Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Ankaboot : 2
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ
اَحَسِبَ : کیا گمان کیا ہے النَّاسُ : لوگ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا : کہ وہ چھوڑ دئیے جائیں گے اَنْ : کہ يَّقُوْلُوْٓا : انہوں نے کہہ دیا اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَهُمْ : اور وہ لَا يُفْتَنُوْنَ : وہ آزمائے جائیں گے
کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ (صرف) یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دئیے جائیں گے اور انکی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟
شان نزول : (آیت) ”۔ احسب الناس“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ اور شعبی ؒ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ یہ آیت چند لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اور انہوں نے اسلام کا اقرار کرلیا تھا تو ان کی طرف اصحاب رسول اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ سے لکھا کہ تم سے کچھ قبول نہیں کیا جائے گا جب تک کہ ہجرت نہ کرو چناچہ یہ لوگ مدینہ منورہ کے ارادہ سے نکلے تو مشرکین نے ان کا تعاقب کیا اور پھر ان کو واپس لے گئے تو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے ان کو پھر لکھا کہ تمہارے بارے میں ایسا حکم نازل ہوا ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم ضرور ہجرت کے لیے نکلیں گے اگر ہمارا کوئی تعاقب کرے گا تو ہم اس سے لڑیں گے چناچہ یہ لوگ مکہ مکرمہ سے نکلے، مشرکین مکہ نے ان کا پیچھا کیا انہوں نے ان سے قتال کیا بعض لوگ ان میں سے مارے گئے اور بعض بچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ ”۔ ثم ان ربک للذین ھاجروا“۔ (الخ) اور قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ (آیت) ”الم، احسب الناس“۔ (الخ) کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اور وہاں سے رسول اکرم ﷺ کے پاس آنے کے ارادہ سے چلے، مشرکین نے ان کا سامنا کیا تو یہ واپس ہوگئے، ان کے مسلمان بھائیوں نے جو ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی تھی وہ ان کو لکھ بھیجی، چناچہ یہ وہاں سے پھر چلے تو جن کے حق میں قتل ہونا لکھا ہوا تھا وہ قتل ہوگئے اور جن کو بچنا تھا وہ بچ گئے، اس پر قرآن حکیم کی یہ آیت نازل ہوئی ”۔ والذین جاھدوا فینا“۔ (الخ) اور ابن سعد ؓ نے بواسطہ عبداللہ بن عبید ابن عمیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ (آیت) ”الم، احسب الناس“۔ (الخ) یہ آیت حضرت عمار بن یاسر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ وہ اللہ کی راہ میں تکالیف اٹھا رہے تھے۔
Top