Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ
: نہیں
الْبِرَّ
: نیکی
اَنْ
: کہ
تُوَلُّوْا
: تم کرلو
وُجُوْھَكُمْ
: اپنے منہ
قِبَلَ
: طرف
الْمَشْرِقِ
: مشرق
وَالْمَغْرِبِ
: اور مغرب
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
الْبِرَّ
: نیکی
مَنْ
: جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ
: اور دن
الْاٰخِرِ
: آخرت
وَالْمَلٰٓئِكَةِ
: اور فرشتے
وَالْكِتٰبِ
: اور کتاب
وَالنَّبِيّٖنَ
: اور نبی (جمع)
وَاٰتَى
: اور دے
الْمَالَ
: مال
عَلٰي حُبِّهٖ
: اس کی محبت پر
ذَوِي الْقُرْبٰى
: رشتہ دار
وَالْيَتٰمٰى
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنَ
: اور مسکین (جمع)
وَابْنَ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
وَالسَّآئِلِيْنَ
: اور سوال کرنے والے
وَفِي الرِّقَابِ
: اور گردنوں میں
وَاَقَامَ
: اور قائم کرے
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتَى
: اور ادا کرے
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَالْمُوْفُوْنَ
: اور پورا کرنے والے
بِعَهْدِهِمْ
: اپنے وعدے
اِذَا
: جب
عٰھَدُوْا
: وہ وعدہ کریں
وَالصّٰبِرِيْنَ
: اور صبر کرنے والے
فِي
: میں
الْبَاْسَآءِ
: سختی
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
وَحِيْنَ
: اور وقت
الْبَاْسِ
: جنگ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
صَدَقُوْا
: انہوں نے سچ کہا
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الْمُتَّقُوْنَ
: پرہیزگار
نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب (کو قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ خدا پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (خدا کی) کتاب اور پیغمبروں پر ایمان لائیں اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (خدا سے) ڈرنے والے ہیں
آیت نمبر 177 تا 179 ترجمہ : تمام تر اچھائی نماز میں مشرق و مغرب کی طرف رخ کرنے ہی میں نہیں یہ آیت یہود و نصاریٰ کے رد میں نازل ہوئی ہے اس لئے کہ وہ اس قسم کا اعتقاد رکھتے تھے، بلکہ اچھا یعنی نیک وہ شخص ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر ایمان رکھنے والا ہو، اور البِرّ کے بجائے البَار بھی پڑھا گیا ہے، اور جو مال سے محبت رکھنے کے باوجود قرابت داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوالیوں کو دے اور مکاتبوں کو اور قیدیوں کو آزاد کرانے میں خرچ کرے اور نماز کی پابندی کرے اور فرض زکوٰۃ ادا کرے ما قبل (میں مذکور زکوٰۃ) سے نفلی صدقہ مراد ہے (اور نیک وہ لوگ ہیں) کہ جو اللہ سے یا لوگوں سے عہد کرتے ہیں تو پورا کرتے ہیں اور الصَّابرینَ منصوب بالمدح ہے اور تنگی (یعنی) شدید حاجت کے حاملین اپنے ایمان میں اور نیکی کا دعویٰ کرنے میں سچے ہیں، اور یہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اے ایمان والو ! تم پر مقتولوں کے بارے میں وصفاً اور فعلاً مماثلت (برابری) فرض کی گئی ہے آزاد آزاد کے بدلے قتل کیا جائے، اور غلام کے عوض (آزاد) قتل نہ کیا جائے، اور غلام، غلام کے عوض اور عورت عورت کے عوض (قتل کی جائے) اور سنت نے بیان کیا کہ مردوں کو عورتوں کے عوض قتل کیا جائے گا، اور یہ کہ دین میں مماثلت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا مسلمان اگرچہ غلام ہو کافر کے عوض اگرچہ آزاد ہو قتل نہیں کیا جائے گا، ہاں ! قاتلین میں سے کسی کو اپنے مقتول بھائی کے خون کی کچھ معافی دیدی جائے، اس طریقہ سے کہ اس سے قصاص معاف کردیا جائے، اور شئ کی تنکیر بعض ورثاء کی طرف سے قصاص کا مطالبہ اور بعض کی طرف سے قصاص کی معافی کی صورت میں قصاص کے ساقط ہونے کا فائدہ دیتی ہے، اور بھائی کا ذکر کرنے میں معافی کی داعی شفقت ہے اور اس بات کا اعلان ہے کہ قتل اخوۃ ایمانی کو قطع نہیں کرتا، اور مَن مبتداء ہے شرطیہ ہے یا موصولہ اور فاتباع خبر ہے، تو معاف کرنے والے کا قاتل کا معروف طریقہ پر تعاقب (مطالبہ) کرنا ہے، اس طریقہ پر کہ سختی کے بغیر (نرمی سے) مطالبہ کرے، اور معافی پر اتباع کو مرتب کرنا اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ واجب ان دونوں میں سے ایک ہے، اور یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے دو قولوں میں سے ایک ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ واجب قصاص ہے، اور دیت اس کا بدل ہے چناچہ اگر مقتول کے وارث نے معاف کردیا اور دیت کا تذکرہ نہ کیا تو مقتول کے ورثاء کے لئے کچھ نہیں ہے، اور یہی قول راجح قرار دیا گیا ہے، اور قاتل پر معاف کرنے والے یعنی وارث کے پاس دیت کو خوبی کے ساتھ پہنچا دینا ہے بایں طور کہ بغیر ٹال مٹول اور کمی کے پہنچا دے یہ حکم (یعنی) جواز قصاص اور دیت کے عوض قصاص سے معافی تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے سہولت اور رحمت ہے اس لئے کہ اس میں وسعت کردی ہے، اور (متعین طور پر) ان دونوں میں سے ایک واجب نہیں کیا جیسا کہ یہود پر (صرف) قصاص واجب کیا تھا، اور نصاریٰ پر (صرف) دیت واجب تھی پھر جس نے قاتل پر زیادتی کی بایں طور کہ معاف کرنے کے بعد اس کو قتل کردیا تو اس کیلئے آخرت میں آگ دردناک عذاب ہے یا دنیا میں قتل ہے، اے عقلمندو ! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے یعنی بقاء عظیم ہے اس لئے کہ قاتل کو جب یہ علم ہوگا کہ وہ بھی قتل کیا جائے گا تو وہ (قتل) سے باز رہے گا، تو اس نے خود اپنی جان بچائی اور جس کے قتل کا ارادہ کیا تھا اس کی بھی، لہٰذا تمہارے لئے قانون قصاص مشروع کیا گیا ہے تاکہ تم قصاص کے خوف سے قتل سے بچو۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : لَیْسَ الْبِرَّ لَیْسَ ماضی جامد فعل ناقص ہے اس کا مضارع مستعمل نہیں ہے اس لئے کہ لَیسَ اگرچہ صیغہ ماضی کا ہے مگر اس کے معنی نفی للحال کے ہیں، لَیِسَ اصل میں لَیِسَ بروزن فَعِلَ تھا، اگر لَیْسَ کے لئے یاء ساکنہ لَیْتَ کے مانند لازم نہ ہوتی تو لَیْسَ میں یاء ساکن ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے یاء الف سے بدل جاتی تو ل اس ہوجاتا۔ قولہ : البرَّ بالنصب، البرَّ لَیْسَ ، کی خبر مقدم ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور تُولُّوْا بتاویل مصدر ہو کر لَیْسَ کا اسم مؤخر ہے، اور بعض قراء نے البرُّ لیس قرار دے کر مرفوع بھی پڑھا ہے۔ قولہ : اَنْ تُوَلُّوا تم رخ کرو تَوْلِیَۃً سے مضارع جمع مذکر حاضر، نونِ اعرابی عامل ناصب اَنْ کی وجہ سے گرگیا ، یہ اضداد میں سے ہے اس کے معنی رخ کرنے اور منہ پھیرنے، دونوں کے آتے ہیں۔ فائدہ : لَیْسَ البرَّ پر سورة بقرہ نصف ہوگئی، نصف اول اصول دن اور بنی اسرائیل کے بیان پر مشتمل ہے اور نصف ثانی کا غالب حصہ احکام فرعیہ تفصیلیہ سے متعلق ہے۔ قولہ : فی الصلوٰۃ، فی الصلوٰۃ کے ساتھ مقید کرنے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ خارج صلوٰۃ کدھر بھی رخ کرنا کسی کے یہاں مطلوب و محمود نہیں ہے۔ قولہ : ردًا علی الیھود والنصاریٰ ۔ تنبیہ : یہ تردید نصاریٰ کے بارے میں تو درست ہے اس لئے کہ وہ عبادت میں مشرق کی جانب رخ کرتے ہیں مگر یہود کے بارے میں درست نہیں ہے اس لئے کہ یہود عبادت میں بیت المقدس کی جانب رخ کرتے ہیں، نہ کہ مغرب کی طرف، اور بیت المقدس مدینہ سے جانب شمال میں ہے نہ کہ جنوب مغرب میں (فیہ مافیہ) لہٰذا اگر یہود و نصاریٰ کی تخصیص نہ کرتے ہوئے مطلق جہت مراد لی جائے بایں طور کہ عبادت میں کوئی جہت مقصود و مطلوب نہیں ہے، اصل مطلوب امتثال امر ہے، متعدد بار تحویل قبلہ کرکے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : ذَا البِرِّ وقُرِئَ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : لٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ میں مصدر کا حمل ذات پر ہو رہا ہے جو درست نہیں ہے اس لئے کہ اس کا ترجمہ ہے ” نیکی وہ ہے جو اللہ پر ایمان لایا “ حالانکہ یہ درست نہیں ہے اس کے دو جواب دئیے ہیں : پہلا جواب : یہ کہ مصدر کے ماقبل ذو محذوف مانا جائے ای ذَا البرِّ اس طرح مصدر اسم فاعل بن جائے گا اور ترجمہ یہ ہوجائے گا، نیکی والا (یعنی) نیک وہ ہے جو اللہ پر ایمان لایا۔ دوسرا جواب : یہ دیا ہے کہ بِرٌّ مصدر بَارٌّ اسم فاعل کے معنی میں ہے اس صورت میں حمل مصدر ولی الذات کا اعتراض ختم ہوجائے گا، بعض حضرات نے ایک تیسرا جواب دیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے مصدر جانب خبر میں محذوف مانا جائے، اور تقدیر عبارت یہ ہوگی : لکِنَّ البِرَّ برُّ مَن اٰمَنَ اس صورت میں بھی کوئی اعتراض باقی نہیں رہتا۔ قولہ : وَآتَی الْمَالَ عَلیٰ مع حُبِّہٖ لہٗ ، علیٰ بمعنی مع ہے، اس لئے کہ یہاں استعلاء کے معنی درست نہیں ہیں۔ قولہ : حُبِّہٖ لہٗ ، لہٗ کی ضمیر میں تین احتمال ہیں : (1) مال کی طرف راجع ہو یعنی مال کی حاجت و ضرورت کے باوجود اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرتے ہیں، (2) اللہ کی طرف راجع ہو یعنی اللہ کی محبت کی وجہ سے راہ خدا میں مال صرف کرتے ہیں، (3) آتَی سے جو اتیان مفہوم ہے اس کی طرف راجع ہو یعنی راہ خدا میں دینے کو محبوب سمجھتے ہوئے حاجت مندوں کو دیتے ہیں۔ قولہ : عَلیٰ حُبِّہٖ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ذوالحال آتٰی کی ضمیر ہے (ای آتی المال حال محبتہٖ لہٗ ) ۔ قولہ : القربیٰ مصدر ہے، نہ تو قریبٌ کی جمع ہے اور نہ اَقْرَبُ کی مؤنث ہے، اور قرینہ اس کا ذو کی اضافت ہے اگر قربیٰ قریب کی جمع یا اقرب کی مؤنث ہو تو ذو کی اضافت درست نہ ہوگی۔ قولہ : والموفون بعھدھم اس کا عطف مَن آمَنَ پر ہے۔ قولہ : نَصبٌ علی المدح اس عبارت کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : والصَّابِرُونَ رفع کے ساتھ ہونا چاہیے، اس لئے کہ یہ الموفون پر عطف ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ الموفون پر عطف کا تقاضا اگرچہ یہ ہے کہ الصَّابرونَ رفع کے ساتھ ہو لیکن نصب دیا گیا تاکہ مقصد بدرجہ اتم مکمل ہو، لہٰذا اَمدَحُ مقدر کی وجہ سے الصابرینَ منصوب ہے، اختصار کو چھوڑ کر اطناب کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ مقام، مقام مدح ہے اور جب مقام مدح میں صفات کثیرہ ذکر کی جاتی ہیں تو احسن طریقہ یہ ہے کہ ان کا اعراب مختلف ہو اس لئے کہ اعراب کا اختلاف انواع متعددہ پر دلالت کرتا ہے اور اتحاد فی الاعراب نوع واحد پر دلالت کرتا ہے لہٰذا جب اعراب میں اختلاف ہوگا تو مقصد حمد و مدح اکمل پورا ہوگا، گویا کہ والصابرون صفت مقطوعہ عن الموصوف ہے اور موصوف الموفون ہے، اور صفت کا قطع موصوف سے جائز ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول وَامْرَأَتُہٗ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ میں ہے۔ قولہ : اُولٰئِکَ مبتداء الَّذِینَ صدقُوا جملہ ہو کر مبتداء کی خبر اول، اُولٰئِکَ ھُمُ المُتَّقونَ جملہ ہو کر خبر ثانی، یہ جملہ مستانفہ بھی ہوسکتا ہے۔ قولہ : اَلقَتْلٰی قتیل کی جمع ہے بمعنی مقتول قولہ : وَصْفًا وفعلاً مماثلت فی الوصف کا مطلب یہ ہے کہ حرو عبد کا تفاوت نہ ہو، اور مماثلت فی الفعل کا مطلب یہ ہے کہ جس طریقہ اور جس آلہ سے مقتول کو قتل کیا گیا ہے قاتل کو بھی اسی طرح قصاصاً قتل کیا جائے، اگر جلا کر قتل کیا ہے تو قاتل کو بھی جلا کر قتل کیا جائے، اور غرق کرکے قتل کیا ہے تو قاتل بھی غرق کرکے قتل کیا جائے، علیٰ ھٰذا القیاس۔ قولہ : المماثلۃ اس لفظ سے اس شبہ کو دور کردیا کہ قصاص کا صلہ فی نہیں آتا، مگر یہاں صلہ فی استعمال ہوا ہے۔ جواب : قصاص، مماثلت کے معنی کو متضمن ہے اس لئے فی صلہ لانا درست ہے۔ قولہ : تنکیر شئ، یُفیدُ سقوطَ القصاص الخ یعنی شئ میں فاعل کے معنی ہونے کی وجہ سے اصل تعریف ہے مگر نکرہ لاکر اشارہ کردیا کہ اگر کسی وارث نے معاد کردیا تو قصاص ساقط ہوجائے گا۔ قولہ : فی ذکر اخیہ الخ لفظ اخ سے اشارہ کردیا کہ قاتل نے اگرچہ قتل کرکے بڑا ظلم کیا ہے اور مقتول کے ورثاء کو بہت تکلیف پہنچائی ہے مگر ہے تو پھر بھی تمہارا بھائی لہٰذا اس پر رحم کرو۔ قولہ : ویذان بان القتل لا یقطع اخوۃَ الایمان اس سے معتزلہ پر رد مقصود ہے، قتل ناحق چونکہ گناہ کبیرہ ہے جو انسان کو معتزلہ کے نزدیک اسلام سے خارج کردیتا ہے، اور کافر اور مسلمان میں کوئی اخوۃ نہیں ہوتی، مگر مِن دمِ اخِیہِ کہہ کر اشارہ کردیا کہ قتل ناحق اگرچہ گناہ کبیرہ ہے مگر اسلام سے خارج نہیں کرتا ورنہ تو اس کو اخ نہ کہا جاتا۔ قولہ : وَمَنْ مبتداء ہے خواہ شرطیہ ہو یا موصولہ اور فَاتّباعٌ بالمعروفِ اس کی خبر ہے، جواب شرط ہونے کی وجہ سے فاداخل ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر مقتول کے ورثاء نے قتل سے قصاص معاف کردیا اور دیت پر رضا مند ہوگئے تو قاتل کو یہ ہدایت ہے کہ دیت بحسن و خوبی ادا کر دے بلاوجہ ٹال مٹول نہ کرے، ادھر معاف کرنے والے ورثاء کو یہ ہدایت ہے کہ دیت وصول کرنے کے لئے قاتل کے پیچھے نہ پڑجائیں بلکہ نرمی اور سہولت سے تقاضا کریں یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے قصاص معاف کردیا ہے تو قاتل پر بڑا احسان کردیا، اس لئے کہ اس کا اجر اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے۔ قولہ : فَعَلَی العَافی مفسر علام نے مذکورہ عبارت محذوف مان کر ایک اعتراض کا جواب دیا ہے : اعتراض : مَن شرطیہ ہو یا موصولہ، جواب شرط کا پہلی صورت میں اور صلہ کا دوسری صورت میں جملہ ہونا ضروری ہے اس لئے کہ صلہ حکم میں جزاء کے ہوتا ہے۔ جواب : کا حاصل یہ ہے کہ فاتباع بھی جملہ ہے اس لئے کہ اتباع مبتداء ہے اور اس کی خبر عَلَی العَافِی خبر مقدم ہے، تقدیر عبارت یہ ہے : فَعَلی العَافی اتباع بالمعروف۔ قولہ : و ترتیب الاتباع علی العفو الخ اس عبارت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ دیت قصاص کا بدل یا تابع نہیں ہے بلکہ مستقل واجب ہے کہ قرآن کریم میں اتباع یعنی مطالبہ دیت کو عفو قصاص پر مرتب کیا ہے یعنی اول درجہ قصاص کا ہے اگر قصاص کسی وجہ سے ساقط ہوجائے تو دیت خود بخود واجب ہوجائے گی، اس سے معلوم ہوا کہ دیت قصاص کا بدل نہیں ہے کہ اگر قصاص معاف ہوجائے تو دیت بھی خود بخود معاف ہوجائے، بلکہ ان دونوں میں سے ایک واجب ہے اور مقدم قصاص ہے، امام شافعی (رح) تعالیٰ کا یہ قول اول ہے، اگر فقط قصاص واجب ہوتا اور دیت اس کا بدل ہوتا جیسا کہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کا قول ثانی ہے، تو بلا عوض یا مطلقاً قصاص معاف کرنے سے دیت بلا ذکر واجب نہ ہوتی حالانکہ دیت بلا ذکر واجب ہوتی ہے۔ قولہ : والثانی الواجب القصاص والدیۃ بدل عنہ یہ امام شافعی (رح) تعالیٰ کے قول ثانی کا بیان ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ واجب قصاص ہے اور دیت اس کا بدل ہے اگر مقتول کے ورثاء نے قصاص معاف کردیا اور دیت کا کوئی ذکر نہ کیا تو دیت بھی خودبخود معاف ہوجائے گی اور یہی قول راجح ہے اس لئے کہ تعیین کے ساتھ قصاص کے وجوب پر نصوص موجود ہیں۔ قولہ : وعلی القاتل اس عبارت کو محذوف ماننے کا مقصد سابق اعتراض کا دفعیہ ہے وَاَدَاءٌ اِلَیہِ باحسان کا عطف چونکہ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ پر ہے لہٰذا جو اعتراض وہاں ہوتا ہے وہی یہاں ہوتا ہے، اعتراض و جواب کی تقریر سابق میں گزر چکی ہے، ملاحظہ کرلی جائے۔ قولہ : الحکم المذکور اس عبارت کا مقصد بھی ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : ذٰلک اسم اشارہ واحد ہے حالانکہ اس کے مشار الیہ تین ہیں : (1) جوازِ قصاص (2) العفو عنہ (3) دیت۔ جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ذٰلک کا مرجع الحکم المذکور ہے، جس میں یہ تینوں احکام آجاتے ہیں۔ قولہ : عذابٌ الیمٌ مؤلَم، مؤلِمٌ میں لام کا فتحہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں فتحہ میں مبالغہ زیادہ ہے۔ تفسیر و تشریح لَیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ مشرق و مغرب کا ذکر تو محض تمثیل کے طور پر کیا گیا ہے ورنہ اصل مقصد سمت پرستی کی تردید ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ذہن نشین کرانا ہے کہ مذہب کی چند ظاہری رسموں کو ادا کردینا اور صرف ضابطہ کی خانہ پری کردینا ہی سب کچھ نہیں ہے، بلکہ اصل نیکی وہ ہے جس کو لکنَّ البرَّ مَن آمَنَ سے بیان فرمایا ہے، بعض مفسرین کو مشرق و مغرب کے لفظ سے دھوکا ہوا ہے جیسا کہ خود صاحب جلالین علامہ سیوطی کو مغالطہ ہوا ہے کہ مشرق سے مراد نصاریٰ کا قبلہ اور مغرب سے مراد یہود کا قبلہ لیا ہے، اس لئے کہ مغرب کی سمت یہود کا قبلہ نہیں ہے ان کا قبلہ بیت المقدس ہے جو مدینہ سے شمال کی جانب ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے بیشمار گمراہیوں میں سے ایک گمراہی سمت پرستی بھی تھی یعنی بےجان دیوتاؤں، مورتیوں، پتھروں، درختوں، پہاڑوں، دریاؤں کے علاوہ خود سمتوں کی بھی پرستش ہوتی تھی، اور مختلف جاہل قوموں نے یہ اعتقاد جما لیا تھا کہ فلاں سمت مثلاً مشرق کی سمت بھی مقدس ہے یا مثلاً مغرب کی سمت قابل پرستش ہے قرآن کریم یہاں شرک کی اسی مخصوص قسم کی تردید کر رہا ہے، فرماتا ہے کہ کوئی سمت و جہت، سمت و جہت ہونے کے اعتبار سے ہرگز قابل تقدیس نہیں اور نہ طاعت و بر سے اس کا کوئی تعلق، بعض مفسرین کو اس آیت میں جو اشکال ہوا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے، انہوں نے جہت مشرق و مغرب سے مخصوص سمت سمجھ لی حالانکہ مطلقاً سمت پرستی کی تردید مقصود ہے۔ اسلام نے بھی کسی سمت کو بحیثیت سمت ہرگز متعین نہیں کیا، اسلام نے صرف ایک متعین مکان یعنی خانہ کعبہ کو ایک مرکزی حیثیت دی ہے خواہ کسی سمت میں پڑجائے جیسا کہ مشاہدہ ہے، کعبہ مصر و طرابلس اور حبشہ سے مشرق میں پڑتا ہے اور ہندوستان پاکستان چین و افغانستان وغیرہ سے مغرب میں، شام و فلسطین و مدینہ سے جنوب میں اور یمن اور بحر قلزم کے جنوبی ساحلوں سے شمال میں، اگر یہ حقیقت پیش نظر رہے تو تمام اشکالات خود بخود رفع ہوجاتے ہیں، اور نہ کسی تاویل کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ (ماجدی) مشرق یعنی سورج دیوتا، دنیائے شرک کا معبود اعظم رہا ہے، سورج چونکہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے اس لئے عموماً جاہلی قوموں نے سمت مشرق کو بھی مقدس سمجھ لیا اور عبادت کے لئے مشرق رخی کو متعین کرلیا۔ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ (الآیۃ) مشرکانہ ذہنیت پر کاری ضرب لگانے کے بعد قرآن نے اصلاح عقیدہ کی طرف توجہ فرمائی جو کہ ایک اہم اور نبی ادی ضرورت ہے، عقیدہ کی صحت کے بغیر نہ کوئی عمل معتبر ہے اور نہ عبادت مقبول، عقائد میں سب سے پہلی چیز ایمان باللہ ہے، اس کا ذکر مَنْ آمَنَ باللہِ میں آگیا، ایمان کے بقیہ اجزاء کا ذکر وَالْیَوْمِ الْاَخِرِ وَالْمَلآئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیِّیْنَ میں آگیا، اس کے بعد عبادات کا درجہ ہے جن کا ذکر وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ الخ میں کیا گیا، اس کے بعد تیسرا درجہ معاملات کا ہے جس کا ذکر وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ الخ سے فرما دیا۔
Top