بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے نبی ! جن چیزوں کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کردیا ہے آپ ان کو کیوں حرام کرتے ہیں (کیا) اپنی بیویوں کی رضامندی ڈھونڈتے ہو اور اللہ بخشنے والا ‘ مہربان ہے۔
ترکیب : تبتغی استیناف اوتفسیر لقولہ تحرم اوحال من الضمیر فی تحرم والمرضاۃ اسم مصدرو اصلہ مرضوۃ۔ وھو مضاف الی المفعول الی ان ترضی ازواجک والی الفاعل ای ان یرضین ھن۔ ومعناہ الرضائ۔ ویمکن ان تکون الجملۃ للاستفہام الانکاری تحلۃ اصلہ تحللۃ فسکن وادغم۔ واذ فی موضع نصب باذکر فلما شرط عرف جو ابہ فلما شرط قالت جو ابہ ان تتوبا شرط والجواب محذوف ای فذاک واجب دل علیہ فقد صغت لان اصغاء القلب الی ذلک قریب۔ قلوبکما انما جمع وھما اثنان لان لکل انسان قلبا ومالیس فی الانسان الاواحد جازان یجعل الاثنان فیہ بلفظ الجمع وجازان یجعل بلفظ التثنیۃ وقیل وجہہ ان التثنیۃ جمع ھو مبتداء وخبرہ ان ویجوزان یکون ھو فصلا فاماجبرئیل و صالح المؤمنین ففیہ وجہان احدھما ھو مبتداء والخبر محذوف والثانی ان یکون مبتداء والملائکۃ معطوفا علیہ وظہیر خبر الجمیع وھو واحد فی معنی الجمع ای ظہرائ۔ تفسیر : یہ سورة بالاتفاق مدینے میں نازل ہوئی ہے۔ قرطبی کہتے ہیں اس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں۔ ابن عباس و ابن زبیر ؓ بھی یہی فرماتے ہیں۔ ربط اس کا اول سورة سے یہ ہے کہ اول سورة میں طلاق کے احکام بیان ہوئے تھے جو عورتوں کے متعلق تھے اور نیز طلاق کے بعد جو عورت حلال تھی حرام ہوجاتی ہے اس لیے اس سورة میں بھی عورت کی ضد و خواہش اور ہٹ اور اصرار سے مباح چیز کو اپنے اوپر ممنوع کر کے معاشرت کے دائرہ کو تنگ کرنے کی ممانعت کا ذکر ہے اس لیے فرماتا ہے : یا ایہا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک۔ اے نبی ! کیوں حرام کرتے ہو اس چیز کو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کردی ہے۔ تبتغی مرضاۃ ازواجک اس حرام کرنے میں اپنی بیویوں کی رضامندی چاہتے ہوا ؎۔ (ا ؎ آنحضرت ﷺ نے بیویوں کے کہنے سے حرام کی تھی۔ ) یعنی ایسا نہ کرو۔ یہ ایک قسم کی ناپسند بات ہے اللہ غفوررحیم خدا معاف کرنے والا ہے۔ اور تم جو بیویوں کے کہنے سے قسم کھا بیٹھے ہو تو قدفرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم تو اللہ نے تمہارے لیے ایسی قسموں کا توڑ دینا فرض کردیا۔ ضرور توڑ دو کس لیے کہ اللہ مولکم وھو العلیم الحکیم۔ اللہ تمہارا رفیق و کارساز ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس میں تمہیں دقت اور تنگی پیش آئے گی اور ہمیشہ کے لیے ایک مباح چیز امت میں حرام سمجھی جائے گی اور یہ اصول شریعت محمدیہ کے برخلاف ہے۔ اللہ علیم و حکیم ہے۔ کسی چیز کو حرام و ممنوع قرار دینا اس کے عواقب امور پر نظر کر کے اسی کا کام ہے۔ پھر جس کو وہ حرام نہ بنا دے تم نہ بنائو۔ رہبانیت جس کو اسلام نے رد کردیا اس میں بھی یہی بات تھی کہ نفس کو تکلیف دینے کے لیے حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا جاتا تھا اسی طرح ہنود وغیرہ قوموں کے درویش کیا کرتے تھے۔ کوئی دودھ نہیں پیتا، کوئی میٹھا نہیں کھاتا، کوئی نکاح نہیں کرتا۔ کوئی ایک قسم کی چیز جو بےمزہ ہو اور ایک قسم کا کپڑا جو بےقدر ہو پہننا شروع کردیتا ہے اور اس کو تقرب الی اللہ اور سعادتِ آخرت کا عمدہ ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ شریعت مصطفویہ نے ان باتوں کو بےاصل قرار دے کر سچے اصول سعادت بیان کردیے۔ وہ اخلاق و عقائد کی درستی کے بعد اللہ کی عبادت و مراقبہ و فکر و ذکر اور مخلوق کے ساتھ بھلائی اور احسان کرنا۔ فقرائِ اہل اسلام میں جو ریاضت ہے وہ اور معنوں پر مبنی ہے۔ وہ ان چیزوں کو حرام اور ممنوع نہیں قرار دیتا بلکہ مباح امور میں نفس بد کی خواہش روکنے کی مشاقی کرتا ہے اور ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔ یہ بات کہ نبی ﷺ نے بیویوں کے کہنے یا ان کے خوشنود کرنے کو کون سی چیز اپنے اوپر ممنوع کردی تھی اور اس کے لیے قسم کھا بیٹھے تھے اور پھر قسم توڑی کیا تھی ؟ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آنحضرت ﷺ کی ایک حرم محترم کی بابت اشارہ ہے۔ پھر کسی نے کہا وہ ماریہ قبطیہ ؓ ابراہیم کی والدہ ہیں کہ حفصہ ؓ کے گھر میں ان سے (جبکہ وہ اپنے والد ماجد کے ہاں گئی ہوئی تھیں) اختلاط کیا اور دونوں کو آ کر حفصہ ؓ نے اپنے حجرہ میں دیکھا اور دیکھ کر رنج کے آثار ان کے چہر سے ہویدا ہوئے تب آنحضرت ﷺ نے ان کی خوشی کے لیے یہ فرما دیا کہ میں اب سے ماریہ کے پاس ہی نہیں جائوں گا۔ اس بات کو حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہہ دیا جو آنحضرت ﷺ کی مرضی مبارک کے خلاف تھا۔ الہام سے آنحضرت ﷺ کو یہ خبر دی گئی کہ اس نے عائشہ ؓ سے کہہ دیا اور آپ نے عائشہ ؓ سے کچھ بات حفصہ ؓ کی بتلائی ہوئی کہہ دی اور کچھ اور جو اس نے اپنی طرف سے کہی تھی اس سے سکوت کیا۔ عائشہ ؓ نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا (کس لیے کہ اس مخفی بات کو یا عائشہ ؓ جانتی تھیں یا حفصہ) آپ نے فرمایا اللہ نے جو علیم وخبیر ہے۔ اس کے بعد یہ آیات نازل ہوئیں جن میں آنحضرت ﷺ کو تنبیہ ہے کہ ماریہ آپ کی حرم ہیں کس لیے ان کی خوشی سے آپ اس کو اپنے اوپر ممنوع کرتے ہیں قسم توڑ دیجئے۔ آپ نے قسم توڑ دی اور کفارہ ادا کردیا۔ اس بات کو نسائی و حاکم و ابن مردویہ و بزار و طبرانی و ابن سعد و ابن المنذر و ہیثم بن کلب نے اپنی مسند میں وضیاء مقدسی نے مختار میں نقل کیا ہے مگر کسی نے کوئی جملہ زیادہ کیا ہے کسی نے کم اور پھر کسی کی سند ضعیف ہے کسی کی صحیح۔ لیکن امور خارجیہ پر جو نظر ڈالی جاتی ہے تو یہ روایت ٹھیک نہیں معلوم ہوتی کس لیے کہ ماریہ ؓ آنحضرت ﷺ کی حرم تھیں جن کے پیٹ سے ابراہیم پیدا ہوئے تھے۔ صرف حفصہ ؓ کے گھر میں جو دراصل نبی ﷺ کا گھر تھا ان سے اختلاط کرنا نہ حفصہ ؓ کے نزدیک کوئی بڑی بات تھی نہ آنحضرت ﷺ اس بےقصور کو اپنے اوپر حرام کرنے والے شخص تھے۔ دوسری روایت جس کو بخاری و مسلم وغیرہ جلیل القدر محدثوں نے نقل کیا ہے اس آیت کی شان نزول میں یہ ہے کہ حضرت زینب بنت حجش کے ہاں شہد آیا ہوا تھا۔ آپ کو شہد سے رغبت تھی یا آپ صحت جسمانی کے لیے مفید سمجھے ہوئے تھے۔ ہر صبح آپ زینب کے گھر جاتے اور شہد نوش فرماتے تھے اور یہ طبعی بات ہے کہ آخر وہ بھی بیوی تھی۔ تھوڑی دیر وہاں بیٹھتے بھی ہوں گے، یہ بات حضرت حفصہ اور عائشہ ؓ کو جو باہم محبت رکھتی تھیں اور زینب ؓ کے مقابلے پر تلی ہوئی تھیں بری معلوم ہوئی اور یہ طبعی بات ہے۔ دونوں نے شہد چھڑانے کے لیے باہم کوئی تدبیر نکالی۔ کہیں ایک نے کہہ دیا کہ آپ کے منہ سے بو آتی ہے۔ آپ کو بو سے نفرت تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے کوئی بدبودار چیز نہیں کھائی صرف زینب کے ہاں شہد ضرور کھایا۔ آیندہ نہیں کھائوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ بات قرین قیاس ہے کس لیے کہ عورتوں کی باہم رقابت معمولی بات ہے۔ زینب ؓ کے ساتھ یہ خصوصیت ہر روز شاق گزری۔ شہد میں کی کر وغیرہ پتوں کی اکثر خوشبو یا بدبو بھی ہوا کرتی تھی اس میں بھی ہوگی۔ پھر ایک نے نفرت دلانے کے لیے اس بات کو بڑھا کر اور زور دے کر کہا اور اس کے ساتھ کچھ اور بھی ہوگا اور رنجیدگی بھی ظاہر کی ہوگی اور آپ نے اس کی تسلی بھی کی ہوگی۔ بیویوں کی دلجوئی معمولی بات ہے۔ آپ نے زینب ؓ کے گھر جا کر شہد کھانے کو اپنے اوپر ممنوع کیا اور قسم بھی کھائی ہوگی۔ پھر ایک نے دوسری سے خوب اظہار مسرت کیا ہوگا کہ لو داؤ چل گیا۔ یہ بات خدائے پاک کے نزدیک اچھی نہ معلوم ہوئی اور شان اولوالعزمی کے مخالف بھی ہے اس لیے آپ کو تنبیہ ہوئی اور قسم کے توڑ ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ اب مطلب آیات کا صاف ظاہر ہوگیا اور کوئی قبح بھی پیدا نہیں ہوا۔ پھر آگے اس معاملہ کا تذکر کرتا ہے۔ واذاسرالنبی الی بعض ازواجہ حدیثا۔ اور جب نبی نے اپنی کسی ایک بیوی سے مخفی بات کہی۔ اکثر مفسرین کہتے ہیں وہ حفصہ ؓ ہے اور مخفی بات شہد یا ماریہ ؓ کے حرام کرنے کی تھی اور اپنے بعد ابوبکر و عمر ؓ کی خلافت کی بشارت بھی دی تھی۔ مگر یہ تحقیق کرنا کہ وہ مخفی بات کیا تھی مشکل امر ہے۔ کس لیے کہ نہ اس کو اللہ نے ظاہر کیا نہ رسول اللہ ﷺ نے۔ تو پھر کس طرح یقین ہوا کہ یہی بات تھی لیکن قرینہ کہتا ہے کہ اسی قسم کی بات ہوگی کہ جو شوہر اپنی بیوی سے اس کی محبت اور دوسری پر فوقیت کے بارے میں کہا کرتا ہے۔ فلمانبات بہ۔ پھر جب اس بیوی نے اس بات کو کہہ دیا۔ کس سے کہا ؟ اکثر مفسرین کہتے ہیں، عائشہ ؓ سے واظہرہ اللہ علیہ۔ اور خدا نے یہ معاملہ نبی ﷺ پر ظاہر کردیا۔ عرف بعضہ وا عرض عن بعض۔ تو نبی ﷺ نے کسی قدر کا عائشہ ؓ سے اظہار کیا کہ تجھ سے حفصہ ؓ نے یہ کہا ہے اور کسی قدر سے اعراض و سکوت کیا۔ وہ کہنی مناسب نہ جانی ہوگی۔ بہت سی باتیں خاوند ایک بیوی سے کہہ دیتا ہے جو دوسری سے کہنی مناسب نہیں سمجھتا۔ بعض کہتے ہیں وہ خلافت ابوبکر و عمر ؓ کی بات تھی جس سے مصلحت جان کرسکوت کیا۔ فلمانباھا بہ۔ پھر جب نبی ﷺ نے عائشہ ؓ کو یہ بات بتا دی کہ تجھ سے حفصہ ؓ نے یہ کہا تو تعجب سے عائشہ ؓ نے کہا من انباک ھذا آپ سے کس نے کہا کہ حفصہ ؓ نے مجھ سے یہ کہا۔ قال نبانی العلیم الخبیر۔ نبی ﷺ نے فرمایا مجھے علیم خبیر نے بتا دیا۔ قصہ تمام ہوا۔ اب حفصہ ؓ 1 ؎ و عائشہ ؓ دونوں کو اس کمینی کرنے پر متنبہ کرتا ہے۔ ان تتوباالی اللہ۔ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرو تو بہتر کس لیے کہ فقد صغت قلوبکما 2 ؎ تمہارے دل تو ضرور مائل تھے کہ آپ زینب ؓ سے یہ خصوصیت ترک کردیں، شہد نہ کھائیں یا ماریہ ؓ کو ترک کردیں۔ خبردار ایسے رشک و رقابت سے باز آؤ اور نبی ﷺ پر چڑھائی نہ کرو۔ وان تظاھرا اور اگر چڑھائی کرو گی فان اللہ ھو مولہٰ تو اللہ اس کا رفیق و چارہ گر ہے۔ وجبریل اور عالم ملکوت میں جبرئیل بھی چارہ گر ہے الہامات میں مؤید ہے اور ناسوت میں صالح المؤمنین نیک بندے ایماندار مددگار ہیں۔ خلفاء اربعہ ؓ وغیرہ اور اس کے سوا ہر وقت ہر جگہ فرشتوں کا باڈی گاڈ یا حفاظتی لشکر آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ والملائکۃ بعد ذٰلک ظہیر کے یہی معنی ہیں۔ فائدہ : حلال چیز کا اپنے اوپر حرام کرلینا جیسا کہ آیت میں لم تحرم ما احل اللہ لک ہے امام ابوحنیفہ وغیر فقہا کبار (رح) کے نزدیک یمین ہے کس لیے کہ بعد میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قدفرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم۔ کہ اللہ نے یمین کا کھولنا فرض کیا ہے اور یمین کا کھولنا کفارہ دینا ہے۔ اگر گناہ کی بات پر قسم کھالے یا خواہ مخواہ کسی مباح اور حلال چیز پر قسم کھا بیٹھے کہ ایسا نہ کروں گا تو کفارہ دے کر اس قسم سے الگ ہوجانا چاہیے۔ فرض اللہ لفظ بتا رہا ہے کہ ضرور اس قسم سے دور ہونا چاہیے۔ کفارہ یمین غلام آزاد کرنا یا دس مسکینوں کو اس قدر کپڑا دینا کہ نماز پڑھ سکیں اور زیادہ دے تو توفیق ہے یا دس مسکینوں کو کھانا پیٹ بھر کر کھلانا۔ اور مقدور نہ ہو تو تین روزے رکھنا۔ یہ منحل یمین ہے۔ بعض کہتے ہیں یمین میں انشاء اللہ کہہ دینا بھی منحل ہے۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ مباح کا حرام کرلینا یمین نہیں لیکن کفارہ دینا خاص اس صورت میں ہوگا کہ جب اپنی عورت کو اپنے اوپر حرام قرار دے لے گا۔ آیت میں یہی بات تھی۔ اور اگر شہد کا معاملہ تھا تو آپ نے بعد میں اس پر حلف بھی کیا تھا اس لیے اس کو یمین قرار دیا گیا نہ محض اس لیے کہ مباح کو حرام کرلیا تھا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے کفارہ دیا ایک غلام آزاد کیا۔ (ابن کثیر) حسن (رح) کہتے ہیں کہ کفارہ نہیں دیا کس لیے کہ آپ مغفور تھے۔ کفارہ اور یمین میں جو آئمہ (رح) کے اقوال ہیں ان کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ا ؎ بعض شیعہ یہاں سے حفصہ و عائشہ ؓ پر الزام لگاتے ہیں مگر یہ غلط خیال ہے کہ کس لیے کہ میاں بیوی میں ایسی باتیں طبعی ہیں۔ کیا حضرت سیدہ فاطمہ زہرہ ؓ و علی مرتضیٰ ؓ میں کبھی رنجش نہیں ہوئی۔ بات یہ ہے کہ ان حضرات نے علی و فاطمہ و حسن و حسین ؓ کو ملائکہ میں ملا دیا بلکہ انبیاء (علیہم السلام) پر بھی فوقیت دے دی۔ دیکھو اس سورة میں خاتم المرسلین ﷺ کو خدا تحریم ما احل اللہ پر کیسی تنبیہ کر رہا ہے پھر کیا اس سے ان کی شان میں کوئی فرق آسکتا ہے۔ 12 منہ 2 ؎ فقد صغت قلوبکما کے معنی مفسرین نے یہ لکھے ہیں صحیح بخاری میں ہے صغوت واصغیت ملت لتصغی التمیل صراح میں ہے صغو میل کردن اس کے معنی مائل ہونے کے ہیں یعنی تمہارے دل مائل ہوگئے ہیں۔ عام مفسرین کا قول ہے کہ حق سے مائل ہوگئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں باہمی سازش کی طرف مائل ہوگئے ہیں اور یہی ٹھیک ہے مگر یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے ان کے ایمان یا دین میں خلل ہو۔ 12 منہ
Top