Tafseer-Ibne-Abbas - An-Noor : 61
لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَآئِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِیْقِكُمْ١ؕ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا١ؕ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَیِّبَةً١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
لَيْسَ : نہیں عَلَي الْاَعْمٰى : نابینا پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلَي الْاَعْرَجِ : لنگڑے پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلَي الْمَرِيْضِ : بیمار پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ : خود تم پر اَنْ تَاْكُلُوْا : کہ تم کھاؤ مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اٰبَآئِكُمْ : یا اپنے باپوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ : یا اپنی ماؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ : یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ : یا اپنی بہنوں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ : یا اپنے تائے چچاؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ : یا اپنی پھوپھیوں کے اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ : یا اپنے خالو، ماموؤں کے گھروں سے اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ : یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے اَوْ : یا مَا مَلَكْتُمْ : جس (گھر) کی تمہارے قبضہ میں ہوں مَّفَاتِحَهٗٓ : اس کی کنجیاں اَوْ صَدِيْقِكُمْ : یا اپنے دوست (کے گھر سے) لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَاْكُلُوْا : تم کھاؤ جَمِيْعًا : اکٹھے مل کر اَوْ : یا اَشْتَاتًا : جدا جدا فَاِذَا : پھر جب دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا : تم داخل ہو گھروں میں فَسَلِّمُوْا : تو سلام کرو عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ : اپنے لوگوں کو تَحِيَّةً : دعائے خیر مِّنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں مُبٰرَكَةً : بابرکت طَيِّبَةً : پاکیزہ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : اللہ واضح کرتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَعْقِلُوْنَ : سمجھو
نہ تو اندھے پر کچھ گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر اور نہ خود تم پر کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا اس گھر سے جس کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں ہوں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (اور اسکا بھی) تم پر کچھ گناہ نہیں کہ سب مل کر کھانا کھاؤ یا جدا جدا اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں کو) سلام کیا کرو (یہ) خدا کی طرف سے مبارک (اور) پاکیزہ (تحفہ) ہے اس طرح خدا اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو
(61) عبدالرزاق ؒ نے بواسطہ معمر ابن ابی نجیح ؒ مجاہد سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی لنگڑے، اندھے، اور بیمار کو اپنے باپ یا بھائی یا بہن یا پھوپھی یا خالہ کے گھر لے جایا کرتا تھا تو یہ محتاج اس چیز میں تنگی محسوس کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں دوسروں کے گھر لے جایا جاتا ہے تو یہ آیت کریمہ ان کے حق میں اجازت کے طور پر نازل ہوگئی کہ نہ تو اندھے آدمی کے لیے کچھ مضائقہ ہے۔ اور ابن جریر ؒ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ (آیت) ”یایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ‘۔ (الخ) نازل فرمائی، اس آیت کو سن کر صحابہ کرام ؓ ڈر گئے اور کہنے لگے کہ کھانا تو اور اموال سے افضل ہے تو لہذا ہم میں سے کسی کو کسی کے یہاں کھانا حلال نہیں ہے تو سب نے اس سے احتیاط کرنا شروع کردی، اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ”لیس علی الاعمی“۔ مفاتحۃ“۔ تک یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ نیز ضحاک سے روایت کیا ہے کہ مدینہ والے رسول اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے اپنے ساتھ اندھے بیمار اور لنگڑے کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے کیوں کہ اندھا آدمی تو عمدہ کھانوں کو نہیں دیکھ سکتا اور بیمار تندرست کی طرح خوب سیر ہو کر کھانا نہیں کھا سکتا اور لنگڑا کھانے میں مزاحمت نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ نے انکے ساتھ کھلانے میں اجازت دے دی۔ نیز مقیم ؒ سے روایت کیا ہے کہ اندھے اور لنگڑے کے ساتھ کھانے سے ڈرتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ثعلبی نے اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت حارث ؓ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ جہاد پر روانہ ہوئے اور اپنے گھر والوں کی نگرانی کے لیے خالد بن زید کو چھوڑ دیا، چناچہ خالد بن زید ؓ کو ان کے گھر سے کھانا کھاتے ہوئے ایک حجاب سا ہوا اور خالد مفلس آدمی تھے تب یہ آیت نازل ہوئی۔ شان نزول : (آیت) ”۔ لیس علیکم جناح“۔ (الخ) بزار ؒ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ صحابہ کرام ؓ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں جانے کو پسند کرتے تھے چناچہ وہ اپنے اموال کی کنجیاں اپنے محتاجوں کو دید یا کرتے تھے اور ان سے کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم نے تمہیں اجازت دے دی ہے جو تمہاری طبیعت چاہے سو کھاؤ مگر وہ پسماندہ حضرات کہتے تھے کہ ہمارے لیے ان کی چیزوں کا کھانا حلال نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے ہمیں خوشی سے اجازت نہیں دی اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ”لیس علیکم“۔ ”۔ او ما ملکت مفاتحہ“۔ (الخ) تک آیت نازل فرمائی، یعنی ان گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں، کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ اور ابن جریر ؒ نے زہری سے روایت کیا ہے کہ ان سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے آیت کریمہ ”۔ لیس علی الاعمی“۔ (الخ) میں اندھے لنگڑے اور بیمار کا ذکر کیا گیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس چیز کے بارے میں مجھے عبداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا کہ مسلمان جہاد کے لیے تشریف لے جاتے تو اپنے محتاجوں کو گھروں پر چھوڑ جاتے اور انھیں اپنے گھروں کی چابیاں دے جاتے اور ان سے کہہ جاتے کہ ہم نے تمہیں مکمل اختیار دید یا ہے جو ہمارے گھروں میں ہے سو کھاؤ پیو مگر وہ لوگ اس چیز میں تنگی محسوس کرتے اور کہتے کہ ان کی عدم موجودگی میں ہم ان کے گھروں میں نہیں جائیں گے تو یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو اجازت دینے کے لیے نازل فرمائی ہے، نیز قتادہ ؒ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ عرب کے ایک قبیلہ کے بارے میں نازل ہوئی، اس قبیلہ کا کوئی بھی فرد تنہا کھانا نہیں کھاتا تھا اور اپنا دن کا کھانا اٹھا کر رکھ لیتا تھا جب تک کہ اس کو ساتھ کھانے کے لیے کوئی نہ ملے جب کوئی ساتھی مل جاتا تب کھاتا اور نیز عکرمہ ؓ اور ابو صالح ؓ سے روایت کیا ہے کہ انصار کے یہاں جب کوئی مہمان آجاتا تھا تو جب تک مہمان ان کے ساتھ کھانا نہ کھاتا اس وقت تک یہ بھی کھانا نہ کھاتے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس چیز کی اجازت مرحمت فرمانے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top