Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 96
اُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِلسَّیَّارَةِ١ۚ وَ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے صَيْدُ الْبَحْرِ : دریا کا شکار وَطَعَامُهٗ : اور اس کا کھانا مَتَاعًا : فائدہ لَّكُمْ : تمہارے لیے وَلِلسَّيَّارَةِ : اور مسافروں کے لیے وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا عَلَيْكُمْ : تم پر صَيْدُ الْبَرِّ : جنگل کا شکار مَا : جب تک دُمْتُمْ : تم ہو حُرُمًا : حالت احرام میں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جو اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم جمع کیے جاؤگے
(احرام میں) دریائی شکار کرنا اور اس کا کھانا تمہارے اور مسافروں کے فائدہ کے لئے حلال کیا گیا ہے اور تم پر جنگل کا شکار حرام ہے جب تک کہ تم احرام میں ہو۔ اور اس اللہ سے ڈرو کہ جس کے پاس جمع کرکے لائے جاؤ گے۔
ترکیب : احلّ فعل مجہول صید البحر معطوف علیہ وطعامہ معطوف مجموعہ مفعول مالم یسم فاعلہ متاعا مفعول لہ ہے احل کا۔ حرم جمع حرام کتاب و کتب اے ذو حرم اے احرام الکعبۃ مفعول اول قیاما مفعول ثانی اور اگر جعل بمعنی خلق ہو تو قیاما حال ہوگا۔ اور بیت الحرام بدل ہے الکعبۃ سے والشہر الحرام والہدی والقلائد معطوف میں الکعبۃ پر۔ تفسیر : یہ چار باتیں اس کے فعل کا تاوان ہیں۔ جیسا کہ فرمایا لیذوق وبال امرہ امام مالک و ابوحنیفہ و شافعی و جمہور کے نزدیک اس کو ان تین باتوں میں اختیار ہے جو چاہے کرے سب میں سزا محقق ہے۔ امام احمد دزفر (رح) کہتے ہیں نہیں بلکہ ہر ایک بات اپنے موقع پر کرے اول ہدی مثل بھیجے اور نہ ہو سکے تو قیمت کو یا اس کا غلہ تصدق کرے اور یہ بھی نہ ہو سکے تو روزے رکھے۔ ابن عباس ؓ سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور جو کچھ علماء کا اپنے اجتہاد سے ان چیزوں کے قیود میں اختلاف ہے۔ اس کو بیان کرتا ہوں۔ قصداً اس نے قتل کیا یا بےقصد۔ اس سے مرگیا جمہور کے نزدیک اس پر تاوان واجب ہوگا اور قصداً کی قید علی سبیل عادت ہے۔ دائود ظاہری کہتے ہیں کہ قید قصد معتبر ہے بےقصد سے کچھ لازم نہیں آئے گا۔ اس نے کسی کو شکار بتلایا اور اس نے مار ڈالا تو یہ فعل اس کی طرف بھی منسوب ہوگا اور اس کو تاوان دینا پڑے گا۔ جیسا کہ حدیث ابو قتادہ ؓ سے ثابت ہوتا ہے۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ جزا خاص اسی کے قتل کرنے پر مرتب ہوگی۔ قتل اگر شکار کو زخمی ہی کیا ہے کہ جس سے اس کی قیمت میں کمی تصور ہوسکتی ہے تو جمہور کے نزدیک اس نقصان کا اندازہ کرکے صدقہ دینا پڑے گا۔ دائود ظاہری کے نزدیک بغیر قتل کے جزا لازم نہیں کیونکہ جزا قتل پر مرتب ہے۔ جمہور کے نزدیک زخم بھی قتل کی ایک شاخ ہے۔ اسی کا مثل دے۔ مماثلت تو ضرور ہونی چاہیے مگر اس میں اختلاف ہے کہ مماثلت قیمت میں ہو یا صورت میں مماثلث ہونی چاہیے جیسا کہ ہرن سے بکری اور نیل گائے سے گائے صورت میں مماثل ہے۔ پھر یہ مماثلث جمہور کے نزدیک جو دو عدلوں پر مفوض ہے موضع قتل کے لحاظ سے دیکھی جائے گی کہ اس موضع میں اس کا مماثل قیمۃً یا صورۃً یہ جانور شمار ہوتا ہے یا نہیں ؟ شعبی کہتے ہیں اندازہ قیمت بازار کے لحاظ سے ہونا چاہیے کیونکہ یہ وہیں پہنچایا جاوے گا۔ قیمت سے جو اناج تقسیم کیا جاوے۔ ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر گیہوں ہو تو ایک شخص کو ایک دن کا طعام نصف صاع دے اور امام شافعی (رح) ایک مد کہتے ہیں مد کا وزن صاع سے کم ہے اور نصف صاع سیر بھر سے کچھ زیادہ کا ہے۔ اس تقدیر پر امام شافعی (رح) کے نزدیک جس قدر مد ہوں اور ابوحنیفہ کے نزدیک جس قدر صاع ہوں اسی قدر روزہ رکھے۔ اس کے بعد فرماتا ہے کہ اگر یہ معاملہ کسی سے پہلے ہوچکا ہو تو اللہ معاف کرے گا اور جو آیندہ پھر کرے گا تو خدا اس سے انتقام لے گا۔ حرم اور احرام میں شکار کرنے والوں پر جو کچھ آخرت میں ہوگا سو ہوگا مگر دنیا میں بھی ایسے لوگ بلائِ آسمانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد احل لکم صید البحر سے احرام و حرم میں دریائی شکار کی اجازت عطا فرماتا ہے۔ صید البحر عام ہے خواہ وہ کھانے کی چیزیں ہوں یا نہ ہوں جیسا کہ صدف نکالنا یا بعض بحری جانوروں کو ان کے دانت یا ہڈیوں کے لئے شکار کرتے ہیں اور طعام سے مراد کھانے کی چیزیں جو کچھ دریا سے شکار کیا جاتا ہے۔ اس کی تین قسم ہیں ایک مچھلیاں سو یہ سب قسم کی حلال ہیں۔ دوم مینڈک سو یہ سب قسم کے حرام ہیں۔ علاوہ ان کے جو کچھ ہے وہ تیسری قسم میں شمار ہے سو ابوحنیفہ (رح) تو ان کو حرام فرماتے ہیں اور ابن ابی لیل اور اکثر فقہاء حلال سمجھتے ہیں۔ اس لفظ طعامہ سے اور امام ابوحنیفہ (رح) دلائلِ خارجیہ سے طعام کو مچھلی میں منحصر کرتے ہیں بحر سمندر کو کہتے ہیں مگر بالاتفاق عام مراد ہے خواہ دریا ہو خواہ حوض کبیر خواہ کنواں۔ (ک) وحرم علیکم صید البرّ مادمتم حرما بری اور بحری جانوروں میں یہ فرق ہے کہ بحری تو وہی جانور ہیں کہ جو پانی میں پیدا ہوں اور وہیں زندہ رہ سکتے ہوں اور جو خشکی میں پیدا ہوتے اور پانی میں رہتے ہیں یا کبھی خشکی میں بھی رہا کرتے ہیں سو وہ سب بری جانور ہیں جیسا کہ مینڈک اور سرطان گوہ اور بگلا ان سب کے قتل کرنے میں محرم کو جزا لازم ہوگی۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ محرم کو صید بری حرام ہے مگر اور کسی کا شکار کیا ہوا بھی اس کے لئے حلال ہے کہ نہیں ؟ اس میں چند اقوال ہیں۔ اول یہ کہ وہ بھی حرام ہے۔ یہ حضرت علی و ابن عباس و ابن عمر و سعید بن جبیر و اسحاق ؓ کا قول ہے۔ بدلیل آیت مذکورہ۔ دوسرا یہ کہ حلال ہے بشرطیکہ کسی محرم نے یا کسی نے محرم کے لئے نہ مارا ہو اور یہ مذہب امام شافعی کا ہے۔ سوم یہ کہ گو محرم کے لئے شکار کیا گیا ہو مگر اس کی شرکت سے نہ مارا گیا ہو۔ محرم کے لئے حلال ہے بدلیل حدیث ابی قتادہ یہ امام ابوحنیفہ وغیرہ کا قول ہے۔ احرام و حرم و شکار کے مسائل کے بعد کعبہ کی اور اس کی ہدی اور ماہ حج کی عزت و حرمت بیان فرماتا ہے جعل اللّٰہ الکعبۃ الخ کہ ہم نے کعبہ اور ماہ حرام کو لوگوں کے قیام کا باعث بنایا کہ اس جگہ اور ان ایام میں کوئی کسی سے تعرض نہیں کرتا۔ عرب کے قبائل اور مہینوں میں لڑتے اور کٹتے مگر ان ایام میں اور اس جگہ کوئی کسی کو کچھ نہیں کہتا تھا۔ اس سے تجارت اور باہمی وہ منافع جن پر تمدن کا مدار ہے حاصل کرتے تھے۔ اسی طرح ہدی اور قلائد کو بھی نہیں چھوتے تھے۔ سو یہ مکہ کے فقراء کے قیام کا باعث ہوگیا۔ سو ایسی عمدہ تدبیر کرنا ( کہ لوگوں کے دلوں میں کعبہ اور مناسک حج کی عظمت پیدا کرکے وہاں کے لوگوں اور وہاں کے آجانے والوں کے لئے باعث امن اور سبب آبادی مکہ کردیا) بڑے علیم وخبیر کا کام ہے تاکہ تم کو بھی اللہ کے صفات علم و رحمت و غضب کا حال معلوم ہوجائے۔ ذلک لتعلموا الخ اعلموا ان اللّٰہ شدید العقاب (صفت غضب کے لئے آیا ان اللہ غفور رحیم رحمت کے لیے) اس کے بعد نہیات سے روکتا ہے۔ اول تو اس بےپروائی کے جملہ سے کہ ہمارے رسول پر تو صرف پہنچا دینا ہے۔ ذمہ داری تم پر ہے ماعلی الرسولالخ۔ دوم یہ کہ ہم ہر چھپی کھلی بات جانتے ہیں ٗہمارے سامنے گناہ کرنا ؟ واللّٰہ یعلمالخ سوم یہ کہ جس چیز سے تم کو منع کیا جاتا ہے دراصل اس میں خباثت ہوتی ہے اور جس کا حکم دیا جاتا ہے اس میں خوبی ہوتی ہے۔ سو دونوں برابر نہیں گو ناپاک چیز بکثرت ہو۔ اس کے بعد فاتقوا اللّٰہ یا اولی الالباب سے فرمانبرداری کی تمام حکمتوں کی طرف اشارہ کرکے تاکید فرماتا ہے۔
Top