Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 24
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ : اور الْمُحْصَنٰتُ : خاوند والی عورتیں مِنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا : جو۔ جس مَلَكَتْ : مالک ہوجائیں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاُحِلَّ : اور حلال کی گئیں لَكُمْ : تمہارے لیے مَّا وَرَآءَ : سوا ذٰلِكُمْ : ان کے اَنْ : کہ تَبْتَغُوْا : تم چاہو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے مُّحْصِنِيْنَ : قید (نکاح) میں لانے کو غَيْرَ : نہ مُسٰفِحِيْنَ : ہوس رانی کو فَمَا : پس جو اسْتَمْتَعْتُمْ : تم نفع (لذت) حاصل کرو بِهٖ : اس سے مِنْھُنَّ : ان میں سے فَاٰتُوْھُنَّ : تو ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً : ان کے مہر مقرر کیے ہوئے وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : اس میں جو تَرٰضَيْتُمْ : تم باہم رضا مند ہوجاؤ بِهٖ : اس سے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد الْفَرِيْضَةِ : مقرر کیا ہوا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں۔ (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اسطرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی۔ تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو انکا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو۔ اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
(24) شوہر والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر اس حکم میں وہ مستثنی ہیں جو شرعی طور پر تمہاری مملوک ہوجائیں اور ان کے حربی شوہر ”دار الحرب“ میں موجود ہوں وہ ایک حیض آجانے (یا وضع حمل کے بعد) مشروط طور پر حلال ہیں، اللہ تعالیٰ نے کتاب اللہ میں جن کو حرام کردیا ہے وہ تم پر حرام ہیں۔ جن رشتوں کی حرمت بیان کردی گئی ان کے علاوہ چار تک شادی کرنا حلال ہے یا یہ کہ اپنے مالوں سے باندیاں خریدو یا اپنے اموال دے کر عورتوں سے شادی کرو مگر متع کا حکم منسوخ ہوگیا (وہ اب ہرگز کسی بھی نوعیت کے ساتھ کسی کے لیے بھی جائز نہیں) اس طریقہ پر تم ان کو بیوی بنا لو، مال دے کر نکاح کے علاوہ اور کوئی مستی کی صورت مت کرو اور نکاح کے بعد جب تم ان سے متمتع ہوجاؤ تو ان کو پورا مہر دو ، اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے تم پر پورا مہر دینا فرض کردیا ہے۔ مہرمتعین ہونے کے بعد باہم رضا مندی سے مقدار مہر میں کچھ کمی بیشی کرنے میں کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ نے اولا تمہارے متع کو حلال کیا اور پھر حرام کردیا یا یہ کہ متع کی طرف تمہاری اضطراری حالت کو جاننے کے بعد اس کے حرام کردینے میں وہ حکمت والا ہے۔ شان نزول : والمحصنت“۔ (الخ) امام مسلم ؒ ابو داؤد ؒ ، ترمذی ؒ اور نسائی ؒ ، ابوسعید خدری ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ اوطاس کے قیدیوں میں باندیاں ہمارے ہاتھ آئیں اور ان کے خاوند موجود تھے تو ہمیں یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوئی کہ ان کے خاوندوں کے موجود ہوتے ہوئے ہم ان سے متمتع ہوں۔ چناچہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس بابت دریافت کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اس حکم سے وہ باندیاں مستثنی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں تمہیں دی ہوں اگر ان کے کافر شوہر دارالحرب میں موجود ہوں۔ سو اس حکم کے بعد ہم ان سے متمتع ہوئے اور طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت غزوہ حنین میں نازل ہوئی کیوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غزوہ حنین میں مسلمانوں کو فتح عطا کی تو مسلمانوں کو مال غنیمت میں اہل کتاب کی ایسی عورتیں ملیں جن کے شوہر موجود تھے، چناچہ ہم میں سے جب کوئی شخص اپنی باندی کے پاس جاتا تو وہ کہتی کہ میرا شوہر ہے، رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں دریافت کیا گیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ، شان نزول : (آیت) ”ولا جناح علیکم“۔ (الخ) ابن جریر ؒ نے بواسطہ معمر بن سلیمان ان کے والد سے روایت نقل کی ہے، کہ حضرمی کو خیال ہوا کہ کچھ لوگ مہر (زیادہ) متعین کرلیتے ہیں پھر بعد میں تنگی ہوجاتی ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ مقرر کرنے کے بعد باہم رضامندی سے کمی بیشی میں کوئی گناہ نہیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top