Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 22
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرنا مگر (جاہلیت میں جو ہوچکا سو ہوچکا) یہ نہایت بےحیائی اور (خدا کی) ناخو شی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا۔
(22) اور اب اللہ تعالیٰ ان پر ان کے آباء کی عورتوں سے شادی کرنے کی حرمت کو بیان فرماتے ہیں، زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنے آباء کی عورتوں سے شادی کرلیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اس چیز کی ممانعت فرما دی۔ یعنی اپنے آباء کی عورتوں سے شادی مت کرو۔ البتہ زمانہ جاہلیت میں جو ہوگیا وہ معاف ہے یہ چیز بےحیائی اور نفرت والی اور بدترین طریقہ ہے، یہ آیت محسن بن ابی قیس انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ شان نزول : (آیت) ”ولا تنکحوا“۔ (الخ) یعنی جن سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہے ان سے نکاح مت کرو اور ابن سعد نے محمد بن کعب قرظی سے نقل کیا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی عورت کو چھوڑ کر مرجاتا تھا تو اس کا لڑکا اگر وہ اس کی ماں نہ ہوتی تھی اگر وہ چاہتا اس سے خوش شادی کرنے یا جس سے چاہے شادی کرانے کا زیادہ حق دار ہوتا جب ابوقیس بن اسلت انتقال کرگئے تو ان کے بعض لڑکے ان کی عورت سے شادی کرنے کے دعویدار ہوئے اور ان کو مال میں سے کچھ نہیں ملا تھا چناچہ وہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا جاؤ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے چناچہ (آیت) ”ولا تنکحوا“۔ اور ”۔ ولا یحل لکم“۔ یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔ نیز ابن سعد ہی نے زہری سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت کچھ انصاریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ ان میں جب کوئی مرجاتا تو اس کا ولی اس کی عورت کا زیادہ حق دار ہوتا تھا تو وہ اس کی عورت کو اس کے مرنے تک اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top