Tafseer-e-Jalalain - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
(اے پیغمبر ﷺ اگر یہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تم ان کے پیچھے رنج کر کر کے اپنے تئیں ہلاک کردو گے۔
آیت نمبر 6 تا 8 ترجمہ : شاید آپ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ قرآن پر ایمان نہ لائے تو خود کو افسوس کی وجہ سے غم وغصہ میں ہلاک کرلیں گے یعنی ان کے آپ سے اعراض کرنے کے بعد آپ کے ان کے ایمان پر حریص ہونے کی وجہ سے، اور اَسَفًا مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے بیشک ہم نے زمین پر جو کچھ ہے حیوانات اور نباتات اور اشجار وانہار وغیرہ کو زمین کے لئے زینت بنایا ہے تاکہ ہم ان لوگوں کو آزمائیں۔۔۔ ان لوگوں کو آزمائیں جو اس کی طرف مائل ہیں، کہ ان میں سے کون ما علی الارض کے بارے میں عمل کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے، یعنی ان میں سے کون دنیا سے زیادہ بےرخی کرنے والا ہے اور ہم زمین کی تمام چیزوں کو چینل میدان کردیں گے یعنی خشک سپاٹ میدان بنادیں گے جو زراعت کے لائق نہ ہو۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد مُھْلِکٌ کا اضافہ بیان معنی کے لئے ہے قولہ بَعْدَھم یہ آثار کی تفسیر ہے اور بَعْدَ تولیھم تفسیر کی تفسیر ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ ان کافروں کے ایمان نہ لانے پر اتنا غم نہ کیجئے کہ خود کو ہلاک کر ڈالیں لَعَلَّ ترجی اور اشفاق کے لئے آتا ہے، مگر یہاں نہی کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی آپ کو اس قدر زیادہ غم کرنے سے منع کرنے کے لئے آثار اَثَرً کی جمع ہے، ان کے پیچھے یعنی ان کی فکر میں آپ خود کو ہلاک نہ کریں قولہ اِنْ لَمْ یومنوا اس کی دو ترکیبیں ہوسکتی ہیں (1) انْ لم یومنوا شرط ہے اور ما قبل پر اعتماد کرتے ہوئے جزاء محذوف ہے یعنی فلا تھلک نفسک سَک (2) اِنْ لمْ یومِنُوْا شرط مؤخر اور فَلَعَلُّکَ باء۔۔۔۔ اء مقدم قولہ اَسَفًا باخع کا مفعول لہ ہے یا باخع کی ضمیر۔ حال ہے قولہ لحرصکَ یہ علۃ العلۃ ہے یعنی آپ کو اتنا زیادہ غم کیوں ہے اس لئے کہ آپ ان کے ایمان پر حریص ہیں قولہ اناجعلنا یہ جملہ مستانفہ ہے اگر جَعَلَ صَبَّرَ کے معنی میں ہو تو زینۃً اس کا مفعول ثانی ہوگا، لَھَا کا لام زینۃً سے متعلق ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کائنۃً سے متعلق ہو کر زینۃً کی صفت ہو، ما علی الارض مفعول اول ہے اور اگر جَعَلَ بمعنی خَلَقَ ہو تو زینۃً یا تو حال ہوگا یا پھر مفعول لہ قولہ ناظرین الی ذلک یہ مِن الناس سے حال ہے قولہ جُرُزًا صعیداً کی صفت ہے اس میں اسناد مجازی ہے اس لئے کہ جُرُز کے اصل معنی ایسی زمین کے ہیں جس کی گھاس کاٹ دی گئی ہو یہ ما علی الارض کا وصف قرار دیا ہے حالانکہ یہ ارض کا وصف ہے لہٰذا علاقہ مجاورت کی وجہ سے اسناد مجازی ہوگی۔ قولہ اَیُّھُمْ بترکیب اضافی مبتداء ہے اور اَحْسَنُ اس کی خبر اور عملاً تمیز ہے جملہ ہو کر نبلوْا کے دو مفعولوں کے قائم مقام ہے فیہ کی ضمیر کا مرجع ما علی الارض ہے مراد دنیا ومافیہا ہے قولہ اَزَھَدُ لہٗ یہ اَحْسَنُ عملاً کی تفسیر ہے قولہ اَسَفًا کی تفسیر غیضاً وحُزْنًا سے کرنے کا مقصد تعیین معنی ہے اس لئے کہ اَسَفًا متعدد معنی کے لئے آتا ہے قولہ من الحیوان والنبات یہ ما علی الارض کا بیان ہے قولہ ناظرین الی ذلک سے اشارہ ہے کہ ھُمْ ذوالحال ہے اور ناظرین اس سے حال ہے۔ تفسیر وتشریح کافروں کے ایمان نہ لانے پر آپ اس قدر غم نہ کریں کہ خود کو ہلاک ہی کر ڈالیں، اس آیت میں نفس حزن سے منع نہیں کیا گیا اس لئے کہ کفر پر نفس حزن تو ایمان کی علامت ہے، آپ کو حد سے زیادہ غم کرنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ دنیا عالم امتحان ہے اس میں کفر و ایمان، خیر و شر دونوں رہیں گے اسی امتحان کے لئے ہم نے زمین کی چیزوں کو زمین کے لئے رونق بنایا ہے، تاکہ ہم اس کے ذریعہ لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے یعنی کون دنیا سے اعراض کرتا ہے اور کون اس دنیا کی زینت اور رونق پر مفتون ہو کر آخرت سے غافل ہوجاتا ہے، غرضیلہ یہ عالم ابتلا ہے تکوینی طور پر کوئی مومن رہے گا اور کوئی کافر پھر حد سے زیادہ غم کرنا بیکار ہے، آپ تبلیغ و رسالت کا اپنا کام کرتے رہئے اور باقی معاملہ ہمارے اوپر چھوڑ دیجئے، چناچہ ایک دن ایسا آئے گا کہ ہم زمین کو چٹیل میدان کردیں گے۔
Top