Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - An-Nisaa : 25
وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَیٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِكُمْ١ؕ بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۚ فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَ اٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ١ۚ فَاِذَاۤ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ١ؕ وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠ ۧ
وَمَنْ
: اور جو
لَّمْ يَسْتَطِعْ
: نہ طاقت رکھے
مِنْكُمْ
: تم میں سے
طَوْلًا
: مقدور
اَنْ يَّنْكِحَ
: کہ نکاح کرے
الْمُحْصَنٰتِ
: بیبیاں
الْمُؤْمِنٰتِ
: مومن (جمع)
فَمِنْ
: تو۔ سے
مَّا
: جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: تمہارے ہاتھ مالک ہوجائیں
مِّنْ
: سے
فَتَيٰتِكُمُ
: تمہاری کنیزیں
الْمُؤْمِنٰتِ
: مومن۔ مسلمان
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
اَعْلَمُ
: خوب جانتا ہے
بِاِيْمَانِكُمْ
: تمہارے ایمان کو
بَعْضُكُمْ
: تمہارے بعض
مِّنْ
: سے
بَعْضٍ
: بعض (ایک دوسرے سے
فَانْكِحُوْھُنَّ
: سو ان سے نکاح کرو تم
بِاِذْنِ
: اجازت سے
اَھْلِهِنَّ
: ان کے مالک
وَاٰتُوْھُنَّ
: اور ان کو دو
اُجُوْرَھُنَّ
: ان کے مہر
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
مُحْصَنٰتٍ
: قید (نکاح) میں آنے والیاں
غَيْرَ
: نہ کہ
مُسٰفِحٰتٍ
: مستی نکالنے والیاں
وَّلَا
: اور نہ
مُتَّخِذٰتِ
: آشنائی کرنے والیاں
اَخْدَانٍ
: چوری چھپے
فَاِذَآ
: پس جب
اُحْصِنَّ
: نکاح میں آجائیں
فَاِنْ
: پھر اگر
اَتَيْنَ
: وہ کریں
بِفَاحِشَةٍ
: بےحیائی
فَعَلَيْهِنَّ
: تو ان پر
نِصْفُ
: نصف
مَا
: جو
عَلَي
: پر
الْمُحْصَنٰتِ
: آزاد عورتیں
مِنَ
: سے
الْعَذَابِ
: عذاب (سزا)
ذٰلِكَ
: یہ
لِمَنْ
: اس کے لیے جو
خَشِيَ
: ڈرا
الْعَنَتَ
: تکلیف (زنا)
مِنْكُمْ
: تم میں سے
وَاَنْ
: اور اگر
تَصْبِرُوْا
: تم صبرو کرو
خَيْرٌ
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: رحم کرنے والا
اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور خدا تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کرکے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں پھر اگر نکاح میں آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو (دی جائے) یہ (لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
آزاد عورتوں سے نکاح اور کنیزوں سے متعلق ہدایات ارشاد ہوتا ہے کہ جسے آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی وسعت قدرت نہ ہو، ربیعہ فرماتے ہیں طول سے مراد قصد و خواہش یعنی لونڈی سے نکاح کی خواہش، ابن جریر نے اس قول کو وارد کرکے پھر اسے خود ہی توڑ دیا ہے، مطلب یہ کہ ایسے حالات میں مسلمانوں کی ملکیت میں جو لونڈیاں ہیں ان سے وہ نکاح کرلیں، تمام کاموں کی حقیقت اللہ تعالیٰ پر واضح ہے، تم حقائق کو صرف سطحی نگاہ سے دیکھتے ہو، تم سب آزاد اور غلام ایمانی رشتے میں ایک ہو، لونڈی کا ولی اس کا سردار ہے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح منعقد نہیں ہوسکتا، اسی طرح غلام بھی اپنے سردار کی رضامندی حاصل کئے بغیر اپنا نکاح نہیں کرسکتا۔ حدیث میں ہے جو غلام بغیر اپنے آقا کی اجازت کے اپنا نکاح کرلے وہ زانی ہے، ہاں اگر کسی لونڈی کی مالکہ کوئی عورت ہو تو اس کی اجازت سے اس لونڈی کا نکاح وہ کرائے جو عورت کا نکاح کراسکتا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے عورت عورت کا نکاح نہ کرائے نہ عورت اپنا نکاح کرائے، وہ عورتیں زنا کار ہیں جو اپنا نکاح آپ کرتی ہیں۔ پھر فرمایا عورتوں کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو، گھٹا کر کم کرکے تکلیف پہنچا کر لونڈی سمجھ کر کمی کرکے نہ دو ، پھر فرماتا ہے کہ دیکھ لیا کرو یہ عورتیں بدکاری کی طرف از خود مائل نہ ہوں، نہ ایسی ہوں اگر کوئی ان کی طرف مائل ہو تو یہ جھک جائیں، یعنی نہ تو علانیہ زنا کار ہوں نہ خفیہ بدکردار ہوں کہ ادھر ادھر آشنائیاں کرتی پھریں اور چپ چاپ دوست آشنا بناتی پھریں، جو ایسی بد اطوار ہوں ان سے نکاح کرنے کو اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے احصن کی دوسری قرأت احصن بھی ہے، کہا گیا ہے کہ دونوں کا معنی ایک ہی ہے، یہاں احصان سے مراد اسلام ہے یا نکاح والی ہوجانا ہے، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ان کا احصان اسلام اور عفت ہے لیکن یہ حدیث منکر ہے اس میں ضعف بھی ہے اور ایک راوی کا نام نہیں، ایسی حدیث حجت کے لائق نہیں ہوتی، دوسرا قول یعنی احصان سے مراد نکاح ہے حضرت ابن عباس مجاہد عکرمہ طاؤس سعید بن جبیر حسن قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے، امام شافعی ؒ سے بھی ابو علی طبری نے اپنی کتاب ایضاح میں یہی نقل کیا ہے، مجاہد فرماتے ہیں لونڈی کا محصن ہونا یہ ہے کہ وہ کسی آزاد کے نکاح میں چلی جائے، اسی طرح غلام کا احصان یہ ہے کہ وہ کسی آزاد مسلمہ سے نکاح کرلے، ابن عباس سے بھی یہ منقول ہے، شعبی اور نخعی بھی یہی کہتے ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں قرآتوں کے اعتبار سے معنی بھی بدل جاتے ہیں، احصن سے مراد تو نکاح ہے اور احصن سے مراد اسلام ہے، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں، لیکن بظاہر مراد یہاں نکاح کرنا ہے واللہ اعلم، اسی لئے کہ سیاق آیات کی دلالت اسی پر ہے، ایمان کا ذکر تو لفظوں میں موجود ہے بہر دو صورت جمہور کے مذہب کے مطابق آیت کے معنی میں بھی اشکال باقی ہے اس لئے کہ جمہور کا قول ہے کہ لونڈی کو زنا کی وجہ سے پچاس کوڑے لگائے جائیں گے خواہ وہ مسلمہ ہو یا کافرہ ہو شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہو باوجود یہ کہ آیت کے مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ غیر محصنہ لونڈی پر حد ہی نہ ہو، پس اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں، جمہور کا قول ہے کہ بیشک " جو بولا گیا " مفہوم پر مقدم ہے اس لئے ہم نے ان عام احادیث کو جن میں لونڈیوں کو حد مارنے کا بیان ہے اس آیت کے مفہوم پر مقدم کیا، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت علی نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگو اپنی لونڈیوں پر حدیں قائم رکھو خواہ وہ محصنہ ہوں یا نہ ہوں رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی لونڈی کے زنا پر حد مارنے کو فرمایا چونکہ وہ نفاس میں تھی اس لئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں حد کے کوڑے لگنے سے یہ مرنہ جائے چناچہ میں نے اس وقت اسے حد نہ لگائی اور حضور ﷺ کی خدمت میں واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم نے اچھا کیا جب تک وہ ٹھیک ٹھاک نہ ہوجائے حد نہ مارنا، مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب یہ نفاس سے فارغ ہو تو اسے پچاس کوڑے لگانا۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں میں نے حضور ﷺ سے سنا فرماتے تھے جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے اور زنا ظاہر ہوجائے تو اسے وہ حد مارے اور برا بھلا نہ کہے پھر اگر دوبارہ زنا کرے تو بھی حد لگائے اور ڈانٹ جھڑک نہ کرے، پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے اور ظاہر ہو تو اسے بیچ ڈالے اگرچہ ایک رسی کے ٹکڑے کے بدلے ہی ہو، اور صحیح مسلم میں ہے کہ جب تین بار یہ فعل اس سے سرزد ہو تو چوتھی دفعہ فروخت کر ڈالے، عبداللہ بن عیاش بن ابو ربیعہ فحرومی فرماتے ہیں کہ ہم چند قریش نوجوانوں کو حضرت عمر فاروق ؓ نے امارت کی لونڈیوں سے کئی ایک پر حد جاری کرنے کو فرمایا ہم نے انہیں زنا کی حد میں پچاس پچاس کوڑے لگائے دوسرا جواب ان کا ہے جو اس بات کی طرف گئے ہیں کہ لونڈی پر احصان بغیر حد نہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ مارنا صرف بطور ادب سکھانے اور باز رکھنے کے ہے، ابن عباس اسی طرف گئے ہیں طاؤس سعید ابو عبید داؤد ظاہری کا مذہب بھی یہی ہے ان کی بڑی دلیل مفہوم آیت ہے اور یہ شرط ہے مفہوموں میں سے ہے اور اکثر کے نزدیک یہ محض حجت ہے اس لئے ان کے نزدیک ایک عموم پر مقدم ہوسکتا ہے اور ابوہریرہ اور زید بن خالد کی حدیث جس میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا گیا کہ جب لونڈی زنا کرے اور وہ محصنہ نہ ہو یعنی اس کا نکاح نہ ہوا ہو تو کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا اگر وہ زنا کرے تو اسے حد لگاؤ پھر زنا کرے تو پھر کوڑے لگاؤ پھر بیچ ڈالو گو ایک رسی کے ٹکڑے کے قیمت پر ہی کیوں نہ بیچنا پڑے، راوی حدیث ابن شہاب فرماتے ہیں نہیں جانتا کہ تیسری مرتبہ کے بعد یہ فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے بعد۔ پس اس حدیث کے مطابق وہ جواب دیتے ہیں کہ دیکھو یہاں کی حد کی مقدار اور کوڑوں کی تعداد بیان نہیں فرمائی جیسے کہ محصنہ کے بارے میں صاف فرما دیا ہے اور جیسے کہ قرآن میں مقرر طور پر فرمایا گیا کہ محصنات کی نسبت نصف حد ان پر ہے، پس آیت و حدیث میں اس طرح تطبیق دینا واجب ہوگئی واللہ اعلم۔ اس سے بھی زیادہ صراحت والی وہ روایت ہے جو سعید بن منصور نے بروایت ابن عباس نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی لونڈی پر حد نہیں جب تک کہ وہ احصان والی نہ ہوجائے یعنی جب تک نکاح والی نہ ہوجائے پس جب خاوند والی بن جائے تو اس پر آدھی حد ہے بہ نسبت اس حد کے جو آزاد نکاح والیوں پر ہے، یہ حدیث ابن خزیمہ میں بھی ہے لیکن وہ فرماتے ہیں اسے مرفوع کہنا خطا ہے یہ موقوف ہے یعنی حضرت ابن عباس کا قول ہے، بیہقی میں بھی یہ روایت ہے اور آپ کا بھی یہی فیصلہ ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت عمر والی حدیثیں ایک واقعہ کا فیصلہ ہیں، اور حضرت ابوہریرہ والی حدیث دوسرے واقعہ کا فیصلہ ہیں اور حضرت ابوہریرہ والی حدیث کے بھی کئی جوابات ہیں ایک تو یہ کہ یہ محمول ہے اس لونڈی پر جو شادی شدہ ہو اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق اور جمع ہوجاتی ہے دوسرے یہ کہ اس حدیث میں لفظ حد کسی راوی کا داخل کیا ہوا ہے اور اس کی دلیل جواب کا فقرہ ہے، تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث دو صحابیوں کی ہے اور وہ حدیث صرف ایک صحابی کی ہے اور ایک والی پر دو والی مقدم ہے، اور اسی طرح یہ حدیث نسائی میں بھی مروی ہے اور مسلم کی شرط پر اس کی سند ہے کہ حضرت عباد بن تمیم اپنے چچا سے جو بدری صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ پھر جب زنا کرے تو کوڑے مارو پھر جب زنا کرے تو کوڑے لگاؤ پھر جب زنا کرے تو بیچ دو اگرچہ ایک رسی کے ٹکڑے کے بدلے ہی بیچنا پڑے۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ یہ بھی بعید نہیں کہ کسی راوی نے جلد کو حد خیال کرلیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق کردیا ہو اور اس نے جلد کو حد خیال کرلیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق تادیب کے طور پر سزا دینے پر کردیا ہو جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس سزا پر بھی کیا گیا ہے جو بیمار زانی کو کھجور کا ایک خوشہ مارا گیا تھا جس میں ایک سو چھوٹی چھوٹی شاخیں تھیں، اور جیسے کہ لفظ حد کا اطلاق اس شخص پر بھی کیا گیا ہے جس نے اپنی بیوی کو اس لونڈی کے ساتھ زنا کیا جسی بیوی نے اس کے لئے حلال کردیا تھا حالانکہ اسے سو کوڑوں کا لگنا تعزیر کے طور پر صرف ایک سزا ہے جیسے کہ امام احمد وغیرہ سلف کا خیال ہے۔ حد حقیقی صرف یہ ہے کہ کنوارے کو سو کوڑے اور شادی شدہ ہوئے کو رجم واللہ اعلم۔ ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت ٰسعید بن جبیر کا فرمان ہے کہ لونڈی نے جب تک نکاح نہیں کیا اسے زنا پر مارا نہ جائے، اس کی اسناد تو صحیح ہے لیکن معنی دو ہوسکتے ہیں ایک تو یہ کہ بالکل مارا ہی نہ جائے نہ حد نہ اور کچھ تو یہ قول بالکل غریب ہے، ممکن ہے آیت کے الفاظ پر نظر کرکے یہ فتویٰ دے دیا ہو اور حدیث نہ پہنچی ہو، دوسرے معنی یہ ہیں کہ حد کے طور پر نہ مارا جائے اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو اس کے خلاف نہیں کہ اور کوئی سزا کی جائے، پس یہ قیاس حضرت ابن عباس وغیرہ کے فتوے کے مطابق ہوجائے گا واللہ اعلم۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ آیت میں دلالت ہے کہ محصنہ لونڈی پر بہ نسبت آزاد عورت کے آدھی حد ہے، لیکن محصنہ ہونے سے پہلے کتاب و سنت کے عموم میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے بھی سو کوڑے مارے جائیں جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے (اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَ) 24۔ النور :2) یعنی زنا کار عورت زنا کار مرد کو ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو اور جیسے حدیث میں ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں میری بات لے لو میری بات سمجھ لو اللہ نے ان کے لئے راستہ نکال لیا اگر دونوں جانب غیر شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی اور اگر دونوں طرف شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے اور پتھروں سے رجم کردینا۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف کی ہے اور اسی طرح کی اور حدیثیں بھی ہیں، حضرت داؤد بن علی ظاہری کا یہی قول ہے لیکن یہ سخت ضعیف ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے محصنہ لونڈیوں کو بہ نسبت آزاد کے آدھے کوڑے مارنے کا عذاب بیان فرمایا یعنی پچاس کوڑے تو پھر جب تک وہ محصنہ نہ ہوں اس سے بھی زیادہ سزا کی سزا وار وہ کیسے ہوسکتی ہیں ؟ حالانکہ قاعدہ شریعت یہ ہے کہ احصان سے پہلے کم سزا ہے اور احصان کے بعد زیادہ سزا ہے پھر اس کے برعکس کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟ دیکھئے شارع ؑ سے آپ کے صحابہ غیر شادی شدہ لونڈی کے زنا کی سزا پوچھتے ہیں اور آپ انہیں جواب دیتے ہیں کہ اسے کوڑے مارو لیکن یہ نہیں فرماتے کہ ایک سو کوڑے لگاؤ پس اگر اس کا حکم وہی ہوتا جو داؤد سمجھتے ہیں تو اسے بیان کردینا حضور ﷺ پر واجب تھا اس لئے کہ ان کا یہ سوال تو صرف اسی وجہ سے تھا کہ لونڈی کے شادی شدہ ہوجانے کے بعد اسے کوڑے مارنے کا بیان نہیں ورنہ اس قید کے لگانے کی کیا ضرورت تھی کہ سوال میں کہتے وہ غیر شادی شدہ ہے کیونکہ پھر تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کوئی فرق ہی نہ رہا اگر یہ آیت اتری ہوئی نہ ہوتی لیکن چونکہ ان دونوں صورتوں میں سے ایک کا علم تو انہیں ہوچکا تھا اس لئے دوسری کی بابت سوال کیا اور حضور ﷺ سے آپ پر درود پڑھنے کی نسبت پوچھا تو آپ نے اسے بیان فرمایا اور فرمایا سلام تو اسی طرح ہے جس طرح تم خود جانتے ہو، اور ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا) 33۔ الاحزاب :56) نازل ہوا اور صلوۃ وسلام آپ پر بھیجنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تو صحابہ نے کہا کہ سلام کا طریقہ اور اس کے الفاظ تو ہمیں معلوم ہیں صلوۃ کی کیفیت بیان فرمائے۔ پس ٹھیک اسی طرح یہ سوال ہے مفہوم آیت کا چوتھا جواب ابو ثور کا ہے جو داؤد کے جواب سے زیادہ بودا ہے، وہ فرماتے ہیں جب لونڈیاں شادی شدہ ہوجائیں تو ان کی زنا کاری کی حد ان پر آدھی ہے اس حد کی جو شادی شدہ آزاد عورتوں کی زنا کاری کی حد تو ظاہر ہے کہ آزاد عورتوں کی حد اس صورت میں رجم ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ رجم آدھا نہیں ہوسکتا تو لونڈی کو اس صورت میں رجم کرنا پڑے گا اور شادی سے پہلے اسے پچاس کوڑے لگیں گے، کیونکہ اس حالت میں آزاد عورت پر سو کوڑے ہیں۔ پس دراصل آیت کا مطلب سمجھنے میں اس سے خطا ہوئی اور اس میں جمہور کا بھی خلاف ہے بلکہ امام شافعی ؒ تو فرماتے ہیں کسی مسلمان کا اس میں اختلاف ہی نہیں کہ مملوک پر زنا کی سزا میں رجم ہے ہی نہیں، اس لئے کہ آیت کی دلالت کرنی ہے کہ ان پر محصنات کا نصف عذاب ہے اور محصنات کے لفظ میں جو الف لام ہے وہ عہد کا ہے یعنی وہ محصنات جن کا بیان آیت کے شروع میں ہے (وَمَنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا اَنْ يَّنْكِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ مِّنْ فَتَيٰتِكُمُ الْمُؤْمِنٰتِ) 4۔ النسآء :25) میں گزرچکا ہے اور مراد صرف آزاد عورتیں ہیں۔ اس وقت یہاں آزاد عورتوں کا نکاح کے مسئلہ کی بحث نہیں بحث یہ ہے کہ پھر آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زنا کاری کی جو سزا تھی اس سے آدھی سزا ان لونڈیوں پر ہے تو معلوم ہوا کہ یہ اس سزا کا ذکر ہے جو آدھی ہوسکتی ہو اور وہ کوڑے ہیں کہ سو سے آدھے پچاس رہ جائیں گے رجم یعنی سنگسار کرنا ایسی سزا ہے جس کے حصے نہیں ہوسکتے واللہ اعلم، پھر مسند احمد میں ہے ایک واقعہ ہے جو ابو ثور کے مذہب کی پوری تردید کرتا ہے اس میں ہے کہ صفیہ لونڈی نے ایک غلام سے زناکاری کی اور اسی زنا سے بچہ ہوا جس کا دعویٰ زانی نے کیا مقدمہ حضرت عثمان کے پاس پہنچا آپ نے حضرت علی کو اس کا تصفیہ سونپا، حضرت علی ؓ نے فرمایا اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ کا ہے بچہ تو اس کا سمجھا جائے گا جس کی یہ لونڈی ہے اور زانی کو پتھر مارے جائیں گے پھر ان دونوں کو پچاس پچاس کوڑے لگائے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد مفہوم سے تنبیہہ ہے اعلیٰ کے ساتھ ادنیٰ پر یعنی جب کہ وہ شادی شدہ ہوں تو ان پر بہ نسبت آزاد عورتوں کے آدھی حد ہے پس ان پر رجم تو سرے سے کسی صورت میں ہے ہی نہیں نہ قبل از نکاح نہ بعد نکاح، دونوں حالتوں میں صرف کوڑے ہیں جس کی دلیل حدیث ہے، صاحب مصباح یہی فرماتے ہیں اور حضرت امام شافعی سے بھی اسی کو ذکر کرتے ہیں، امام بیہقی اپنی کتاب سنن و آثار میں بھی اسے لائے ہیں لیکن یہ قول لفظ آیت سے بہت دور ہے اس طرح کہ آدھی حد کی دلیل صرف آیت ہے اس کے سوا کچھ نہیں پس اس کے علاوہ میں آدھا ہونا کس طرح سمجھا جائے گا ؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مطلب یہ ہے کہ شادی شدہ ہونے کی حالت میں صرف امام ہی حد قائم کرسکتا ہے اس لونڈی کا مالک اس حال میں اس پر حد جاری نہیں کرسکتا امام احمد ؒ کے مذہب میں ایک قول یہی ہے ہاں شادی سے پہلے اس کے مالک کو حد جاری کرنے کا اختیار ہے بلکہ حکم ہے لیکن دونوں صورتوں میں حد آدھی ہی آدھی رہے گی اور یہ بھی دور کی بات ہے اس لئے کہ آیت میں اس کی دلالت بھی نہیں، اگر اگر یہ آیت نہ ہوتی تو ہم نہیں جان سکتے تھے کہ لونڈیوں کے بارے میں آدھی حد ہے اور اس صورت میں انہیں بھی عموم میں داخل کرکے پوری حد یعنی سو کوڑے اور رجم ان پر بھی جاری کرنا واجب ہوجاتا جیسے کہ عام روایتوں سے ثابت ہے، حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ لوگو اپنے ماتحتوں پر حدیں جاری کرو شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ اور وہ عام حدیثیں جو پہلے گزرچکی ہیں جن میں خاوندوں والی اور خاوندوں کے بغیر کوئی تفصیل نہیں، حضرت ابوہریرہ کی روایت والی حدیث جس سے جمہور نے دلیل ] پکڑی ہے یہ ہے کہ جب تم میں سے کسی کوئی زنا کرے اور پھر اس کا زنا ظاہر ہوجائے تو اسے چاہئے کہ اس پر حد جاری کرے اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے (ملخص) الغرض لونڈی کی زنا کاری کی حد میں کئی قول ہیں ایک تو یہ کہ جب تک اس کا نکاح نہیں ہوا اسے پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور نکاح ہوجانے کے بعد بھی یہی حد رہے گی اور اسے جلاوطن بھی کیا جائے گا یا نہیں ؟ اس میں تین قول ہیں ایک یہ کہ جلا وطنی ہوگی دوسرے یہ کہ نہ ہوگی تیسرے یہ کہ جلا وطنی میں آدھے سال کو ملحوظ رکھا جائے گا یعنی چھ مہینے کا دیس نکالا دیا جائے گا پورے سال کا نہیں، پورا سال آزاد عورتوں کے لئے ہے، یہ تینوں قول امام شافعی کے مذہب میں ہیں، لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک جلا وطنی تعزیر کے طور پر ہے وہ حد میں سے نہیں امام کی رائے پر موقوف ہے اگر چاہے جلا وطنی دے یا نہ دے مرد و عورت سب اسی حکم میں داخل ہیں ہاں امام مالک کے مذہب میں ہے کہ جلا وطنی صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں پر نہیں اس لئے کہ جلا وطنی صرف اس کی حفاظت کے لئے ہے اور اگر عورت کو جلا وطن کیا گیا تو حفاظت میں سے نکل جائے گی اور مردوں یا عورتوں کے بارے میں دیس نکالے کی حدیث صرف حضرت عبادہ اور حضرت ابوہریرہ سے ہی مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس زانی کے بارے میں جس کی شادی نہیں ہوئی تھی حد مارنے اور ایک سال دیس نکالا دینے کا حکم فرمایا تھا (بخاری) اس سے معنی مراد یہی ہے کہ اس کی حفاظت رہے اور عورت کو وطن سے نکالے جانے میں یہ حفاظت بالکل ہی نہیں ہوسکتی واللہ اعلم۔ دوسرا قول یہ ہے کہ لونڈی کو اس کی زنا کاری پر شادی کے بعد پچاس کوڑے مارے جائیں گے اور ادب دکھانے کے طور پر اسے کچھ مار پیٹ کی جائے گی لیکن اس کی کوئی مقرر گنتی نہیں پہلے گزرچکا ہے کہ شادی سے پہلے اسے مارا نہ جائے گا جیسے حضرت سعید بن مسیب کا قول ہے لیکن اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ سرے سے کچھ مارنا ہی نہ چاہئے تو یہ محض تاویل ہی ہوگی ورنہ قول ثانی میں اسے داخل کیا جاسکتا ہے جو یہ ہے کہ شادی سے پہلے سو کوڑے اور شادی کے بعد پچاس جیسے کے داؤد کا قول ہے اور یہ تمام اقوال سے بودا قول ہے اور یہ کہ شادی سے پہلے پچاس کوڑے اور شادی کے بعد رجم جیسے کہ ابو ثور کا قول ہے لیکن یہ قول بھی بودا ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب۔ پھر فرمان ہے کہ لونڈیوں سے نکاح کرنا ان شرائط کی موجودگی میں جو بیان ہوئیں ان کے لئے جنہیں زنا میں واقع ہونے کا خطرہ ہو اور تجرد اس پر بہت شاق گزر رہا ہو اور اس کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہو تو بیشک اسے پاکدامن لونڈیوں سے نکاح کرلینا جائز ہے گو اس حالت میں بھی اپنے نفس کو روکے رکھنا اور ان سے نکاح نہ کرنا بہت بہتر ہے اس لئے کہ اس سے جو اولاد ہوگی وہ اس کے مالک کے لونڈی غلام ہوگی ہاں اگر خاوند غریب ہو تو اس کی یہ اولاد اس کے آقا کی ملکیت امام شافعی کے قول قدیم کے مطابق نہ ہوگی۔ پھر فرمایا اگر تم صبر کرو تو تمہارے لئے افضل ہے اور اللہ غفور و رحیم ہے، جمہور علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ لونڈی سے نکاح جائز ہے لیکن یہ اس وقت جب آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو اور نہ ہی رکے رہنے کی طاقت ہو، بلکہ زنا واقع ہوجانے کا خوف ہو۔ کیونکہ اس میں ایک خرابی تو یہ ہے کہ اولاد غلامی میں جاتی ہے دوسرے ایک طرح ہے کہ آزاد عورت کو چھوڑ کر لونڈیوں کی طرف متوجہ ہونا۔ ہاں جمہور کے مخالف امام ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں یہ دونوں باتیں شرط نہیں بلکہ جس کے نکاح میں کوئی آزاد عورت نہ ہو اسے لونڈی سے نکاح جائز ہے وہ لونڈی خواہ مومنہ ہو خواہ اہل کتاب میں سے ہو۔ چاہے اسے آزاد عورت سے نکاح کرنے کی طاقت بھی ہو اور اسے بدکاری کا خوف بھی نہ ہو، اس کی بڑی دلیل یہ آیت والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم یعنی آزاد عورتیں ان میں سے جو تم سے پہلے کتاب اللہ دئے گئے۔ پس وہ کہتے ہیں یہ آیت عام ہے جس میں آزاد اور غیر آزاد سب ہی شامل ہیں اور محصنات سے مراد پاکدامن باعصمت عورتیں ہیں لیکن اس کی ظاہری دلالت بھی اسی مسئلہ پر ہے جو جمہور کا مذہب ہے۔ واللہ اعلم۔
Top