Tafseer-Ibne-Abbas - An-Noor : 63
وَ قَالَ لَهُمْ نَبِیُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا١ؕ قَالُوْۤا اَنّٰى یَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَیْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَ لَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ١ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَیْكُمْ وَ زَادَهٗ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُؤْتِیْ مُلْكَهٗ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
وَقَالَ : اور کہا لَهُمْ : انہیں نَبِيُّهُمْ : ان کا نبی اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ قَدْ بَعَثَ : مقرر کردیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے طَالُوْتَ : طالوت مَلِكًا : بادشاہ قَالُوْٓا : وہ بولے اَنّٰى : کیسے يَكُوْنُ : ہوسکتی ہے لَهُ : اس کے لیے الْمُلْكُ : بادشاہت عَلَيْنَا : ہم پر وَنَحْنُ : اور ہم اَحَقُّ : زیادہ حقدار بِالْمُلْكِ : بادشاہت کے مِنْهُ : اس سے وَلَمْ يُؤْتَ : اور نہیں دی گئی سَعَةً : وسعت مِّنَ : سے الْمَالِ : مال قَالَ : اس نے کہا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰىهُ : اسے چن لیا عَلَيْكُمْ : تم پر وَزَادَهٗ : اور اسے زیادہ دی بَسْطَةً : وسعت فِي : میں الْعِلْمِ : علم وَالْجِسْمِ : اور جسم وَاللّٰهُ : اور اللہ يُؤْتِيْ : دیتا ہے مُلْكَهٗ : اپنا بادشاہ مَنْ : جسے يَّشَآءُ : چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
مومنو ! پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو بیشک خدا کو وہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں تو جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑجائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو
(63) اور تم لوگ رسول اکرم ﷺ کو اپ کا نام لے کر ایک دوسرے کی طرح مت پکارو بلکہ تعظیم و توقیر اور عظمت کے ساتھ آپ کو پکارو کہ یا نبی اللہ اور یا رسول اللہ کہہ کر آواز دو۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دوسروں کی آڑ میں ہو کر تم میں سے مجلس نبوی ﷺ سے کھسک جاتے تھے، منافقین مسجد نبوی میں سے جس وقت نکلتے تو بغیر اجازت کے اس طرح سے کھسکتے تھے کہ کوئی ان کو دیکھنے نہ پائے۔ سو جو لوگ رسول اکرم ﷺ یا حکم خداوندی کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس چیز سے ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آٖت نہ آن پڑے یا کوئی درد ناک عذاب نازل نہ ہوجائے۔ شان نزول : (آیت) ”۔ لا تجعلوا دعآء الرسول بینکم“۔ (الخ) ابونعیم ؒ نے دلائل میں ضحاک ؒ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام ؓ آپ کو یا محمد ﷺ یا ابو القاسم کہا کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ تم لوگ رسول اکرم ﷺ کا نام لے کر ایک دوسرے کی طرح مت پکارو، چناچہ اس کے بعد صحابہ کرام ؓ نے یا نبی اللہ ﷺ یا رسول اللہ ﷺ کہنا شروع کردیا۔
Top