Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Kahf : 32
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَیْنَهُمَا زَرْعًاؕ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (حال) رَّجُلَيْنِ : دو آدمی جَعَلْنَا : ہم نے بنائے لِاَحَدِهِمَا : ان میں ایک کے لیے جَنَّتَيْنِ : دو باغ مِنْ : سے۔ کے اَعْنَابٍ : انگور (جمع) وَّحَفَفْنٰهُمَا : اور ہم نے انہیں گھیر لیا بِنَخْلٍ : کھجوروں کے درخت وَّجَعَلْنَا : اور بنادی (رکھی) بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان زَرْعًا : کھیتی
اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ (عنایت) کیے تھے اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی
(32۔ 43) آپ اہل مکہ کے سامنے دو شخصوں کا حال بیان کیجیے کہ بنی اسرائیل میں دو بھائی تھے ایک مومن جس کا نام یہودا اور دوسرا کافر جس کا نام ابو فطروس تھا۔ کافر کو دو باغ ہم نے انگوروں کے دے رکھے تھے اور ان دونوں باغوں کا کھجور کے درختوں سے احاطہ بنارکھا تھا اور ان دونوں باغوں کے درمیان میں کھیتی بھی لگا رکھی تھی۔ دونوں باغ ہر سال اپنا پورا پھل دیتے تھے اور کسی کے پھل میں ذرا بھی کمی نہ رہتی تھی اور ان دونوں باغوں کے درمیان میں نہر چلا رکھی تھی اور اس کے پاس باغ کا پھل تھا اور بھی تمول کا سامان تھا چناچہ ایک دن وہ اپنے مسلمان ساتھی سے اپنے مال پر فخر کرتا ہوا کہنے لگا کہ میرا مال بھی تجھ سے زیادہ ہے اور میرے خدم وحشم بھی بکثرت ہیں۔ اور پھر وہ اتفاق سے اپنے اوپر کفر کا جرم قائم کرتا ہوا اپنے باغ میں پہنچا اور کہنے لگا کہ میرا تو خیال نہیں ہے کہ یہ باغ کبھی بھی برباد ہو اور نہ میں سمجھتا ہوں کہ قیامت آئے گی اور اگر میں اپنے رب کے پاس پہنچایا گیا جیسا کہ تو کہا کرتا ہے تو اس باغ سے بہت زیادہ اچھی جگہ مجھے کو ملے گی۔ یہ سن کر اس کے مومن ساتھی نے اس کے کفر سے اعراض کرتے ہوئے کہا کیا تو اس ذات پاک کا انکار کرتا ہے جس نے تمہیں آدم کی اولاد سے پیدا کیا اور آدم ؑ کو مٹی سے پیدا کیا پھر تجھے تیرے باپ کے نطفہ سے پیدا کیا پھر تجھے صحیح وسالم انسان بنایا لیکن میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا رب حقیقی اور میرا خالق و رازق ہے اور میں ان بتوں میں سے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور جب وقت تو باغ میں داخل ہوا تھا تو نے یوں کیوں نہیں کہا، یہ سب اللہ تعالیٰ کا انعام ہے میری کیا حیثیت اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے میری کیا طاقت ہے۔ اور اگر تو مجھ کو خدم وحشم میں کم تر سمجھتا ہے تو مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ مجھے آخرت میں تیرے اس دنیاوی باغ سے بہتر باغ دے دے اور تیرے اس باغ پر آگ بھیج دے کہ یہ اچانک چٹیل میدان ہو کر رہ جائے یا اسکا پانی بالکل اندر زمین میں اتر کر خشک ہوجائے اور پھر تو اس کے نکالنے کی کوئی کوشش بھی نہ کرسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے پھل اور سامان تمول کو آفت نے ہلاک کردیا پس اس نے جو کچھ اس باغ پر خرچ کیا تھا۔ اور جو اس کی آمدنی تھی اس پر حسرت و ندامت میں ہاتھ ملتا رہ گیا اور وہ باغ اپنی ٹٹیوں پر گرا ہوا پڑا تھا اور وہ قیامت کے دن بھی کہے گا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اپنے رب کے ساتھ ان بتوں کو شریک نہ ٹھہراتا۔ اور اس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہ آئی کہ عذاب الہی سے اس کی حفاظت کرتی اور نہ وہ خود اپنے سے عذاب الہی کو ٹال سکا۔
Top