Tafseer-e-Jalalain - Al-Kahf : 47
وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَ تَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً١ۙ وَّ حَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًاۚ
وَيَوْمَ : اور جس دن نُسَيِّرُ : ہم چلائیں گے الْجِبَالَ : پہار وَتَرَى : اور تو دیکھے گا الْاَرْضَ : زمین بَارِزَةً : کھلی ہوئی (صاف میدن) وَّحَشَرْنٰهُمْ : اور ہم انہیں جمع کرلیں گے فَلَمْ نُغَادِرْ : پھر نہ چھوڑیں گے ہم مِنْهُمْ : ان سے اَحَدًا : کس کو
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو صاف میدان دیکھو گے اور ان (لوگوں کو) ہم جمع کرلیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے
آیات نمبر 47 تا 49 ترجمہ : اور یاد کرو اس دن کو کہ وہ (اللہ) چلا دے گا پہاڑوں کو یعنی اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو روئے زمین سے اکھاڑ دیں گے اور پہاڑ پراگندہ غبار ہوجائیں گے اور ایک قرأت میں نُسَیِّرُ نون اوری کے کسرہ اور جبال کے نصب کے ساتھ ہے اور اے مخاطب تو زمین کو دیکھے گا کہ ایک کھلا میدان ہے کہ اس پر پہاڑ وغیرہ کچھ نہ رہیں گے اور ہم تمام انسانوں کو خواہ مومن ہوں یا کافر سب کو جمع کریں گے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے اور سب کے سب تیرے رب کے رو برو صف بستہ حاضر کئے جائیں گے صفًّا حال ہے (اور معنی میں) مصطفین کے ہے ہر امت کی ایک صف ہوگی اور ان سے کہا جائے گا کہ دیکھو آخر کار تم ہمارے پاس آئے جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا یعنی تن تنہا یا برہنہ پا، ننگے دھڑ نگے غیر مختون اور منکرین بعث سے کہا جائے گا تم یہ سمجھتے رہے تھے کہ ہم تمہارے بعث کیلئے کوئی وقت موعود نہ لائیں گے اَنَّ مخففہ عن المثقلہ ہے یعنی أنَّہ اور نامہ عمل سامنے رکھ دیا جائے گا یعنی ہر شخص کا نامہ عمل، اگر مومن ہوگا تو دائیں ہاتھ میں اور اگر کافر ہوگا تو بائیں ہاتھ میں دے دیا جائے گا تو اے مخاطب تو دیکھے گا مجرموں کافروں کو کہ اس تحریر سے جو اس میں ہوگی خوف زدہ ہو رہے ہوں گے اور اس (نامہ اعمال) میں لکھی ہوئی بداعمالیوں کو دیکھ کر کہیں گے ہائے ہماری بدنصیبی وَیْلَتَنَا، ھَلَکَتْنَا کے معنی میں ہے اور ویل ایسا مصدر ہے کہ اس کا فعل (اس مادہ) سے مستعمل نہیں ہے یہ (نامہ عمل) کیسی عجیب کتاب ہے کہ جس نے نہ کوئی چھوٹا گناہ چھوڑا اور نہ بڑا جس کا احاطہ نہ کیا ہو ؟ یعنی ہر گناہ کو شمار کر کے قلمبند کرلیا اور مجرمین نامہ اعمال کی اس کیفیت سے تعجب کریں گے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا موجود پائیں گے یعنی اپنے اعمال ناموں میں لکھا ہوا پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا یعنی نا کردہ گناہ کی سزا نہ دے گا اور نہ کسی مومن کا اجر کم کرے گا تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد قولہ تعالیٰ حَشَرْنَا وعُرِ ضُوْا ووُضِعَ مذکورہ تینوں افعال ماضی کے صیغہ ہیں مگر معنی میں استقبال کے ہیں، وقوع یقینی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ماضی لایا گیا ہے لَمْ نُغادِر کا عطف حَشَرْنَا پر ہے اس لئے کہ لم نغادر لَمْ کی وجہ سے ماضی منفی کے معنی میں ہے قولہ صَفًّا عُرضُوْا کی ضمیر سے حال سے مصدر ہونے کی وجہ سے معنی میں جمع کے ہے یُسَیِّرُ کی تفسیر یذھَبُ بھا سے کرنے میں اشارہ ہے کہ یُسَیِّرُ متعدی بالباء ہے اور الجبالَ اس کا مفعول اول ہے قولہ نغادرُ کی تفسیر نَتْرُکُ سے کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نُغَادرُ باب مفاعلہ اگرچہ طرفین سے فعل کا تقاضہ کرتا ہے مگر یہاں طرفین سے فعل مراد نہیں ہے بلکہ غَادَرَ بمعنی غَدَرَ ہے، ای نترک اور عاقبتُ اللصَ کے قبیل سے ہے قولہ مصطفین سے اشارہ کردیا کہ صفًّا اگرچہ مفرد ہے مگر مصدر ہونے کی وجہ سے معنی میں جمع کے ہے قولہ کماءٍ یا تو مفعول مطلق ہے یا ضمیر مرفوع سے حال ہے، پہلی صورت میں کماء مصدر محذوف کی صفت ہوگا ای فَجِئْنَا کائنًا کماءٍ الخ قولہ أنْ مخففہ عن المثقلہ ہے اس کا اسم، ضمیرِ شان محذوف ہے ای اَنَّہ اور جملہ لَن نَجْعَلَ اس کی خبر ہے دوسرا کلمہ لَنْ حرف ناصب ہے اَنْ کانون لَنْ کے لام میں مدغم کردیا گیا ہے اور قرآنی رسم الخط میں نون کو حذف کردیا گیا لَکُمْ نجعل کا مفعول ثانی ہے اور موعدًا مفعول اول ہے قولہ کتاب کلّ امریٔ مفسر علام نے الکتاب کی تفسیر کتاب کل امریٔ سے کر کے اشارہ کردیا کہ الکتاب کا الف لام مضاف الیہ کے عوض میں ہے قولہ مشفقین کی تفسیر خائفین سے کرنے کا مقصد تعیین معنی ہیں اس لئے کہ مشفقین مختلف معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے یہاں خوف کے معنی مراد ہیں، حسن اور ابن کثیر اور ابو عمر نے تُسَیِّرُ الجبالُ مجہول پڑھا ہے اور الجبالُ کو نائب فاعل قرار دیا ہے اور ابن محیص (رح) نے تُسِیْرُ الجبالُ پڑھا ہے اور الجبالُ کو فاعل قرار دیا ہے، اور امام باقون نے نُسَیِّرُ الجبالَ پڑھا ہے اور جبال کو مفعول قرار دیا ہے، اور فاعل اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے یاد رہے کہ نُسَیِّرُ ، فعل محذوف اذکر کا ظرف ہے قولہ مال ھٰذا الکتاب میں ما استفہامیہ مبتدا ہے یہ استفہام تو بیخی ہے لام جارہ ہے ھٰذا اسم اشارہ الکتاب مشار الیہ لھٰذا کا لام یہاں پر رسم الخط قرآنی کے مطابق ھٰذا سے الگ لکھا جاتا ہے مصحف عثمانی میں اسی طرح لکھا ہوا ہے قولہ صغیرۃ وکبیرۃ کا موصوف ھَنُۃ ً یا فعلۃً محذوف ہے معصیۃ بھی مقدر مان سکتے ہیں۔ تفسیر وتشریح وَاِنَّ نُسَیِّرُ الجبال سے اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کو بیان فرما رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ یہ باغ و بہار زندگی اور سرسبز و شاداب زمین کس طرح ویران ہوجائے گی اور آخرت کی گھڑی کافروں کے لئے کس قدر حسرت ناک ہوگی ارشاد فرمایا اس دن کو یاد کرو کہ جس دن ہم پہاڑوں کو چلتا کردیں گے اور یہ پہاڑ دھنی ہوئی روئی اور بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے سورة النمل آیت 88 میں فرمایا کہ تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ بڑی مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں مگر وہ اس طرح چلیں گے جس طرح بادل چلتے ہیں اور آپ اے محمد باہر مخاطب زمین کو ایک کھلا میدان دیکھے گا اس دن پہاڑ، دریا اور ٹیلے، عمارتیں، درخت غرضیکہ ہر چیز ناپید ہوجائے گی اور کہیں کوئی نشیب و فراز نہ رہے گا سورة طٰہٰ میں ارشاد فرمایا لوگ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں معلوم کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ میرا پروردگار ان کو بالکل اڑا دے گا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمام انسانوں کو سفید بھوری زمین پر جمع کیا جائے گا جو میدے کی روٹی کی طرح ہوگی اس میں کسی بھی انسان کی کوئی علامت باقی نہیں رہے گی اور ہم سب انسانوں کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے یعنی اولین و آخرین چھوٹے بڑے کافر مومن سب کو جمع کریں گے کوئی زمین کی تہہ میں یا کسی گوشے میں پڑا نہ رہ جائے گا اور نہ قبر سے نکل کر کہیں چھپ سکے گا صفًّا کے معنی کھڑے ہونے کی حالت میں بھی ہوسکتے ہیں یعنی بارگاہ خداوندی میں سب کی حاضری حالت قیام میں ہوگی کوئی بیٹھا ہوا نہ ہوگا اور صفًّا کے معنی صفوفًا کے بھی ہیں یعنی قطار در قطار کے بھی ہوسکتے ہیں، حدیث شریف میں ہے کہ اہل محشر کی 120 صفیں ہوں گی جن میں سے اسّی صفیں اس امت کی ہوں گی اور جو لوگ قیامت کا انکار کرتے تھے ان سے کہا جائے گا کہ لو دیکھ لو آگئے نا تم ہمارے پاس اسی طرح کہ جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا یعنی جان ومال، آل واولاد اور اپنی ہر اس چیز سے خالی ہاتھ ہو کر جس پر تم دنیا میں ناز کیا کرتے تھے ننگ دھڑنگ ہماری بارگاہ میں حاضر ہوگئے بخاری شریف اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے لوگو ! تم قیامت میں اپنے رب کے سامنے ننگے پاؤں ننگے بدن اور غیر مختون حالت میں جمع کئے جاؤ گے، پھر آپ ﷺ نے سورة انبیاء کی آیت 104 تلاوت فرمائی اور قیامت میں سب سے اول جس کو لباس پہنایا جائے گا وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہوں گے (متفق علیہ عن ابن عباس) ایک دوسری روایت میں ہے کہ مذکورہ حدیث سن کر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ کیا سب مردوزن ننگے ہوں گے اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے، آپ نے فرمایا اس وقت معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہوگا کہ کوئی کسی کو دیکھے یعنی اس روز ہر ایک کو ایسی فکر دامن گیر ہوگی کہ کسی کو کسی طرف دیکھنے کا ہوش ہی نہ ہوگا سب کی نظریں اوپر کو اٹھی ہوئی ہوں گی اور منکرین قیامت سے یہ بھی کہا جائے گا بلکہ تم نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہارے لئے کوئی وعدہ کا وقت مقرر نہیں کیا بتاؤ تم دوبارہ پیدا ہوگئے یا نہیں ؟ اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا پھر آپ دیکھیں گے کہ مجرم لوگ اس کے مندرجات سے ڈر رہے ہوں گے اپنے گناہوں کی فہرست پڑھ کر خوف کھا رہے ہوں گے اور سوچ رہے ہوں گے کہ دیکھئے اب کیسی سزا ملتی ہے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کمبختی یہ کیسی عجیب کتاب ہے کہ اس نے نہ ہماری چھوٹی بات چھوڑی اور نہ بڑی مگر اس نے سب احاطہ کرلیا ہے یعنی کوئی بات ایسی نہیں رہی کہ جو اس میں درج نہ ہوگئی ہو اور جو کچھ بھی انہوں نے دنیا میں کیا تھا وہ سب موجود پائیں گے اور آپ کا پروردگار کسی پر ظلم نہ کرے گا، اس کا مفہوم عام طور پر حضرات مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ اپنے کئے ہوئے اعمال کی جزاء کو موجود پائیں گے اور حضرت علامہ انور شاہ کشمیری (رح) فرماتے تھے کہ اس تاویل کی ضرورت نہیں بیشمار روایات حدیث اس بات پر شاہد ہیں کہ یہی اعمال آخرت کی جزاء سزاء بن جائیں گے ان اعمال کی شکلیں وہاں بدل جائیں گی نیک اعمال جنت کی نعمتوں کی شکل اختیار کرلیں گے اور برے اعمال جہنم کی آگ اور سانپ اور بچھوؤں کی شکل اختیار کرلیں گے، اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کا مال قبر میں ایک بڑے سانپ کی شکل میں آکر اس کو ڈسے گا، اور کہے گا اَنا مالک (میں تیرا مال ہوں) اور نیک اعمال ایک حسین عورت کی شکل میں انسان کی قبر کی تنہائی میں وحشت دور کرنے کے لئے آئیں گے وغیرہ وغیرہ، ان تمام روایات کو عموماً مجاز پر محمول کیا جاتا ہے اور اگر مذکورہ تحقیق کو لیا جائے تو پھر مجاز کی ضرورت نہیں رہتی۔ قرآن کریم نے یتیم کے مال کو ناجائز طریقہ سے کھانے کو آگ فرمایا (اِنَّمَا یَاکُلُوْنَ فِی بطُوْنِھِمْ نَارًا) مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وقت بھی آگ ہے مگر اس کے آثار محسوس کرنے کے لئے اس دنیا سے گذرنا شرط ہے جیسے کہ کوئی ماچس کے بکس کو آگ کہے تو صحیح ہے مگر اس کے آگ ہونے کے لئے رگڑنا شرط ہے، خلاصہ یہ کہ انسان جو کچھ نیک یا بد عمل دنیا میں کرتا ہے یہ عمل ہی آخرت میں جزاء یا سزاء کی شکل اختیار کرے گا، اس وقت اس کے آثار و علامات اس دنیا میں مختلف ہوں گے۔
Top