے کی طرف اور ہر طرح کی نیکی کی طرف برانگیختہ کرتا ہے۔ سو یہ بڑی بدنصیبی اور حرمان کا باعث ہے۔ اس لئے یہاں بطور ترغیب فرماتا ہے کہ اگر وہ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ کی راہ میں صرف بھی کرتے تو ان کا کیا بگڑ جاتا ؟ یعنی یہ بات خلاف عقل سلیم نہیں نہ اس میں کسی قسم کی مضرت ہے۔ اس پر مجھ کو ایک حکایت یاد آئی۔ کسی ملحد نے کسی مومن سے کہا ٗ تمہارا اللہ اور قیامت پر ایمان لانا اور خیر و خیرات کرنا فضول ہے کیونکہ نہ کوئی اللہ ہے نہ قیامت پھر لئے دیے کا ثواب کہاں ناحق مال کو فرضی ڈھکوسلوں پر صرف کرنا اور نماز روزہ ہر ایک قسم کی عبادت کی تکلیف اٹھانا ‘ شراب کباب ‘ رنڈی لونڈی ‘ مزے کی باتوں سے رکنا عبث ہے اور ضرر صریح۔ مومن نے جواب دیا اگر تمہارا کہنا سچ ہوا تو بھی ہمارا کچھ نقصان نہیں۔ عبادت میں بھی کچھ نہ کچھ فائدہ جسمانی ہے اور نہ ہو نہ سہی کسی قدر تکلیف اور لذائذِ فانیہ سے جو ناجائز ہیں محروم رہنے میں کچھ قباحت نہیں۔ دنیا اور انسان کی عمر باد صبا کی طرح آناً فاناً گذر جاتی ہے۔ تمام لذتیں اور سب عیش عالم خواب کے مزوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ چند روز کے بعد ہم تم دونوں برابر ہیں اور اگر تیرا کہنا غلط نکلا اور مرنے کے بعد اس عالم ثواب و عذاب کا بازار بھی گرم ہوا اور اللہ اور قیامت برحق نکلے تو فرمایئے وہاں تیرا کیا حال ہوگا۔ اب محل خطر میں تو ہے یا ہم ؟ یہ سن کر ملحد کو ہوش آگیا اور ایمان لے آیا۔ اس کے بعد فرماتا ہے اللہ خبردار ہے تمہاری کوئی حالت مخفی نہیں اور نیز وہ کسی پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا اور جو کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کو اپنے فضل سے عالم آخرت میں دوگنا کرکے دیتا ہے اور اس کے علاوہ اپنی طرف سے بھی اجر عظیم دیتا ہے۔ پھر نیکی نہ کرنا اور آخرت کے ساز و سامان سے غافل رہنا سخت غفلت اور صریح بدبختی ہے۔ یضاعفہا سے اس عالم کی سعادت جسمانیہ کی طرف اور یؤت من لدنہ سے سعادت روحانیہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے بعد ایک اور حسرت ناک واقعہ جو پیش آنے والا ہے یاد دلاتا ہے کہ جس روز ہم ایک گروہ کے ہادی کو ان پر ان کی نافرمانی ثابت کرنے کے لئے گواہ بنا کر لائیں گے اور تم کو اے نبی ان مخالفوں پر گواہ بنائیں گے اور اسی طرح عقل بھی جو اس کو بری باتوں سے مانع تھی گواہی دے گی تو ان کا کیا حال ہوگا۔ اس دن تو اللہ اور رسول کے نافرمان یہی آرزو کریں گے کہ کاش ہم زمین میں سما جاویں۔ بخاری نے روایت کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ابی بن کعب ؓ سے فرمایا کہ خدا نے مجھے حکم کیا ہے کہ تجھ سے کچھ قرآن سنوں۔ ابی نے کہا ٗکیا خدا نے میرا نام لیا ہے ؟ فرمایا ہاں اس سے ابی کو ایک وجد ہوگیا۔ پھر یہی آیتیں پڑھنی شروع کیں۔ جب یہاں تک نوبت پہنچی تو آنحضرت ﷺ زار زار قوم کی حالت پر رونے لگے اور فرمایا اے ابی بس کر۔
Top