Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - An-Noor : 36
فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ١ۙ یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِۙ
فِيْ بُيُوْتٍ
: ان گھروں میں
اَذِنَ
: حکم دیا
اللّٰهُ
: اللہ
اَنْ تُرْفَعَ
: کہ بلند کیا جائے
وَيُذْكَرَ
: اور لیا جائے
فِيْهَا
: ان میں
اسْمُهٗ
: اس کا نام
يُسَبِّحُ
: تسبیح کرتے ہیں
لَهٗ
: اس کی
فِيْهَا
: ان میں
بِالْغُدُوِّ
: صبح
وَالْاٰصَالِ
: اور شام
(وہ قندیل) ان گھروں میں (ہے) جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ بلند کئے جائیں اور وہاں خدا کے نام کا ذکر کیا جائے (اور) ان میں صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہیں
مومن کے دل سے مماثلت مومن کے دل کی اور اس میں جو ہدایت وعلم ہے اس کی مثال اوپر والی آیت میں اس روشن چراغ سے دی تھی جو شیشہ کی ہانڈی میں ہو اور صاف زیتون کے روشن تیل سے جل رہا ہے۔ اس لیئے یہاں اس کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کی توحید بیان کی جاتی ہے۔ جن کی نگہبانی اور پاک صاف رکھنے کا اور بیہودہ اقوال و افعال سے بچانے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ ابن عباس ؓ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ان ترفع کے معنی اس میں بیہودگی نہ کرنے کے ہیں۔ قتادہ ؒ فرماتے ہیں مراد اس سے یہی مسجدیں ہیں جن کی تعمیر، آبادی، ادب اور پاکیزگی کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ کعب ؒ کہا کرتے تھے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے کہ زمین پر مسجدیں میرا گھر ہیں، جو بھی باوضو میرے گھر پر میری ملاقات کے لئے آئے گا، میں اس کی عزت کرونگا ہر اس شخص پر جس سے ملنے کے لئے کوئی اس کے گھر آئے حق ہے کہ وہ اس کی تکریم کرے (تفسیر ابن ابی حاتم) مسجدوں کے بنانے اور ان کا ادب احترام کرنے انہیں خوشبودار اور پاک صاف رکھنے کے بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جنہیں بحمد اللہ میں نے ایک مستقل کتاب میں لکھا ہے یہاں بھی ان میں سے تھوڑی بہت وارد کرتا ہوں، اللہ مدد کرے اسی پر بھروسہ اور توکل ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لئے اسی جیسا گھر جنت میں بناتا ہے (بخاری ومسلم) فرماتے ہیں نام اللہ کے ذکر کئے جانے کے لئے جو شخص مسجد بنائے اللہ اس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے۔ (ابن ماجہ) حضور ﷺ نے حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور پاک صاف اور خوشبودار رکھی جائیں (ترمذی شریف) حضرت عمر ؓ کا فرمان ہے لوگوں کے لئے مسجدیں بناؤ جہاں انہیں جگہ ملے لیکن سرخ یا زردرنگ سے بچو تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں۔ (بخاری شریف) ایک ضعیف سند سے مروی ہے کہ جب تک کسی قوم نے اپنی مسجدوں کو ٹیپ ٹاپ والا، نقش ونگار اور رنگ روغن والا نہ بنایا ان کے اعلام برے نہیں ہوئے (ابن ماجہ) اس کی سند ضعیف ہے۔ آپ فرماتے ہیں مجھے مسجدوں کو بلند وبالا اور پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ابن عباس راوی حدیث فرماتے ہیں کہ تم یقینا مسجدوں کو مزین، منقش اور رنگ دار کروگے جیسے کہ یہود و نصاری نے کیا (ابو داؤد) فرماتے ہیں قیامت قارئم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر فخروغرور نہ کرنے لگیں (ابوداؤد وغیرہ) ایک شخص مسجد میں اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا آیا اور کہنے لگا ہے کوئی جو مجھے میرے سرخ رنگ کے اونٹ کا پتہ دے۔ آپ نے بددعا کی کہ اللہ کرے تجھے نہ ملے۔ مسجدیں تو جس مطلب کے لئے بنائی گئی ہیں، اسی کام کے لئے ہیں (مسلم) حضور ﷺ نے مسجدوں میں خریدوفروخت، تجارت کرنے سے اور وہاں اشعار کے گائے جانے سے منع فرمادیا ہے (احمد وغیرہ) فرمان ہے کہ جسے مسجد میں خریدو فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو گم شدہ جانور مسجد میں تلاش کرتا ہوا پاؤ تو کہو کہ اللہ کرے نہ ملے۔ (ترمذی) بہت سی باتیں مسجد کے لائق نہیں، مسجد کو راستہ نہ بنایا جائے، نہ تیر پھیلائے جائیں نہ کچا گوشت لایا جائے، نہ یہاں حد ماری جائے، نہ یہاں باتیں اور قصے کہے جائیں نہ اسے بازار بنایا جائے (ابن ماجہ) فرمان ہے کہ ہماری مسجدوں سے اپنے بچوں کو، دیوانوں کو، خیریدوفروخت کو، لڑائی جھگڑے کو اور بلند آواز سے بولنے کو اور حد جاری کرنے کو اور تلواروں کے ننگی کرنے کو روکو۔ ان کے دروازوں پر وضو وغیرہ کی جگہ بناؤ اور جمعہ کے دن انہیں خوشبو سے مہکا دو (ابن ماجہ) اس کی سند ضعیف ہے۔ بعض علماء نے بلا ضرورت کے مسجدوں کو گزر گاہ بنانا مکروہ کہا ہے۔ ایک اثر میں ہے کہ جو شخص بغیر نماز پڑھے مسجد سے گزر جائے، فرشتے اس پر تعجب کرتے ہیں۔ ہتھیاروں اور تیروں سے جو منع فرمایا یہ اس لئے کہ مسلمان وہاں بکثرت جمع ہوتے ہیں ایسان نہ ہو کہ کسی کے لگ جائے۔ اسی لئے حضور ﷺ کا حکم ہے کہ تیر یا نیزہ لے کر گزرے تو اسے چاہئے کہ اس کا پھل اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ کسی کو ایذاء نہ پہنچے۔ کچا گوشت لانا اس لئے منع ہے کہ خوف ہے اس میں سے خون نہ ٹپکے جیسے کہ حائضہ عورت کو بھی اسی وجہ سے مسجد میں آنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔ مسجد میں حد لگانا اور قصاص لینا اس لئے منع کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شخص مسجد کو نجس نہ کردے۔ بازار بنانا اس لئے منع ہے کہ وہ خریدوفروخت کی جگہ ہے اور مسجد میں یہ دونوں باتیں منع ہیں۔ کیونکہ مسجدیں ذکر اللہ اور نماز کی جگہ ہیں۔ جیسے کہ حضور ﷺ نے اس اعرابی سے فرمایا تھا، جس نے مسجد کے گوشے میں پیشاب کردیا تھا کہ مسجدیں اس لئے نہیں بنیں، بلکہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز کی جگہ ہے۔ پھر اس کے پیشاب پر ایک بڑا ڈول پانی کا بہانے کا حکم دیا۔ دوسری حدیث میں ہے اپنے بچوں کو اپنی مسجدوں سے روکو اس لئے کہ کھیل کود ہی ان کا کام ہے اور مسجد میں یہ مناسب نہیں۔ چناچہ فاروق اعظم ؓ جب کسی بچے کو مسجد میں کھیلتا ہوا دیکھ لیتے تو اسے کوڑے سے پیٹتے اور عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں کسی کو نہ رہنے دیتے۔ دیوانوں کو بھی مسجدوں سے روکا گیا کیونکہ وہ بےعقل ہوتے ہیں اور لوگوں کے مذاق کا ذریعہ ہوتے ہیں اور مسجد اس تماشے کے لائق نہیں۔ اور یہ بھی ہے کہ ان کی نجاست وغیرہ کا خوف ہے۔ بیع وشرا سے روکا گیا کیونکہ وہ ذکر اللہ سے مانع ہے۔ جھگڑوں کی مصالحتی مجلس منعقد کرنے سے اس لئے منع کردیا گیا کہ اس میں آوازیں بلند ہوتی ہیں ایسے الفاظ بھی نکل جاتے ہیں جو آداب مسجد کے خلاف ہیں۔ اکثر علماء کا قول ہے کہ فیصلے مسجد میں نہ کئے جائیں اسی لئے اس جملے کے بعد بلند آواز سے منع فرمایا۔ سائب بن یزید کندی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں " میں مسجد میں کھڑا تھا کہ اچانک مجھ پر کسی نے کنکر پھینکا، میں نے دیکھا تو وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ تھے مجھ سے فرمانے لگے، جاؤ ان دونوں شخصوں کو میرے پاس لاؤ، جب میں آپ کے پاس انہیں لایا تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا۔ تم کون ہو ؟ یا پوچھا کہ " تم کہاں کے ہو "؟ انہوں نے کہ " ہم طائف کے رہنے والے ہیں "۔ آپ نے فرمایا " اگر تم یہاں رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا تم مسجد نبوی میں اونچی اونچی آوازوں سے بول رہے ہو " ؟ (بخاری) ایک شخص کی اونچی آواز سن کر جناب فاروق اعظم ؓ نے فرمایا تھا۔ " جانتا بھی ہے تو کہاں ہے "۔ (نسائی) اور مسجد کے دروازوں پر وضو کرنے والے اور پاکیزگی حاصل کرنے کی جگہ بنانے کا حکم دیا۔ مسجد نبوی کے قریب ہی کنویں تھے جن میں سے پانی کھینچ کر پیتے تھے اور وضو اور پاکیزگی حصل کرتے تھے۔ اور جمعہ کے دن اسے خوشبودار کرنے کا حکم ہوا ہے کیونکہ اس دن لوگ بکثر جمع ہوتے ہیں۔ چناچہ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ہر جمعہ کے دن مسجد نبوی کو مہکایا کرتے تھے۔ بخاری ومسلم میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جماعت کی نماز انسان کی اکیلی نماز پر جو گھر میں یا دکان پر پڑھی جائے، پچیس درجے زیادہ ثواب رکھتی ہے، یہ اس لئے کہ جب وہ اچھی طرح سے وضو کرکے صرف نماز کے ارادے سے چلتا ہے تو ہر ایک قدم کے اٹھانے پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور جب نماز پڑھ چکتا ہے پھر جت تک وہ اپنی نماز کی جگہ رہے، فرشتے اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرما اور اس پر رحم کر۔ اور جب تک جماعت کے انتظار میں رہے نماز کا ثواب ملتا رہتا ہے "۔ دار قطنی میں ہے مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے سوا نہیں ہوتی۔ سنن میں ہے اندھیروں میں مسجد جانے والوں کو خوشخبری سنادو کہ انہیں قیامت کے دن پورا پورا نور ملے گا۔ یہ بھی مستحب ہے کہ مسجد میں جانے والا پہلے اپنا داہنا قدم رکھے اور یہ دعا پڑھے۔ بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ جب مسجد میں آتے یہ کہتے دعا (اعوذ باللہ العظیم وبوجہہ الکریم و سلطانہ القدیم من الشیطان الرجیم) فرمان ہے کہ جب کوئی شخص یہ پڑھتا ہے شیطان کہتا ہے میرے شر سے یہ تمام دن محفوظ ہوگیا۔ مسلم میں حضور ﷺ کا فرمان مروی ہے کہ تم میں سے کوئی مسجد میں جانا چاہے یہ دعا پڑھے (اللہم افتح لی ابو ابک رحمتک) اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو اللہ کے نبی ﷺ پر سلام بھیجے پھر دعا (اللہم افتح لی ابو اب رحمتک) پڑھے اور جب مسجد سے نکلے تو نبی ﷺ پر سلام بھیج کر دعا (اللم اعصمنی من الشیطان الرجیم) پڑھے۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ جب آپ مسجد میں آتے تو درود پڑھ کر دعا (اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب رحمتک) پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود کے بعد دعا (اللہم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب فضلک) پڑھتے۔ اس حدیث کی سند متصل نہیں۔ الغرض یہ اور ان جیسی اور بہت سی حدیثیں اس آیت کے متعلق ہیں جو مسجد اور احکام مسجد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اور آیت میں ہے تم ہر مسجد میں اپنا منہ سیدھا رکھو۔ اور خلوص کے ساتھ صرف اللہ کو پکارو۔ ایک اور آیت میں ہے کہ مسجدیں اللہ ہی کی ہیں۔ اس کا نام ان میں لیا جائے یعنی کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے۔ صبح شام وہاں اس اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں آصال جمع ہے اصیل کی، شام کے وقت کو اصیل کہتے ہیں۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں جہاں کہیں قرآن میں تسبیح کا لفظ ہے وہاں مراد نماز ہے۔ پس یہاں مراد صبح کی اور عصر کی نماز ہے۔ پہلے پہلے یہی دو نمازیں فرض ہوئی تھیں پس وہی یاد دلائی گئیں۔ ایک قرأت میں یسبح ہے اور اس قرأت پر آصال پر پورا وقف ہے اور رجال سے پھر دوسری بات شروع ہے گویا کہ وہ مفسر ہے فاعل محذوف کے لئے۔ تو گویا کہا گیا کہ وہاں تسبیح کون کرتے ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ ایسے لوگ اور یسبح کی قرأت پر رجال فاعل ہے تو وقف فاعل کے بیان کے بعد چاہئے۔ کہتے ہیں رجال اشارہ ہے ان کے بہترین مقاصد اور ان کی پاک نیتوں اور اعلی کاموں کی طرف یہ اللہ کے گھروں کے آباد رکھنے والے ہیں۔ اس کی عبادت کی جگہیں ان سے زینت پاتی ہیں، توحید اور شکر گزری کرنے والے ہیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ 23ۙ) 33۔ الأحزاب :23) ، یعنی مومنوں میں ایسے بھی مرد ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کئے تھے انہیں پورے کر دکھایا۔ ہاں عورتوں کی بہترین مسجد گھر کے اندر کا کونا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کی بیوی صاحبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا حضور ﷺ میں آپ کے ساتھ نماز ادا کرنا بہت پسند کرتی ہوں۔ آپ نے فرمایا یہ مجھے بھی معلوم ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تیری اپنے گھر کی نماز صحن کی نماز سے اور حجرے کی نماز گھر کی نماز سے اور گھر کی کوٹھڑی کی نماز حجرے کی نماز سے افضل ہے۔ اور محلے کی مسجد سے افضل گھر کی نماز ہے اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے افضل ہے۔ یہ سن کر مائی صاحبہ نے اپنے گھر کے بالکل انتہائی حصے میں ایک جگہ کو بطور مسجد کے مقرر کرلیا اور آخری گھڑی تک وہیں نماز پڑھتی رہیں۔ ؓ۔ ہاں البتہ عورتوں کے لئے بھی مسجد میں مردوں کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ضرور ہے۔ بشرطیکہ مردوں پر اپنی زینت ظاہر نہ ہونے دیں اور نہ خوشبو لگا کر نکلیں۔ صحیح حدیث میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو (بخاری مسلم وغیرہ) ابو داؤد میں ہے کہ عورتوں کے لئے ان کے گھر افضل ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ وہ خوشبو استعمال کر کے نہ نکلیں۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ آپ نے عورتوں سے فرمایا جب تم میں سے کوئی مسجد آنا چاہے تو خوشبو کو ہاتھ بھی نہ لگائے "۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ مسلمان عورتیں صبح کی نماز میں آتی تھیں پھر وہ اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی چلی جاتی تھیں اور بوجہ رات کے اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ عورتوں نے یہ جو نئی نئی باتیں نکالیں ہیں اگر رسول اللہ ﷺ ان باتوں کو پالیتے تو انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جیسے کہ بنو اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں۔ (بخاری مسلم) ایسے لوگ جنہیں خریدو فروخت یاد الہٰی سے نہیں روکتی۔ جیسے ارشاد ہے ایمان والو، مال واولاد تمہیں ذکر اللہ سے غافل نہ کر دے۔ سورة جمعہ میں ہے کہ جمعہ کی اذان سن کر ذکر اللہ کی طرف چل پڑو اور تجارت چھوڑ دو۔ مطلب یہ ہے کہ ان نیک لوگوں کو دنیا اور متاع آخرت اور ذکر اللہ سے غافل نہ کرسکتی، انہیں آخرت اور آخرت کی نعمتوں پر یقین کامل ہے اور انہیں ہمیشہ رہنے والا سمجھتے ہیں اور یہاں کی چیزوں کو فانی جانتے ہیں اس لئے انہیں چھوڑ کر اس طرف توجہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو، اس کی محبت کو، اس کے احکام کو مقدم کرتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے ایک مرتبہ تجارت پیشہ حضرات کو اذان سن کر اپنے کام کاج چھوڑ کر مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا یہ لوگ انہی میں سے ہیں۔ ابن عمر ؓ سے بھی یہی مروی ہے۔ ابو درداء ؓ فرماتے ہیں کہ میں سوداگری یا تجارت کروں اگرچہ اس میں مجھے ہر دن تین سو اشرفیاں ملتی ہوں لیکن میں نمازوں کے وقت یہ سب چھوڑ کر ضرور چلا جاؤں گا۔ میرا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تجارت کرنا حرام ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم میں یہ وصف ہونا چاہئے، جو اس آیت میں بیان ہو رہا ہے۔ سالم بن عبداللہ نماز کے لئے جا رہے تھے۔ دیکھا کہ مدینہ شریف کے سوداگر اپنی اپنی دکانوں پر کپڑے ڈھک کر نماز کے لئے گئے ہوئے ہیں اور کوئی بھی دکان پر موجود نہیں تو یہی آیت پڑھی اور فرمایا یہ انہی میں سے ہیں جن کی تعریف جناب باری نے فرمائی ہے۔ اس بات کا سلف میں یہاں تک خیال تھا کہ ترازو اٹھائے تول رہے ہیں اور اذان کان میں پڑی تو ترازو رکھ دی اور مسجد کی طرف چل دئے فرض نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنے کا انہیں عشق تھا۔ وہ نماز کے اوقات کی ارکان اور آداب کی حفاظت کے ساتھ نمازوں کے پابند تھے۔ یہ اس لئے کہ دلوں میں خوف الہٰی تھا قیامت کا آنا برحق جانتے تھے اس دن کی خوفناکی سے واقف تھے کہ سخت تر گھبراہٹ اور کامل پریشانی اور بیحد الجھن کی وجہ سے آنکھیں پتھرا جائیں گی، دل اڑ جائیں گے، کلیجے دہل جائیں گے۔ جیسے فرمان ہے کہ میرے نیک بندے میری محبت کی بنا پر مسکینوں یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں محض اللہ کی رضاجوئی کے لئے کھلا رہے ہیں، ہمارا مقصد تم سے شکریہ طلب کرنے یا بدلہ لینے کا نہیں۔ ہمیں تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جب کہ لوگ مارے رنج وغم کے منہ بسورے ہوئے اور تیوریاں بدلے ہوئے ہوں گے۔ پس اللہ ہی انہیں اس دن کی مصیبتوں سے نجات دے گا اور انہیں تروتازگی بشاشت، ہنسی خوشی اور راحت وآرام سے ملا دے گا۔ اور ان کے صبر کے بدلے انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کی نیکیاں مقبول ہیں، برائیاں معاف ہیں ان کے ایک ایک عمل کا بہترین بدلہ مع زیادتی اور اللہ کے فضل کے انہیں ضرور ملنا ہے۔ جیسے فرمان ہے اللہ تعالیٰ بقدر ایک ذرے کے بھی ظلم نہیں کرتا۔ اور آیت میں ہے نیکی دس گناہ کردی جاتی ہے۔ اور آیت میں ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے گا، اسے اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر زیادہ سے زیادہ کر کے دے گا۔ فرمان ہے آیت (يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ02601) 2۔ البقرة :261) وہ بڑھا دیتا ہے جس کے لئے چاہے۔ یہاں فرمان ہے وہ جسے چاہے بےحساب دیتا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس ایک مرتبہ دودھ لایا گیا، آپ نے اپنی مجلس کے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو پلانا چاہا مگر سب روزے سے تھے۔ اس لئے آپ ہی کے پاس پھر برتن آیا۔ آپ نے یہی آیت یخافون سے پڑھی اور پی لیا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہونگے، اللہ تعالیٰ ایک منادی کو حکم دے گا جو باآواز بلند ندا کرے گا جسے تمام اہل محشر سنیں گے کہ آج سب کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ بزرگ کون ہے ؟ پھر فرمائے گا وہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے جنہیں لین دین اور تجارت ذکر اللہ سے روکتا نہ تھا پس وہ کھڑے ہوجائیں گے اور وہ بہت ہی کم ہوں گے سب سے پہلے انہیں حساب سے فارغ کیا جائے گا۔ آپ فرماتے ہیں ان کی نیکیوں کا اجر یعنی جنت بھی انہیں ملے گی اور مزید فضل الہٰی یہ ہوگا کہ جن لوگوں نے ان کے ساتھ احسان کئے ہوں گے اور وہ مستحق شفاعت ہونگے ان سب کی شفاعت کا منصب انہیں حاصل ہوجائے گا۔
Top