Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ
: طلاق
مَرَّتٰنِ
: دو بار
فَاِمْسَاكٌ
: پھر روک لینا
بِمَعْرُوْفٍ
: دستور کے مطابق
اَوْ
: یا
تَسْرِيْحٌ
: رخصت کرنا
بِاِحْسَانٍ
: حسنِ سلوک سے
وَلَا
: اور نہیں
يَحِلُّ
: جائز
لَكُمْ
: تمہارے لیے
اَنْ
: کہ
تَاْخُذُوْا
: تم لے لو
مِمَّآ
: اس سے جو
اٰتَيْتُمُوْھُنَّ
: تم نے دیا ان کو
شَيْئًا
: کچھ
اِلَّآ
: سوائے
اَنْ
: کہ
يَّخَافَآ
: دونوں اندیشہ کریں
اَلَّا
: کہ نہ
يُقِيْمَا
: وہ قائم رکھ سکیں گے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا يُقِيْمَا
: کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَلَاجُنَاحَ
: تو گناہ نہیں
عَلَيْھِمَا
: ان دونوں پر
فِيْمَا
: اس میں جو
افْتَدَتْ
: عورت بدلہ دے
بِهٖ
: اس کا
تِلْكَ
: یہ
حُدُوْدُ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَلَا
: پس نہ
تَعْتَدُوْھَا
: آگے بڑھو اس سے
وَمَنْ
: اور جو
يَّتَعَدَّ
: آگے بڑھتا ہے
حُدُوْدَ اللّٰهِ
: اللہ کی حدود
فَاُولٰٓئِكَ
: پس وہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الظّٰلِمُوْنَ
: ظالم (جمع)
طلاق (صرف) دوبار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورتوں کو) یا تو بطریق شائستہ (نکاح میں) رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا۔ اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو۔ ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ خدا کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔ یہ خدا کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ان سے باہر نہ نکلنا۔ اور جو لوگ خدا کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے
رسم طلاق میں آئینی اصلاحات اور خلع : اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ خاوند جتنی چاہے طلاقیں دیتا چلا جائے اور عدت میں رجوع کرتا جائے اس سے عورتوں کی جان غضب میں تھی کہ طلاق دی، عدت گزرنے کے قریب آئی رجوع کرلیا، پھر طلاق دے دی اس طرح عورتوں کو تنگ کرتے رہتے تھے، پس اسلام نے حد بندی کردی کہ اس طرح کی طلاقیں صرف دو ہی دے سکتے ہیں۔ تیسری طلاق کے بعد لوٹا لینے کا کوئی حق نہ رہے گا، سنن ابو داؤد میں باب ہے کہ تین طلاقوں کے بعد مراجعت منسوخ ہے، پھر یہ روایت لائے ہیں کہ حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ نہ تو میں تجھے بساؤں گا نہ چھوڑوں گا، اس نے کہا یہ کس طرح ؟ طلاق دے دوں گا اور جہاں عدت ختم ہونے کا وقت آیا تو رجوع کرلوں گا، پھر طلاق دے دوں گا، پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلوں گا اور یونہی کرتا چلا جاؤں گا۔ وہ عورت حضور ﷺ کے پاس آئی اور اپنا یہ دکھ رونے لگی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، ایک اور روایت میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے نئے سرے سے طلاقوں کا خیال رکھنا شروع کیا اور وہ سنبھل گئے، اور تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کو لوٹا لینے کا کوئی حق حاصل نہ رہا اور فرما دیا گیا کہ دو طلاقوں تک تو تمہیں اختیار ہے کہ اصلاح کی نیت سے اپنی بیوی کو لوٹا لو اگر وہ عدت کے اندر ہے اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ لوٹاؤ اور عدت گزر جانے دو تاکہ وہ دوسرے سے نکاح کرنے کے قابل ہوجائے اور اگر تیسری طلاق دینا چاہتے ہو تو بھی احسان و سلوک کے ساتھ ورنہ اس کا کوئی حق نہ مارو، اس پر کوئی ظلم نہ کرو، اسے ضرر و نقصان نہ پہنچاؤ، ایک شخص نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ دو طلاقیں تو اس آیت میں بیان ہوچکی ہیں تیسری کا ذکر کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا آیت (اوتسریح باحسان) میں، جب تیسری طلاق کا ارادہ کرے تو عورت کو تنگ کرنا اس پر سختی کرنا تاکہ وہ اپنا حق چھوڑ کر طلاق پر آمادگی ظاہر کرے، یہ مردوں پر حرام ہے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (ۭوَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ) 4۔ النسآء :19) یعنی عورتوں کو تنگ نہ کرو تاکہ انہیں دئیے ہوئے میں سے کچھ لے لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ عورت اپنی خوشی سے کچھ دے کر طلاق طلب کرے جیسے فرمایا آیت (فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْۗــــــًٔـا مَّرِيْۗـــــــًٔـا) 4۔ النسآء :4) یعنی اگر عورتیں اپنی راضی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو بیشک وہ تمہارے لئے حلال طیب ہے اور جب میاں بیوی میں نااتفاقی بڑھ جائے عورت اس سے خوش نہ ہو اور اس کے حق کو نہ بجا لاتی ہو ایسی صورت میں وہ کچھ لے دے کر اپنے خاوند سے طلاق حاصل کرلے تو اسے دینے میں اور اسے لینے میں کوئی گناہ نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر عورت بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع طلب کرتی ہے تو وہ سخت گنہگار ہے چناچہ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے بےسبب طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے، اور روایت میں ہے کہ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے آتی ہے، اور روایت میں ہے کہ ایسی عورتیں منافق ہیں، آئمہ سلف و خلف کی ایک بڑی جماعت کا فرمان ہے کہ خلع صرف اسی صورت میں ہے کہ نافرمانی اور سرکشی عورت کی طرف سے ہو، اس وقت مرد فدیہ لے کر اس عورت کو الگ کرسکتا ہے جیسے قرآن پاک کی اس آیت میں ہے اس کے سوا کی صورت میں یہ سب جائز نہیں، بلکہ حضرت امام مالک تو فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو تکلیف پہنچا کر اس کے حق میں کمی کر کے اگر اسے مجبور کیا گیا اور اس سے کچھ مال واپس لیا گیا تو اس کا لوٹا دینا واجب ہے، امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب حالت اختلاف میں جائز ہے تو حالت اتفاق میں بطور اولی جائز ٹھہرے گا، بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سرے سے خلع منسوخ ہے کیونکہ قرآن میں ہے آیت (وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا) 4۔ النسآء :20) یعنی اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مردود ہے، اب آیت کا شان نزول سنئے، موطا مالک میں ہے کہ حبیبہ بن سہل انصاریہ حضرت ثابت بن قیس شماس کی بیوی تھیں، آنحضرت ﷺ ایک دن صبح کی نماز کیلئے اندھیرے اندھیرے نکلے تو دیکھا کہ دروازے پر حضرت حبیبہ کھڑے ہیں، آپ نے پوچھا کون ہے ؟ کہا میں حبیبہ بن سہل ہوں۔ فرمایا کیا بات ہے ؟ کہا حضور ﷺ میں ثابت بن قیس کے گھر میں نہیں رہ سکتی یا وہ نہیں یا میں نہیں، آپ سن کر خاموش رہے۔ جب ثابت آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری بیوی صاحبہ کچھ کہہ رہی ہیں۔ حضرت حبیبہ نے کہا حضور ﷺ میرے خاوند مجھے جو دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے اور میں اسے واپس کرنے پر آمادہ ہوں۔ آپ ﷺ نے حضرت ثابت کو فرمایا سب لے لو، چناچہ انہوں نے لے لیا اور حضرت حبیبہ آزاد ہوگئیں، ایک روایت میں ہے کہ حضرت ثابت نے انہیں مارا تھا اور اس مار سے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ حضور ﷺ نے جب انہیں یہ فرمایا اس وقت انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں یہ مال لے سکتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، کہا میں نے اسے دو باغ دئیے ہیں، یہ سب واپس دلوا دیجئے۔ وہ مہر کے دونوں باغ واپس کئے گئے اور جدائی ہوگئی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حبیبہ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں اس کے اخلاق اور دین میں عیب گیری نہیں کرتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں چناچہ مال لے کر حضرت ثابت نے طلاق دے دی۔ بعض روایات میں ان کا نام جمیلہ بھی آیا ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مجے اب غیظ و غضب کے برداشت کی طاقت نہیں رہی۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو دیا ہے لے لو، زیادہ نہ لینا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حبیبہ نے فرمایا تھا وہ صورت کے اعتبار سے بھی کچھ حسین نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن ابی کی بہن تھیں اور سب سے پہلا خلع تھا جو اسلام میں ہوا۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ حضرت ﷺ میں نے ایک مرتبہ خیمے کے پردہ کو جو اٹھایا تو دیکھا کہ میرے خاوند چند آدمیوں کے ساتھ آ رہے ہیں، ان تمام میں یہ سیاہ فام چھوٹے قد والے اور بدصورت تھے۔ حضور ﷺ کے اس فرمان پر کہ اس کا باغ واپس کرو، حبیبہ نے کہا تھا کہ آپ فرمائیں تو میں اس کے منہ پر تھوک دیا کرتی، جمہور کا مذہب تو یہ ہے کہ خلع عورت اپنے سے دئیے ہوئے سے زیادہ لے تو بھی جائز ہے کیونکہ قرآن نے آیت (فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ) 2۔ البقرۃ :229) فرمایا ہے، حضرت عمر کے پاس ایک عورت اپنے خاوند سے بگڑی ہوئی آئی، آپ نے فرمایا اسے گندگی والے گھر میں قید کردو پھر قید خانہ سے اسے بلوایا اور کہا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا آرام کی راتیں مجھ پر میری زندگی میں یہی گزری ہیں۔ آپ نے اس کے خاوند سے فرمایا اس سے خلع کرلے۔ اگرچہ گوشوارہ کے بدلے ہی ہو، ایک روایت میں ہے اسے تین دن وہاں قید رکھا تھا، ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر یہ اپنی چٹیا کی دھجی بھی دے تو لے لے اور اسے الگ کر دے۔ حضرت عثمان فرماتے ہیں اس کے سوا سب کچھ لے کر بھی خلع ہوسکتا ہے۔ ربیع بنت معوذ بن عفراء فرماتی ہیں میرے خاوند اگر موجود ہوتے تو بھی میرے ساتھ سلوک کرنے میں کمی کرتے اور کہیں چلے جاتے تو بالکل ہی محروم کردیتے۔ ایک مرتبہ جھگڑے کے موقع پر میں نے کہہ دیا کہ میری ملکیت میں جو کچھ ہے لے لو اور مجھے خلع دو۔ اس نے کہا اور یہ معاملہ فیصل ہوگیا لیکن میرے چچا معاذ بن عفراء اس قصہ کو لے کر حضرت عثمان کے پاس گئے۔ عثمان نے بھی اسے برقرار رکھا اور فرمایا کہ چوٹی کی دھجی چھوڑ کر سب کچھ لے لو، بعض روایتوں میں ہے یہ بھی اور اس (سیس) چھوٹی چیز بھی غرض سب کچھ لے لو، پس مطلب ان واقعات کا یہ ہے کہ یہ دلیل ہے اس پر کہ عورت کے پاس جو کچھ ہے دے کر وہ خلع کرا سکتی ہے اور خاوند اپنی دی ہوئی چیز سے زائد لے کر بھی خلع کرسکتا ہے۔ ابن عمر، ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، ابراہیم، نخعی، قیصہ بن ذویب، حسن بن صالح عثمان رحم اللہ اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام مالک، لیث، امام شافعی اور ابو ثور کا مذہب بھی یہی ہے۔ امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اصحاب ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر قصور اور ضرر رسانی عورت کی طرف سے ہو تو خاوند کو جائز ہے کہ جو اس نے دیا ہے واپس لے لے، لیکن اس سے زیادہ لینا جائز نہیں۔ گو زیادہ لے لے تو بھی قضاء کے وقت جائز ہوگا اور اگر خاوند کی اپنی جانب سے زیادتی ہو تو اسے کچھ بھی لینا جائز نہیں۔ گو، لے لے تو قضا جائز ہوگا۔ امام احمد ابو عبید اور اسحاق بن راھویہ فرماتے ہیں کہ خاوند کو اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا جائز ہی نہیں۔ سعید بن مسیب عطاء عمرو بن شعیب زہری طاؤس حسن شعبی حماد بن ابو سلیمان اور ربیع بن انس کا بھی یہی مذہب ہے۔ عمر اور حاکم کہتے ہیں حضرت علی کا بھی یہ فیصلہ ہے۔ اوزاعی کا فرمان ہے کہ قاضیوں کا فیصلہ ہے کہ دئیے ہوئے سے زیادہ کو جائز نہیں جانتے۔ اس مذہب کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے جس میں ہے کہ اپنا باغ لے لو اور اس سے زیادہ نہ لو۔ مسند عبد بن حمید میں بھی ایک مرفوع حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے خلع لینے والی عورت سے اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا مکروہ رکھا، اور اس صورت میں جو کچھ فدیہ وہ دے لے گا، کا لفظ قرآن میں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دئیے ہوئے میں سے جو کچھ دے، کیونکہ اس سے پہلے یہ فرمان موجود ہے کہ تم نے جو انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ نہ لو، ربیع کی قرأت میں بہ کے بعد منہ کا لفظ بھی ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرو ورنہ گنہگار ہوں گے (فصل) خلع کو بعض حضرات طلاق میں شمار نہیں کرتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں ہیں پھر اس عورت نے خلع کرا لیا ہے تو اگر خاوند چاہے تو اس سے پھر بھی نکاح کرسکتا ہے اور اس پر دلیل یہی آیت وارد کرتے ہیں۔ یہ قول حضرت ابن عباس کا ہے، حضرت عکرمہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ طلاق نہیں، دیکھو آیت کے اول و آخر طلاق کا ذکر ہے پہلے دو طلاقوں کا پھر آخر میں تیسری طلاق کا اور درمیان میں جو خلع کا ذکر ہے، پس معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے۔ امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عمر طاؤس عکرمہ، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور، داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام شافعی کا بھی قدیم قول یہی ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ بعض دیگر بزرگ فرماتے ہیں کہ خلع طلاق بائن ہے اور اگر ایک سے زیادہ کی نیت ہوگی تو وہ بھی معتبر ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ام بکر اسلمیہ نے اپنے خاوند عبداللہ بن خالد سے خلع لیا اور حضرت عثمان نے اسے ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر کچھ سامان لیا ہو تو جتنا سامان لیا ہو وہ ہے، لیکن یہ اثر ضعیف ہے واللہ اعلم۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عمر، سعید بن مسیب، حسن، عطا، شریح، شعبی، ابراہیم، جابر بن زید، مالک، ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی ثوری، اوزاعی، ابو عثمان بتی کا یہی قول ہے کہ خلع طلاق ہے۔ امام شافعی کا بھی جدید قول یہی ہے، ہاں حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر دو طلاق کی نیت خلع دینے والے کی ہے تو دو ہوجائیں گی۔ اگر کچھ کچھ لفظ نہ کہے اور مطلق خلع ہو تو ایک طلاق بائن ہوگی اگر تین کی نیت ہے تو تین ہوجائیں گی۔ امام شافعی کا ایک اور قول بھی ہے کہ اگر طلاق کا لفظ نہیں اور کوئی دلیل و شہادت بھی نہیں تو وہ بالکل کوئی چیز نہیں۔ مسئلہ : امام ابو حنیفہ، شافعی احمد، اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ خلع کی عدت طلاق کی عدت ہے۔ عمر علی ابن مسعود اور سعید بن مسیب، سلمان بن یسار، عمروہ، سالم، ابو سلمہ، عمر بن عبدالعزیز، ابن شہاب، حسن، شعبی، ابراہیم نخعی، ابو عیاض، خلاس بن عمرو، قتادہ، سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد اور ابو عبید رحمتہ اللہ علیھم اجمعین کا بھی یہی فرمان ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں اکثر اہل علم اسی طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلع طلاق ہے لہذا عدت اس کی عدت طلاق کے مثل ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک حیض اس کی عدت ہے۔ حضرت عثمان کا یہی فیصلہ ہے، ابن عمر گو تین حیض کا فتویٰ دیتے تھے لیکن ساتھ ہی فرما دیا کرتے تھے کہ حضرت عثمان ہم سے بہتر ہیں اور ہم سے بڑے عالم ہیں، اور ابن عمر سے ایک حیض کی مدت بھی مروی ہے۔ ابن عباس، عکرمہ، امان بن عثمان اور تمام وہ لوگ جن کے نام اوپر آئے ہیں جو خلع کو فسخ کہتے ہیں ضروری ہے کہ ان سب کا قول بھی یہی ہو، ابو داؤد اور ترمذی کی حدیث میں بھی یہی ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی صاحبہ کو آپ نے اس صورت میں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا تھا، ترمذی میں ہے کہ ربیع بنت معوذ کو بھی خلع کے بعد ایک ہی حیض عدت گزارنے کا حضور ﷺ کا فرمان صادر ہوا تھا۔ حضرت عثمان نے خلع والی عورت سے فرمایا تھا کہ تجھ پر عدت ہی نہیں۔ ہاں اگر قریب کے زمانہ میں ہی خاوند سے ملی ہو تو ایک حیض آجانے تک اس کے پاس ٹھہری رہو۔ مریم مغالبہ کے بارے میں حضور ﷺ کا جو فیصلہ تھا اس کی متابعت حضرت امیرالمومنین نے کی۔ مسئلہ : جمہور علمائے کرام اور چاروں اماموں کے نزدیک خلع والی عورت سے رجوع کرنے کا حق خاوند کو حاصل نہیں، اس لئے کہ اس نے مال دے کر اپنے تئیں آزاد کرا لیا ہے۔ عبداللہ بن ابی اوفی، ماہان حنفی، سعید اور زہری کا قول ہے کہ اگر واپس کیا پھیر دے تو حق رجعت حاصل ہے بغیر عورت کی رضامندی کے بھی رجوع کرسکتا ہے۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگر خلع میں طلاق کا لفظ نہیں تو وہ صرف جدائی ہے اور رجوع کرنے کا حق نہیں اور اگر طلاق کا نام لیا ہے تو بیشک وہ رجعت کا پورا پورا حقدار ہے، داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں، ہاں سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں رضامند ہوں تو نیا نکاح عدت کے اندر اندر کرسکتے ہیں۔ عبدالبر ایک فرقہ کا یہ قول بھی حکایت کرتے ہیں کہ عدت کے اندر جس طرح دوسرا کوئی اس سے نکاح نہیں کرسکتا، اسی طرح خلع دینے والا خاوند بھی نکاح نہیں کرسکتا، لیکن یہ قول شاذ اور مردود ہے۔ مسئلہ : اس عورت پر عدت کے اندر اندر دوسری طلاق بھی واقع ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ اس میں علماء کے تین قول ہیں۔ ایک یہ کہ نہیں، کیونکہ وہ عورت اپنے نفس کی مالکہ ہے اور اس خاوند سے الگ ہوگئی ہے، ابن عباس ابن زبیر عکرمہ جابر بن زید حسن بصری شافعی احمد اسحاق ابو ثور کا یہی قول ہے۔ دوسرا قول امام مالک کا ہے کہ اگر خلع کے ساتھ ہی بغیر خاموش رہے طلاق دے دے تو واقع ہوجائے گی ورنہ نہیں، یہ مثل اس کے ہے جو حضرت عثمان سے مروی ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ عدت میں طلاق واقع ہوجائے گی۔ ابوحنیفہ ان کے اصحاب، ثوری، اوزاعی، سعید بن مسیب، شریح، طاؤس، ابراہیم، زہری، حاکم، حکم اور حماد کا بھی یہی قول ہے۔ ابن مسعود اور ابو الدرداء سے بھی یہ مروی تو ہے لیکن ثابت نہیں۔ پھر فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نہ بڑھو، فرائض کو ضائع نہ کرو، محارم کی بےحرمتی نہ کرو، جن چیزوں کا ذکر شریعت میں نہیں تم بھی ان سے خاموش رہو کیونکہ اللہ کی ذات بھول چوک سے پاک ہے۔ اس آیت سے استدلال ہے ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ تینوں طلاقیں ایک مرتبہ ہی دینا حرام ہیں۔ مالکیہ اور ان کے موافقین کا یہی مذہب ہے، ان کے نزدیک سنت طریقہ یہی ہے کہ طلاق ایک ایک دی جائے کیونکہ آیت (الطلاق مرتان) کہا پھر فرمایا کہ یہ حدیں ہیں اللہ کی، ان سے تجاوز نہ کرو، اس کی تقویت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن نسائی میں ہے۔ حضور ﷺ کو ایک مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں۔ آپ سخت غضبناک ہو کر کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اگر حضور ﷺ اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کرو، لیکن اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔
Top