Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ : طلاق مَرَّتٰنِ : دو بار فَاِمْسَاكٌ : پھر روک لینا بِمَعْرُوْفٍ : دستور کے مطابق اَوْ : یا تَسْرِيْحٌ : رخصت کرنا بِاِحْسَانٍ : حسنِ سلوک سے وَلَا : اور نہیں يَحِلُّ : جائز لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ : کہ تَاْخُذُوْا : تم لے لو مِمَّآ : اس سے جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : تم نے دیا ان کو شَيْئًا : کچھ اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ يَّخَافَآ : دونوں اندیشہ کریں اَلَّا : کہ نہ يُقِيْمَا : وہ قائم رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا يُقِيْمَا : کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَا : ان دونوں پر فِيْمَا : اس میں جو افْتَدَتْ : عورت بدلہ دے بِهٖ : اس کا تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَا : پس نہ تَعْتَدُوْھَا : آگے بڑھو اس سے وَمَنْ : اور جو يَّتَعَدَّ : آگے بڑھتا ہے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ ھُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
طلاق (صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ خدا کی حدو سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے
(229) یعنی طلاق رجعی دو ہیں، اب تیسری طلاق یاعدت میں، تیسرے حیض آنے سے پہلے حسن صحبت اور معاشرت کے ساتھ اسے روک لویا اس کے حقوق ادا کرتے ہوئے اسے تیسری طلاق دے دو۔ اور جو مال تم نے ان کو مہر میں دیا ہو وہ طلاق دینے کے وقت ان سے لینا حلال نہیں، مگر خلع کی شکل میں جب کہ میاں بیوی احکام الہیہ کی ادائیگی نہ کرسکیں، لہٰذا جب احکام الہیہ کی پابندی نہ کرسکیں تو خاص طور پر مرد پر کوئی گناہ نہیں، اس مال کے لینے میں جو عورت اپنی مرضی سے خاوند کو دے کر اپنی جان چھڑانا چاہ رہی ہے، یہ آیت ثابت بن قیس بن شماش ؓ اور ان کی بیوی جمیلہ بنت عبداللہ ؓ کے متعلق نازل ہوئی، انہوں نے اپنا مہر دے کر اپنے خاوند سے اپنی جان چھڑالی تھی، یہ زوجین کے درمیان احکام خداوندی ہیں، لہٰذا جن باتوں کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان کی طرف تجاوز نہ کرو اور جو احکام الہیہ سے ان چیزوں کی طرف تجاوز کریں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے ہوں گے۔ شان نزول : (آیت) ”الطلاق مرتن“ (الخ) امام ترمذی ؒ امام حاکم ؒ وغیرہ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی چاہتا طلاقیں دے لیتا تھا اور جس وقت اس سے عدت میں رجوع کرلیتا وہ پھر بھی اسی کی بیوی رہتی، خواہ اسے سویا اس سے زیادہ طلاقیں دے دے، یہاں تک کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ خدا کی قسم میں تجھے نہ کبھی ایسی طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہوجائے اور نہ تجھ کو سکون سے رہنے ہی دوں گا، اس کی بیوی نے کہا یہ کس طرح ممکن ہوگا وہ کہنے لگا میں تجھے طلاق دیتا رہوں گا، جب بھی تیری عدت کی مدت ختم ہونے والی ہوگی، پھر تجھ سے رجوع کرلیا کروں گا اس پر اس عورت نے جاکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سارا واقعہ کہہ سنایا، آپ سن کر خاموش ہوگئے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یہ آیت اتار دی۔ (آیت) ”الطلاق مرتن“۔ (الخ) یعنی وہ طلاق جس میں رجوع کرنا درست ہے وہ دو مرتبہ کی ہے۔ فرمان خداوندی (آیت) ”ولا یحل لکم“۔ (الخ) امام ابوداؤد ؒ نے ناسخ ومنسوخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انسان اپنی بیوی کا تمام مال کھا جاتا تھا، خواہ اس نے اسے دیا ہو، یا نہ دیا ہوتا اور یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اس صورت میں اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ کچھ لو اس مال میں سے تو تم نے اپنی عورتوں کو دیا ہے۔ اور ابن جریر ؒ نے ابن جریج ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ثابت بن قیس ؓ اور حبیبہ ؓ کے متعلق نازل ہوئی ہے، حبیبہ ؓ نے رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں جا کر شکایت عرض کی تھی، آپ نے اس کو فرمایا، کیا تو چاہتی ہے کہ تیری باغ تجھے واپس کردیا جائے، وہ کہنے لگیں جی ہاں ! آپ نے ان کے خاوند کو بلا کر ان سے اس چیز کا ذکر کیا وہ کہنے لگے کیا وہ اس بات پر راضی ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں، راضی ہے۔ ان کے خاوند کہنے لگے تو میں نے ایسا ہی کردیا، تب اس پر یہ آیت اتری (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top