Tafseer-e-Jalalain - Al-Kahf : 21
وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا١ۗۚ اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًا١ؕ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح اَعْثَرْنَا : ہم نے خبردار کردیا عَلَيْهِمْ : ان پر لِيَعْلَمُوْٓا :تا کہ وہ جان لیں اَنَّ : کہ وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّاَنَّ : اور یہ کہ السَّاعَةَ : قیامت لَا رَيْبَ : کوئی شک نہیں فِيْهَا : اس میں اِذْ : جب يَتَنَازَعُوْنَ : وہ جھگڑتے تھے بَيْنَهُمْ : آپس میں اَمْرَهُمْ : ان کا معاملہ فَقَالُوا : تو انہوں نے کہا ابْنُوْا : بناؤ عَلَيْهِمْ : ان پر بُنْيَانًا : ایک عمارت رَبُّهُمْ : ان کا رب اَعْلَمُ بِهِمْ : خوب جانتا ہے انہیں قَالَ : کہا الَّذِيْنَ غَلَبُوْا : وہ لوگ جو غالب تھے عَلٰٓي : پر اَمْرِهِمْ : اپنے کام لَنَتَّخِذَنَّ : ہم ضرور بنائیں گے عَلَيْهِمْ : ان پر مَّسْجِدًا : ایک مسجد
اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان (کے حال) سے خبردار کردیا تاکہ وہ جانیں کہ خدا کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت (جس کا وعدہ کیا جاتا ہے) اس میں کچھ بھی شک نہیں۔ اس وقت لوگ انکے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اور کہنے لگے کہ ان (کے غار) پر عمارت بنادو ان کا پروردگار ان (کے حال) سے خوب واقف ہے، جو لوگ ان کے معاملے میں غلبہ رکھتے تھے وہ کہنے لگے کہ ہم ان (کے غار) پر مسجد بنائیں گے۔
آیت نمبر 21 تا 26 ترجمہ : اور ہم نے اسی جس طرح کہ ان کو بیدار کیا، ان کے حالات پر ان کی قوم کو اور مومنین کو مطلع کردیا تاکہ ان کی قوم کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کا بعث بعد الموت کا وعدہ حق ہے، اس طریقہ پر کہ جو ذات اصحاب کہف کو ایک طویل زمانہ قیامت میں کوئی شک نہیں ہے اِذ، اَعْثَرنَا کا معمول ہے اور جبکہ مومنین اور کفار آپس میں ان نوجوانوں کے لئے (یاد گار کے طور) عمارت کے بنانے میں اختلاف کر رہے تھے، چناچہ کفار نے کہا ان کے اردگرد کوئی یادگاری عمارت بنادو کہ جو ان کو مستور کر دے ان کا رب ان کے احوال سے خوب واقف ہے (آخر کار) ان لوگوں نے جواب نوجوانوں کے معاملہ میں غالب رہے اور وہ مومنین تھے کہ کہا ہم تو ان کے قریب ایک مسجد تعمیر کرائیں گے تاکہ اس میں نماز پڑھی جائے، چناچہ غار کے دہانے پر مسجد بنوا دی گئی، نوجوانوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف کرنے والوں کا قصہ جب آپ کے زمانہ میں (لوگوں) کو سنایا جائے گا تو ان میں سے بعض لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا اور بعض کہیں گے پانچ تھے چھٹا ان کا کتا تھا اور یہ دونوں قول نجران کے نصاریٰ کے ہیں اور یہ لوگ بلا تحقیق اٹکل سے ہانک رہے تھے (یعنی) ان کے بارے میں اندازے سے کہہ رہے ہیں اور رجماً بالغیب کا تعلق مذکورہ دونوں قولوں سے ہے، اور رجماً کا نصب مفعول لہ ہونے کی وجہ سے ہے ای نَظُنُّھُمْ لذٰلِکَ اور مومن کہیں گے ساتھ تھے آٹھواں ان کا کتا تھا جملہ مبتداء اور خبر سے مل کر واؤ کی زیادتی کے ساتھ سبعۃ کی (بلا لحاظ تاکید) صفت ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ واؤ زائدہ ہے تاکیدی معنی کے ساتھ، صفت کے موصوف کے ساتھ لاحق ہونے پر دلالت کرتا ہے اور اول دونوں قولوں کا رجم بالغیب کے ساتھ متصف ہونا نہ کہ تیسرے کا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تیسرا قول ہی پسندیدہ اور صحیح ہے (تاکیدًا اَوْ دلالۃً میں اَوْ بمعنی مع ہے) آپ فرما دیجئے کہ میرا رب ان کی تعداد کو بخوبی جانتا ہے اور ان کی صحیح تعداد بہت کم لوگ جانتے ہیں، ابن عباس ؓ نے فرمایا میں ان کم لوگوں میں سے ہوں اور فرمایا کہ وہ سات ہیں لہٰذا آپ اس معاملہ میں بجز سرسری بحث کے زیادہ بحث نہ کیجئے جو آپ پر نازل کی گئی ہے اور آپ اصحاب کہف کے معاملہ میں ان میں سے کسی سے یعنی اہل مکہ نے اصحاف کہف کے بارے میں آپ ﷺ سے سوال کیا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا اس کے بارے میں کل جواب دوں گا مگر آپ ﷺ نے انشاء اللہ نہیں کہا تھا تو اس بارے میں آئندہ آیات نازل ہوئیں اور آپ کسی کام کی نسبت ہرگز یوں نہ کہا کیجئے کہ میں اس کو کل کر دوں گا یعنی زمانہ آئندہ میں کسی بھی کام کے بارے میں (نہ کہا کریں کہ کل کردوں گا) مگر یہ کہ آپ انشاء اللہ کہہ لیا کریں یعنی انشاء اللہ کہتے ہوئے اللہ کی مشیت کو شامل فرما لیا کریں اور اگر آپ انشاء اللہ کہنا بھول جائیں تو آپ اپنے رب کو یعنی اس کی مشیت کو یاد کرلیا کریں اس طریقہ پر کہ وعدہ کو مشیت سے معلق کردیا کریں اور نسیان کے بعد یہ انشاء اللہ کہہ لینا اس کے بروقت (انشاء اللہ) کہنے کے مانند ہوگا، حضرت حسن وغیرہ نے فرمایا کہ یہ اس وقت صحیح ہوگا کہ (قائل) اسی مجلس میں موجود ہو (یعنی مجلس نہ بدلی ہو) اور آپ کہہ دیں کہ مجھ کو امید ہے کہ میرا پروردگار اس سے بھی زیادہ (نبوت پر دلالت کرنے والی) دلیل کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا، یعنی اصحاب کہف کی خبر سے بھی زیادہ میری نبوت پر دلالت کرنے والی اور اللہ تعالیٰ نے ایسا کر (بھی) دیا اور وہ لوگ اپنے غار میں تین سو برس ٹھہرے، مأۃٍ تنوین کے ساتھ ہے سنین ثلاث مأۃٍکا بیان ہے اور یہ تین سو سال اہل کتاب کے نزدیک شمسی حساب سے ہیں اور تین سو نوسال قمری حساب سے ہیں آپ فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے قیام کی مدت کو خوب جانتا ہے یعنی ان لوگوں سے جو ان کی تعداد میں اختلاف کر رہے ہیں، اس کا ذکر سابق میں ہوچکا ہے اسی کو آسمانوں اور زمین کے پوشیدہ راز معلوم ہیں وہ ان مغیبات کے علم کو کیسا کچھ دیکھنے والا اور کیا کچھ جاننے والا ہے اَبْصِرْبِہٖ ای باللہِ (بہ میں با فاعل پر داخل ہے) یہ صیغہ تعجب ہے اور اَسمِع بہ بھی صیغہ تعجب ہے اور معنی میں ما ابصرہ اور ما اسمعہ کے ہے اور ان دونوں صیغوں کا استعمال باری تعالیٰ کے لئے بطور مجاز ہے اور مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سمع وبصر (یعنی علم ازلی) سے کوئی بات بات پوشیدہ نہیں ہے اور لوگوں کے لئے یعنی اھل الارض والسماء کے لئے اس کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے اس لئے کہ وہ شریک سے مستغنی ہے۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد قولہ اَعْثَرْنَا اِعْثَارًا (افعال) واقف کرنا، مطلع کرنا قولہ قومَھُم والمومنون یہ اَعْثرنا کا مفعول بہ محذوف ہے قولہ لِیَعلَمُوْا اعثَرْنَا کے متعلق ہے وان السَّاعۃَ کا عطف، اَنَّ وَعَدَ اللہ پر ہے قولہ یَسْترھم جملہ ہو کر بنیاناً کی صفت ہے ثلثۃ ھُمْ مبتداء محذوف کی خبر ہے، کما اشارہ الیہ الشارح وقولھم رابِعُھُمْ کلبُھُمْ مبتداء خبر سے مل کر ثلٰثۃ کی صفت ہے ایسی ہی ترکیب بعد میں آنے والے دونوں جملوں میں ہوگی، قولہ رجمًا بالغیب یَرْمُوْنَ کا مفعول مطلق ہے ای یَرْمُوْنَ رَمْیًا حال بھی ہوسکتا ہے ای راجمین بالغیب قولہ رابِعْھُمْ کلبھم حال ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے ای حال کون کلبھم جاعِلھُمْ اربعۃً بانضمامہٖ الیھم و ثَامِنُھُمْ واؤ زائدہ ہے تاکیدی معنی کا لحاظ کئے بغیر، یا تاکیدی معنی کا لحاظ کرتے ہوئے، یعنی اتصاف موصوف بالصفت کی تاکید کے لئے یعنی دلالت کے لئے ہے، اس لئے کہ موصوف جب صفت کے ساتھ متصف ہوگا تو موصوف کا وجود لازمی ہوگا کیونکہ صفت موصوف کے بغیر موجود نہیں ہوسکتی، مطلب یہ ہوا کہ اصحاب کہف کتے کے ساتھ مل کر آٹھ ہوگئے یعنی وہ سات تھے کتا آٹھواں ہوا قولہ اَوْ دلالۃً میں او عاطفہ تفسیریہ (بمعنی) ای ہے، یعنی تاکید بمعنی دلالۃً ہے تا کید یعنی دلالۃ علی الصوق الصفۃ بالموصوف پر دلالت کرنے کے لئے (لہٰذا یہ دو قول ہوئے) قولہ ربی اعلم بہ یہ درمیان میں جملہ معترضہ ہے قولہ فی الدلالۃ، اَقْرَبُ سے متعلق ہے رَشَدًا، لَیَھْدِیَنِ کا مفعول مطلق بغیر لفظہٖ ہے اور اقرَبُ سے تمیز واقع ہونا بھی صحیح ہے ای لِاَقرَبَ ھدایَۃ مِن ھٰذا مأۃ کی تمیز عام طور پر مفرد مجرور ہوتی ہے ایک قرأۃ میں ماۃ سنین اضافت کے ساتھ ہے اس صورت میں سنین، مأۃ کی تمیز ہوگی اور جمع محل میں مفرد کے ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول بالأخسرین اعمالاً میں۔ تفسیر تشریح ان آیات پر اصحاب کہف کا قصہ ختم ہو رہا ہے ان آیات میں پانچ باتیں بتائی گئی ہیں جو اختصار کے ساتھ حسب ذیل ہیں ملاحظہ فرمائیں : (1) عرصہ دراز کے بعد اصحاب کہف کے بیدار ہونے میں اور لوگوں کو ان کا حال معلوم ہونے میں کیا حکمت تھی ؟ (2) لوگوں میں اصحاب کہف کے بارے میں بعض باتوں میں اختلاف رونما ہوا ایک فریق غار پر ایک یادگاری عمارت بنانا چاہتا تھا اور دوسرا مسجد، دوسرا فریق غالب آیا اور مسجد تعمیر کردی۔ (3) اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں اختلاف رونما ہوا، اس سلسلہ میں مختلف اقوال ذکر کر کے صحیح تعداد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ (4) آخر میں یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ اصحاب کہف کا جس قدر واقعہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے اسی پر اکتفا کیا جائے، مزید بحث نہ کی جائے، نیز اس سلسلہ میں دوسروں سے قطعاً معلومات حاصل نہ کی جائیں اور اگر ان کی کوئی بات آئندہ بتانے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہہ لیا جائے۔ (5) اصحاب کہف کتنی مدت تک سوتے رہے ؟ وکذٰلکَ اَعْثرنا علیھم یعنی جس طرح ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے اصحاب کہف کو سالہا سال سلایا اور بیدار کیا اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حالات سے مطلع بھی کردیا۔ اصحاب کہف کو سالہا سال تک سلانے اور پھر بیدار کرنے میں حکمت کیا تھی ؟ اصحاب کہف کا راز اہل شہر پر اس لئے منکشف کیا گیا تھا کہ ان کا عقیدہ آخرت مضبوط ہو اور یقین آجائے کہ مرنے کے بعد قیامت کے روز سب کو دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ اصحاب کہف کا بیدار ہونا : تفسیر قرطبی میں اس کا مختصر قصہ اس طرح لکھا ہے : جس بادشاہ کے عہد میں اصحاب کہف شہر سے نکلے تھے اس کا نام دقیانوس تھا اور ظالم اور مشرک تھا وہ مرچکا تھا اور اس پر صدیاں گذر گئیں تھیں اور جس زمانہ میں اصحاب کہف بیدار ہوئے تھے شہر پر اہل حق کا قبضہ تھا اور ان کا بادشاہ ایک نیک صالح آدمی تھا جس کا نام بیدوسیس تھا (مظہری) قیامت کے بارے میں اور مردوں کو زندہ ہونے کے بارے میں شدید اختلاف چل رہا تھا ایک فرقہ اس بات کا قطعاً منکر تھا کہ جسم کے گلنے سڑنے اور ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہوجائے گا، بادشاہ ان گمراہ لوگوں کے بارے میں بہت فکر مند تھا کہ کس طرح ان کے شکوک و شبہات دور کئے جائیں جب کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی تو اس نے ٹاٹ کے کپڑے پہن کر اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے عاجزی کے ساتھ التجا کی کہ خدایا آپ ہی کوئی ایسی صورت پیدا فرما دیں کہ ان لوگوں کا عقیدہ درست ہوجائے اور یہ راہ راست پر آجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ اصحاب کہف بیدار ہوئے، بیدار ہونے کے بعد ان میں یہ بحث چھڑ گئی کہ ہم کتنی مدت سوئے ہیں ؟ کوئی کہتا تھا کہ ایک دن سوئے ہوں گے دوسرا کہنا کہ ایک دن سے بھی کم سوئے ہوں گے، بحث نے جب طول پکڑا تو ان میں سے ایک شخص نے کہا اس فضول بحث کو چھوڑو اور کام کی بات کرو بھوک لگ رہی ہے لہٰذا کچھ کھانے پینے کی بات کرو، چناچہ انہوں نے اپنے ایک شخص کو جس کا نام تملیخا بتایا جاتا ہے بازار میں کھانا لانے کے لئے بھیج دیا، اور یہ تاکید کردی کہ ہو شیاری اور بیدار مغزی سے کام لے، اور کسی کو ہماری خبر نہ ہونے دے اور اس بات کا بھی خیال رکھے کہ کھانا حلال اور پاکیزہ ہو اس لئے کہ اہل شہر کی اکثریت بت پرستوں کی ہے ایسا نہ ہو کہ غیر شرعی طور پر ذبح کیا ہو، چناچہ تملیخا نے ایک دکان سے کھانا خرید کر تین سو سال پہلے کا سکہ نکال کر دکاندار کو دیا تو دکاندار حیران رہ گیا کہ یہ سکہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ؟ بازار کے دیگر دکانداروں کو بھی دکھلایا سب نے یہ کہا کہ اس شخص کو کہیں سے پرانا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے، اس شخص نے انکار کیا کہ مجھے کوئی خزانہ نہیں ملا بلکہ یہ روپیہ میرا ہے، بات بڑھ گئی بازار والوں نے اس کو بادشاہ کے سامنے پیش کردیا، یہ بادشاہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ نیک صالح اور اللہ والا تھا اور اس نے سلطنت کے خزانہ میں وہ تختی بھی دیکھی تھی کہ جس میں اصحاب کہف کے نام اور ان کے فرار ہونے کا واقعہ لکھا ہوا تھا بادشاہ نے اس تختی کی روشنی میں حالات کی تحقیق کی تو اس کو اطمینان ہوگیا کہ یہ انہی لوگوں میں سے ہے، بادشاہ نے کہا میں تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ مجھے لوگوں سے ملا دے جو قیانوس کے زمانہ میں اپنے ایمان بچا کر بھاگے تھے، بادشاہ اس سے بہت خوش ہوا اور کہا شاید اللہ تعالیٰ نے میری دعاء قبول فرما لی ہے، اور اس شخص سے کہا کہ ہم کو اس غار پر لے چلو جہاں سے تم آئے ہو، بادشاہ ایک بڑے مجمع کے ساتھ غار پر پہنچا اور جب غار قریب آیا تو تملیخا نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہریں میں جا کر اپنے ساتھیوں کو حقیقت حال سے باخبر کر دوں تاکہ وہ گھبرا نہ جائیں، اس کے بعد روایات میں اختلاف ہے، ایک روایت میں یہ ہے کہ تملیخا نے غار میں جا کر ساتھیوں کو تمام حالات سنائے کہ اب بادشاہ مسلمان ہے اور قوم بھی مسلمان ہے وہ سب ملاقات کے لئے آئے ہیں، اصحاب کہف اس خبر سے بہت خوش ہوئے اور بادشاہ کا استقبال کیا پھر وہ اپنے غار میں واپس چلے گئے، اکثر روایات میں یہ ہے کہ جس وقت اس ساتھی نے غار میں پہنچ کر باقی حضرات کو یہ پورا واقعہ سنایا اسی وقت سب کی وفات ہوگئی بادشاہ سے ملاقات نہ ہوسکی، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ملاقات کے بعد اصحاب کہف نے بادشاہ اور اہل شہر سے کہا اب ہم آپ سے رخصت چاہتے ہیں اور غار کے اندر چلے گئے اسی وقت اللہ نے ان کو وفات دے دی، واللہ اعلم بالصواب۔ (قرطبی بحوالہ معارف القرآن ملخصًا) بہر حال جب اہل شہر کے سامنے قدرت الٰہی کا یہ عجیب واقعہ ظاہر ہوگیا تو سب کو یقین ہوگیا کہ جس ذات کی قدرت میں یہ داخل ہے کہ تین سو سال تک انسانوں کو بغیر غذا اور دیگر سامان زندگی کے زندہ رکھ سکتا ہے اور طویل عرصہ تک سلانے کے بعد پھر صحیح سالم قوی اور تندرست اٹھا سکتا ہے تو اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ مرنے کے بعد بھی ان کو مع اجسام کے زندہ کر دے، اس واقعہ سے ان کے انکار کا سبب دور ہوگیا کہ حشر اجساد کو مستبعد اور خارج از قدرت سمجھتے تھے اب معلوم ہوا کہ مالک الملکوت کی قدرت کو انسانی قدرت پر قیاس کرنا خود جہالت ہے، اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا لِیَعْلَمُوْا أنَّ وَعْدَ اللہِ حق وَأنَّ السَّاعَۃَ لاَ رَیْبَ فیہِ ۔ اس واقعہ کے بعد شہر والے اصحاب کہف کی بزرگی اور تقدس کے قائل ہوگئے تھے، اب ان میں اس بات میں اختلاف ہوا کہ ان کی یادگار کے طور پر غار پر کیا بنایا جائے ؟ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ غار کے پاس کوئی یادگاری عمارت تعمیر کردی جائے کہ جو لوگوں کے لئے تفریح گاہ بھی ہو اور ان بزرگوں کے لئے یادگار بھی، اور کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایک مسجد تعمیر کردی جائے تاکہ زائرین کے لئے سہولت ہو اور ان اہل اللہ کو اجر بھی پہنچے۔ مسئلہ : اگر کسی نیک آدمی کی قبر پر زائرین بکثرت آتے ہوں تو ان کے قیام اور نماز نیز دیگر سہولتوں کے لئے قریب میں مسجد بنانا جائز ہے بشرطیکہ وقف قبرستان میں نہ بنائی جائے اور جن احادیث میں انبیاء کی قبروں پر مسجد بنانے پر لعنت آئی ہے ان سے مراد خود قبروں کو سجدہ گاہ بنانا ہے جو بالاتفاق شرک اور حرام ہے۔ مسئلہ : کسی مسجد کے پاس یا کسی مکان میں میں کسی کی تدفین جائز نہیں مردوں کی تدفین قبرستانوں ہی میں ہونی چاہیے، حدیث شریف میں ہے صَلُوْا فِی بُیُوْتِکُمْ ولاَ تَتَّخِذ ُ وْھَا قبُوْرًا (ترمذی شریف، ج 1، ص 60) یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھو، ان کو قبریں نہ بناؤ، آپ ﷺ کی تدفین جو مکان میں ہوئی یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔ اصحاب کہف کی تعداد کیا تھی ؟ سیقولون ثلٰثۃ رابعھم کلبھم اصحاب کہف کی تعداد میں اختلاف کرنے والوں میں دو احتمال ہیں، اول یہ کہ یہ وہی لوگ ہوں جن کا اختلاف اصحاب کہف کے زمانہ میں ان کے نام ونسب کے بارے میں ہوا تھا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں آیا ہے (کمافی البحر) اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ سیقولون کی ضمیر نصاریٰ نجران کی طرف راجع ہو جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں مناظرہ کیا تھا ان کے تین فرقے تھے ایک فرقہ ملکانیہ کے نام سے موسوم تھا اس نے تعداد کے متعلق پہلا قول کیا یعنی تین کا عدد بتایا، اور دوسرا فرقہ یعقوبیہ تھا اس نے دو سرا قول یعنی پانچ ہونا بتایا، تیسرا فرقہ نسطوریہ تھا اس نے تیسرا قول یعنی سات ہونا اختیار کیا، بعض حضرات جن میں مفسر علام بھی شامل ہیں اس بات کے قائل ہیں کہ تیسرا قول مسلمانوں کا تھا اور پہلے دونوں نصاریٰ نجران کے، رسول اللہ ﷺ کی حدیث اور قرآن کریم کے اشارہ سے تیسرے قول کا صحیح ہونا معلوم ہوتا ہے۔ (بحر محیط) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں ان کم لوگوں میں سے ہوں کہ جن کو اصحاب کہف کی صحیح تعداد معلوم ہے، اصحاب کہف ساتھ تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دونوں قول رجماً بالغیب فرما کر رد کر دئیے ہیں اور تیسرے قول کی تردید نہیں فرمائی۔ وثامنھم کلبھم قرآن کریم نے اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں تین قول نقل کئے ہیں، تین، پانچ، سات، اور ہر ایک کے بعد کتے کو شمار کیا گیا ہے لیکن پہلے دو قول میں ان کی تعداد اور کتے کے شمار میں واؤ عاطفہ نہیں لایا گیا، ثلثۃ رابعھم کلبھم، خمسۃ سادسھم کلبھم یہ دونوں قول بلا واؤ عاطفہ کے آئے ہیں اور تیسرا قول سبعۃ وثامنھم قلبھم واؤ کے ساتھ لایا گیا ہے، اس کی وجہ حضرات مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ عرب کے لوگوں میں عدد کی پہلی گرہ سات کی ہوتی تھی، سات کے بعد جو عدد آئے وہ الگ شمار ہوتا تھا، قرآن کریم میں بھی اس کا استعمال جگہ ہوا، کما فی قولہ تعالیٰ وفتحت ابوابھا وقولہ تعالیٰ ثیبات وابکارا، جیسا کہ آج کل نو کا عدد اس کے قائم مقام ہے کہ جب تک اکائی ہے اور دس سے دہائی شروع ہوتی ہے گویا کہ یہ دونوں الگ الگ عدد ہیں اس لئے تین سے سات تک واؤ عاطفہ کے ساتھ الگ کر کے بتلاتے تھے اور اسی لئے اس واؤ کو واؤ ثمان کا لقب دیا تھا یہ واؤ محض زائدہ بھی ہوسکتا ہے اور زائدہ مع التاکید بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ یہ واؤ الصاق موصوف بالصفت اور تاکید پر دلالت کرتا ہے بایں طور کہ جب کسی موصوف کو یقین کے ساتھ متصف بالصفت کیا جائے تو موصوف کا وجود یقینی ہوگا اس لئے کہ صفت موصوف کے بغیر موجود نہیں ہوسکتی ثامنھم یہ سبعۃ کی صفت ہے یعنی وہ سات کہ جن کو آٹھ کرنے والا کتا ہے یعنی اصحاب کہف سات ہیں اور ان کو آٹھ کرنے والا کتا ہے، ثامنھم کلبھم واؤ کے ساتھ مستقل جملہ کی صورت میں ذکر کرنا یہ عزم اور پختگی کو ظاہر کرتا ہے یعنی آٹھواں کتا ہونا یقینی ہے تو اس سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ اصحاب کہف سات تھے، مفسر کے قول وَقِیلَ تاکیدًا اَوْ دلالۃً علیٰ لصُوقِ الصفۃِ بالموصوفِ میں اَوْ عاطفہ تفسیریہ ہے یعنی معطوف علیہ اور معطوف کا مفہوم ایک ہی ہے۔ اصحاب کہف کے اسماء : کسی صحیح حدیث سے اصحاب کہف کے نام صحیح صحیح ثابت نہیں ہیں تفسیری اور تاریخی روایات میں نام مختلف بیان کئے گئے ہیں ان میں اقرب وہ روایت ہے جس کو طبرانی نے معجم اوسط میں بسند صحیح حضرت عبداللہ عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ ان کے نام یہ ہیں : (1) مُکْسَلْمِیْنَا (2) تَمْلِیْخَا (3) مَرْطُوْنَسْ (4) سَنُوْنَسْ (5) سَارِیْنُوتَسْ (6) ذُو نَوَاس (7) کَعَسْطَطْیُوْنَس۔ اسماء اصحاب کہف بعض حضرات نے یہ بتائے ہیں، جیسا کہ صاوی و حاشیہ علی الجلالین میں مذکور ہیں : (1) مَکْسَلْمِیْنَا (2) تَمْلِیخَا (3) مَرْطونَسْ (4) نَیْنُوْنَسْ (5) سَارْبُولَسْ (6) ذُونواس (7) فَلْیَسْتطیُونَسْ ، یہ آخری شخص چرواہا تھا جو کہ راستہ سے ساتھ ہوگیا تھا اس کے ساتھ ایک کتا بھی تھا جس کا نام قطمیر بتایا گیا ہے، نیشا پوری نے حضرت ابن عباس ؓ کے حوالہ سے حاشیہ جلالین پر اصحاب کہف کے نو فوائد درج کئے ہیں نیز حاشیہ صاوی پر بھی درج ہیں طلب وہرب (بھاگنے) کے لئے آگ بجھانے کے لئے، اگر کسی کاغذ وغیرہ پر لکھ کر آگ میں ڈال دیا جائے تو اللہ کے حکم سے وہ آگ بجھ جائے گی، بچوں کے رونے کے لئے اور تیسرے دن کے بخار کے لئے اور درد سر کے لئے دائیں بازو پر باندھیں، اور ام صبیان اور دریائی یا خشکی کے سفر اور مال و پھلوں کی حفاظت کے لئے اور ترقی ذہن کے لئے اور قتل سے نجات کے لئے حاشیہ جلالین پر استعمال کی مندرجہ ذیل ترکیب لکھی ہے، بچہ کے رونے کے لئے تکیہ کے نیچے رکھا جائے اور کھیتی کی حفاظت کے لئے کسی کاغذ وغیرہ پر لکھ کر کھیت کے درمیان کسی اونچی لکڑی پر آویزاں کردیا جائے، شدید درد، تیسرے دن کے بخار سر کے درد اور حاکم یا سلاطین کے پاس جانے کے وقت دائیں ران پر باندھا جائے اور عسر ولادت کے لئے بائیں رات پر باندھا جائے۔ فلا تمار اِلا مراء ظاھر الخ سے آپ ﷺ کو اور امت کو ان دونوں جملوں سے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف پیش آئے تو جس قدر ضروری بات ہے اس کو واضح کر کے بیان کردیا جائے اس کے بعد بھی لوگ غیر ضروری بحث میں الجھیں تو ان کے ساتھ سر سری گفتگو کر کے بات ختم کردیا جائے اپنے دعویٰ کے اثبات اور ان کی بات کی تردید میں بہت زور لگانے سے گریز کیا جائے اور وقت کو ضائع نہ کیا جائے، اس لئے کہ اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، اس سے باہم تلخی پیدا ہونے کا بھی خطر ہے، دوسرے جملہ میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وحی الٰہی کے ذریعہ قصہ اصحاب کہف کی جتنی معلومات آپ کو دے دی گئی ہیں ان پر قناعت فرمائیں کہ وہ بالکل کافی ہیں زائد کی تحقیق اول لوگوں سے سوال وغیرہ کے چکر میں نہ پڑیں۔ قولہ تعالیٰ ولا تقولن لشائ الخ ای لِاَجل شئ تعذم علیہ فیما یستقبل من الزمان، فعبّر۔۔۔۔ لاجل شئ کے اضافہ کا مقصد یہ ہے کہ کہیں مخاطب غدًا سے محض غد ہی نہ سمجھ لے جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوجائے کہ بعد الغد کے لئے بغیر انشاء اللہ کے کہہ سکتا ہے، لاجل شئ کا مطلب ہے لمدت شئ فی المستقبل۔ اگر لوگ آپ سے کوئی بات قابل جواب دریافت کریں اور آپ جواب کا وعدہ فرمائیں تو اس کے ساتھ انشاء اللہ اس کے ہم معنی کوئی لفظ ضرور ملا لیا کریں اور وعدہ کی بھی کوئی تخصیص نہیں بلکہ ہر کام میں اس کا لحاظ رکھئے، اور آئندہ ایسا ہو جیسا اس واقعہ میں پیش آیا کہ آپ سے لوگوں نے روح اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے بغیر انشاء اللہ کے ان سے کل جواب دینے کا وعدہ کرلیا پھر پندرہ روز تک وحی نازل نہیں ہوئی اور آپ کو بڑا غم ہوا، اس ہدایت اور تنبیہ کے ساتھ لوگوں کے سوالوں کا جواب بھی نازل ہوا۔ (کذا فی الباب عن ابن عباس ؓ اور اگر آپ اتفاقاً انشاء اللہ کہنا بھول جائیں پھر کبھی یاد آئے تو اسی وقت انشاء اللہ کہہ کر اپنے رب کو یاد کرلیا کیجئے، اور ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دیجئے کہ مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھ کو نبوت کی دلیل بننے کے اعتبار سے اس واقعہ سے بھی نزدیک (واضح تر) بات بتلا دے، مطلب یہ ہے کہ تم نے میری نبوت کا امتحان لینے کے لئے اصحاب کہف وغیرہ کے قصے دریافت کئے جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے بتلا کر تمہارا اطمینان کردیا مگر اصل بات یہ ہے کہ ان قصوں کے سوال و جواب اثبات نبوت کے لئے کوئی بہت بڑی دلیل نہیں ہوسکتی یہ کام تو غیر نبی بھی جو تاریخ عالم سے بخوبی واقف ہو کرسکتا ہے، مگر مجھے تو اللہ تعالیٰ نے میری نبوت کے اثبات کے لئے اس سے بڑے اور قطعی دلائل اور معجزات عطا فرمائے ہیں جن میں سب سے بڑی دلیل خود قرآن ہے جس کی ایک آیت کی بھی ساری دنیا مل کے نقل نہ اتار سکی، اس کے علاوہ حضرت آدم سے لے کر قیامت تک کے وہ واقعات بذریعہ وحی مجھے بتلا دئیے گئے جو زمانہ کے اعتبار سے بھی بہ نسبت واقعہ اصحاب کہف اور ذوالقرنین زیادہ بعید ہیں اور ان کا علم بھی کسی کو بجز وحی کے ممکن نہیں، خلاصہ یہ کہ تم نے تو اصحاب کہف اور ذوالقرنین زیادہ بعید ہیں اور ان کا علم بھی کسی کو بجز وحی کے ممکن نہیں، خلاصہ یہ کہ تم نے تو اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے واقعات کو سب سے زیادہ عجیب سمجھ کر اسی کو امتحان نبوت کے طور پیش کیا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بھی زیادہ عجیب عجیب چیزوں کے علوم عطا فرمائے ہیں، اور جیسا اختلاف اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں ہے ایسا ہی اختلاف ان کے سونے کی مدت میں بھی ہے ہم اس میں صحیح بات بتلاتے ہیں : اصحاب کہف کے غار میں سونے کی مدت : وَلَبِثُوْا فِی کھفِھِمْ ثَلٰثَ مأۃٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا اصحاب کہف غار میں تین سال مزید براں نو سال رہے، قرآن کے ظاہر نسق سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب کہف کے تین سو سال سونے کی مدت کا بیان حق تعالیٰ کی طرف سے ہے، ابن کثیر نے اسی کو جمہور سلف وخلف کا قول قرار دیا ہے، مگر حضرت ابو قتادہ وغیرہ سے اس میں ایک دوسرا قول یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ یہ تین سو نوسال کا قول بھی انہیں اختلاف کرنے والوں میں سے بعض کا قول ہے اور اللہ تعالیٰ کا قول صرف وہ ہے جو بعد میں فرمایا یعنی (اَللہُ اعلم بِمَا لَبِثُوْا) مگر جمہور مفسرین نے فرمایا کہ یہ دونوں جملے حق تعالیٰ کا کلام ہیں پہلے میں حقیقت واقعہ کا بیان ہے اور دوسرے میں اس سے اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ ہے کہ جب اللہ کی طرف سے مدت کا بیان آگیا تو اب اس کو تسلیم کرنا لازم ہے وہی جاننے والا ہے محض تخمینوں اور اندازوں سے اس کی مخالفت بےعقلی ہے۔ ایک سوال : یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم بیان مدت میں پہلے تین سو سال بیان کئے اس کے بعد فرمایا ان تین سو پر نو اور زیادہ ہوگئے عام دستور کے مطابق پہلے ہی تین سو نو نہیں فرمایا، اس کا جواب حضرات مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ یہود و نصاریٰ میں چونکہ شمسی سال کا رواج تھا اس حساب سے تین سو سال ہی ہوئے ہیں اور اسلام میں قمری سال کا ہے اور قمری حساب سے ایک سال میں دس دن اور ہر تین سال میں ایک ماہ اور ہر چھتیس سال میں ایک سال کا اضافہ ہوجاتا ہے، اس حساب سے ہر سال میں تقریباً تین سال کا اضافہ ہوجاتا ہے، اس حساب سے تین سو سال شمسی کے تقریباً 309 سال قمری ہوں گے، یہ حساب تقریبی ہے یعنی کسر کو ترک کردیا گیا ہے اس لئے کہ بڑی گنتی میں عام طور پر کسر کو چھوڑ دیتے ہیں، شمسی اور قمری حسابوں میں امتیاز بتانے کے لئے تعبیر کا مذکورہ عنوان اختیار کیا گیا ہے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرت علی تھانوی نے بیان القرآن میں تفسیر حقانی کے حوالہ سے اصحاب کہف کا مقام اور مقام کی تاریخی تحقیق یہ نقل کی ہے کہ یہ ظالم بادشاہ کہ جس کے خوف سے بھاگ کر اصحاب کہف نے غار میں پناہ لی تھی اس کا زمانہ 250 ء تھا پھر تین سو سال تک یہ لوگ سوتے رہے تو مجموعہ 550 ء ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ کی ولادت مبارک 570 ء میں ہوئی اس لئے حضور ﷺ کی ولادت سے بیس سال پہلے ان کے بیدار ہونے کا یہ واقعہ پیش آیا اور تفسیر حقانی میں بھی ان کا نام شہر افسوس یا طرسوس کو قرار دیا ہے جو ایشائے کو چک میں واقع ہے اب بھی اس کھنڈرات موجود ہیں۔
Top