Tafseer-Ibne-Abbas - An-Noor : 26
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ١ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ١ۚ اُولٰٓئِكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ۠   ۧ
اَلْخَبِيْثٰتُ : ناپاک (گندی) عورتیں لِلْخَبِيْثِيْنَ : گندے مردوں کے لیے وَالْخَبِيْثُوْنَ : اور گندے مرد لِلْخَبِيْثٰتِ : گندی عورتوں کے لیے وَالطَّيِّبٰتُ : اور پاک عورتیں لِلطَّيِّبِيْنَ : پاک مردوں کے لیے وَالطَّيِّبُوْنَ : اور پاک مرد (جمع) لِلطَّيِّبٰتِ : پاک عورتوں کے لیے اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ مُبَرَّءُوْنَ : مبرا ہیں مِمَّا : اس سے جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : مغفرت وَّرِزْقٌ : اور روزی كَرِيْمٌ : عزت کی
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے یہ (پاک لوگ) ان (بد گویوں) کی باتوں سے بری ہیں (اور) ان کے لئے بخشش اور نیک روزی ہے
(26) اگلی آیت پھر ان منافقین افتراپردازوں کے بارے میں نازل فرما کر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے واقعہ کو اللہ تعالیٰ ختم فرماتا ہے کہ جو قول وفعل میں گندی عورتیں ہیں، وہ گندے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں۔ اور کہا گیا کہ گندی عورتوں سے مراد حمۃ بن جحش اور گندے مردوں سے مراد عبداللہ بن ابی منافق اور اس کا ساتھ دینے والے ہیں جیسا کہ مسطح اور قول وفعل میں پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لائق ہوتے ہیں۔ تو پاکیزہ عورتوں سے مراد حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہیں اور پاکیزہ مردوں سے مراد رسول اکرم ﷺ ہیں یہ یعنی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت صفوان ؓ اس بات سے پاک ہیں جو منافقین بکتے پھر تے ہیں ان کے لیے آخرت میں مغفرت اور جنت میں عزت کا رزق ہے۔ چناچہ جب کسی مرد و عورت کی تعریف کی جاتی ہے اور وہ اس کے اہل ہوتے ہیں تو اس تعریف کی تصدیق کی جاتی ہے اور سننے والا بھی کہتا ہے کہ یقینا وہ ایسی تعریف کے قابل ہیں اور اس کے برعکس جب کسی مردوں کی برائی بیان کی جاتی ہے اور وہ اسی کے مستحق ہوتے ہیں تو اس برائی کی سب تائید کرتے ہیں اور سننے والا بھی کہتا ہے کہ وہ ایسے ہی ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”۔ الخبیثت للخبیثین“۔ (الخ) نیز طبرانی ؒ نے دو ضعیف سندوں کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آیت کا یہ حصہ (آیت) ”الخبیثت للخبیثین“۔ (الخ) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوا ہے جو رسول اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے نیز طبرانی ؒ نے حکم بن عتیبہ سے روایت کیا ہے کہ جب لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے واقعہ میں حصہ لیا تو رسول اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس قاصد بھیجا اور فرمایا کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ لوگ کیا کہہ رہے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا میں خود سے اپنی کسی چیز کی برأت نہیں کرتی، جب تک کہ میری برأت آسمان سے نازل نہ ہو، چناچہ اللہ تعالیٰ نے سورة نور کی پندرہ آیتیں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بارے میں نازل فرمائیں، اس کے بعد حکم بن عتیبہ نے (آیت) ”للخبیثین“۔ تک آیتیں پڑھ کر سنائیں، یہ روایت مرسل اور صحیح الاسناد ہے۔
Top