Tafseer-e-Haqqani - At-Tahrim : 7
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَا تَعْتَذِرُوا الْیَوْمَ١ؕ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : اے لوگو جنہوں نے کفر کیا لَا تَعْتَذِرُوا : نہ تم معذرت کرو الْيَوْمَ : آج کے دن اِنَّمَا تُجْزَوْنَ : بیشک تم جزا دئیے جارہے ہو مَا كُنْتُمْ : جو تھے تم تَعْمَلُوْنَ : تم عمل کرتے
اے کافرو ! (جہنم میں کہا جائے گا) تم آج باتیں نہ بنائو۔ تم کو وہی بدلا دیا جاتا ہے جو تم کیا کرتے تھے۔
ترکیب : الیوم منصوب بہ لاتعتذروا النصوحا بفتح النون ویقرء بضمھا علی الاول مصدر یقال نصح نصاحۃ ونصوحاً وقیل ھواسم فاعل اے ناصحۃ والاسناد مجازی و علی الثانی ھو مصدر لاغیرمثل القعود ثم اعرابہ علی الوجھین النصب علی الوصف للتوبۃ ای توبۃ بالغۃ فی النصح ویدخلکم منصوب علیٰ انہ معطوف علیٰ یکفر منصوب بناصبہ وقریٔ بالجزم عطفا علیٰ محل عسٰی کانہ قال توبوایوجب تکفیر سیئاتکم ویدخلکم یوم منصوب بیدخلکم اوباذکر والذین آمنوا معہ معطوف علی النبی وقیل مبتداء وخبرہ قولہ نورھم علی الاول الجملۃ (نورھم الخ) حالیۃ اومستانفۃ لبیان حالھم۔ یقولون خبرثان اوحال۔ تفسیر : یہ تتمہ ہے کلام سابق کا کہ ملائکہ اس روز عذاب کریں گے اور سخت وتند ہوں گے ان کے عذاب پر کفار معذرت کریں گے۔ ان کے جواب میں کہا جائے گا (ملائکہ کہیں گے) یا ایہا الذین کفروا الخ کہ اے منکرو ! آج عذر نہ کرو، باتیں نہ بناؤ کس لیے کہ آج معذرت کا دن نہیں (معذرت توبہ ہے) اس کا موقع دنیا میں تھا سو گزر گیا۔ اور یہ نہ سمجھو کہ تم کو ناحق عذاب دیا جاتا ہے کس لیے کہ انما تجزون ماکنتم تعملون تم کو وہی بدلہ دیا جاتا ہے جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے یعنی تمہارے اعمالِ بد کی سزا ہے جو بویا تھا اس کو کاٹ رہے ہو۔ دنیا میں اعمالِ بد کی برائی چنداں ظاہر نہ تھی اب حجاب کھل گیا۔ وہ برائی آنکھوں کے سامنے آگئی۔ توبہ نصوح : اس لیے ایمانداروں سے شفقت کی راہ سے فرماتا ہے۔ یا ایہا الذین آمنوا توبوا الی اللہ توبۃ نصوحا۔ کہ اے ایمان والو ! دنیا میں توبہ کا وقت ہے بشریت سے جو کوئی گناہ ہوجائے تو اس سے توبہ کرو توبہ بھی کیسی توبہ نصوح یعنی خالص سچے دل سے۔ حسن (رح) کہتے ہیں توبہ نصوح یہ ہے کہ اس گناہ کو برا اور مکروہ جاننے لگے جس کو مرغوب جان کر کیا تھا اور جب یاد کرے تو استغفار کرے۔ کلبی کہتے ہیں توبہ نصوح دل میں ندامت ‘ زبان سے استغفار اور اس کام سے باز رہنا۔ سعید بن جبیر (رح) کہتے ہیں توبہ مقبولہ کا نام توبہ نصوح ہے۔ حضرت عمر ؓ سے کسی نے پوچھا کہ توبہ نصوح کیا ہے ؟ فرمایا برے کام سے باز آنا اور پھر اس کو نہ کرنا۔ امام احمد و ابن مردویہ ; نے نقل کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا توبہ گناہ سے یہ ہے کہ پھر نہ کرے۔ اس کے بعد توبہ کے نتائج بیان فرماتا ہے۔ عسٰی ربکم ان یکفر عنکم سیئاتکم کہ امید ہے اللہ تمہارے گناہ تم سے مٹا ڈالے ان کو محو کر دے، توبہ سے گناہوں کا معاف ہوجانا یا ان کا مٹایا جانا قرآن و احادیث سے ثابت ہے اور قرین قیاس بھی ہے۔ اور پہلی کتابیں بھی اس کی شہادت دے رہی ہیں۔ ابطال کفارہ مسیح کتاب یسعیاہ کے اول باب 18 جملے میں صاف تصریح ہے کہ ” اگرچہ تمہارے گناہ قرمزی ہوں پر برف کی مانند سفید ہوجائیں گے “۔ خود حضرت مسیح (علیہ السلام) نے لوگوں کو توبہ کا حکم دیا اور تاکید فرمائی۔ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آئی۔ انجیل متی باب چہارم جملہ 17 ” اگر توبہ سے گناہوں کے معاف ہونے کی امید نہ تھی تو پھر اس کا فائدہ کیا تھا “ ؟ مگر بعد میں پولوس اور اس کی امت نے ایک عجب مسئلہ گھڑا کہ توبہ سے گناہ نہیں معاف ہوتے معافی کا صرف یہی ایک ذریعہ تھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے سب کے گناہ اپنے اوپر اٹھائے اور پھانسی پائی اور ملعون ہوئے اور تین روز جہنم میں رہے۔ اب سب کے گناہ جو مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لائے معاف ہیں اس کو کسی عمل خیر کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اعمال حسنہ لعنت کا باعث ہیں۔ اس کو یہ کفارہ کہتے ہیں۔ معاذاللہ کیا برا اعتقاد ہے ؟ کیا ایسا شخص سفاکی بد ‘ ذاتی ‘ حرام کاری میں کوئی دقیقہ اٹھا رکھے گا۔ پھر دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) کے آنے کا فائدہ کیا ہوا ؟ توبہ کے بعد حقوق العباد ذمہ سے ساقط نہیں ہوتے۔ توبہ فرض ہے دیر نہ کرے موت کا ٹھیک نہیں کہ کب آجائے۔ پھر دوسرا نتیجہ توبہ کا ظاہر کرتا ہے ویدخلکم جنات تجری من تحتہا الانہار۔ اور تم کو ایسے بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، بہشت عالم قدس ہے اس میں جانے سے انسان کی کثافت ہی مانع ہے جو توبہ کے بعد دور ہوجاتی ہے۔ یہ کس روز یوم لایخزی اللہ النبی والذین امنوامعہ۔ جس دن کہ اللہ نبی کو اور اس کے ساتھ ایمان والوں کو رسوا نہ کرے گا۔ اس میں تعریض ہے کہ نبی اور اس پر ایمان والوں کے سوا اور لوگ رسوا ہوں گے۔ یہ جو آج تمہارے خیالی معبود اور گمراہ کنندہ بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں کہ قیامت میں ہمارا جھنڈا ہوگا اور خیمہ ہوگا ہم اپنے ماننے والوں کو اس کے تلے لے کر عذاب سے بچا لیں گے۔ یہ غلط بات ہے وہ خود رسوا ہوں گے اور ان کے ساتھ ان کے مرید بھی۔ قیامت کو ظلمت ہوگی اور کسی کے پاس کوئی روشنی نہ ہوگی مگر نبی اور اس کے متبعین کے پاس۔ اس میں نبی کریم ﷺ اور دیگر حضرات انبیاء (علیہم السلام) بھی شامل ہیں۔ نورھم یسعی بین ایدیہم وبایمانہم۔ ان کی روشنی (جو ایمان اور توبہ اور عمل خیر کی روشنی ہوگی) ان کے آگے آگے اور دائیں طرف سے دوڑتی ہوئی چلے گی اور اس ظلمانی راہ کو طے کر کے جنت میں چلے جائیں گے۔ آگے اور دائیں کی قید سے یہ مراد نہیں کہ اور طرف روشنی نہ ہوگی بلکہ ہر طرف مگر یہ دو جہت عمدہ ہیں اس لیے ان کا ذکر کیا۔ اس کی کیفیت سورة حدید میں بھی بیان ہوئی ہے۔ جب یہ دیکھیں گے کہ دنیا میں ریاکاروں، منافقوں کی روشنی اس روز چمک کر گل ہوگئی تو دعا کریں گے۔ ربنا اتمم لنانورنا واغفرلنا انک علی کل شیئٍ قدیر۔ کہ اے ہمارے رب ! ہماری روشنی پوری کیجئے۔ رستہ میں گل نہ ہونے پائے اور ہم کو بخش دے تو ہر بات پر قادر ہے۔ یہ ہیں توبہ کے نتائج جس کی طرف ایمانداروں کو منکروں کی اندوہناک حالت بیان فرما کر ترغیب دلائی گئی ہے۔ قیامت کو اندھیرا ہونا اور ایمان کی روشنی میں اس سے رستہ طے کرنا اور جنت میں جانا اور وہاں حیات ابدی اور ہمیشہ کی شادمانی حاصل کرنا ایک مسلمہ مسئلہ ہے جس کو تمام انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے پیرو اور برگزیدہ بیان کرتے آتے ہیں جس میں کسی کو بھی شبہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ انسان کو عدم سے ہستی میں لایا ہے اور عدم ایک ظلمانی عالم ہے۔ اس کے صفات کاملہ جو اس کو پروردگار کی طرف سے نصیب ہوتے ہیں وہ اس کا جمیع معاملات میں نور ہیں جو اس کو تمام ظلمانی اور پر تاریک وادیوں میں سے نکال کر راہ مقصود پر چلانے اور منزل مقصود تک پہنچانے کا عمدہ ذریعے ہیں۔ دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد عالم قبر میں بھی اور حشر میں بھی اور ایماندار کو لازم ہے کہ ہر دم یہی دعا کرے۔ ربنا اتمم لنانورنا واغفرلنا انک علی شیئٍ قدیر۔ خدا نہ کرے کہ یہ نور کسی کا بجھ جائے اور وہ اندھیریوں میں ہاتھ پائوں مارتا پھرے اور فسق و فجور کے خطرناک گڑھوں میں جاگرے اور شاہد مقصود رب العزت تک نہ پہنچے۔ الٰہی میں بھی یہی دعا کرتا ہوں قبول کر آمین۔
Top