Tafseer-Ibne-Abbas - An-Noor : 62
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (یقین کیا) بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَاِذَا : اور جب كَانُوْا : وہ ہوتے ہیں مَعَهٗ : اس کے ساتھ عَلٰٓي : پر۔ میں اَمْرٍ جَامِعٍ : جمع ہونے کا کام لَّمْ يَذْهَبُوْا : وہ نہیں جاتے حَتّٰى : جب تک يَسْتَاْذِنُوْهُ : وہ اس سے اجازت لیں اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَسْتَاْذِنُوْنَكَ : اجازت مانگتے ہیں آپ سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر فَاِذَا : پس جب اسْتَاْذَنُوْكَ : وہ تم سے اجازت مانگیں لِبَعْضِ : کسی کے لیے شَاْنِهِمْ : اپنے کام فَاْذَنْ : تو اجازت دیدیں لِّمَنْ : جس کو شِئْتَ : آپ چاہیں مِنْهُمْ : ان میں سے وَاسْتَغْفِرْ : اور بخشش مانگیں لَهُمُ اللّٰهَ : ان کے لیے اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
مومن تو وہی ہیں جو خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب کبھی ایسے کام کے لئے جو جمع ہو کر کرنے کا ہو پیغمبر خدا کے پاس جمع ہوں تو ان سے اجازت لیے بغیرچلے نہیں جاتے اے پیغمبر ﷺ جو لوگ تم سے اجازت حاصل کرتے ہیں وہی خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں سو جب یہ لوگ تم سے کسی کام کے لئے اجازت مانگا کریں تو ان میں سے جسے چاہا کرو اجازت دیدیا کرو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مان گا کرو کچھ شک نہیں کہ خدا بخشنے والا مہربان ہے
(62) سچے ایماندار تو وہی ہیں جو ظاہر و باطن کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب رسول اکرم ﷺ کے ساتھ جمعہ کی نماز کے لیے ہوتے ہیں یا آپ کے ساتھ کسی جہاد پر ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اجازت نہ لے لیں تو جمعہ یا جہاد سے واپس نہیں جاتے، اے پیغمبر ﷺ جو لوگ آپ سے ایسے موقع پر اجازت لیتے ہیں بس وہی اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ کو غزوہ تبوک میں ایک ضروری کام کے لیے آپ سے جانے کی اجازت طلب کریں تو ان میں سے آپ جس کو چاہیں اجازت دے دیا کریں اور اجازت دینے کے بعد بھی آپ ان کے لیے مغفرت کی دعا کیجیے بیشک اللہ تعالیٰ تائب کو بخشنے والا اور اس پر بڑا مہربان ہے۔ شان نزول : (آیت) ”۔ انما المؤمنون الذین امنوا“۔ (الخ) ابن اسحاق ؒ نے اور بیہقی ؒ نے دلائل میں عروہ اور محمد بن کعب قرضی سے روایت کیا ہے کہ احزاب کے سال جس وقت قریش مقابلہ کے لیے آئے تو انہوں نے مدینہ منورہ کے قریب مجمع الاسیال میں پڑاؤ ڈالا اور ان کا سپہ سالار ابوسفیان تھا، ادھر سے قبیلہ غطفان آیا اور اس نے احد پہاڑ کے کنارے پر پڑاؤ کیا، رسول اکرم ﷺ کو اس چیز کی اطلاع ہوئی تو آپ نے مدینہ منورہ کے باہر خندق کھودنے کا حکم دیا چناچہ آپ نے اور صحابہ کرام ؓ نے خندق کھودنی شروع کی چناچہ منافقین نے ٹال مٹول شروع کردی آتے اور معمولی ساکام کرکے بغیر آپ کی اجازت کے اس طریقہ پر کہ آپ کو معلوم نہ ہو سکے اپنے گھروں کی طرف چلے جاتے تھے اور مسلمانوں میں سے جب کسی آدمی کو بہت ضروری کام پیش آجاتا تو اپنے اس کام کا رسول اکرم ﷺ سے تذکرہ کرتا اور اپنے کام کے پورا کرنے کی آپ سے اجازت طلب کرتا، چناچہ اس کو اجازت دے دی جاتی جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوجاتا تو پھر فورا واپس آجا تا تھا تو ایسے مومنین کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ہے کہ سچے مومن تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔
Top