Tafseer-e-Haqqani - At-Talaaq : 4
وَ الّٰٓئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ١ۙ وَّ الّٰٓئِیْ لَمْ یَحِضْنَ١ؕ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ؕ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًا
وَ الّٰٓئِیْ يَئِسْنَ : اور وہ عورتیں جو مایوس ہوچکی ہوں مِنَ الْمَحِيْضِ : حیض سے مِنْ نِّسَآئِكُمْ : تمہاری عورتوں میں سے اِنِ ارْتَبْتُمْ : اگر شک ہو تم کو فَعِدَّتُهُنَّ : تو ان کی عدت ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ : تین مہینے ہے وَ الّٰٓئِیْ لَمْ : اور وہ عورتیں ، نہیں يَحِضْنَ : جنہیں ابھی حیض آیا ہو۔ جو حائضہ ہوئی ہوں وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ : اور حمل والیاں اَجَلُهُنَّ : ان کی عدت اَنْ : کہ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ : وہ رکھ دیں اپنا حمل وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ : اور جو ڈرے گا اللہ سے يَجْعَلْ لَّهٗ : وہ کردے گا اس کے لیے مِنْ اَمْرِهٖ : اس کے کام میں يُسْرًا : آسانی
اور تمہاری عورتوں میں سے جن کو حیض کی امید نہیں رہی ہے اگر تم کو شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہیں اور (یہی عدت) ان کی بھی کہ جن کو حیض نہیں آیا۔ اور حمل والیوں کی عدت ان کے بچہ جننے تک ہے۔ اور جو اللہ سے ڈرتا رہتا ہے وہ اس کے کام آسان کردیتا ہے۔
ترکیب : واللائی موصول یئسن صلہ من نسائکم بیان واللائی ان ارتبتم شرط فعدتہن جو ابہ والمجموع خیر واللائی ‘ واللائی لم یحضن مبتداء والخبر محذوف ای فعدتھن کذالک واولات الاحمال مبتداء اجلہن مبتداء ان یضعن خبرہ والجملۃ خبرا اولات الاحمال ‘ من حیث قال الزمخشری من للتبعیض ای بعض مکان سکنا کم وقال الرازی والکسائی زائدۃ وقال ابوالبقاء والحوفی لابتداء الغایۃ من وجدکم الوجد بضم الواو و الفتح والکسر ومعناہ من سعتکم وطاقتکم وھوبدل من حیث واتمرواقال الکسائی معناہ تشاور وابدلیل قولہ تعالیٰ ان الملاء یاتمرون بک وقال مقاتل المعنی لیتراض الاب واللام علی اجرمسمیٰ ۔ تفسیر : واحصوالعدّۃ کہ ان کو عدت کے لیے طلاق دو اور عدت گنتے رہو۔ اس جملہ کی شرح اس حدیث سے بخوبی ہوجاتی ہے۔ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دے دی تھی اس کی عمر ؓ نے نبی ﷺ کو خبر کردی۔ آنحضرت ﷺ سن کر بہت خفا ہوئے۔ پھر فرمایا اس سے رجوع کر کے رکھے یہاں تک کہ حیض سے پاک ہوجائے، پھر حیض آئے اور پھر پاک ہوجائے۔ اس کے بعد اگر طلاق ہی دینا ضرور ہو تو پاکی کی حالت میں طلاق دے قبل اس کے کہ اس کو ہاتھ لگایا ہو۔ یہ ہے وہ عدت کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کو کہا ہے۔ (متفق علیہ) احکام : اول حکم۔ حیض میں طلاق نہ دے جو فطلقوھن لعدتہن کا خلاصہ مطلب ہے۔ اس بات پر جمہور کا اتفاق ہے اور حدیث مذکور اس پر پوری دلیل ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ کو رجوع کرنے کا حکم دیا اور خفا ہوئے۔ یہ اس لیے کہ حیض میں عورت سے دل راغب نہیں ہوتا اور وہ میلی کچیلی بھی ہوتی ہے شاید اس نفرت طبعی نے کسی رنجش کو طلاق دینے پر ابھار دیا ہو اس لیے طہر میں طلاق دینی چاہیے تاکہ اصلی مصلحت کا تقاضا معلوم ہو۔ فائدہ : قرآن مجید میں عدت طلاق ثلاثہ قروء بیان ہوئی۔ صدر اول کے بعد جب علماء نے احکام میں زیادہ غور وتامل کرنا شروع کیا تو اس لفظ کے معنی میں بھی غور کیا گیا۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور بہت سے علماء نے یہ فرمایا کہ اس کے معنی ہیں تین حیض اور پھر اس قول کو لغت اور صحابہ کبار ؓ کے اقوال سے مستند کیا۔ امام شافعی (رح) اور ان سے آگے اور علماء نے کہا اس کے معنی ہیں تین طہر یعنی وہ زمانہ کہ جس میں عورت حیض کے بعد پاک ہوتی ہے۔ امام شافعی (رح) کے دلائل میں سے یہ آیت بھی ہے۔ فطلقوھن لعدتہن کس لیے کہ لام لعدتھن میں وقت کے معنی دیتا ہے یعنی عدت کے وقت میں طلاق دو ۔ اور یہ مسلم ہے کہ طلاق کا وقت طہر ہے بس معلوم ہوا کہ عدت بھی طہر ہے نہ حیض۔ اس کے جواب میں ابوحنیفہ (رح) کی طرف سے ایک آیت پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے۔ والمطلقات یتربصن بانفسہن ثلثۃ قروء کہ طلاق دی ہوئی عورتیں تین قروء تک اپنے آپ کو روکیں۔ معلوم ہوا کہ عدت تین قروء ہیں اور قروء حیض کو کہتے ہیں گو طہر پر بھی استعمال ہوتا ہے مگر ثلاثہ کا لفظ کہے دیتا ہے کہ تین حیض مراد ہونے چاہییں کس لیے کہ طلاق تو بالاتفاق طہر میں ہونی چاہیے۔ پھر اگر اس طہر کو بھی عدت میں شمار کیا گیا تو تین پورے نہ ہوئے کس لیے کہ کچھ زمانہ اس طہر کا طلاق دینے سے پہلے ضرور گزر گیا تھا اور اگر اس کے سوا اور تین طہر کئے گئے تو یہ مل کر تین سے زیادہ بڑھ گئے ہاں حیض مراد لینے میں یہ خرابی پیش نہیں آتی اور لام اضافت کے لیے بھی آتا ہے اور بیان علت و سبب کے لیے بھی جیسا کہ اس آیت میں انمانطعکم لوجہ اللہ اور عند کے معنی بھی دیتا ہے جیسا کہ اس آیت میں اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس کہ نماز قائم کرو، نزدیک آفتاب ڈھلنے کے۔ اور استقبال کے لیے بھی آتا ہے جیسا کہ عرب کہتے ہیں۔ اتیتہ للیلۃ بقیت من المحرم۔ آیت میں لام اسی معنی میں ہے کہ عدت کے موقع پر طلاق دو یعنی طہر میں دو اس کے بعد عدت حیض سے شروع ہوگی۔ اور اس کی مؤید بہت احادیث ہیں منجملہ ان کے یہ ہے۔ ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لعدتہن کے موقع پر لقبل عدتھن پڑھا (رواہ عبدالرزاق فی المصنف وابن المنذر والحاکم وابن مردویہ) ابن عمر و مجاہد و ابن عباس ؓ سے بھی یہ قرأت منقول ہے۔ یہ تفسیر کے طور پر آنحضرت ﷺ نے پڑھا ہوگا۔ اور ایک حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ عدت حیض ہے نہ کہ طہر اور وہ یہ ہے۔ عائشہ ؓ نبی ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ لونڈی کے لیے دو طلاق 1 ؎ ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہیں (رواہ الترمذی و ابودائود و ابن ماجہ والدارمی) لونڈی کا نصف مرتبہ حرہ سے رکھا گیا مگر تین طلاق کا نصف ڈیڑھ طلاق اور تین حیض کا نصف ڈیڑھ حیض شروع میں کوئی تعداد صحیح نہ تھی اس لیے پورے دو کردیے۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ حرہ کی بھی عدت تین حیض ہیں نہ کہ طہر۔ دوسرا حکم : واحصوا العدۃ کہ عدت کا شمار کرتے رہو کہیں غفلت میں میعاد نہ گزر جائے اور پھر رجوع کرنے کا موقع ہاتھ سے جاتا رہے۔ جاہلیت میں عورت پر طرح طرح سے ظلم کرتے تھے طلاق دے کر عدت میں جھگڑا ڈال دیتے تھے۔ اور عدت کو بڑھا دیتے تھے اور (یہ بات) قابل بحث باقی رہ گئی کہ طلقتم النساء میں نساء سے کون عورتیں مراد ہیں ؟ گو لفظ میں کوئی تخصیص نہیں مگر بقرینہ کلام آیندہ وہ عورتیں مراد ہیں کہ جن کو حیض آتا ہو۔ (صغیرہ اور آئسہ اور حاملہ نہ ہوں) اور ان سے کم از کم ایک بار صحبت بھی کی ہو۔ یہ اس لیے کہ جس سے صحبت نہ کی ہو اس کے لیے طلاق کے بعد عدت ہی نہیں جیسا کہ قرآن میں آچکا ہے۔ من قبل ان تمسوھن فمالکم علیہن من عدۃ تعتدونہا۔ حاملہ کی اور جن کو حیض نہیں آتا ان کی عدت بعد میں مذکور ہے۔ بقولہ واللائی یئسن الخ۔ اقسام طلاق : طلاق تین قسم پر ہے : (1) احسن یہ کہ جس طہر میں وطی نہیں کی ہو اس میں صرف ایک طلاق دے یہاں تک کہ عدت گزر جائے کس لیے کہ صحابہ ؓ ایک طلاق سے زیادہ دینا پسند نہیں کرتے تھے اور اس میں بغیر مرضی عورت کے عدت کے اندر مرد کو رجوع کرلینے کا اختیار باقی رہتا ہے۔ (2) حسن وہ یہ کہ وطی 1 ؎ کی ہوئی عورت کو طہر میں تین طلاق بتفریق دے اس کو بھی حنفی طلاق مسنون 2 ؎ کہتے ہیں۔ مگر امام مالک (رح) اس کو بدعت کہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ایک طلاق سے زائد دینا کسی حال میں سنت 3 ؎ نہیں خواہ وہ ایک طہر میں ہو خواہ کئی میں۔ مگر امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب ایک طہر میں ایک طلاق سے زیادہ دینا بدعت جانتے ہیں نہ کئی طہر میں۔ اور امام شافعی (رح) کے نزدیک ایک بار تین طلاق دینے میں بشرطیکہ طہر میں ہوں کچھ حرج نہیں کس لیے کہ وہ کہتے ہیں طلاق کی تعداد میں بدعت و سنت کچھ نہیں ایک مباح بات ہے۔ پس امام مالک (رح) صرف ایک طلاق دینا مسنون جانتے ہیں طہر میں اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تفریق اور وقت طہر کی رعایت ہے اور امام شافعی (رح) کے نزدیک صرف وقت طہر کی رعایت ہے۔ (کشاف) (3) طلاق بدعی یہ وہ ہے جو حالت حیض میں ہو یا ایک طہر میں ایک سے زائد ہو یا اس طہر میں ہو کہ جس میں وطی کی ہو گو ایک ہی طلاق ہو عام ہے کہ وہ مدخولہ ہو یا نہ ہو اور جس کو صغر یا کبر کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو اس کو ایک مہینے میں ایک طلاق سے زیادہ دینا بھی بدعت ہے۔ اسی طرح حاملہ کو بھی ایک مہینے میں ایک سے زیادہ طلاق دینا بدعت ہے۔ یہ طلاق بدعی بھی پڑجاتی ہے مگر طلاق دینے والا گناہگار ہوتا ہے ملخص ازہدایہ۔ الفاظ طلاق : دو قسم ہیں۔ ایک صریح لفظ طلاق استعمال کیا جائے اس سے طلاق رجعی پڑتی ہے کہ اس کے بعد رجوع کرسکتا ہے اس میں نیت کو نہ دیکھا جائے گا۔ دوسری قسم کنائی ہے کہ کنایہ سے طلاق دے صریح الفاظ کا استعمال نہ کرے البتہ اس میں اس کی نیت دیکھی جائے گی۔ ان الفاظ سے جو مراد وہ کہے گا وہی عدلت شرح منظور کرے گی، جھوٹ سچ ان کی گردن پر پھر کنایات بھی دو طرح پر ہیں تین لفظ تو ایسے ہیں کہ جن سے طلاق رجعی پڑتی ہے وہ یہ ہیں۔ عدت کر، رحم پاک کر، تو اکیلی ہے۔ اور باقی الفاظ سے طلاق بائن پڑتی ہے کہ بغیر نکاح جدید شوہر رجوع نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ میں نے تجھے چھوڑ دیا۔ تو حرام ہے، تیری رسی چھوڑ دی۔ وغیرذلک۔ احکام : اگر عورت غیرمدخولہ ہے تو اس کو ایک طلاق کافی ہے۔ اب یہ اس کی ہرگز بیوی نہیں رہی۔ عدت کے بعد اس کو اختیار ہے جس سے چاہے نکاح کرے خواہ اس سے کرے یا غیر سے۔ اسی طرح مدخولہ کو اگر طلاق بائن دی ہو یا تین طلاق دے چکا ہے تب بھی کوئی حق شوہر اول کا نہیں رہتا۔ عدت کے بعد اس کو اختیار ہے۔ ہاں اگر ایک یا دو طلاق دی ہیں خواہ ایک طہر میں خواہ دو میں تب زوج کو اختیار ہے کہ عدت سے پہلے رجوع کرے خواہ بیوی راضی ہو یا نہ ہو۔ اور رجوع یہ ہے کہ زبان سے کہہ دے کہ میں نے رجوع کیا یا وہ افعال کرے جن سے زن و شو ثابت ہوں۔ بوسہ لینا ‘ صحبت کرنا ‘ شہوت سے ہاتھ لگانا وغیرہ۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں بغیر زبان سے کہے رجوع کرنا معتبر نہ ہوگا اور رجوع کے لیے دو گواہ کرلینا بہتر ہے۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں واجب ہے۔ اور عدت کے بعد بھی ہر طلاق کے بعد باردگر نکاح کرسکتا ہے مگر تین طلاق کے بعد نکاح بھی بغیر حلالہ کے نہیں کرسکتا۔ وہ یہ کہ بیوی پہلے کسی اور سے نکاح کرے اور وہ اس سے صحبت کرے پھر وہ طلاق دے۔ پھر صحبت کے بعد زوج اول نکاح کرے۔ یہ سزا اس لیے مقرر کی کہ تین طلاق دینے سے باز آئے۔ یہ سخت مکروہ ہے۔ ایک بار تعلق منقطع کرنا شرع نے پسند نہیں کیا اس لیے بتدریج طلاق دینا مسنون ہوا کہ پھر کہیں گھر بس جائے تو بہتر اور طلاق کے موقع سے پہلے باہمی پنجایت کے ذریعہ سے ملاپ کی تاکید کی گئی ہے۔ فائدہ : طلاق رجعی کی عدت میں بیوی کا شوہر کے سامنے آنا، بناؤ سنگار کرنا، رغبت دلانا ممنوع نہیں بلکہ محمود ہے کس لیے کہ ہنوز نکاح باقی ہے اور ملاپ مقصود ہے اور طلاقوں کی عدت میں یہ حکم نہیں بلکہ زینت سے مرد کے سامنے آنا اختلاط کرنا حرام ہے۔ اس کے بعد فرمایا، اتقوا اللہ ربکم کہ اللہ سے ڈرو جو تمہارا پرورش کرنے والا ہے۔ لفظ اللہ ذات پر دال ہے جس کی جبروت سے ہر عقلمند کو ڈرنا اور اس کی مخالفت سے بچنا لازمی ہے مگر عقول سافلہ کو وہاں تک بغیر کسی صفت کے رسائی نہیں اس لیے اس کے بعد ربکم بھی بیان فرما دیا کہ اللہ کون ہے ؟ تمہارا رب جو تم کو پرورش کرتا ہے، رزق کے سامان بھی وہی پیدا کرتا ہے۔ ہر گھڑی تمہارے وجود کا وہی محافظ و مربی ہے البتہ مربی اور محسن کی مخالفت سے عام طبائع ڈر سکتی ہیں اس لیے کہ وہ کہیں اپنے یہ انعام بند نہ کرلے اسی لیے ایسی صورت کا ذکر کیا۔ تفسیر تیسرا حکم : یہ جملہ آیندہ حکم کے لیے تاکید ہے اس لیے اس کے بعد تیسرا حکم ذکر کرتا ہے۔ لاتخرجوھن من بیوتہن ولا یخرجن الامن یا تین بفاحشۃ مبینۃ۔ کہ ان مطلقہ عورتوں کو ایام عدت میں ان کے گھروں سے نہ نکالو نہ وہ آپ نکلیں مگر جب صریح فحش کریں تو نکال دینا مضائقہ نہیں۔ مطلقہ کو مکان دینا واجب ہے۔ مطلقہ کو اسی گھر میں رہنا چاہیے جہاں وہ طلاق سے پہلے رہتی تھی گو وہ خاوند کا گھر تھا مگر گھر عورت ہی کی طرف منسوب ہوا کرتا ہے اس لیے بیوتہن فرمایا۔ اضافت بیت کی ان کی طرف کی جیسا کہ سورة احزاب میں ازواج مطہرات کو قرن فی بیوتکن سے مخاطب کیا ہے اور بیت کو ان کی طرف مضاف کیا تھا۔ اضافۃ تملیکیہ نہیں بلکہ سکونت کے سبب سے۔ فاحشۃ مبینۃ بالکسر فاعل کا صیغہ جس کے معنی بیان کرنے والی یعنی وہ فاحشہ بات اپنی برائی آپ بیان کر رہی ہے اور مبینۃ بالفتح بھی پڑھا ہے کہ اس کی برائی براہین و دلائل سے بیان ہوگئی ہے۔ فاحشہ مبینۃ کے معنی اکثر مفسرین نے زنا کے بیان کئے ہیں کہ جب عورت بدکاری کرے تو اس کا نکالنا ممنوع نہیں۔ بعض نے اس کی اور بھی تخصیص کی ہے کہ وہ حد مارنے کے لیے نکالی جائے اس کے بعد پھر وہیں رکھی جائے (وفیہ مافیہ) امام شافعی (رح) فرماتے ہیں فاحشۃ مبینۃ سے مراد بدزبانی فحش گوئی ہے کیونکہ مطلقہ کو خاوند سے طلاق کے بعد رنج پیدا ہونا طبعی بات ہے، پھر عورتوں سے ایسے وقت بدزبانی فحش گوئی کچھ بھی بعید نہیں پھر جب ایسی نوبت ہو تو آیندہ اور فسادات کے اندیشے میں اس صورت میں نکال دینا مصلحت ہے اس کے سوا اور ضرورتوں کے سبب بھی (جیسا کہ مکان گرنے کو ہو یا دشمن کا خوف ہو یا مکان کرایہ کا تھا مالک اٹھاتا ہو) باہر نکلنا ممنوع نہیں مگر ان صورتوں میں خاوند کو لازم ہے کہ اور مکان عدت گزارنے کو دے۔ سکنی اور نفقہ بھی دینا چاہیے : قرآن مجید کے الفاظ میں کوئی قید نہیں طلاق رجعی یا بائن یا مغلظ کوئی ہو اور مطلقہ حایض ہو یا حاملہ یا آئسہ یا صغیر سن، سب کے لیے یعنی سکونت کا مکان دینا شوہر کا ذمہ ہے اور چند آیات کے بعد اور بھی تاکید فرماتا ہے۔ اسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم۔ جمہور آئمہ کا یہی قول ہے مگر حسن بصری وعطاء بن ابی رباح وشعبی واحمد و اسحاق (رح) تخصیص کرتے ہیں کہ جس عورت سے شوہر طلاق کے بعد رجوع نہیں کرسکتا (طلاق بائن یا تین طلاقوں کے بعد) تو وہاں خاوند پر مکان دینا واجب ہے نہ روٹی نہ کپڑا۔ کس لیے کہ شوہر کا کوئی تعلق نہیں رہا اور دلیل نقلی ان کی حدیث فاطمہ بنت قیس ؓ ہے وہ کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں میرے خاوند نے مجھے تین طلاق دی تھیں۔ حضرت ﷺ نے مجھے نہ مکان دلوایا نہ روٹی کپڑا اور ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا۔ اس کو محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جن میں اصحاب سنن اربعہ اور مسلم بھی ہیں۔ جمہور کہتے ہیں اس حدیث کو حضرت عمر ؓ نے رد کردیا تھا کہ کیا ہم ایک عورت کے کہنے سے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ دیں گے۔ کیا معلوم بھول گئی یا یاد سے کہتی ہے۔ پس حضرت عمر ؓ سکنی اور نفقہ دونوں دلاتے تھے۔ (اس بات کو مسلم و ابودائود و ترمذی و نسائی و طحاوی ودارقطنی (رح) نے روایت کیا ہے) ۔ جمہور کا مکان دینے میں اتفاق ہے۔ اور مکان کے ساتھ نفقہ 1 ؎ بھی خاوند پر واجب ہے کس لیے کہ رجعی طلاق میں تو خاوند کا تعلق ہی قائم ہے اس سے صحبت کرسکتا ہے اور بائن میں عورت نکاح ثانی سے خاص شوہر اول کی وجہ سے روکی گئی کہ اس کا حمل بخوبی معلوم ہوجائے اور جلد دوسرے کے پاس جانے میں مظنّہ تہمت تھا پس اس کو مکان اور نفقہ دونوں دینے چاہییں۔ اور نیز چند آیات کے بعد مطلقہ حامل کے لیے نفقہ دینے کا صاف حکم ہے۔ و ان کن اولات حمل فانفقوا علیہن الآیۃ اور حامل غیر حامل کا اس بارے میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ عمرو عبداللہ بن عمر وغیرہ کبار صحابہ ؓ کا یہی قول تھا اور سفیان ثوری و امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ اور علمائِ کوفہ (رح) کا یہی قول ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں غیرطلاق رجعی میں بھی شوہر کو مکان دینا ضروری ہے اس آیت کے بموجب لیکن اس میں نفقہ کا ذکر نہیں صرف حامل کے لیے نفقہ کا ذکر ہے اس لیے نفقہ نہ دیا جائے گا یعنی خرچ۔ یہ امام مالک ولیث بن سعدوامام شافعی (رح) کا قول ہے۔ امام شافعی (رح) کہتے ہیں فاحشۃ مبینۃ سے مراد یہ دکھائی ہے فاطمہ بنت قیس بدزبان اور فحش گو عورت تھی اس لیے اس کے لیے مکان بھی آنحضرت ﷺ نے نہ دلایا یا غیر کے گھر عدت گزاری اور نفقہ بھی نہ دلایا۔ ان سب احکام میں غور کرنے سے ظاہر ہوگا کہ اسلام نے طلاق کو کہاں تک محدود کیا ہے اور پھر ملاپ ہوجانا ملحوظ رکھا ہے۔ ان احکام کے استحکام کے لیے فرماتا ہے وتلک حدود اللہ کہ یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدود ہیں۔ ومن یتعدحدود اللہ فقد ظلم نفسہ اور جس نے اللہ کے حدود سے تجاوز کیا اللہ کا کیا بگاڑا اپنا ہی نقصان کیا کس لیے کہ ان احکام میں صدہا دنیویہ مصلحتیں خدا تعالیٰ نے ودیعت کر رکھی ہیں اس کو کیا معلوم کہ ان احکام کی پابندی کے بعد خدا کہاں تک نتیجہ دکھاتا ہے۔ لعل اللہ یحدث بعدذلک امرا کے یہی معنی ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ جملہ صرف عدت اور مکان دینے کی طرف راجع ہے جس سے مراد یہ کہ شاید بعد میں اس ارتباط وحسن سلوک سے ملاپ ہوجائے۔ چوتھا حکم : فاذابلغن اجلہن فامسکوھن بمعروف اوفار قوھن بمعروف۔ کہ جب ان مطلقات کی اجل یعنی عدت پوری ہونے کو ہو (بلغن کے یہی معنی ہیں) تو ان کو دستور کے موافق رکھ لو یا دستور کے موافق چھوڑ دو ۔ آیت کا سیاق کہہ رہا ہے کہ یہ حکم طلاق رجعی کی عدت سے متعلق ہے کہ ہنوز خاوند کو رجوع کرنے کا اختیار ہے پھر عدت تمام ہونے کو آئے تو عورت کو پھر بدستور سابق بغیر نکاح جدید اپنی بیوی کرلے مضرت کا قصد نہ کرے کہ باردگر گھر میں ڈال کر خوب دل کے غبار نکالے بلکہ حسن معاشرت سے پیش آئے اور جو اپنے مصالح کے مناسب نہ سمجھے تو ترک کرے یہاں تک کہ عدت تمام ہوجائے اس کا مہروغیرہ دے دے اور دوسرے شخص سے نکاح کرنے میں حارج نہ ہو مگر طلاق بائن اور ثلاث میں بھی امساک بمعرف وتسریح باحسان ہوسکتا ہے کہ نکاح جدید کے بعد حسن معاشرت سے رکھے یا اس کو بالکل چھوڑ دے جس سے چاہے نکاح کرے 2 ؎۔ اس کا مہر وغیرہ سب دیدے یہی مضمون سورة بقرہ میں بھی آچکا ہے۔ 1 ؎ کس لیے کہ جاہلیت میں طلاق بائن کے بعد عورت کو اور کسی سے نکاح نہیں کرنے دیتے تھے نہ مہر دیتے تھے نہ روٹی کپڑا یعنی نفقہ۔ 12 منہ 2 ؎ کس لیے کہ جاہلیت میں طلاق بائن کے بعد بھی عورت کو اور کسی سے نکاح نہیں کرنے دیتے تھے نہ مہر دیتے تھے نہ روٹی کپڑا۔ 12 منہ پانچواں حکم۔ واشہد واذوی عدل منکم واقیموا الشہادۃ اللہ کہ اس مراجعت یا ترک پر اپنے لوگوں یعنی مسلمانوں میں سے کم از کم دو شخص ثقہ اور نیک بختوں کو گواہ بھی کرلو کہ پھر کسی طرح کا باہمی جھگڑا نہ پیدا ہو مثلاً دونوں میں سے ایک مرجائے اور دوسرا وراثت کا دعویٰ کرے اور وارث جھٹلانے لگیں کہ تم نے رجوع نہیں کیا تھا یا باہم نکاح باقی نہیں رہا۔ اور نیز یہ بھی ہے کہ مرد نے رجوع کیا کسی کو خبر تو کی نہیں عدت گزر گئی اس نے دوسرے نکاح کی ٹھان دی، جھگڑا پڑا اور یہی مصلحتیں ہیں۔ اہل معاملہ کو گواہ کرنے کا حکم دیا تو لوگوں کو اللہ کے لیے بلاکم وکاست گواہی ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔ یہ حکم امام شافعی (رح) کے نزدیک ضروری التعمیل یعنی واجب ہے رجوع کرنے کے وقت ضرور گواہ بنائے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور دیگر علماء فرماتے ہیں ہاں گواہ کرنا بہتر ہے لیکن واجب نہیں اور یہ امر ایسا ہی ہے جیسا کہ اس آیت میں واشہدوا اذا تبایعتم حالانکہ بیع کے وقت گواہ بنانا واجب نہیں۔ فائدہ : صاحب اتقان فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ذوی عدل منکم گواہوں کی تخصیص نے سورة مائدہ کی تعمیم ذوی عدل منکم اور آخران من غیرکم کو منسوخ کردیا یعنی سورة مائدہ میں تو یہ حکم تھا کہ دو ثقہ شخص تم میں سے ہوں یا اور لوگوں میں سے ہوں اور یہاں یہ کہہ دیا کہ تم میں سے ہوں، اس تعمیم کو منسوخ کردیا لیکن یہ قول چنداں قوی نہیں کس لیے کہ سورة مائدہ میں گواہی وصیت کے باب میں تھی یہاں رجعت کے بارے میں ہے۔ پھر ان احکام کی پابندی پر تاکید فرماتا ہے۔ ذلکم یہ احکام یوعظ بہ من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر۔ وہ ہیں کہ جن سے نصیحت پکڑتا ہے یا فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ شخص جو اللہ اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہے۔ اشارتاً یہ کہہ دیا کہ جو ان احکام کی پابندی نہیں کرتا گویا وہ اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس میں ایماء عرب کی جاہل قوموں کی طرف ہے کہ وہ طلاق دے کر عورت کو معطل کردیتے تھے، بےچاری یوں ہی بیچ میں جھولتی رہتی تھی۔ نہ تو آپ اس کی خبرگیری کرتا تھا نہ اور سے نکاح ہونے دیتا تھا۔ یہ بڑا ظالمانہ برتاوا تھا۔ اب بھی بعض مرفع الحال لوگ جو عزت و غرور کے نشہ میں چور ہیں ایسا ہی کرتے ہیں نکاح اور طلاق میں قانون محمدی (علیہ السلام) پر ان کا مطلقاً عمل نہیں وہ کہتے ہیں اشراف ایسا نہیں کرتے۔ معاذاللہ یہ کلمہ حد کفر تک پہنچاتا ہے۔ قیامت کو جبکہ اللہ جباروقہار تخت پر بیٹھ کر عدالت کرے گا شرافت معلوم ہوجائے گی۔ یہ ساری بےاعتدالیاں خوف خدا نہ ہونے کے سبب ہیں اور ان احکام میں غفلت و اعراض کا باعث طمع یا فکر ہوتی ہے کہ اس کو کہاں سے کھلائیں گے، مہر کیونکر دیں گے، روک رکھو کہ مہر نہ مانگے بلکہ جو کچھ لیا ہے واپس کرلو۔ اس لیے سب سے پہلے خوف خدا کی تاکید اور اس کے فوائد بیان فرماتا ہے۔ ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاویرزقہ من حیث یحتسب۔ کہ جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے آخرت میں تو اس کے ثمرات ملیں گے مگر دنیا میں بھی اس کو دو چیزیں عطا کرتا ہے۔ اول۔ یجعل لہ مخرجا کہ اس کے لیے ہر مشکل میں خلاصی دیتا ہے، رنج و غم سے رستگاری عطا کرتا ہے یہ اس لیے کہ جب انسان اللہ سے ڈرا اور ہر مصیبت کو اسی کی طرف سے سمجھ کر اس کی طرف رجوع کیا اول تو اس کے دل کو اطمینان وانشراح پیدا ہوجاتا ہے اور وہ مصیبت اس کے نزدیک بہت ہلکی ہوجاتی ہے اور واقعی لوگوں کے قلوب کے موافق مصیبت کا اثر پڑتا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں کہ ذرا سی بات سے دست آنے لگتے ہیں، بےقرار ہوجاتے ہیں اور بعض کو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ یہ حادثہ کس پر گزر گیا ؟ الغرض استقلال و جوانمردی تقویٰ سے پیدا ہوجاتی ہے اور یوں بھی عالم بالا سے اس کی مشکل کشائی کے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ خدا ترس لوگوں کو جو جو مدد غیبی حوادث میں پہنچتی ہے ان سے کوئی ایماندار جو کتب سماویہ پر یقین رکھتا ہے انکار نہیں کرسکتا البتہ حال کا فلسفہ اس کو کچھ نہیں سمجھتا یہ ان کی جہالت ہے۔ بعض مفسرین نے مخرجاً کو خاص بھی کیا ہے چناچہ کلبی کہتا ہے کہ جو اللہ سے ڈر کر مصیبت پر صبر کرتا ہے تو اللہ اس کو آتش جہنم سے مخلصی دیتا ہے۔ شعبی اور ضحاک کہتے ہیں یہ خاص طلاق کی بابت ہے کہ جس نے حکم الٰہی کے موافق طلاق دی اس کے لیے رستہ رجوع کرنے کا عدت میں خدا نکال دیتا ہے۔ دوم۔ ویرزقہ من حیث لایحتسب کہ جہاں سے گمان بھی نہ ہوگا روزی دے گا۔ وہ قادر مطلق اپنے پاکباز بندوں کے لیے ایسے سامان پیدا کردیتا ہے کہ جن کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ اس میں خاوند کو تسلی ہے کہ رزق و روزی کے فکر سے طلاق نہ دو نہ طلاق کے بعد زبردستی روک رکھو، ہم بےگمان روزی دیتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس کو بھی خاص کیا ہے۔ حسین بن فضل (رح) کہتے ہیں کہ جو اللہ سے ڈرے گا اور ادائے فرض کرے گا اس کو عذاب سے خلاصی دے گا اور اسی طرح ثواب دے گا کہ اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔ تخصیص کی کوئی وجہ نہیں بلکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ بندہ گناہوں کے سبب رزق سے محروم کیا جاتا ہے اور تقدیر کو دعا کے سوا اور کوئی چیز نہیں رد کرتی اور عمر کی زیادتی کا باعث نکوئی ہی ہوتی ہے۔ (رواہ الامام احمد) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایمانداروں کے لیے خدا تعالیٰ گناہوں سے تنگدستی دیتا ہے اور نیکی سے فراغ دستی اور نیکی و احسان کرنے والے کی عمر میں برکت ہوتی ہے اور بندہ جب اللہ سے عجزوزاری سے مانگتا ہے تو عطا کرتا ہے، آئی مصیبت کو ٹال دیتا ہے۔ توریت میں جابجا بنی اسرائیل کی تنگدستی اور فراغبالی کو ان کی نیکوکاری و بدکاری پر محوّل کیا ہے۔ ہاں کبھی ازلی بدبختوں اور کفار کو ان کی سرکشی اور بدکاری پر بھی افزائشِ مال و جاہ کرتا ہے۔ یہ اس کا امتحان و ابتلاء ہے۔ آخرکار دنیا میں بھی ایک روز بدکار قوم کو اقبال و عزت کو رخصت کرنا پڑتا ہے اور نکبت و بدبختی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ فلسفہ حال اس بات کو بھی لچروپوچ اور پرانا خیال سمجھتا ہے اس لیے پاکدامنی، خدا پرستی ان کے نزدیک ایک عبث کام ہے جس پر وہ ٹھٹھے لگاتے ہیں، عنقریب ان پر ٹھٹھے لگیں گے۔ اس کے بعد توکل کے فوائد اور اس کی تاکید فرماتا ہے۔ ومن یتوکل علی اللہ فہوحسبہ کہ جو اللہ پر بھروسا کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہوتا ہے۔ توکل اللہ پر اعتماد اور اسباب کی فراہمی اور ان پر کامیابی سب کو اسی کے دست قدرت میں سمجھنا جس میں یہ صفت پیدا ہوجاتی ہے تو بڑی جوانمردی سے معاملات میں لوگوں سے پیش آتا ہے، سیرچشمی کرتا ہے جو اس کی عزت و حرمت بڑھانے کا عمدہ ذریعہ ہے اور جو کوئی مصیبت بھی اس پر آجاتی ہے تو اس کو من اللہ سمجھ کر دل میں بیقراری پیدا نہیں ہونے دیتا۔ عجب شادمانی سے زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ ہے خدا تعالیٰ کا اس کے لیے کافی ہونا اور یوں بھی غیب سے ایسے لوگوں کے کام بن جایا کرتے ہیں۔ مسبب الاسباب اسباب پیدا کردیا کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ توکل اور تقویٰ روح کو منور کرنے والی چیز ہے اس سے ظلمات ہیولانیہ جو اس کے اور خالق کے درمیان حجاب اکبر ہیں اٹھ جاتے ہیں۔ پھر روح کا بارگاہ قدس تک پہنچنا اور وہاں سے قوت پانا دنیا میں ایسے ایسے حیرت انگیز کاموں کا باعث ہوجاتا ہے جنہیں کمتر درجہ کے دماغ خلاف قانون قدرت سمجھ کر خواہ مخواہ انکار کرتے ہیں۔ کیا حضرت مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں کے حیرت افزا کام اور ان کے برکات اناجیل میں نہیں ؟ پھر کوئی عیسائی انکار کرسکتا ہے ؟ اسی طرح صحابہ کرام ؓ و اہل بیت عظام (رح) اور بعد میں حضرات اولیاء اللہ (رح) کے کرامات اس قدر ہیں کہ جن کا انکار ہو نہیں سکتا۔ فائدہ : اس میں شوہر کو تسلی ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بدمعاملگی نہ کرو وہ تمہارے لیے کافی بندوبست کر دے گا۔ ہر معاملہ میں راستی اختیار کرنے کے لیے اس اعتقاد سے بڑھ کر اور کوئی چیز متحرک نہیں۔ اس طرف کمتر درجے کے لوگوں کا خیال جاسکتا تھا کہ خدا ہے کیا اور عالم اسباب میں کر کیا سکتا ہے۔ کارخانہ دنیا اسباب پر مبنی ہے جیسا کہ آریہ اور آج کل کے روشن دماغ یورپین کہتے ہیں اس لیے ان کے اطمینان کے لیے فرماتا ہے۔ ان اللہ بالغ امرہ کہ اللہ اپنا کام پورا کر کے ہی رہا کرتا ہے۔ اس کے ید قدرت کو کوئی روک نہیں سکتا کس لیے کہ قدجعل اللہ لکل شیئٍ قدرا۔ ہر چیز کا اس نے اندازہ کر رکھا ہے جو مصالح پر مبنی ہے۔ عدت حیض آنے والیوں کی آیت سے پہلے مسلمانوں کو معلوم ہوچکی تھی کہ وہ ثلاثۃ قروء تین حیض ہیں۔ مگر جنہیں حیض نہیں آتا عمر زیادہ ہونے یا کم ہونے کے سبب یا حمل کے سبب۔ سو یہ تین قسم کی عورتیں وہ ہیں کہ جن کی عدت طلاق دریافت طلب تھی اس لیے حق سبحانہٗ ان تینوں قسموں کی عدت بیان فرماتا ہے۔ قسم اوّل۔ والّٰیٔ یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتہن ثلاثۃ اشہر کہ جو ناامید ہوجائیں تمہاری عورتوں میں سے حیض آنے سے اگر تم کو شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہیں۔ جو عورتیں سن رسیدہ ہوجاتی ہیں پھر ان کو حیض نہیں آتا، جو جسمانی قوت کے دنوں میں آیا کرتا تھا صرف کچھ رطوبت سی آنے لگتی ہے اور بعض کو وہ بھی نہیں آتی بلکہ اور کسی خاص بیماری کی وجہ سے ایام معتاد یا غیرمعتاد میں خون آتا ہے جس سے حیض کا دھوکا ہوتا ہے اور گاہے انقطاع حیض کے قریب زمانہ میں وہ رطوبت بھی شبہ میں ڈال دیتی ہے۔ الغرض ایسی عورت کو آئسہ کہتے ہیں یعنی حیض آنے سے ناامید ہوگئی اور سن ایاس جسمانی اور ملکی قویٰ کے تفاوت سے ضرور متفاوت ہوتے ہیں۔ گرم ملکوں میں عورتوں کو جلد حیض آتا ہے اور بڑھاپا بھی جلد آجاتا ہے اور حیض بھی چند برسوں بعد بند ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ چالیس برس کی عمر میں اچھی خاصی بڑھیا ہوجاتی ہے اور سرد ملکوں میں چالیس برس کی عمر میں خوب جوان سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح قوائے جسمانی کا تقاضا ہے اس لیے اس کا کوئی زمانہ معین نہیں ہوسکتا نہ قرآن مجید نے کیا۔ ہاں فقہائِ کرام نے تخمینہ کیا ہے۔ بعض نے کہا ساٹھ برس کی عمر میں عورت آئسہ ہوجاتی ہے۔ بعض نے کہا پچپن برس کی عمر میں اگر تم کو شبہ ہو حیض آنے میں تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ ان ارتبتم کرخی فرماتے ہیں، یہ صفت کاشفہ ہے کوئی قید نہیں کس لیے کہ جو عورتیں آئسہ ہیں ان کی ہر حال میں یہی عدت ہے خواہ تم کو شک ہو یا نہ ہو۔ پھر ارتبتم کے معنٰی میں کلام ہے کہ کا ہے میں شک ہو اس میں دو قول ہیں۔ اول یہ کہ حیض منقطع ہوگیا اور اس کی ہم عمروں کو آتا ہے۔ اب تم کو شک ہے کہ رک گیا یا آنا ہی بند ہوگیا یا حیض منقطع ہونے کے بعد استحاضہ 1 ؎ (ا ؎ خون آنے کی بیماری جو عورتوں کو حیض کے علاوہ ہوجاتی ہے۔ 12 منہ) کا مرض ہوگیا۔ اب حیض نہیں معلوم ہوسکتا یا بعد انقطاع کے کوئی رطوبت آیا کرتی ہے جس سے حیض کا شبہ ہوتا ہے۔ یہ سلف کا قول ہے جیسا کہ مجاہد و زہری و ابن زید۔ دوسرا قول جس کی طرف ابن جریر و ابن سعید وغیرہم کا رجحان ہے، یہ ہے کہ تم کو ان کی عدت میں شبہ ہو کہ کیا ہے۔ اور اس کی تائید میں ابن جریر ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ ابی ابن کعب ؓ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ چند عورتوں کی عدت معلوم نہیں ہوئی۔ بڑی عمروالیوں کی اور چھوٹی عمر والیوں کی اور حمل والیوں کی اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن ابی حاتم نے اس سے بھی تفصیل وار نقل کیا ہے۔ دوسری قسم۔ والّٰیٔ لم یحضن وہ عورتیں کہ جن کو حیض نہیں آتا ہے کم سنی کی وجہ سے تو ان کی عدت بھی تین مہینے ہیں۔ (یہ پہلے والّٰیٔ پر معطوف ہے) ان کی عدت بھی تین مہینے ہیں۔ یہ عدت طلاق ہے اس میں کسی کو بھی کلام نہیں۔ تیسری قسم۔ اس کے بعد تیسری قسم کی عورتوں کی عدت فرماتا ہے۔ واولات الاحمال اجلہن ان یضعن حملہن کہ حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے یعنی جننا عدت ہے جب وہ جنیں عدت پوری ہوگئی۔ فائدہ : اگر پورے دنوں میں بچہ نہیں ہوا اور حمل ساقط ہوگیا کیا اس سے بھی عدت طلاق پوری ہوجائے گی ؟ ظاہر الفاظ کہہ رہے ہیں کہ عدت تمام ہوجائے گی۔ کسی نے آج طلاق دی اور اس کو مہینے بھر کا حمل تھا تو آٹھ مہینے تک عدت میں رہے گی نویں مہینے جنتے ہی عدت تمام ہوجائے گی۔ ہدایہ میں ہے۔ ” وان کانت ممن لاتحیض من صغرا وکبر فعد تھا ثلاثۃ اشہر لقولہ تعالیٰ والّّٰیٔ یئسن الخ وکذامن بلغت بائسن ولم تحض (بالاخرالآیہ) و ان کانت حاملا فعد تھا ان تضع حملھا۔ کہ اگر صغرسنی یا کبر سنی سے حیض نہ آتا ہو تو اس کی تین مہینے ہیں اس آیت سے والّٰیٔ یئسن الخ اور اسی طرح اگر بالغہ ہوجائے اور حیض نہ آتا ہو تو بھی عدت تین مہینے ہیں اور اگر حمل ہے تو عدت وضع حمل ہے۔ (ترجمہ) بحث : بظاہر آیت واولات الاحمال الخ عدت طلاق کے بارے میں ہے اور عدت وفات سورة بقرہ میں اربعۃ اشہر وعشرا۔ چار مہینے دس روز کی آچکی اس میں کوئی تخصیص نہیں۔ آئسہ ہو صغیرہ ہو حامل ہو لیکن جب عدت کی مصلحت کی طرف غور کیا گیا کہ وہ امتیاز نطفہ ہے کہ ایک نطفہ کے ساتھ دوسرا مخلوط نہ ہو تو حاملہ کے پیٹ میں اول شوہر کا نطفہ باقی ہے خواہ وہ وفات کی عدت ہو خواہ طلاق کی جب تک یہ الگ نہ ہو لے عدت قائم رہے گی اور رہنی بھی چاہیے اس لیے نبی ﷺ نے اس کی تفسیر کردی کہ طلاق پر موقوف نہیں وفات میں بھی یہی عدت ہے اور جمہور علماء کا سلف سے خلف تک یہی قول ہے۔ سورة بقرہ میں فرمایا تھا۔ الذین یتوفون منکم ویذرون ازواجایتربصن بانفسہن اربعۃ اشہروعشرا۔ کہ جن کے خاوند مرجائیں چار مہینے دس دن عدت کریں۔ اس میں یہ قید نہ تھی کہ وہ حاملہ ہو یا غیرحاملہ۔ اس طرح اس آیت واولات الاحمال میں ہے کہ حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے کوئی قید نہیں کہ وہ حمل والیاں مطلقہ ہوں یا بیوائیں ہو۔ اب آن کر دونوں آیات میں حاملہ 1 ؎ بیوہ کی عدت میں تعارض ہوا۔ سورة بقرہ کی آیت تو کہتی ہے کہ چار مہینے دس دن عدت کرے خواہ حمل اس سے پہلے وضع ہو یا بعد میں اور یہ آیت کہتی ہے وضع حمل عدت ہے خواہ چار مہینے دس دن کے بعد ہو خواہ دوسرے روز ہی وضع حمل ہوجائے عدت تمام ہوجائے گی۔ مگر یہ آیت واولات الاحمال بعد میں نازل ہوئی ہے لہٰذا اس بارے میں سورة بقرہ کی آیت منسوخ قرار دی جائے گی۔ بخاری و مسلم و ترمذی و ابودائود وغیرہ محدثین نے مختصراً و مطولاً ایک حدیث نقل کی ہے کہ سبیعہ اسلمیہ ؓ سعد بن خولہ بدری ؓ کے نکاح میں تھی، سعد حجۃ الوداع میں مرگیا اور سبیعہ حامل تھی، بعد چالیس روز کے اس نے بچہ جنا پھر جب نفاس سے پاک ہوئی تو اپنے آپ کو نکاح کے لیے آراستہ کیا۔ اس کے پاس ابوالسنابل بن بعکک بھی گیا۔ اس نے کہا تو نکاح کرنا چاہتی ہے ؟ یہ نہ ہوگا کس لیے کہ تیرے شوہر کو مرے چار مہینے دس دن نہیں ہوئے تب وہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھنے گئی۔ آپ نے فرمایا جب تیرا حمل وضع ہوا تیری عدت تمام ہوگئی اس کے بعد اس نے نکاح کرلیا۔ اس حدیث مشہور کی صحت میں کسی کو کلام نہیں۔ یہ مختلف طریق سے متعدد راویوں نے روایت کی ہے اور اسی پر اکثر صحابہ ؓ وتابعین و آئمہ (رح) کا عمل رہا ہے مگر ابن عباس اور حضرت علی مرتضیٰ ؓ فرماتے تھے کہ دونوں عدتوں میں سے جو زیادہ ہو وہ کرے یعنی اگر دس روز بعد وضع حمل ہوا تو چار مہینے دس روز عدت کرے مگر عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس قول کو ہرگز نہ مانا اور کہا جو چاہے مجھ سے مباہلہ کرلے کہ سورة نساء قصریٰ یعنی سورة طلاق کہ جس میں اولات الاحمال الخ ہے، سورة بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے یعنی یہ اس کی ناسخ ہے اس بارے میں۔ ہدایہ میں ہے۔ وعدۃ الوفاۃ فی الحرۃ اربعۃ اشہر وعشر اوعدۃ الامۃ شہران و خمسۃ ایام وان کانت حاملافعد تہا ان تضع حملہا۔ علماء احناف کا بھی یہی قول ہے۔ عدت کے احکام : اس حکم کے بعد اس کی تاکید فرماتا ہے۔ ومن یتق اللہ یجعل لہ من امرہ یسرا۔ کہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کا کام آسان کر دے گا یعنی ان احکام پر عمل کرو اللہ سے ڈر کر تاکہ تمہیں نکاح و طلاق کے بارے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور خدا تمہارے سارے کام آسان کرے۔ ذلک امر اللہ انزلہ الیکم۔ یہ حکم اللہ نے تمہارے لیے نازل کیا۔ اللہ سے ڈرو اور اس پر عمل کرو کس لیے و من یتق اللہ یکفرعنہ سیئاتہ ویعظم لہ اجرا۔ کہ جو اللہ سے ڈرتا ہے خدا اس کے گناہ اس سے مٹا دیتا ہے اور اس کے لیے بڑا اجر تیار کرتا ہے۔ طلاق کے بعد ایام عدت میں خاوند کو مطلقہ کے ساتھ کیا کرنا چاہیے ؟ اس کا بیان فرماتا ہے۔ اول حکم : اسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم کہ جہاں تم رہو اپنے مقدور کے موافق ان کو بھی وہیں رکھو کس لیے کہ طلاق کے بعد طرفین میں رنجش معمولی بات ہے فوراً نکال دینا قریب الوقوع بات ہے۔ اس میں عورت کی کمال بےحرمتی اور معاملہ سابقہ کے لحاظ سے کمال بےمروتی ہے اس لیے مکان دینے کا حکم دیا۔ اس پر علماء کا اتفاق ہے مگر خرچ و خوراک میں کلام ہے جیسا کہ ابھی آپ کو معلوم ہوا۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک خواہ طلاق بائن ہو خواہ رجعی مکان کے ساتھ خرچ و خوراک بھی ضروری ہے کس لیے کہ اگر صرف مکان مراد ہوتا تو پہلے بھی بیان ہوچکا۔ لاتخرجوھن من بیوتہن میں دوم من وجدکم کا لفظ بھی یہی کہہ رہا ہے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں طلاق بائن میں خرچ و خوراک دینا واجب نہیں۔ دوسرا حکم : ولاتضاروھن لتضیقواعلیہن۔ خدائے پاک مطلقہ پر تنگی کر کے ضرر پہنچانے سے منع کرتا ہے کہ مکان اور کھانے پینے میں تنگی نہ کرو کہ تنگ ہو کر نکل جائے اور ہر قسم کی ایذا سے ممانعت ہے۔ سخت کلامی، لڑائی جھگڑا، ترش روئی۔ اور یہ بھی ہے کہ جب عدت تمام ہونے کو آئے مثلاً دو روز باقی رہ جائیں پھر رجوع کرلے اور پھر طلاق دے تاکہ اور عدت بڑھ جائے۔ اس سے بھی منع کیا۔ عرب ایسے ایسے ظالمانہ معاملات عورتوں سے کرتے تھے جن سے اسلام نے روک دیا اور تہذیب و شائستگی سکھا دی۔ معاملات میں مہذب رہنا بڑی بات ہے۔ تیسرا حکم : وان کن اولات حمل فانفقوا علیہن حتی یضعن حملہن۔ اگر وہ مطلقہ حمل والیاں ہیں تو وضع حمل تک ان کو خرچ و خوراک بھی دو ۔ اس قید سے امام شافعی (رح) نے یہ سمجھ لیا کہ اگر مطلقہ کو حمل نہیں ہے تو صرف مکان دینا واجب ہے نہ نفقہ۔ اس کا جواب پہلے گزر گیا۔ مگر آیت میں ایک بات غور طلب یہ ہے کہ آیت مطلقہ کے بارے میں ہے۔ اگر خاوند مرجائے تو اس کے لیے مکان اور نان و نفقہ کا کیا حکم ہے ؟ حضرت علی و ابن مسعود ؓ و شریح و نخعی و شعبی و حمادوابن ابی لیلیٰ و سفیان اور ان کے شاگرد (رح) کہتے ہیں کہ اس کو مکان و خوراک میت کے کل مال میں سے ملے گا۔ اور ابن عباس و ابن زبیر و جابر بن عبداللہ ؓ ومالک و شافعی و ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں کہ اس کے حصے میں سے خرچ ہوگا۔ سوال : جب ہر قسم کی طلاق میں خواہ بائن ہو خواہ رجعی خواہ وہ عورت حامل ہو یا غیرحامل امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کے موافق مکان کے سوا نفقہ بھی واجب ہے تو وان کن اولات حمل کے ذکر کی کیا ضرورت تھی ؟ جواب : اس لیے کہ حمل کی مدت معمولی عدت سے زیادہ ہوتی ہے۔ کوئی یوں نہ سمجھ لے کہ تین مہینے تک نفقہ دینا چاہیے پھر نہیں اس لیے یہ ذکر کرنا پڑا۔ چوتھا حکم : فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن۔ اگر مطلقہ وضع حمل کے بعد تمہارے بچے کو دودھ پلائے تو اس کو اس کی اجرت دو ۔ یہ خیال نہ کرو کہ دودھ تو ہمارے ہی حمل سے تھا مجبور کر کے بغیر اجرت دودھ پلایا جائے۔ اس حکم کی کئی صورتیں ہیں۔ اول یہی جو بیان ہوئی۔ دوسری یہ کہ عورت بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ خاوند نے طلاق دے دی۔ اب عدت کے ایام میں نفقہ جدا دینا ہوگا اور دودھ کی اجرت جدا دینی ہوگی۔ (طلاق دینے سے کس خوبصورتی سے روکا گیا ہے) ۔ تیسری یہ کہ تمہاری دوسری بیوی کے بچے کو وہ دودھ پلاوے یعنی اس کے شکم کا نہ ہو تو بھی اجرت کی مستحق ہے۔ (سب صورتوں میں جب ہی اجرت دینا واجب ہے اگر وہ طلب کرے) ۔ واتمروا بینکم بمعروف۔ اور باہم مشورہ سے کام کرو یعنی رضامندی ایک دوسرے کی ملحوظ رکھے نہ خاوند بہت کم اجرت دے نہ یہ زیادہ طلب کرے۔ دستور و معمول کے موافق دے اور لے۔ وان تعاسر تم فسترضع لہ اخریٰ ۔ اور اگر باہم ایک دوسرے کو تنگی میں ڈالے تو خیر اور عورت سے دودھ پلائے۔ فائدہ : اور اگر اور عورت نہ ملے یا بچہ دودھ اور کا نہ پئے تو عورت کو مجبوراً دودھ پلانا ہوگا اور دستور کے موافق اجرت دی جائے گی۔ فائدہ : غیرمطلقہ جو اپنے بچے کو دودھ پلا وے اس کی اجرت جداگانہ خاوند پر واجب ہے کہ نہیں ؟ اس کا کوئی حکم قرآن مجید میں بصراحت نہیں۔ جو کچھ ہو قیاسی حکم ہوگا۔ پانچواں حکم : مگر اس اجرت اور نان و نفقہ کی تعداد معین کرنا نظام عالم میں خلل انداز تھا۔ کس لیے کہ ملک اور قوم اور رواج کے موافق ہر جگہ یکساں حکم جاری کرنے میں بڑی دقت تھی اس لیے اس کا فیصلہ بھی کردیا۔ لینفق ذوسعۃ من سعتہ۔ کہ مقدور والا اپنے مقدور کے موافق خرچ کرے یعنی مرد کی حیثیت خیال کی جائے اور اوسط درجہ لیا جائے۔ ومن قدر علیہ رزقہ فلینفق مما اتاہ اللہ۔ اور جو ایسا ہے کہ اس کا رزق اس کے اندازہ کے موافق ہے یعنی تنگدست ہے۔ تنگدست کو قدرعلیہ ررقہ سے تعبیر کرنے میں تسلی کے سوا ایک لطیفہ بھی ہے تو وہ اس میں سے دے جو اس کو اللہ نے دیا یعنی وہ اسی کے موافق دے۔ لایکلف اللہ نفسا الاما اتاھا۔ اللہ کسی کو زیادہ حکم نہیں دیتا مگر اسی قدر کہ جو اس کو دیا۔ یعنی قوت و مقدور سے بڑھ کر حکم نہیں دیتا۔ انسان پر کوئی حکم اس کی طاقت سے باہر چیز میں صادر نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ کم مقدور لوگوں کو تسلی بھی دیتا ہے۔ سیجعل اللہ بعد عسریسرا۔ کہ تنگی کے بعد خدا فراخدستی بھی عطا کردیتا ہے۔ اس میں مرضعہ کو سمجھایا جاتا ہے کہ کیا خبر یہ لڑکا تونگر ہوجائے یا اس شخص کو خدا کشائش عطا کرے تو تیری وقت افلاس کی رفاقت کو ملحوظ رکھے اور ایسا ہوتا ہے۔ یہ کوئی ہر ایک کے لیے عام حکم نہیں کہ ہر تنگدست کو فراخدستی ملے گی۔ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ ایمانداروں کو دنیا کی تنگدستی اور تکلیف کے بعد فراخی اور راحت ضرور ملے گی اور جلد ملے گی۔ دنیا کی زندگی سریع الزوال ہے لیکن آیت میں صحابہ ؓ کی طرف خطاب ہے اور وہ اس وقت بہت تنگدست تھے اپنے وعدہ کے موافق خدا نے بہت جلد ان پر فراخدستی کے دروازے کھول دیے۔ قیصروکسریٰ کے خزائن اور عمدہ اشیاء اور ان کے سامان ان کے پائوں تلے ڈالے گئے۔ یہ بشارت پوری ہوئی۔ ان احکام کو بیان فرما کر : ان کی پابندی کی تاکید کرتا ہے کہ وکاین من قریۃ عتت عن امرر بہا ورسلہ فحاسبناھا حساباشدیدا وعذبناھا عذابا نکرا۔ کہ بہت سی بستیوں یعنی شہر والوں نے اپنے رب سے سرکشی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی جیسا کہ لوط ( علیہ السلام) کی بستیاں وغیرہ تو خدا نے ان سے سخت حساب لیا۔ ان کے اعمالِ بد کا گن گن کر پورا بدلہ ان کی گودوں میں ڈالا اور ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا۔ فذاقت وبال امرھا وکان عاقبۃ امرھا خسرا۔ پس ان لوگوں نے اپنے کام کا وبال چکھا اور انجام خسران ہوا۔ آخرت میں عذاب شدید ان کے لیے مہیا کیا گیا۔ اجڑے ہوئے شہروں اور برباد شدہ قوموں اور خاندانوں کو دیکھ کر فاتقوا اللہ یا اولیٰ الالباب۔ اے ہوشمند و ‘ عقل والو ! اللہ سے ڈرو، اس کی نافرمانی سے بچو، عبرت کرو۔ پھر آپ ہی بتلاتا ہے کہ عقلمند کون ہیں۔ الذین آمنوا وہ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ دراصل یہی لوگ عقلمند ہیں جن کی انجام پر نظر ہے اور یہی اللہ سے ڈرنے والے ہیں، کافر بےعقل کیا ڈرے گا۔ قدانزل اللہ الیکم ذکرا۔ کہ تحقیق اللہ نے تمہارے پاس ذکر یعنی مذکر (یاد دلانے والا سمجھانے والا) بھیجا ہے وہ کون رسولا۔ رسول محمد ﷺ ۔ یتلوا علیکم آیات اللہ مبینات جو تم کو اللہ کی آیتیں سناتا ہے جو صریح اور ظاہر ہیں جن میں کوئی پیچیدگی اور خلاف عقل بات نہیں۔ یا یہ معنی کہ آیات تمہارے لیے مسائلِ حلت و حرمت مبدء و معاد ‘ اخلاق و قصص سابقہ کو بیان کرتی ہیں۔ لیخرجکم من الظلمات الی النور۔ تاکہ تمہیں اندھیریوں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ مذہب باطل کی اندھیری ‘ اخلاق بد کی اندھیری ‘ رسم و رواج کی پابندی کی اندھیری خدا اور آخرت سے جہالت کی اندھیریاں عرب پر گھٹا کی طرح چھائی ہوئی تھیں۔ آنحضرت ﷺ ان سے نکال کر نور میں لائے۔ ومن یؤمن باللہ ویعمل صالحًا۔ پس جو اس نور میں آگیا یعنی اللہ پر ایمان لایا، اعتقاد درست کرلیا اور پھر اچھے کام کئے جن کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا۔ دراصل یہی نور ہے جو قیامت میں آگے اور دائیں بائیں دوڑتا ہوا چلے گا اور مرنے کے بعد عالم قدس میں پہنچا دے گا۔ تکمیل قوت نظریہ و عملیہ دونوں کی طرف اشارہ ہے تو یدخلہ جنات تجری من تحتہا الانہار۔ اس کو مرنے کے بعد ایسے باغوں میں بسا دے گا جہاں نہریں بہتی ہوں گی یعنی عالم قدس میں باغ اور نہریں اس کی قوت نظریہ و عملیہ کا مظہر ہوں گی۔ خالدین فیہا ابدًا وہاں ہمیشہ رہا کرے گا۔ ایمان و اعمال بھی اس کے ساتھ ہمیشہ تھے۔ ان کی نہریں جاری رہا کرتی تھیں۔ قداحسن اللہ لہ رزقا۔ اللہ نے اس کے لیے عمدہ روزی تیار کر رکھی۔ وہاں کے نعماء اور دیدارِ الٰہی یہ قابل اعتبار بات ہے کس لیے کہ اس اللہ نے خبر دی جس نے خلق سبع سموات۔ سات آسمان و من الارض مثلہن اور ان کے مانند زمین بنائی 1 ؎۔ یتنزل الامر بینہن ان میں اس کا حکم نازل ہوتا ہے۔ آسمانوں اور زمین میں بغیر حکم قضاء و قدر کے ذرہ نہیں ہلتا۔ یہ اس لیے لتعلموا ان اللہ علیٰ کل شیئٍ قدیر و ان اللہ قداحاط بکل شیئٍ علما۔ کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ کے علم میں ہر چیز ہے پس وہ قادر بھی ہے کہ دار آخرت میں اپنے وعدے کو پورا کرے۔ دنیا میں مخالف کو تباہی ‘ آخرت میں روسیاہی دے اور اس کا فرمانا خبر دینا اس کے علم کی وجہ سے صداقت پر مبنی ہے۔ ا ؎ یعنی جہاں حرہ کو تین طلاق دے کر مغلظ کیا جاتا ہے لونڈی کے لیے دو طلاق کافی ہیں۔ عدت میں نفقہ اور مکان بھی نہیں دیتے تھے۔ ان باتوں کو اسلام نے منع کیا۔ 1 ؎ بغیر وطی کی ہوئی کو ایک ہی طلاق دینا حسن ہے گو حیض میں ہو اور اسی طر جس کو حیض نہیں آتا اس کو ہر مہینہ کے بعد ایک طلاق دینا حسن ہے اگرچہ وطی کے بعد ہو۔ تفسیر احمدی۔ 2 امنہ 2 ؎ اصل آیت سورة احزاب میں یوں ہے۔ یا ایھا الذین آمنو اذانکحتم المؤمنات ثم طلقتوھن من قبل ان تمسوھن فما لکھ علیھن من عدۃ تعتدونھا۔ 2 ا منہ 3 ؎ مسنون تو احسن بھی ہے مگر اس میں امام مالک (رح) کا اختلاف ہے وہ اس کو بدعی کہتے ہیں اس لیے حنفی اس کا نام طلاق السنہ رکھتے ہیں۔ 12 منہ ا ؎ ھؤلاء و منصوب لکونہ بدلا من ذکرا بمعنی ذاکرولہ وجوہ اخریٰ ذکرھا القوم قد احسن الجملۃ حال ثانیہ اومترادفۃ للخالدین مثلھن بالنصب علیٰ عطف علی سبع سموات وقریٔ بالرفع علی الابتداء۔ 2 ا منہ
Top