Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 19
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآءَ كَرْهًا١ؕ وَ لَا تَعْضُلُوْهُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ١ۚ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تَرِثُوا : کہ وارث بن جاؤ النِّسَآءَ : عورتیں كَرْهًا : زبردستی وَلَا : اور نہ تَعْضُلُوْھُنَّ : انہیں روکے رکھو لِتَذْهَبُوْا : کہ لے لو بِبَعْضِ : کچھ مَآ : جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : ان کو دیا ہو اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ يَّاْتِيْنَ : مرتکب ہوں بِفَاحِشَةٍ : بےحیائی مُّبَيِّنَةٍ : کھلی ہوئی وَعَاشِرُوْھُنَّ : اور ان سے گزران کرو بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق فَاِنْ : پھر اگر كَرِھْتُمُوْھُنَّ : وہ ناپسند ہوں فَعَسٰٓى : تو ممکن ہے اَنْ تَكْرَهُوْا : کہ تم کو ناپسند ہو شَيْئًا : ایک چیز وَّيَجْعَلَ : اور رکھے اللّٰهُ : اللہ فِيْهِ : اس میں خَيْرًا : بھلائی كَثِيْرًا : بہت
مومنو ! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں میں) مت روک رکھنا۔ ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا نامناسب نہیں) اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو۔ اگر وہ تم کو ناپسند ہوں عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں سے بہت سی بھلائی پیدا کر دے۔
(19) اپنے آباء کی عورتوں کے مال کا زبردستی مالک ہونا حلال نہیں، اور ان کو شادی کرنے سے مت روکو تاکہ تمہارے آباء نے جو مال دیا ہے، وہ بھی وصول کرلو، یہ آیت کبشہ بنت معن انصاریہ اور محض بن ابی قیس انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور یہ لوگ اس سے قبل اس مال کے وارث ہوجایا کرتے تھے۔ مگر یہ کہ ان کے زنا پر گواہ قائم ہوجائیں تو پھر ان کو جیل میں بند رکھو اور جیل کا حکم آیت رجم سے منسوخ ہوگیا اور جس طریقہ سے وہ اپنے آباء کے اموال کے وارث ہوتے تھے، اسی طرح ان کی عورتوں کے بھی وارث ہوجایا کرتے تھے۔ سب سے بڑا لڑکا وارث بنتا تھا اگر وہ عورت خوبصورت اور مالدار ہوتی تو بغیر مہر کے اس سے تعلق قائم کرلیتا تھا اور اگر وہ مالدار نہ ہوتی بلکہ نوجوان اور خوبصورت ہوتی تو اس کو اسی طرح چھوڑ دیتا تھا یہاں تک یہ وہ اپنی جان کا اپنے مال سے فدیہ نہ ادا کردے، اللہ تعالیٰ نے جہالت کی ان تمام چیزوں کی ممانعت فرمادی پھر حسن معاملہ کا حکم فرماتے ہیں کہ ان بیویوں کے ساتھ خوبی سے پیش آیا کرو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد صالحہ عطا فرما دے۔ شان نزول : (آیت) ”یایھا الذین امنوا لا یحل“۔ (الخ) امام بخاری ؒ ابو داؤد ؒ اور نسائی ؒ نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جس وقت کوئی مرجاتا تھا تو اس کے اولیاء اس کی عورت کے زیادہ حق دار ہوتے تھے اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو خود شادی کرلیتا اور اگر چاہتے تو کہیں اور شادی کرا دیتے غرض یہ کہ اس کے گھروالوں سے زیادہ وہ اس کے حق دار بن جاتے تھے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن جریر ؒ اور ابن ابی حاتم ؒ نے سند حسن کے ساتھ ابوامامتہ بن سہل بن حنیف ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب ابو قیس کا انتقال ہوگیا تو ان کے لڑکے نے ان کی عورت سے شادی کرنا چاہی اور یہ چیز زمانہ جاہلیت میں جائز تھی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ایمان والو تمہارے لیے یہ حلال نہیں الخ اور ابن جریر ؒ نے عکرمہ ؓ سے بھی یہی روایت نقل کی ہے اور ابن ابی حاتم، فریابی اور طبرانی نے بواسطہ عدی بن ثابت ؓ ایک انصاری شخص سے روایت نقل کی ہے کہ ابوقیس بن اسلت کا انتقال ہوا اور وہ انصار کے شرفا میں سے تھے، تو ان کے لڑکے قیس نے ان کی بیوی کو نکاح کا پیغام دیا وہ بولیں میں تم کو اپنا بیٹا سمجھتی ہوں اور تم اپنی قوم کے شرفا میں سے ہو، اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ نے فرمایا اپنے گھر چلی جاؤ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top