Tafseer-e-Jalalain - Al-Kahf : 92
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
ثُمَّ : پھر اَتْبَعَ : وہ پیچھے پڑا سَبَبًا : ایک سامان
پھر اس نے ایک اور سامان کیا
آیت نمبر 92 تا 98 ترجمہ : پھر اس نے ایک اور سفر کی تیاری شروع کی یہاں تک کہ جب وہ ایسے مقام پر پہنچا کہ جو دو پہاڑوں کے درمیان تھا سین کا فتح اور ضمہ دونوں ہیں، یہاں بھی اور بعد میں بھی، بلاد ترک کے اختتام پر دو پہاڑ ہیں سکندر نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان کی گھاٹی کو بند کردیا تھا جیسا کہ عنقریب (اس کا ذکر) آرہا ہے، تو ان دونوں پہاڑوں کے اس پار یعنی ان کے سامنے ایک ایسی قوم کو پایا جو مشکل ہی سے کوئی بات سمجھتی تھی یعنی بڑی دیر کے بعد (اشارہ وغیرہ سے) ایک قرأت میں ضمہ ی اور کسرہ کاف کے ساتھ ہے تو انہوں نے کہا اے ذوالقرنین یأجوج ومأجوج ہمزہ اور بدون ہمزہ دونوں قرأتیں ہیں یہ دو عجمی قبیلوں کے نام ہیں اسی وجہ (یعنی عجمہ اور علم ہونے کی وجہ) سے غیر منصرف ہیں، ہماری اس سرزمین میں آکر قتل وغارتگری کرتے ہیں فساد مچاتے ہیں کیا ہم آپ کے لئے کچھ خرچ کا انتظام کردیں یعنی چندے کے طور پر مال جمع کردیں اور ایک قرأ میں خَراجًا ہے اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں یعنی ایک آڑ جس کی وجہ سے وہ ہم تک نہ پہنچ سکیں ذوالقرنین نے جواب دیا میری (قدرت) واختیار میرے پروردگار نے جو مال وغیرہ دے رکھا ہے اس مال سے جسے تم میرے لئے جمع کرو گے بہت بہتر (کہیں زیادہ) ہے لہٰذا مجھے تمہارے مال وغیرہ کی ضرورت نہیں میں یوں ہی (بلا معاوضہ) تمہارے لئے دیوار بنا دوں گا مکَّنَنِیْ میں ایک قرأت دونونوں کے ساتھ بغیر ادغام کے یعنی مَکَّنِّیْ بھی ہے البتہ تم طاقت ( محنت مزدوری) سے میری مدد کرو جب میں تم سے مطالبہ کروں، تو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک دیوار یعنی ایک مضبوط آڑ کھڑی کر دوں گا (اچھا تو) تم میرے پاس لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ جن سے دیوار بنائی جاسکے، چناچہ (ذوالقرنین) نے لوہے کے ٹکڑوں کے درمیان لکڑیاں اور کوئلہ رکھ دیا یہاں تک کہ جب اس دیوار کے ردّے دونوں پہاڑوں کے برابر کر دئیے (صدفین میں کئی قرأتیں ہیں ( 1) صاد اور فا دونوں کے ضمہ کے ساتھ (2) دونوں کے فتحہ کے ساتھ ( 3) صاد کے ضمہ اور فا کے سکون کے ساتھ یعنی دونوں پہاڑوں کے درمیان کے خلافء کو تعمیر کر کے پر کردیا اور اس کے اردگرد دم کشوں اور آگ کا نظم کردیا، تو حکم دیا دھونکو چناچہ لوگوں نے دھونکا حتی کہ جب اس لوہے کو آگ کے مانند سرخ کردیا تو حکم دیا اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ تاکہ میں اس کو (گرم لوہے) پر ڈال دوں قطر پگھلا ہوا تانبا قطرًا میں دو فعلوں نے تنازع کیا ہے فعل ثانی کو عمل دینے کی وجہ سے اول فعل کا (مفعول قطراً ) حذف کردیا ہے، چناچہ پگھلاہوا تانبا گرم لوہے پر ڈال دیا تو وہ لوہے کے تختوں کے درمیان داخل ہو کر شیٔ واحد ہوگیا، چناچہ یا جوج ماجوج اس دیوار پر اس کی بلندی اور چکناہٹ کی وجہ سے نہ چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے اس کی سختی اور مضبوطی کی وجہ سے ذوالقرنین نے کہا یہ دیوار یعنی اس کے بنانے پر قدرت دینا میرے رب کی رحمت یعنی نعمت ہے اس لئے کہ یہ ان کے خروج کے لئے مانع ہوگی چناچہ جب میرے رب کا وعدہ یعنی قرب قیامت ان کے خروج کا وقت آئے گا تو میرا رب اس دیوار کو ریزہ ریزہ کر کے برابر کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ ان کے خروج وغیرہ کا حق ہے جو ہو کر رہے گا۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد سَدٌّ مصدر (ن) بند کرنا قولہ بین السدین بلغ کا مفعول ہے بَیْنٌ چونکہ بان کا مصدر ہے اس لئے ظروف متصرفہ میں سے ہے یاجوج وما جوج یہ دونوں عجمی لفظ ہیں اور دو قبیلوں کے اجداد کے نام ہیں یہ دونوں قومیں حضرت نوح (علیہ السلام) کے صاحبزادے یافث کی نسل سے ہیں عجمہ اور علم ہونے کی وجہ سے غیر منصرف ہیں خرج محصول بعض حضرات نے خَرج اور خراج میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ خرج زرفدیہ کو کہتے ہیں اور خراج عام ہے جس میں زر فدیہ، ٹیکس، محصول وغیرہ سب شامل ہیں قولہ مَکَّنِّی یہ دراصل مَکَّنَ نِی تھا، ماضی واحد مذکر غائب مصدر تمکین بااختیار وبااقتدار بنانا نِی میں نون وقایہ اوری ضمیر متکلم مفعول بہ پھر لام کلمہ نون کو ساکن کر کے نون وقایہ میں ادغام کردیا رَدْمٌ موٹی اور مضبوط دیوار ردم (ض) مصدر ہے سوراخ بند کرنا مگر یہاں مصدر بمعنی اسم مفعول ہے صدف پہاڑ کی چوٹی قولہ استطاعوا اصل میں استطاعوا تھا تا اور طا قریب المخرج ہونے کی وجہ سے تخفیف کے لئے تا کو حذف کردیا قولہ الوعد وقت یا مصدر بمعنی موعود ای القیامۃ قولہ آتونی تم میرے پاس لاؤ زُبُرٌ زُبُرَۃٌ کی جمع ہے جیسے غُرَفٌ غُرْفَۃٌ کی جمع ہے لوہے کی پلیٹ قولہ آتونی اُفرِغُ تنازع فعلان کے قبیل سے ہے قطرًا اُفرغ کا مفعول اول ہے آتونی کا مفعول محذوف ہے قولہ یظْھَرُوہُ بتاویل مصدر ہو کر ما اسطاعوا کا مفعول ہے، قولہ ای السَّدْ ای الاقدار علیہ سے اول ھٰذا کا مشار الیہ متعین کیا پھر یہ بتادیا کہ دیوار سے مراد دیوار بنانے کی توفیق ہے جو درحقیقت رحمت خداوندی ہے، مطلب یہ ہے کہ دیوار تو اس قوم کے حق میں رحمت خداوندی ہے اور اس دیوار کے بنانے کی توفیق ذوالقرنین کے حق میں رحمت خداوندی ہے قولہ بخروجھم مفسر علام نے بخروجھم کا اضافہ کر کے وعدہ کا مصداق متعین کردیا کہ وعدہ قرب قیامت میں ان کا خروج ہے، بعض حضرات نے وعدہ سے مراد اس دیوار کے شکست وریخت ہونے کا وقت مراد لیا ہے قولہ یموجُ ترکنا کا مفعول ثانی ہے اور بعضھم مفعول اول ہے اور ترکنا بمعنی جعلنا ہے یَوْمئِذٍ ، یموج سے متعلق ہے۔ تفسیر وتشریح ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا یہ ذوالقرنین کے تیسرے سفر کا بیان ہے، ذوالقرنین نے مغرب ومشرق کے سفر سے فارغ ہونے کے بعد تیسرے سفر کی تیار شروع کی، یہ تیسرا سفر کس جانب تھا اس بارے میں روایات مختلف ہیں مگر راجح یہ ہے کہ یہ سفر جانبِ شمال تھا۔ فائدہ : آیات کی مندر جہ ذیل تفسیر امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری (رح) نے عقیدۃ الاسلام صفحہ 201 میں کی ہے، یہ بات ملحوظ رہے کہ ھٰذا رحمۃ ٌ من ربِّی جعلہٗ دَکَّاءَ وکَانَ وعدُ رَبِّی حقًّا یہ ذوالقرنین کا اپنا قول ہے، اور کوئی قرینہ سیاق وسباق میں ایسا نہیں ہے جس سے دیوار کے ٹوٹنے کو علامات قیامت میں شمار کیا جائے بلکہ ذوالقرنین کا مقصد وَعْدُ رَبِّی سے صرف اس دیوار کا کسی وقت میں ٹوٹ پھوٹ جانا ہے پس اس صورت میں ارشاد باری (وترکنا بعضھم یومئذ یموج فی بعض) استمرار تجددی پر دلالت کرتا ہے یعنی ایسا برابر ہوتے رہے گا کہ ان میں سے بعض قبائل بعض پر حملہ آور ہوتے رہیں یہاں تک کہ قیامت کا وقت آجائے گا، البتہ وہ ارشاد جو سورة انبیاء میں آیا ہے یعنی (حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج وھم من کل حدب ینسلون) تو یہ بلاشبہ علامات قیامت میں سے ہے مگر اس میں دیوار کا قطعا کوئی ذکر نہیں ہے لہٰذا اس فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے یعنی سورة انبیاء کی آیت میں فتح سے عروج وخروج مراد ہے دیوار کا ٹوٹنا اور یا جوج وماجوج کا نکلنا مراد نہیں ہے اس لئے کہ اس آیت میں دیوار کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ فائدہ : سکندر ذوالقرنین نے جن دو پہاڑوں کے درمیان کے درہ کو بند کیا تھا وہ کون سے پہاڑ تھے اور وہ قوم کون سی تھی جن کی حفاظت کے لئے یہ دیوار بنائی گئی تھی اور ذوالقرنین نے جو دیوار بنائی تھی وہ اب تک باقی ہے یا ٹوٹ پھوٹ گئی یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کے جوابات قرآن میں نہیں ہیں، اس لئے یقین کے ساتھ کوئی بات کہنا مشکل ہے، دنیا میں ایسی دیواریں وحشی لوگوں سے حفاظت کے لئے مختلف مقامات پر بنائی گئی ہیں جن میں سے بعض کے خرابات و نشانات آج بھی باقی ہیں، مؤرخین کے بیان کے مطابق وہ دیوار جس کا قرآن میں ذکر ہے وہ ایران سے جانب شمال بحر کا سپین (Causpian Sea) یعنی بحر قزوین اور بحر اسود کے درمیان جو سلسلہ کوہ ہے جس کو جبال کا کیشیا (چیچنیاں کے دامن میں) (Caucasus) جبال قَفْقَاز، کَفْقاس، اور تَفْلیس کہتے ہیں ان پہاڑوں میں ایک درّہ درّہ داریال کے نام سے ہے، ذوالقرنین نے وہاں دیوار بنائی تھی ان پہاڑوں کے مشرق میں بحر قزوین واقع ہے اور مغرب میں بحر اسود اور بیچ میں سلسلہ کوہ ہے اور گذرنے کا کوئی راستہ اس درہ کے علاوہ نہیں ہے، ذوالقرنین نے دیوار بنا کر اس کو بند کردیا تھا، اور جن قبائل کی حفاظت کا یہ سامان کیا گیا تھا وہ ترک قبائل تھے اور یہ بات بھی خیال رہے کہ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار اب باقی نہیں ہے البتہ سیاحوں نے اب وہاں آثار دیکھے ہیں اور ممکن ہے کہ اب بھی موجود ہوں، قرآن و حدیث میں کوئی صحیح اور صریح بات ایسی نہیں ہے جس سے قیامت سے کچھ پہلے تک اس دیوار کا بحالہ باقی رہنا ثابت ہوتا ہو۔ یاجوج ماجوج کون ہیں ؟ اکثر علماء کی رائے یہ ہے وہ عام انسانوں کی طرح آدم کی اولاد ہیں اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی ذریت میں سے ہیں، علامہ ابن کثیر (رح) نے البدایہ والنہایہ ج 2/ص 110 میں لکھا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ عام بنی آدم کی طرح ہیں اور انسانوں ہی کی طرح شکل و صورت اور اوصاف رکھتے ہیں اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری ( ج 6، ص 386) میں تحریر فرمایا ہے کہ یا جوج ماجوج یافث بن نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے دو قبیلے ہیں، حضرت قتادہ سے بھی یہی بات مروی ہے اور روح المعانی میں ہے کہ یا جوج وماجوج یافث بن نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے دو قبیلے ہیں اور یہی رائے ہے، بائبل کتاب پیدائش باب 10 آیت 2 میں بھی یافث کے ایک لڑکے کا نام یا جوج آیا ہے اور ماجوج کے بارے میں بائبل کا بیان مختلف ہے۔ غرضیکہ یاجوج ماجوج کوئی عجوبہ روزگار مخلوق نہیں ہیں اور نہ برزخی مخلوق ہیں اس قسم کی جو روایات ہیں ان کا اسلامی روایات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے یہ سب اسرائیلیات کے بےسروپا ذخیرہ ہے، علامہ یاقوت حمونی نے معجم البلدان میں ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن (رح) نے قصص القرآن میں جلد سوم میں ان روایات کی تغلیط کی ہے اور سمجھنے کی بات ہے کہ یا جوج وماجوج جب بنی آدم اور نوح (علیہ السلام) کی ذریت میں سے ہیں تو پھر وہ دیگر انسانوں سے اتنے مختلف کیوں ہیں جتنا ان روایات میں مذکور ہے مثلاً (1) یاجود ماجوج بالشت، ڈیڑھ بالشت یا زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ کا قد رکھتے ہیں اور بعض غیر معمولی طویل القامت ہیں۔ (2) ان کے کان اتنے بڑے ہیں کہ ایک کان کو اوڑھ لیتے ہیں اور ایک کو بچھا لیتے ہیں۔ (3) ان کی غذا کے لئے قدرت سال بھر میں دو مرتبہ سمندر سے ایسی مچھلیاں پھینک دیتی ہے جن کے سر اور دم کا فاصل اس قدر طویل ہوتا ہے کہ دس رات دن اگر کوئی شخص چلتا رہے تب اس فاصلہ کو طے کرسکتا ہے۔ (4) وہ ایک برزخی مخلوق ہے جو آدم (علیہ السلام) کی پشت سے تو ہیں مگر حوّا ؓ کے بطن سے نہیں ہیں کیونکہ وہ آدم کے ایسے نطفہ سے پیدا ہوئے ہیں کہ جو احتلام کی حالت میں نکلا تھا اور مٹی میں رل مل گیا تھا۔ (العیاذ باللہ) اس قسم کی تمام باتیں قطعاً بےدلیل وبے بنیاد ہیں اسلامی روایات سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ فائدہ : دنیا کی موجودہ اقوام میں سے یاجوج وماجوج کون ہیں ؟ اس کا جواب بھی یقین کے ساتھ دینا مشکل ہے اس لئے کہ یا جوج وماجوج بہت قدیم نام ہیں اور مرور ایام کے ساتھ نام بدل جاتے ہیں آج دنیا میں کوئی قوم ان ناموں سے معروف نہیں ہے اس لئے اس کی تعیین دشوار ہے، تاہم علماء کی رائے یہ ہے کہ یاجوج وماجوج منگولیا (تاتار) کے ان وحشی قبایل کو کہا جاتا ہے جو یورپ امریکہ اور روس کی اقوام کے منبع اور منشاء ہیں ان کے دو بڑے قبیلے موگ اور یوجی کہلاتے تھے جو عربی زبان میں یا جوج وماجوج بن گئے۔ (واللہ اعلم) فائدہ : یاجوج ماجوج کے بارے میں اس قدر بےسروپا روایتیں کیوں مشہور ہوئیں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یا جوج ماجوج کا تذکرہ یہودیوں کی کتابوں میں بھی ہے، حزقی ایل باب 38 / 39 میں بھی ان کا تذکرہ آیا ہے اسی وجہ سے یہودیوں نے حسب فطرت یاجوج ماجوج کے بارے میں بعید از عقل کہانیاں تصنیف کرلیں اور کعب احبار کے ذریعہ جو یہودی النسل تھے اور ان کی کتابوں کے بڑے عالم تھے وہ سب کہانیاں مسلمانوں میں پھیل گئیں، مولانا حفظ الرحمٰن صاحب نے لکھا ہے کہ وہ اسلام لانے کے بعد یا تو تفریح کے طور پر ان کو سنایا کرتے تھے یا اس لئے کہ اس رطب ویابس میں سے جو دوراز کار باتیں ہوں وہ رد کردی جائیں اور جن کی قرآن اور احادیث نبوی سے تائید ہوتی ہو ان کو ایک تاریخی حیثیت میں لے لیا جائے مگر نقل کرنے والوں نے اس حقیقت پر نظر نہ رکھتے ہوئے اس پورے طومار کو اسی طرح نقل کرنا شروع کردیا جس طرح حدیثی روایات کو نقل کیا جاتا ہے۔ (قصص القرآن جلد 3/ص 195) فائدہ : یاجوج ماجوج کا خروج و عروج بھی دجال کے ظہور کی طرح علامات قیامت میں سے ہے، سورة الانبیاء کی آیت 96 میں اس کا تذکرہ ہے، ارشاد ہے حَتّٰی اِذا فُتحت یاجوج وماجوج مِن کلِّ حدبٍ ینسِلُون واقتَرَبَ الوعدُ الحق اس کا مطلب یہ ہے کہ نفخ صور سے پہلے قیامت کی علامات میں سے ایک نشانی یہ پیش آئے گی کہ یا جوج وماجوج کے تمام قبیلے ایک ساتھ امنڈ آئیں گے اور دنیا میں عام غارت گری شروع کردیں گے اور اپنی مقامی بلندیوں سے تیزی کے ساتھ اترتے ہوئے زمین کے گوشہ گوشہ میں پھیل جائیں گے، غرض آیت میں فتح سے مراد ان کا یکبارگی دھاوا بولنا ہے دیوار توڑ کر نکلنا مراد نہیں ہے۔ فائدہ : یا جوج وماجوج کے بارے میں ایک مشہور حدیث یہ ہے کہ وہ روزانہ سد سکندر کو کھودتے ہیں شام کو دیوار جب اتنی پتلی رہ جاتی ہے کہ سورج کی کرنیں نظر آنے کے قریب ہوجاتی ہیں تو ان کا سردار کہتا ہے کہ اب کام ختم کرو کل اس کام کو پورا کردیں گے مگر اگلے روز جب کام پر واپس آتے ہیں تو دیوار پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم پاتے ہیں پھر وہ کھودنا شروع کردیتے ہیں یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا تاآنکہ مقررہ مدت آجائے گی اور جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا کہ وہ انسانی دنیا پر چھا جائیں تو ان کا سردار کہے گا اب واپس چلو کل انشاء اللہ اس کو کھود ڈالو گے چناچہ دوسرے دن اسی حالت میں ملے گی، اور وہ اس کو کھود ڈالیں گے اور لوگوں پر نکل پڑیں گے الخ یہ روایت ابوہریرہ ؓ کا مضمون ہے اور کعب احبار سے مروی روایت میں یہ ہے کہ وہ روزانہ دیوار چاٹتے رہتے ہیں (یلحسونہ) اور یہی روایت لوگوں میں مشہور ہے کعب احبار کی روایت عام کتابوں میں نہیں ہے، حافظ ابن حجر (رح) نے عبد بن حمید کی سند کا حوالہ دیا ہے کہ کعب احبار کی روایت اس میں ہے اور ابوہریرہ ؓ کی حدیث ترمذی شریف، ابن ماجہ، مسند احمد، صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم وغیرہ کتابوں میں ہے اور سب کی ایک ہی سند ہے یعنی قتادہ عن ابی رافع عن ابی ہریرہ عن رسول اللہ ﷺ پھر قتادہ کے نیچے اس کی متعدد سندیں ہیں اس حدیث کی ایک دوسری سند عاصم عن ابی صالح عن ابی ہریرہ بھی ہے مگر یہ روایت موقوف ہے مرفوع نہیں ہے، یہ سند عبد بن حمید کی کتاب میں ہے کما ذکرہ الحافظ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث کو عام طور پر صحیح سمجھا جاتا ہے البانی نے بھی اس کو سلسلہ احادیث صحیحہ میں نمبر 735 پر ذکر کیا ہے مگر ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس پر سخت تنقید کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند اگرچہ عمدہ ہے مگر آنحضرت ﷺ کی طرف اس کی نسبت غلط ہے سندہ جید ولکن متنہ فی رفعہ نکارۃ نیز وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس قسم کی ایک اسرائیلی کہانی کعب احبار سے بھی مروی ہے اور ابوہریرہ ؓ اکثر کعب احبار کے پاس بیٹھا کرتے تھے اس لئے ممکن ہے کہ ابوہریرہ نے یہ مضمون کعب احبار سے سنا ہو اور ایک کہانی کے طور پر بیان کردیا ہو مگر نیچے کے کسی راوی نے غلط فہمی سے اس کو مرفوع کردیا ہو۔ اس کے علاوہ ابن کثیر نے درایۃ بھی اس پر دو اعتراض کئے ہیں ایک یہ کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے اور دوسرا یہ کہ یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے، تفصیل کے لئے ان کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں، مزید غور کیا جائے تو اس کی سند میں مندرجہ ذیل دو خرابیاں ہیں (1) قتادہ مدلس ہیں حافظ فرماتے ہیں کہ ابن مردویہ کی روایت میں قتادہ اور ابو رافع کے درمیان ایک راوی کا واسطہ ہے۔ (فتح الباری، ج 13، ص 109) ۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ قتادہ نے ابو رافع سے کوئی حدیث نہیں سنی۔ (قال ابو داؤد بذل المجہود ج 20، ص 128، بحوالہ ہدایت القرآن ملخصاً )
Top