Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو اور خدا سے بخشش مانگو بیشک خدا بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ حج کے اعمال، واجبات، سنن، مستحبات تو بہت سے ہیں لیکن ضروری تین ہیں، احرام پوشی، 9 ذی الحجہ کو عرفات میں حاضری اور طواف زیارت ان تینوں میں بھی اہم ترین رکن وقوف عرفات ہے۔ عرفات : مکہ معظمہ سے جو سڑک مشرق کی جانب طائف جاتی ہے اس پر مکہ سے تقریبا بارہ میل کے فاصلہ پر کئی میل کے رقبہ کا ایک لمبا چوڑا میدان ہے اس کا نام عرفات ہے اسی نام کی ایک پہاڑی بھی اسی میدان میں واقع ہے سطح زمین سے اس کی بلندی تقریبا دو سو گز ہے 8 ذی الحجہ کی دوپہر تک حاجیوں کو منی پہنچ جانا چاہیے اور 9 ذی الحجہ کو صبح کو اشراق کے بعد عرفات کے لئے روانگی ہوجائے تاکہ منی اور عرفات کا درمیانی فاصلہ جو تقریباً 8، 9 میل ہے، دوپہر تک طے ہوجائے، دوپہر سے عصر کے آخری وقت تک اسی میدان میں رہنا چاہیے اسی کو اصطلاح میں وقوف کہتے ہیں یہ عرفات کی حاضری حج کا رکن اعظم بلکہ حج کی جان ہے اس کے فوت ہونے سے حج فوت ہوجاتا ہے، یہ سارا وقت تو بہ و استغفار، عبادت، انابت الی اللہ ہی میں صرف ہونا چاہیے غروب کے بعد مزدلفہ (مشعر الحرم) کے لئے روانہ ہونا چاہیے، مغرب کی نماز کا وقت اگرچہ عرفات ہی میں ہوجاتا ہے مگر نماز ادا نہ کرنی چاہیے اور نہ راستہ میں ادا کرے بلکہ مزدلفہ میں جا کر مغرب اور عشاء دونوں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ ادا کرے جس طرح میدان عرفات میں مسجد نمرہ میں عصر و ظہر ایک ساتھ ادا کی تھیں۔ مزدلفہ مکہ سے تقریباً چھ میل کے فاصلہ پر واقع ہئ، منی سے عرفات جانے کا ایک راستہ تو سیدھا ہے حاجی 9 ذی الحجہ کو عرفات اسی راستہ سے جاتے ہیں، واپسی میں حکم ہے کہ دوسرے راستہ سے لوٹیں یہ راستہ ذرا چکر کا ہے اور مزدلفہ اسی راستہ میں پڑتا ہے، حاجیوں کے قافلے تقریباً دس بجے شب یہاں پہنچ جاتے ہیں وادی محسر کے سوا پورا مزدلفہ متبرک اور محترم ہے۔
Top