Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Kahf : 23
وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًاۙ
وَلَا تَقُوْلَنَّ : اور ہرگز نہ کہنا تم لِشَايْءٍ : کسی کام کو اِنِّىْ : کہ میں فَاعِلٌ : کرنیوالا ہوں ذٰلِكَ : یہ غَدًا : گل
اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا۔
(23۔ 24) آپ کسی کام کے متعلق یوں نہ کہا کیجیے کہ مثلا میں کل کروں گا یا کل ایسا کہوں گا مگر مشیت خداوندی کو اس کے ساتھ ملا دیا کیجیے اور جب آپ اتفاقا انشاء اللہ کہنا بھول جائیں تو بعد میں یاد آنے پر کہہ لیا کیجیے اور ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ مجھے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ صحیح اور یقینی بات بتا دے گا۔ یہ آیت کریمہ رسول اکرم ﷺ کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ آپ سے مشرکین مکہ نے روح اور اصحاب کہف کے بارے میں دریافت کیا تھا، آپ نے فرمایا کل بتا دوں گا اور آپ انشاء اللہ کہنا بھول گئے۔ شان نزول : (آیت) ”۔ الا ان یشآء اللہ“۔ (الخ) اور ابن جریر ؒ نے ضحاک ؒ اور ابن مردویہ ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس کے بارے میں قسم کھائی پھر پر چالیس راتیں گزر گئیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اور آپ کسی کام کے متعلق یوں نہ کہا کیجیے کہ میں اس کو کل کروں گا مگر اللہ کے چاہنے کو ملا دیا کیجیے۔
Top