Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 236
لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِیْضَةً١ۖۚ وَّ مَتِّعُوْهُنَّ١ۚ عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ١ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ
لَاجُنَاحَ : نہیں گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِنْ : اگر طَلَّقْتُمُ : تم طلاق دو النِّسَآءَ : عورتیں مَالَمْ : جو نہ تَمَسُّوْھُنَّ : تم نے انہیں ہاتھ لگایا اَوْ : یا تَفْرِضُوْا : مقرر کیا لَھُنَّ : ان کے لیے فَرِيْضَةً : مہر وَّمَتِّعُوْھُنَّ : اور انہیں خرچ دو عَلَي : پر الْمُوْسِعِ : خوش حال قَدَرُهٗ : اس کی حیثیت وَعَلَي : اور پر الْمُقْتِرِ : تنگدست قَدَرُهٗ : اس کی حیثیت مَتَاعًۢا : خرچ بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُحْسِنِيْنَ : نیکو کار
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگ دسست اپنی حیثیت کے مطابق، نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے
آیت نمبر 236 تا 242 ترجمہ : اور جب تک تم عورتوں سے نہ لگو، اور ایک قراءت میں تُمَاسُّوھُنَّ ہے ای تُجَامِعُوْھُنَّ (یعنی قبل اس کے کہ تم ان سے جماع کرو) اور ان کا مہر مقرر نہ کیا ہوا گر تم ان کو طلاق دیدو تو تم پر کوئی حرج نہیں، مَا مصدر یہ ظرفیہ ہے یعنی ہاتھ نہ لگانے اور مہر مقرر نہ کرنے کے زمانہ میں طلاق دینے میں تم پر کوئی مواخذہ نہیں اور نہ مہر واجب، اگر ان کو طلاق دو تو ان کو کچھ فائدہ پہنچاؤ یعنی ان کو کو چھ دو جس سے وہ فائدہ حاصل کریں، اور تم میں سے خوشحال لوگوں پر اپنی مقدرت کے مطابق اور ناداروں تنگ دستوں پر ان کی وسعت کے مطابق فائدہ پہنچانا ہے بالمعروف، مَتَاعًا کی صفت (اول) ہے یہ حق ہے خوش اخلاق لوگوں پر یعنی اطاعت گزاروں پر حَقًا، مَتَاعًا، کی صفت ثانیہ ہے یا مصدر مؤکد ہے اور اگر تم نے عورتوں سے لگنے سے پہلے طلاق دیدی اور تم ان کے لئے مہر مقرر کرچکے ہو تو مقررہ مہر کا نصف ان کے لے واجب ہے اور نصف تمہارے لئے واپس ہوگا، اِلَا یہ کہ بیویاں معاف کردیں اور چھوڑ دیں یا وہ شخص کہ جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے معاد کر دے اور وہ شخص شوہر ہے کہ بیوی کے لئے پورا مہر چھوڑ دے اور ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ وہ شخص (عورت) کا ولی ہے (جب کہ) عورت اس معاملہ میں معذور ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور اگر تم معاف کردو تو یہ تقویٰ کے لیے زیادہ قریب ہے اَن تعْفُوا، مبتداء ہے اور ” اَقْرَبُ لِلتقوی “ اس کی خبر ہے اور آپس میں معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو یعنی ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی سے کام لو، بلاشبہ جو کچھ تم کرتے ہو وہ سب اللہ کی نظروں میں ہے سو وہ تم کو اس کی جزاء دے گا پنج وقتہ نمازوں کی ان کے اوقات میں ادا کر کے حفاظت کرو بالخصوص درمیانی نماز کی اور وہ عصر کی نماز ہے جیسا کہ حدیث میں ہے (رواہ الشیخان) یا صبح کی یا ظہر کی نمازیں مراد ہیں، یا ان کے علاوہ (کوئی اور نماز مراد ہے) یہ چند اقوال ہیں اور درمیانی نماز کا اس کی فضیلت کی وجہ سے مستقل طور پر ذکر کیا ہے اور اللہ کے لئے نماز میں با ادب کھڑے رہو کہا گیا ہے کہ اطاعت گزاروں کی طرح (کھڑے رہو) آپ ﷺ کے فرمان کی وجہ سے (لفظ) قنوت جو قرآن میں مذکور ہے اس سے مراد اطاعت ہے، احمد وغیرہ نے اس کو روایت کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خاموشی کے ساتھ کھڑا رہنا مراد ہے، زید بن ارقم کی حدیث کی وجہ سے فرمایا کہ ہم نماز میں باتیں کرلیا کرتے تھے تایں کہ یہ آیت نازل ہوئی (جس میں) ہم کو سکوت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا اور باتیں کرنے سے منع کردیا گیا، (رواہ الشیخان) اور اگر تم کو دشمن کا یا سلاب کا یا درندے کا خوف ہو تو خواہ پیدل زمین پر، رِجَالاً ، راجلٌ کی جمع ہے یا سواری پر (جس طرح ممکن ہو) نماز پڑھ لیا کرو رُکْبَانٌ راکبٌ کی جمع ہے (مطلب یہ کہ) جس طرح ممکن ہو مستقبل قبلہ ہو یا نہ ہو، اور رکوع سجدہ کے لئے اشارہ کرلیا کرو، اور جب تم خوف سے مامون ہوجاؤ تو پھر اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم کو بتائی گئی ہے بتانے سے پہلے اس کے فرائض اور حقوق کو تم نہیں جانتے تھے، اور کاف بمعنی مثل ہے اور مَا، موصولہ، یا مصدریہ ہے اور تم میں سے وہ لوگ جو وفات پاجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے لئے وصیت کر جائیں اور ایک قراءت میں وَصِیَّۃٌ رفع کے ساتھ ہے ای وَصِیَّۃٌ اور ان کو کوئی کار آمد چیز دے جائیں جس سے وہ پورے سال تک ان کی موت کے وقت سے جس میں ان پر (عدت کے لئے) انتظار کرنا واجب ہے واجب ہئ فائدہ اٹھائیں مثلا نفقہ اور لباس حال یہ ہے کہ ان کو ان کی قیام گاہوں سے نکالا نہ جائے (غَیْرَ اخراج) حال ہے البتہ اگر وہ ازخود نکل جائیں تو اے اس میت کے اولیاء تم پر کوئی گناہ نہیں، تو وہ (حول کے بعد) اپنی ذات کے معاملہ میں شرعی دستور کے مطابق جو کچھ کریں مثلاً ، سنگار، ترک، سوگ، اور اپنا نان نفقہ از خود ترک کردینا، اللہ اپنے ملک میں غالب ہے اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے اور مذکورہ وصیت، آیت میراث کی وجہ سے منسوخ ہے اور ایک سال کی عدت، اَرْبَعَۃَ اَشْھُرِ وَّعَشْرًا، سے منسوخ ہے جو کہ نزول میں مؤخر ہے (اگرچہ تلاوت میں مقد ہے) اور عورت کے لئے سُکنیٰ (جائے سکونت) امام شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک واجب ہے اور مطلقہ کو کچھ کار آمد چیزیں جن کو شوہر دستور کے مطابق بقدر گنجائش دیں، یہ حق ہے اللہ سے ڈرنے والوں پر (حَقًا) فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے، اس کو مکرر لائے ہیں تاکہ موطوئہ کو بھی شامل ہوجائے، اس لئے کہ سابقہ آیت غیر موطوئہ کے بارے میں ہے جس طرح سابق میں بیان کیا گیا اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتوں کو واضح طور پر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اَوْ لَمْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ ، مفسر علام نے لَمْ مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ لَمْ کا مدخول تَمْسُّوْھُنَّ ، پر معطوف ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے اور اَوْ بمعنی واؤ ہے یعنی جب تک مسیس اور تفریض مہر نہ پائی جائے تو طلاق میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ یہ بات طے ہے کہ اَوْ ، جب سیاق نفی میں واقع ہو تو عموم کا فائدہ دیتا ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ تَفْرِضُوْا، اَنْ مضمر کی وجہ سے منصوب ہے مگر یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ خلاف ظاہر ہے اور اس لئے کہ اس صورت میں اَنْ مقدر ماننا ہوگا اور اَوْ ، بمعنی اِلاَّ یا الیٰ ، لینا ہوگا۔ قولہ : فَرِیْضَۃً ، فَرِیْضۃ، بمعنی مفروضہ ہے نہ کہ مصدر اس لئے کہ فَعِیْلَۃ کے وزن پر مصدر نادر ہے فَرِیْضَۃً ، تَفْرِضُوْنَ ، کا مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور مفروض سے مراد مہر ہے، فَرِیْضۃٌ، میں تاء وصفیت سے اسمیت کی طرف منتقل ہونے کی وجہ سے آئی ہے۔ قولہ : مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مَسرْ کی نسبت مرد کی جانب کی گئی ہے حالانکہ مس دونوں کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی عورت کی جانب سے بھی اقدام ہوتا ہے۔ جواب : مرد چونکہ اس معاملہ میں قوی تر ہے اور اکثر اسی کی طرف سے اقدام ہوتا ہے اس لئے مرد کی جانب فعل کی نسبت کردی ہے ورنہ حکم دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔ قولہ : مَا مصدریۃ ظرفیۃ، اقرب یہ ہے کہ مَا شرطیہ بمعنی ان ہے نہ مصدریہ نہ ظرفیہ کما قال مفسر علام (رح) تعالیٰ اس لئے کہ ظرفیت کے لئے اس جگہ ہوتا ہے جہاں امتداد ممکن ہو، جیسے ” خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ “ اس لئے کہ خلود میں شان امتداد ہے بخلاد اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْھُنَّ ، میں کہ طلاق میں امتداد نہیں ہے۔ قولہ : اَیْ لاَ تَبِعَۃَ عَلَیکم، لَا جُنَاحَ ، کی تفسیر، لَاتبعۃ سے کرکے اشارہ کردیا کہ جُناحٌ سے مراد طلق مؤاخذہ ہے نہ کہ صرف مؤاخذہ اخروی یا صرف مؤاخذہ دنیوی اول تو یہ تخصیص بلا دلیل ہے دوسرے یہ کہ اگر آخرت کا گناہ مراد لیا جائے تو اس میں نفی مہر شامل نہیں ہوسکتی یہی لفظ نفی پر بھی بالاتفاق دال ہے۔ (ترویح الارواح) قولہ : والفرض، اس میں اس بات کی طرف اشارہ کہ اَوْتَفْرِضُوْا لَھُنَّ ، میں اَوْ ، بمعنی واؤ ہے اور طلاق دینے والے شوہر پر مہر واجب نہ ہونے کا تعلق عدم مسیس اور عدم فرض دونوں سے ہے نہ کہ ایک سے اسلئے کہ اگر مسیس پایا گیا تو پورا مہر واجب ہوگا اور اگر فرض مہر یعنی تعیین مہر پائی گئی تو نصف مہر واجب ہوگا، مہر کا عدم وجوب تو اسی صورت میں ہوگا جب کہ مسیس اور تعیین دونوں معدوم ہوں قولہ : فَطَلِّقُوْھُنَّ ۔ سوال : مفسر علام نے فَطَلِّقُوْھُنَّ ، کس مقصد سے محذوف مانا ہے۔ جواب : اگر طَلِّقُوْھُنَّ ، کو محذوف نہ مانا جائے تو مَتِّعُوْھُنَّ کا عطف تَفْرِضُوْا، پر ہوگا، اور یہ عطف اِنْشاء عَلَی الخبر ہوگا، جو کہ مستحسن نہیں ہے اس سے بچنے کے لئے مفسر علام نے طلقوھُنَّ ، مقدر مانا ہے تاکہ عطف انشاء علی الانشاء ہوجائے۔ قولہ : یُفِیْدُ اَنَّہٗ لَانَظْرَ اِلی قدرِ الزوْجَۃِ ، علی الموسع اور علی المقتر چونکہ دونوں مذکر کے صیغے استعمال ہوئے ہیں اس لئے ان سے یہ بات مستفاد ہوتی ہے کہ متعہ میں شوہر کی حیثیت کا اعتبار ہوگا نہ کہ بیوی کی حیثیت کا یہی امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک ہے، امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک یہی مفتیٰ بہ ہے۔ (صاوی) قولہ : صفۃ مَتَاعًا، یعنی بالمعروف محذوف کے متعلق ہو کر مَتَاعًا کی صفت اول ہے، اس عبارت کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال : مَتَاعًا، موصوف ہے اور حَقًّا، اس کی صفت ہے اور درمیان میں بالمعروف کا فصل ہے جو فصل بالاجنبی ہے۔ جواب : یہ فصل بالاجنبی نہیں ہے بلکہ بالمعروف، مَتَاعًا، کی صفت اول ہے اور حقًّا، مصدر موکِّدْ ہے جملہ سابقہ کے مضمون کے لئے اس کا عامل وجوبا محذوف ہے، ای حَقَّ ذَالِکَ حَقًّا۔ قولہ : رَیْرجعُ لکم النصف۔ سوال : مذکورہ عبارت کو مقدر ماننے کی کیا وجہ ہے ؟ جواب : اِلَّا، استدراک کے لئے ہے جیسا کہ مفسر علام نے اِلّا، کی تفسیر لکِنَّ ، سے کرکے اشارہ کردیا ہے حالانکہ ماقبل میں مستدرک منہ بننے کی صلاحیت نہیں ہے اس لئے کہ نصف کا سقوط اور اس کا عفوان کے استحقاق کی جنس سے نہیں ہے اس لئے وَیَرْجِعُ لکم النِصْفَ ، کو محذوف مانا تاکہ استدراک صحیح ہوجائے۔ قولہ : یجبُ لَھُنَّ ، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ ، شرط کی جزاء ہے اور جملہ ناقصہ ہے حالانکہ جزاء کے لئے جملہ تامہ ہونا ضروری ہے۔ جواب : مفسر علام نے یَجِبُ لَھُنَّ ، مقدر مان کر جملہ کو تامہ کردیا تاکہ اس کا جزاء بننا درست ہوجائے۔ قولہ : یَعْفُوْنَ ، عفوٌ سے مضارع جمع مؤنث غائب، معاف کردیں وہ عورتیں۔ قولہ : یَعْفُوَ ، مضارع واحد مذکر غائب منصوب، وہ مراف کر دے۔ قولہ : عن ابن عباس ؓ ، الولی، اِذَا کانت محجورۃً ، اس عبارت کا مقصد، اَلَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ، میں اختلاف کو بیان کرنا ہے، اختلاف یہ ہے کہ ولی عفو کون ہے : شوہر یا عورت کا ولی ؟ امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ اور بعض شافعیہ کا مذہب یہ ہے کہ مَنْ بیدہ عقدۃ النکاح سے مراد شوہر ہے اور ابن عباس کے نزدیک عورت کا ولی مراد ہے اگر عورت معذور یعنی نابالغ یا مجنون ہو امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کے مذہب کو ترجیح دینے کے لئے مفسر علام نے وَھُوَ الزوج فرمایا قرینہ اس کا اَقْرَبُ لِلتقویٰ ہے، اس لئے کہ عورت کے معذور ہونے کی صورت میں عورت کے ولی کا مہر کو معاف کرنا تقویٰ نہیں ہے اس لئے کہ اس میں نقصان محض ہے۔ تفسیر و تشریح طلاق قبل الدخوال کے احکام : طلاق قبل الدخول کے مطلب یہ ہے کہ یکجائی اور خلوت صحیحہ سے پہلے ہی طلاق کی نوبت آجائے، اس کی دو صورتیں ہیں، یا تو بوقت نکاح مہر کی مقدار مقرر نہ کی گئی، یہلی صورت کا حکم ” لا جنُاحَ عَلَیکم اِنْ طلقتم النساء “ (الآیۃ) میں مذکور ہے طلاق کی مہر اور صحبت کے اعتبار سے چار صورتیں ہوسکتی ہیں، ان میں سے دو کا حکم ان آیات میں بیان کیا گیا اور دو کا بعد والی آیت میں مذکور ہے، ایک یہ کہ نہ مہر مقرر ہو نہ صحبت و خلوت ہوئی ہو، دوسری صورت یہ کہ مہر تو مقرر ہو لیکن صحبت و خلوت کی نوبت نہ آئی ہو، تیسری صورت یہ کہ مہر بھی مقرر ہو اور صحبت بھی ہوئی ہو، اس صورت میں مقررہ مہر پورا دینا ہوگا، یہ حکم قرآن مجید میں دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے، چوتھی صورت یہ کہ مہر متعین نہ کیا ہو اور صحبت یا خلوت کے بعد طلاق دی ہو اس صورت میں مہر مثل پورا دینا ہوگا۔ مذکورہ آیت میں پہلی دو صورتوں کا حکم بیان کیا گیا ہے ان میں سے پہلی صورت کا حکم یہ ہے کہ مہر تو واجب نہیں مگر شوہر پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے کچھ دیدے کم از کم ایک جوڑا ہی دیدے، دراصل قرآن کریم نے اس عطیہ کی کوئی مقدار معین نہیں کی البتہ یہ بتلا دیا کہ مالدار کو اپنی حیثیت کے مطابق اور غریب کو اپنی حیثیت کے مطابق دینا چاہیے جس میں اس بات کی ترغیب ہے کہ صاحب و سعت تنگی سے کام نہ لے، حضرت حسن ؓ نے ایسے ہی ایک واقعہ میں مطلقہ عورت کو بیس ہزار کا عطیہ دیا تھا، اور قاضی شریح نے پانچ سو درہم کا اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ادنی یہ ہے کہ ایک جوڑا کپڑے کا دیدے۔ سبب نزول : لا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ ، کا شان نزول یہ ہے کہ ایک انصاری نے ایک عورت سے بلاتعیین مہر نکاح کیا اور قبل الدخول اس کو طلاق دیدی عورت نے آپ ﷺ کی خدمت میں شکایت کی تو مذکورہ آیت نازل ہوئی، آپ نے فرمایا، امتعھا ولو بقلنسوتکَ ، اس کو متعہ دو اگرچہ تیری ٹوپی ہی کیوں نہ ہو۔ (حاشیہ جلالین) فائدہ : متع یعنی ایک جوڑا جس کی قیمت پانچ درہم سے کم اور نصف مہر سے زائد نہ ہو۔ (خلاصۃ التفاسیر) بحث : متعہ امام مالک (رح) تعالیٰ کے نزدیک مستحب ہے جیسا کہ کلمہ محسنین سے مفہوم ہوتا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ واجب کہتے ہیں جیسا کہ کلمہ حَقًّا، سے سمجھا جاتا ہے اور محسن بمعنی مومن ہے۔ سوال : موطوءہ کو متعہ دینا مستحب ہے یہ کیسے معلوم ہوا ؟ جواب : یہ بات قرآن سے ثابت ہے کہ تحلیل فرج بغیر مال کے نہیں ہوسکتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ ، لہذا جب مال مذکور ہو یا نکاح مع وطی حقیقۃ یا مجازاً پائی جائے، تو مال سے مہر کہتے ہیں واجب ہوگا، اور اگر صرف نکاح پایا جائے تو اس وجہ سے کہ تحلیل فرج حقیقۃً نہیں ہوئی مہر واجب نہ ہوگا، اور اس لئے کہ صورت تحلیل ہوگئی ہے اس کے عوض کچھ مال جس کو متعہ کہا گیا ہے مقرر کیا گیا، پس متعہ کی اصل عدم مہر اور شرط عدم وطی ہے جب دونوں پائے جائیں گے تو متعہ واجب ہوگا، اور جب دونوں نہ پائے جائیں گے متعہ نہ ہوگا، جب ایک پایا جائے تو دونوں دلیلیوں پر نظر کرتے ہوئے استحباب کا حکم دیا جائے گا۔ مقدار متعہ مختلف فیہ ہے : مظہری میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اعلیٰ درجہ متعہ کا یہ ہے کہ غلام دے اور ادنیٰ درجہ ایک جوڑا ہے اور امام احمد (رح) تعالیٰ و شافعی (رح) تعالیٰ کے نزدیک حاکم کی رائے اور اجتہاد پر موقوف ہے، مگر حنفیہ نے اپنے اندازے کے دو شاہد قرار دئیے ہیں۔ (1) آثار منقولہ، جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ اور ابن عباس ؓ اور سعید سے تفسیر مظہری میں منقول ہے۔ (2) قیاس، اس لئے کہ متعہ مہر کی فرع ہے اور مہر قبل الوطی نصف ملتا ہے اور نصف مہر پانچ درہم سے کم نہیں ہوسکتا، اور یہی ادنیٰ درجہ متعہ کا ہے اور جب مہر مذکور نہ ہو تو مہر مثل دیا جاتا ہے اور یہی اعلیٰ درجہ قرار پایا، بہرحال ادنیٰ درجہ سے کم نہ ہو، اور اعلیٰ درجہ مہر کے اعلیٰ درجہ سے زائد نہ ہو ” خیر الامور اَوْسَاطُھَا “۔ مسئلہ : قبل الوطی طلاق جائز ہے۔ مسئلہ : بغیر تعین مہر نکاح درست ہے حتیٰ کہ نفی مہر کے ساتھ بھی نکاح درست ہے مگر مہر مثل واجب ہوگا۔ مسئلہ : مہر صرف نکاح سے واجب نہیں ہوتا جب تک کہ وطی یا ذکر مہر نہ ہو، البتہ مال کی ایک مقدار واجب ہوجاتی ہے۔ مسئلہ : ادائے مال واجب ہوجاتا ہے مہر ہو یا متعہ۔ مسئلہ : حق جس پر واجب ہو اس کی حالت استطاعت معتبر نہ ہوگی، موسع اور مقتر، دونوں مذکر کے صیغہ بیان فرمائے اس سے معلوم ہوا کہ مرد کی استطاعت مراد ہے۔ (خلاصہ، شرح وقایہ)
Top