Tafseer-e-Jalalain - An-Noor : 51
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں كَانَ : ہے قَوْلَ : بات الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اِذَا : جب دُعُوْٓا : وہ بلائے جاتے ہیں اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول لِيَحْكُمَ : تاکہ وہ فیصلہ کردیں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَنْ : کہ۔ تو يَّقُوْلُوْا : وہ کہتے ہیں سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی وَاُولٰٓئِكَ : اور وہ هُمُ : وہی الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
مومنوں کی تو یہ بات ہے کہ جب خدا اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا اور مان لیا اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
آیت نمبر 51 تا 57 ترجمہ : ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا (عملاً ) مان لینا، یعنی ایسا کہنا ہی مومنین کی شان کے لائق ہے اور ایسے ہی لوگ اس قول کی وجہ سے فلاح پائیں گے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ کا خوف رکھے اور اس (کے عذاب) سے ڈرے یَتَّقِہِ یا کے سکون اور اس کے کسرہ کے ساتھ ہے یعنی اس کی اطاعت کرے پس ایسے ہی لوگ جنت پاکر بامراد ہوں گے نہایت پختگی کے ساتھ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آپ ان کو جہاد کا حکم فرمائیں تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں، آپ کہہ دیجئے کہ قسمیں نہ کھاؤ معروف طریقہ سے نبی کی طاعت بہتر ہے تمہاری ایسی قسموں سے جن میں تم سچے ہو اللہ تعالیٰ تمہارے عمل سے جو کہ قولاً اطاعت اور عملاً مخالفت ہے بخوبی واقف ہے آپ کہہ دیجئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو پھر بھی اگر تم لوگ اس کی اطاعت سے روگردانی کرو گے تَوَلَّوْا میں ایک تا کے حذف کے ساتھ ان ہی کو خطاب ہے (تو اس کا کوئی نقصان نہیں) (یہ جواب شرط محذوف ہے) اس لئے کہ رسول کے ذمہ وہی تبلیغ کا کام ہے جو ان کے ذمہ رکھا گیا ہے اور تمہارے ذمہ وہ اطاعت ہے جو تمہارے اوپر لازم کی گئی ہے اور اگر تم نے اس کی اطاعت کی تو ہدایت پا جاؤ گے اور رسول کے ذمہ صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے کہ یقیناً ان کو کافروں کے بجائے زمین کا خلیفہ بنائے گا جس طرح ان کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے تھے نبی اسرائیل میں سے ظالموں کے بدلے استخلَفَ معروف اور مجہول (دونوں ہیں) اور جس دین کو ان کے لئے پسند کیا ہے یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو قوت بخشے گا اور وہ اسلام ہے (اس طرح قوت بخشے گا) کہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے گا، اور ان کے لئے ملکوں میں وسعت دے گا تو وہ ان کے مالک ہوجائیں گے، اور کافروں سے ان کے اس خوف کے بعد اس (خوف) کو امن سے بدل دے گا لَیُبَدِّلَنَّھُمْ تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے مذکورہ وعدہ کو پورا فرما دیا اور ان کی اپنے قول یعبدوننی لایشرِکون بیْ شیئًا سے تعریف فرمائی اور یہ جملہ مستانفہ ہے علت کے حکم میں ہے اور ان میں جو شخص اس انعام کے بعد اس کی ناشکری کرے گا تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں اور سب سے پہلے جنہوں نے اس انعام کی ناشکری کی وہ قاتلین عثمان ؓ ہیں، چناچہ باوجود یکہ آپس میں بھائی بھائی تھے قتل و قتال کرنے لگے اور نماز کی پابندی رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول کی اطاعت کیا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے یعنی رحمت کی امید رکھتے ہوئے آپ کافروں کی نسبت یہ خیال ہرگز نہ کرنا کہ زمین میں ہم سے بچ کر ہمیں ہرا دیں گے تحسَبَنَّ تا فوقانیہ اور یا تحتانیہ کے ساتھ ہے اور فاعل رسول اللہ ﷺ ہیں اور ان کا ٹھکانہ مرجع دوزخ ہے اور وہ (نہایت) برا ٹھکانہ مرجع ہے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد اِنَّمَا کَانَ قولَ المؤمنِینَ جمہور نے قول پر، کان کی خبر قرار دینے کی وجہ سے نصب پڑھا ہے اور اَنْ یَّقُوْلُوْا الخ، کو بتاویل مصدر کان کا اسم قرار دیا ہے، اور علی اور حسن اور ابن ابی اسحاق نے قول کو اسم کان قرار دے کر رفع پڑھا ہے اور اَنْ یَّقُوْلُوا کو بتاویل مصدر کان کی خبر قرار دیا ہے، اول قرأت کو جمہور نے راجح قرار دیا ہے۔ قولہ : اَنْ یَّقُوْلُوْا الخ اگرچہ جملہ خبریہ ہے مگر اس سے ادب شرعی کی تعلیم مقصود ہے اس لئے جملہ انشائیہ کے حکم میں ہے۔ قولہ : یَتَّقْہِ اصل میں یَتَّقِیْہِ تھا جزم کی وجہ سے یا حذف ہوگئی اور قاف کا کسرہ باقی رہ گیا پھر قاف کے کسرہ کو تخفیفاً خلاف قیاس حذف کردیا اس لئے کہ جو صیغہ فَعِلَ کے وزن پر ہو اس کے عین کلمہ کو ساکن کردیا جاتا ہے جیسے کتْفٌ، کتِفٌ میں۔ قولہ : جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ جَھْدَ فعل محذوف کا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے غایَتَھا محذوف سے اسی کی طرف اشارہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے یَجْھَدُوْنَ اَیْمَانِھِمِ جھدًا بعض حضرات نے حال ہونے کی وجہ سے منصوب کہا ہے ای مجتھدیِنَ فی اَیْمانِھِمْ ۔ قولہ : لَیَخْرُجُنَّ جواب قسم ہے۔ قولہ : طاعۃٌ معروفۃٌ بترکیب توصیفی مبتداء ہے اور خیرٌ الخ اس کی خبر ہے مفسر علام نے خیرٌ مقدر مان کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے، طاعۃ معروفۃ مبتدا محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے بھی مرفوع ہوسکتا ہے ای طاعتھُمْ طاعۃٌ معروفۃٌ۔ قولہ : اِنَّ اللہَ خبِیْرً بَمَا تَعْمَلُوْنَ یہ ما قبل کے جملہ کی علت ہے۔ قولہ : فَاِنْ تَوَلَّوْا میں مامورین کو خطاب ہے یعنی اطیعوا اللہ واطیعُوْا الرسولَ میں جو لوگ مخاطب ہیں وہی تَوَلَّوْا کے مخاطب ہیں، قُلْ اَطِیْعُوْا اللہَ الخ میں آنحضرت ﷺ کو خطاب تھا فَاِنْ تَوَلَّوْا میں مامورین کو خطاب ہے۔ قولہ : فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ یہ جواب شرط ہے اور ایک قول میں جواب شرط محذوف ہے اور فَاِنَّمَا عَلَیْہِ ما حُمِّلَ اس جواب کی علت ہے جیسا کہ ترجمہ کے زیر عنوان بیان کیا گیا ہے۔ قولہ : ما علی الرسول الخ ما قبل جملہ کی تاکید ہے۔ قولہ : وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُم اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَدَ کا مفعول اول ہے اور مفعول ثانی محذوف ہے اور وہ الاستخلاف فی الارض وتمکین دینھم و تبدیل خوفھم بالامن، یہ سب معطوفات مل کر وَعدَ کا مفعول ثانی ہے اور لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ قسم مقدر کا جواب ہے، تقدیر یہ ہے وَاللہِ لَیَسْتِخْلِفَنَّھُمْ اور یہ جواب قسم مفعول ثانی کے حذف پر دال ہے۔ قولہ : کام اِستَخْلَفَ میں ما مصدریہ ہے ای اِسْتَخلافًا کاِسْتَخْلافِ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ۔ قولہ : بِمَا ذَکَرَ اس کا تعلق وعدہ سے ہے اور مَا ذکر سے امور ثلاثہ مذکور مراد ہیں۔ قولہ : یَعْبُدُوْنَنِیْ یہ جملہ مستانفہ ہے مفسر علام نے ھو مستانف کہہ کر اسی کی طرف اشارہ کیا ہے، اس میں مختلف تراکیب ہوسکتی ہیں مگر مفسر علام نے اسی کو راجح قرار دیا ہے، یہ جملہ گویا کہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، کہا گیا ما بالُھُمْ یَسْتَخْلِفُوْنَ ویؤمِنُوْنَ ، فاجیب یعبدونَنِیْ مذکورہ جملہ مبتداء محذوف کی خبر بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں بھی جملہ مستانفہ رہے گا، تقدیر یہ ہوگی ھم یعبُدُونَنِیْ ۔ قولہ : لا یشرکونَ بی شیئاً جملہ مستانفہ بھی ہوسکتا ہے اور یعبدوننی کی ضمیر فاعل سے حال بھی ہوسکتا ہے، ای یعبدوننی موَحِّدِیْنَ ۔ قولہ : منھُمْ یہ مَنْ سے حال ہے اور ھم ضمیر للذین آمنُوْا کی طرف راجع ہے قولہ بہٖ کی ضمیر انعام کی طرف راجع ہے، ای الانعام بما ذَکَرَ من الامور الثلٰثۃ اور کفر سے مراد کفران نعمت ہے نہ کہ ایمان کی ضد، اسی وجہ سے اِنَّ اُوْلٰئکَ ھم الفَاسِقُوْنَ کہا ہے، اولئک ھم الکافرون نہیں کہا، قولہ : واقیموا الصَّلٰوۃَ یہ جملہ مقدر پر عطف ہے جس کا سیاق تقاضہ کرتا ہے ای فآمنوا واقیموا الصَّلٰوۃَ الخ۔ قولہ : لاتحسبَنَّ اس کا فاعل الرسول ہے اور الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مفعول اول ہے اور معجزین مفعول ثانی ہے اور یَحْسَبَنَّ بالیاء کی صورت میں مفعول اول محذوف ہوگا ای لایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کفرُوا اَنْفُسَھُمْ اور معجزین مفعول ثانی ہوگا، اور اَلَّذِیْنَ کفرُوْا لا یَحْسَبَنَّ کا فاعل ہوگا۔ قولہ : معجزینَ ای فاتنینَ یعنی بچ کر نکل جانا۔ تشریح و تفسیر انما کان قول المؤمنین (الآیہ) ما قبل کی آیت میں اہل کفر و نفاق کے کردار کا بیان تھا، یہاں سے اہل ایمان کے کردار و عمل کا بیان ہے، یعنی فلاح و کامرانی کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ اور رسول کے فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرتے ہیں اور انہی کی اطاعت کرتے ہیں اور خشیت الٰہی اور تقویٰ کی صفت سے متصف ہیں، نہ کہ دوسرے لوگ جوان صفات سے محروم ہیں۔ علامہ بغوی (رح) نے فرمایا کہ منافقین کی یہ عادت تھی کہ بڑی زور دار قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ ہم ہرحال میں آپ کا ساتھ دیں گے اور ہر آڑے وقت میں کام آئیں گے اور آپ جہاں ہوں گے ہم بھی وہیں ہوں گے، اگر آپ نکلیں گے تو ہم بھی نکلیں گے اور آپ قیام کریں گے تو ہم بھی قیام کریں گے، اور اگر آپ ہم کو جہاد کا حکم فرمائیں گے تو ہم جہاد کریں گے، گویا کہ وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جہاں آپ کا پسینہ گرے گا ہم وہاں اپنا خون بہائیں گے، اور یہ سب زبانی جمع خرچ تھا۔ (مظہری) اس پر یہ آیت نازل ہوئی زیادہ قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ معروف طریقہ پر اطاعت بہتر ہے بغیر عملی اطاعت کے جھوٹی قسمیں کھانے سے، مطلب یہ ہے کہ تمہارا معاملہ طاعت معروفہ ہونا چاہیے، جس طرح مسلمان کرتے ہیں پس تم بھی ان کے مثل ہوجاؤ۔ (ابن کثیر) اور بعض حضرات نے یہ مطلب بیان کیا ہے جس طرح تم جھوٹی قسمیں کھاتے ہو تمہاری اطاعت بھی نفاق پر مبنی ہے۔ قل اطیعوا۔۔۔۔ الرسول، پیغمبر خدا پر خدا کی طرف سے تبلیغ کی ذمہ داری رکھی گئی تو اس نے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کردیا، اور تم پر جو بات لازم کی گئی ہے وہ تصدیق اور قبول حق کی ہے اور یہ کہ اس کے حکم کے مطابق چلو، اگر تم اپنی ذمہ داری محسوس کرکے اس کے احکام کی تعمیل کرو گے تو دارین کی کامرانی و کامیابی تمہارے قدم چومے گی، ورنہ پیغمبر کا کچھ نقصان نہیں، تمہاری شرارت اور سرکشی کا خمیازہ تم ہی کو بھگتنا پڑے گا، پیغمبر تو اپنا فرض ادا کرکے عند اللہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوچکے، آگے کی آیات میں رسول کی اطاعت کے بعض ثمرات کا بیان ہے، جن کا سلسلہ دنیا ہی میں شروع ہوجائے گا۔ (فوائد عثمانی) وعد اللہ الذین آمنوا (الآیہ) بعض حضرات نے اس وعدہ الٰہی کو صحابۂ کرام یا خلفاء راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے الفاظ قرآنی عام ہیں اور ایمان و عمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور خیر القرون میں اس وعدۂ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا، اپنے پسندیدہ دین کو عروج دیا، اور مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دیا۔ ومن کفر۔۔۔۔۔۔۔ الفاسقون، یہاں کفر سے ناشکری مراد ہے نہ کہ ایمان کی ضد کفر، اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دے، مسلمانوں کو حکومت قوت اور امن و اطمینان اور دین کو استحکام حاصل ہوجائے، اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص خدا کے انعامات کی ناشکری کرے کہ اسلامی حکومت کی اطاعت سے گریز کرے تو ایسے لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ علامہ بغوی (رح) نے فرمایا کہ علماء تفسیر نے فرمایا ہے کہ قرآن کے اس جملہ کے سب سے پہلے مصداق وہ لوگ ہوئے جنہوں نے خلیفہ وقت حضرت عثمان غنی کو قتل کیا اور جب وہ اس جرم عظیم کے مرتکب ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے مذکورہ انعامات میں کمی آگئی، آپس کے قتل، و قتال سے خوف و ہراس میں مبتلا ہوگئے، بغوی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن سلام کا یہ خطبہ نقل کیا ہے جو انہوں نے حضرت عثمان غنی ؓ کے خلاف شورش کے وقت دیا تھا، خطبہ کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے : ” اللہ کے فرشتے تمہارے شہر کے گرد احاطہ کئے ہوئے حفاظت میں اس وقت سے مشغول ہیں جب سے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف فرما ہوئے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے خدا کی قسم اگر تم نے عثمان کو قتل کردیا تو یہ فرشتے واپس چلے جائیں گے اور پھر کبھی نہ لوٹیں گے، خدا کی قسم تم میں سے جو شخص ان کو قتل کرے گا وہ اللہ کے سامنے دست بریدہ حاصل ہوگا اس کے ہاتھ نہ ہوں گے اور سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کی تلوار اب تک میان میں تھی، خدا کی قسم اگر وہ تلوار میان سے نکل آئی تو پھر کبھی میان میں داخل نہ ہوگی کیونکہ جب کوئی نبی قتل کیا جاتا ہے تو اس کے بدلے ستر ہزار آدمی قتل کئے جاتے ہیں اور جب کسی خلیفہ کو قتل کیا جاتا ہے تو پینتیس ہزار آدمی مارے جاتے ہیں (مظہری) چناچہ قتل عثمان سے جو باہمی خونریزی کا سلسلہ شروع ہوا تھا امت میں چلتا ہی رہا۔
Top