Tafseer-e-Jalalain - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
ہم ان کے حالات تم کو صحیح صحیح بیان کرتے ہیں وہ کئی جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی۔
آیت نمبر 13 تا 17 ترجمہ : ہم آپ کو ان کا صحیح قصہ سناتے ہیں وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی اور ہم نے ان کے دل قوی کر دئیے تھے یعنی حق بات کہنے کے لئے قوی کر دئیے تھے جب وہ اپنے بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس بادشاہ نے ان کو بتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے ہم اس کو چھوڑ کر کسی غیر کی ہرگز بندگی نہ کریں گے اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم نے نہایت ہی غلط بات کی یعنی حد سے گزری ہوئی حرکت کی یعنی بالفرض اگر ہم نے اللہ کے علاوہ کسی غیر کی بندگی کی تو ہم کفر میں حد سے تجاوز کرنے والے ہوں گے یہ ہماری قوم ہے جس نے معبود حقیقی کو چھوڑ کر دوسرے معبود ٹھہرائے ہیں ھٰؤلاء مبتداء ہے قومنا عطف بیان ہے وہ ان پر یعنی ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ؟ یعنی کوئی کھلی دلیل، اس سے بڑا ظالم کون ہوگا یعنی اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں، جو اس کی طرف شریک کی نسبت کر کے اللہ پر بہتان باندھے، نوجوانوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا جب تم نے ان عابدین کو اور اللہ کے علاوہ ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا ہے تو اب کسی غار میں پناہ لو، تمہارا رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لئے تمہارے کام میں سہولت مہیا کر دے گا، مرفقًا میم کے کسرہ اور فاء کے فتحہ کے ساتھ ہے اور اس کا عکس بھی، وہ صبح وشام کا کھانا کہ جس سے تم فائدہ اٹھاؤ گے اور جب سورج ہوتا ہے تو (اے مخاطب) تو دیکھے گا کہ وہ ان کی غار کی دائیں جانب کتراتا ہوا نکل جاتا ہے تَذ اؤ ر تشدید اور بلاتشدید دونوں (درست ہے) اور جب ڈھلتا ہے تو ان سے بائیں جانب بچ کر نکل جاتا ہے یعنی ان کو چھوڑ کر کترا کر نکل جاتا ہے، جس کی وجہ سے یقیناً ان پر دھوپ نہیں پڑتی، حال یہ ہے کہ وہ غار کے کشادہ مقام میں ہیں کہ جہاں ان کو ٹھنڈی ہوا اور باد نسیم پہنچتی رہتی ہے یہ یعنی مذکور حالات اس کی نشانیاں یعنی اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں، وہ جس کی چاہے رہبری فرمائے وہ راست پر ہے اور وہ جسے گمراہ کر دے ناممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارساز اور رہنما پاسکیں۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد فِتْیَۃ ٌ کی جمع ہے جیسا کہ صِبْیَۃ ٌ صَبِیّ کی جمع۔ نوجوان قولہ بالحق متلبسأ کے متعلق ہو کر یا تو نَقُصُّ کے فاعل سے حال ہے یا نَبَاَ مفعول سے حال ہے اِنَّھُمْ فِتْیَۃ ٌ جملہ مستانفہ ہے یعنی ما ھو الخبر الصادق کا جواب ہے آمنوا بِرَبِّھِمْ جملہ ہو کر فتیۃ کی صفت ہے قولہ ربطنا (ن) ربطًا باندھنا، قوی کرنا لَنْ نَدْعُوْا فعل مضارع منصوب بلن جمع متکلم آخر میں واؤ جمع کا نہیں ہے بلکہ لام کلمہ ہے واو جمع کے مشابہ ہونے کی وجہ سے رسم قرآنی کے مطابق اس کے آخر میں الف لکھا جاتا ہے مگر پڑھا نہیں جاتا اور نہ پڑھنے کی علامت کے طور پر اس کے اوپر ایک چھوٹا سا گول دائرہ بنادیا جاتا ہے (یعنی) ہرگز نہیں پکاریں گے قولہ شَطَطًا (ن، ض) شطًّا حد سے تجاوز کرنا حق سے بعید ہونا اِذْقَامُوْا، رَبَطْنَا کا ظرف ہے فَأؤا میں فا جرائیہ ہے اور اِذِا اعْتَذَلْتُمُوْھُمٌ الخ شرط ہے واؤ اشباع کا ہے قولہ قولاً ذا شطط کا اضافہ اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کیا ہے کہ شططاً حذف مضاف کے ساتھ مصدریت کی وجہ سے منصوب ہے اور اس کا موصوف قولاً محذوف ہے اور اگر ذَا محذوف نہ مانیں تو مصدر کا حمل مبالغۃ ً ہوگا جیسا کہ زید ٌ عدلٌ میں ہے قولہ فرضًا، فرضًا کا اضافہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غیر اللہ کی بندگی کرنے کا کسی قسم کا امکان نہیں ہے نہ عقلی نہ شرعی اور نہ اخلاقی اگر بفرض المحال ایسا ہو بھی جائے تو یہ بڑی بےجا بات ہوگی قولہ ھٰؤلاء مبتداء ہے اور اِتَّخَذ ُ وْا من دون اللہ اس کی خبر ہے لو لا کی تفسیر ھَلاً سے کر کے اشارہ کردیا کہ لَوْلاَ تحضیضیہ ہے قَومَنَا، ھٰؤلائ سے عطف بیان ہے نیز بدل بھی ہوسکتا ہے قولہ تَذ َا وَرُ اصل میں تَتَز َاوَرُ تھا ایک تا حذف کردی گئی (فعل مضارع واحد مؤنث غائب) قوم کا آپس میں ایک دوسرے کی زیارت کرنا اور اگر اس کا صلہ عن ہو تو انحراف کرنا اور اگر اصل تَذ َاوَرُ ہو تو ایک تا کو زا کیا اور زا کو زا میں ادغام کردیا تَقْرِضُھُمْ مضارع واحد مؤنث غائب، قرضاً کاٹنا، کترانا، بچ کر نکل جانا ذَاتَ ذو کا مؤنث ہے، آیت میں ذات کا لفظ زائدہ ہے زینت کلام کیلئے ہے قولہ ذات الیمین وذات الشِّمال تَذ َاوَرُ کا ظرف مکان ہے قولہ ناحیتَہٗ اس کے اضافہ کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذات الیمین اور ذات الشمال ظرف مکان ہیں، ای جھت الیمین وجھت الشمال وھم فی فجوۃٍ جملہ حالیہ ہے قولہ مَنْ یھد اللہ فھو المھتد یہ جملہ درمیان قصہ میں معترضہ ہے، مقصد آپ کو تسلی دینا ہے۔ تفسیر و تشریح اولاً اصحاب کہف کا قصہ اجمالاً بیان فرمایا اب نحن نقُصُّ سے تفصیلاً بیان فرماتے ہیں، ارشاد فرمایا ہم آپ سے اصحاب کہف کا قصہ صحیح صحیح بیان کرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآنی بیان میں کوئی بات خلاف واقعہ نہیں ہے، اور ہو بھی کیسے سکتی ہے قرآن تو خالق کا ئنات کا کلام ہے جو کائنات کے ہر ذرہ سے واقف ہے البتہ لوگوں میں اصحاب کہف کا واقعہ مختلف طریقوں سے مشہور ہے ان میں صحیح وہ ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں، وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی بخشی تھی، یہ چند نوجوان ایک ظالم بادشاہ دقیانوس کے زمانہ میں تھے، بادشاہ غالی متعصب اور بت پرست تھا، اور جبروا کراہ کے ذریعہ بت پرستی کی اشاعت کرتا تھا ان نوجوانوں نے سچادین قبول کرلیا تھا، ان نوجوانوں کا تعلق اونچے گھرانوں اور عمائدین سلطنت سے تھا، حق تعالیٰ نے ان کو ایمان کی دولت سے نوازا تھا، یہ نوجوان کس مذہب پر تھے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ دین مسیحی پر تھے، لیکن علامہ ابن کثیرنے مختلف قرائن سے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ مسیح (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے مگر صحیح اور راجح بات یہ ہے کہ یہ واقعہ پہلی صدی عیسوی کا ہے۔ (مزید تحقیق کے لئے قصص القرآن کی طرف رجوع کریں) ۔ غرض کہ ان نوجوانوں کو شاہی دربار میں طلب کیا گیا ان نوجوانوں نے بےجھجک بغیر کسی خوف وہراس کے ظالم بادشاہ کے روبرو اپنے ایمان کا اعلان کردیا، اور اپنی ایمانی جرأت سے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا، ارشاد ربانی ہے " اور ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دئیے جب وہ دربار میں بادشاہ کے روبرو جواب دہی یا دعوت دین دینے کے لئے کھڑے ہوئے تھے، تو انہوں نے اپنے پروردگار سے یوں دعا کی، اے ہمارے پروردگار تو ہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پروردگار ہے ہم تجھ کو چھوڑ کر کسی غیر کی بندگی نہ کریں گے، اور اگر ہم ایسا کریں تو یقیناً بہت بےجا بات کرنے والے ہوں گے۔ یہ ہماری قوم جو معبود حقیقی کو چھوڑ کر دوسرے فرضی معبودوں کو اختیار کئے ہوئے ہے یہ ان کے معبود حقیقی ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں پیش نہیں کرتی ؟ لہٰذا اس سے بڑا ظالم کوئی ہو ہی نہیں سکتا جو اللہ پر بہتان باندھے نوجوانوں کی یہ بات سن کر بادشاہ کو ان کی نوجوانی پر کچھ رحم آیا اور کچھ دیگر مشاغل مانع ہوئے اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ عمائدین سلطنت اور بڑے گھرانوں کے چشم چراغ تھے اس لئے یک لخت ان پر ہاتھ ڈالنا مصلحت کے خلاف تھا اس لئے ان کو چند روز کی مہلت دے دی، تاکہ وہ اپنے معاملہ میں غور کرلیں۔ ادھر یہ نوجوان دربار سے نکل کر مشورہ کے لئے بیٹھ گئے، اور یہ طے کیا کہ اب اس شہر میں قیام خطرہ سے خالی نہیں، مناسب یہ ہے کہ کسی قریبی غار میں روپوش ہوجائیں، اور واپسی کے لئے کسی مناسب وقت کا انتظار کریں۔
Top